رپورٹ عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 196
بعنوان پردیس
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
کی جانب سے پیش کرتے ہیں
پردیس
ایسا وطن جس میں کسی انسان کی پیدائش ہوئی ہو اس کا وطن اور دیس ہوتا ہے دیگر اوطان اور ممالک اس کے لیے پردیس کہلاتے ہیں جہاں وہ مہمان یا تاجر یا مہاجر کے طور پر جاتا ہے۔
وطن ایک وسیع المطالب لفظ ہے جس کا مطلب مادری جگہ، جنم بھومی اور مستقل رہائش والا علاقہ، گاوں اور ملک ہے۔
غریب عربی میں مسافر کے معنی بھی مستعمل ہے اس اعتبار سے پردیسی کو غریب الوطن بھی کہا جاتا ہے۔
اصطلاحی معانی
اصطلاح میں پردیس اس مقام کو کہا جاتا ہے جہاں کوئی کسی مجبوری یا ضرورت کے تحت اپنا گاوں، شیر یا ملک چھوڑ کر عارضی یا مستقل سکونت اختیار کرے۔
شعرا، نثرنگار اور پردیس
شعرا اور نثر نگاروں نے پردیس کا لفظ ایک درد انگیز شہنائی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ پردیس کا لفظ سنتے ہی دل میں جدائی اور ہجر و فراق کی کسک چبھنے لگتی ہے۔ اداسی کا سماں چھا جاتا ہے اور بہت سی بنیادی سہولتوں اور آزادیوں کے چھن جانے کا تصور سوہانِ روح بن کر ابھرتا ہے۔ مثلا
خوب گئے پردیس کہ اپنے دیوار و در بھول گئے
شیش محل نے ایسا گھیرا مٹی کے گھر بھول گئے
حالانکہ پردیس جانے والے اور دیس دیس گھومنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ رزق کمانے کی خاطر پرلوک بمعنی غیر وطن سدھارنے والے شیش محل میں نہیں ہوتے بلکہ دیس میں رہنے والے اپنے عزیزانِ من کے آرام کی خاطر اپنا آرام تیاگ دیتے اور دن رات محنت مزدوری کرتے اور ان کو آرام بہم پہنچاتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب برصغیر پاک و ہند سے لوگ بہت کم تعداد میں پردیس کا رُخ کرتے تھے اور اپنے خاندانوں کے ساتھ آباد رہنے کو برکت اور غنیمت جانتے تھے پھر جب اِکا دُکا لوگ غیر ممالک کو سدھارے، روپیہ پیسہ کی ریل پیل شروع ہوئی اور ان کے عزیزوں کے معیار زندگی میں بظاہر بہتری آئی تو دیس کے باقی باسیوں نے بھی پردیس کا رُخ کرنے کا سوچا کہ ایک فرد خانہ کے پردیس چلے جانے سے دیسیوں کے معیار زندگی میں بہتری آ جاتی ہے سو ہم بھی کر دیکھیں۔ یوں دیس سے پردیس جانے کا رستہ کھلا اور پھر کھلتا ہی چلا گیا۔ پردیس والے دیس والوں سے باہمی دوری کے سبب اداس ہوئے تو صندوقِ برید یعنی ڈاک خانہ والوں کی چاندی ہو گئی۔ سندیسے خطوط لکھے اور آنے جانے لگے۔ دیس کی مٹی میں رچے ہوئے گلابی پتر نامے جب پردیسیوں کے ہاتھ لگتے تو کبھی سینے سے لگاتے کبھی آنکھوں سے اور کبھی کانپتے ہونٹوں سے چوم چوم لیتے۔ تحریر کی روشنائی پر آنسووں کے دھبے فراق کی الم ناک داستانیں رقم کرتے تواشکوں میں بہہ جانے والے الفاظ پردیسیوں کو لہو رلاتے تھے۔
ایک ایک کر کے پردیس جانے والوں کی تعداد بڑھی تو وہاں بھی دیس بننا شروع ہو گئے۔ برصغیر پاک و ہند سے کیا ہندو اور کیا سکھ، کیا جین متی اور کیا مسلمان سب دیگر ممالک میں جا بسے۔
ایک قسم کا پردیسی ابن بطوطہ نکلا اور ایک قسم کا پردیسی واسکوڈے گاما بھی۔ جنہوں نے دور دراز کی دنیائیں دریافت کیں اور لمبے لمبے اسفار قطع کیے۔
اسی صف کا کولمبس تھا جس نے امریکہ دریافت کیا۔
پھر اٹلی کے شہر وینس سے دو بھائی نکولو پولو اور میفیو پولو نے بھی پردیس کا سفر اختیار کیا اور پھر نکولوپولو کے بیٹے مارکو پولو نے بھی ایشیا میں منگولیا، چین اور بھارت تک کے سفر اختیار کیے۔ مارکو اپنے والد اور چچا کی نسبت بھی ذہین نکلا جو ایک کامیاب سیاح، ایک نامی گرامی مرچنٹ اور ایک نہایت قابل لکھاری کے طور پر ابھر کے سامنے آیا۔ اس نے اپنے سفرنامے اور زندگی کے تجربات اپنی مشہور زمانہ تصنیف
Livre des merveilles du monde
میں رقم کر کے امر کر دیئے۔ وینس میں جب مارکو پیدا ہوا تو اس کے والد اور چچا ایشیا کی طرف عازمِ سفر ہوئے اور جب واپس لوٹے تو مارکو پولو کی عمر پندرہ سال ہو چکی تھی۔ یعنی باپ بیٹے نے ایک دوسرے کو پندرہ سال کے بعد دیکھا۔ لیکن ان لوگوں نے پردیس کا رونا نہیں رویا بلکہ کچھ حاصل کیا اور بہت کچھ دنیا کو دیا۔
یہ تینوں روم کی کہانیاں اور وینس کی روشنیاں لے کر ایشیا کا سفر کرتے اور قبلائی خان کے زمانہ میں چین تک کے سفر کیے اور چین سے پارچہ جات، جڑی بوٹیاں اور انڈیا سے گرم مسالے (مصالحہ جات) لے کریوروپ کو جاتے اور وہاں سے مصنوعات لے کر ایشیا آتے اور فروخت کرتے تھے۔
قارئین محترم! جوگ لینا بھی پردیس ہی کی ایک قسم ہے۔ حضرت بدھا نے جوگ اور بن باس لیا۔
رام چندر جی سے بھی اور بابا گرونانک سے بھی جگہ جگہ دھونی رما کر برکات اور پرشاد کی تقسیم کاری ثابت ہے پاکستان میں ننکانہ صاحب، حسن ابدال وغیرہ اور انڈیا میں ہوتھی شریف۔ پھر تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت باوا صاحب نے حج بیت اللہ کا قصد بھی فرمایا۔ چولہ باوا نانک پر چاروں قل، درود شریف کلاں، آیت الکرسی اور دیگر آیات قرآنی کڑھی ہوئی اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ سچے اور سُچے توحید پرست اور عاشق رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
انبیاء علیہم السلام سے بھی پردیس لینا بمعنی ہجرت ثابت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بارہ آتا ہے کہ اولا حجرِ اسود کو اٹھا کر سری لنکا اور جزائر مالدیپ سے حرمین شریفین کو عازم سفر ہوئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین سے حجاز کا سفر اختیار کیا اور حضرت ہاجرہ اور پیارےشیرخوار اسماعیل علیہ السلام کو وادیء غیر ذی زرع بکہ المعروف مکہ میں آباد کیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے فلسطین سے بچپن اور کس مپرسی کی حالت میں نکالا اور مصر لے جا کر فراعین مصر کے خزانوں پر جا بٹھایا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فراعین مصر کے محلات سے نکالا اور مدین میں حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس پہنچایا اور وہیں ان کی شادی حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی سے ہوئی اور پھر ایک وقت آیا کہ آپ کا واپسی کا سفر ہوا اور پھر بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلانے کا سہرا آپ کے سر رہا اور مصر سے فلسطین کی طرف ہجرت کا آغاز فرمایا۔ گو اسی دوران آپ کا وصال غریب الوطن مسافر کی حیثیت سے صحرا نوردی کے عالم میں ہوا اور بعدازاں حضرت یوشع بن نون کو یہ سعادت ملی کہ یروشلم میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔
پھر نبیوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں ہردیس لینے اور ہجرت کا یہ دور ختم نہیں ہوا بلکہ ہجرت حبشہ اولی اور ہجرت حبشہ ثانی اور پھر 13 سالہ مظالم کا مکی دور وادیء فاران میں گزارا اور اذن الٰہی سے یثرب کی طرف ہجرت اور یثرب مدینة النبی بن گیا۔ پھر آپ کو بالاتفاق مدینہ اور مضافات کا سردار مانا گیا اور محض آٹھ سال کے قلیل عرصہ میں دس ہزار قدوسیوں کے جلو میں فاتحانہ شان کے ساتھ لا تثریب علیکم الیوم کے نعرے لگاتے یوئے مکہ میں آپ کا ورود سعید ہوا۔ گویا پردیس لینا، ہجرت کرنا سنت انبیاء بھی ٹھہرا۔
پھر روس کے دوردراز علاقوں بخارا، ترمذ، نیشا پور سے دیوانے کمربستہ اور پردیسی ہو کر اٹھے اور صحاح ستہ کی اہم کتب انمول دولت کی طرح ہمارے ہاتھ لگیں۔ سبحان اللہ سبحان اللہ!
اصح الکتب بعد کتاب اللہ الصحیح البخاری کی پہلی کتاب کتاب الوحی کے پہلے باب کیف کان بدء الوحی۔ کی پہلی روایت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کا مضمون ہجرت پر ہی مبنی ہے۔ ہجرت اور پردیس لینا شیوہ و سنت انبیاء ٹھہری۔
ایک تجزیہ
برصغیر میں بڑے بڑے شاہی خاندان باہر سے ہیں آئے۔ محمود غزنوی، احمدشاہ ابدالی، پھر روس سے مغل بادشاہ تیمور نے آ کر برصغیر پر صدیوں حکومت کی۔
انگریز تھوڑی سی تعداد میں برصغیر میں آئے ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی اور اتنے بڑے انبوہِ انسانی پر ایک سو سال حکومت کی۔ یہ دراصل اینگلو سیکسن یعنی جرمینک لوگ تھے جو ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی کے جنگلوں کے باسی جنگ جو تھے جنہوں نے ایک طرف انگلستان کے انگریز جنٹل مینز کو سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کی طرف دھکیل دیا اور ادھر ماریشس، برصغیر وغیرہ پر بھی اپنا پرچم بطور انگریز لہرایا۔
آسٹریلیا میں ابورجنی مفقود ہوتے گئے اور اسے بھی انگریز نے انگلستان کی ایک کالونی بنا دیا۔ آج بھی آسٹریلیا پر انگلستان کے ہی کراون کا راج ہے۔
گویا دنیا داروں نے بھی پردیس لے کر دیگر اقوام عالم پر راج کیا اور پردیس کو سوہان روح نہیں بنایا اور انبیاء علیہم السلام نے بھی بن باس یا جوگ لینے اور ہجرت کرنے میں برکات کا پہلو بیان کیا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ برصغیر سے غیرممالک کو جانے والے پردیس کو سوہانِ روح بنا کر ایسی اداسیوں میں گھر جاتے ہیں کہ لدا کی پناہ!
برصغیر سے پردیس جانے والوں نے حکمرانی کو مطمعِ نظر نہیں بنایا بلکہ پردیس میں محنت مزدوری کے پیشہ سے منسلک ہو گئے کیونکہ مقامی باشندوں نے انہیں تیسری دنیا کا ہی شمار کیا۔
لیکن اس ہجر و فراق نے بلاشبہ اردو ادب کو بہت کچھ عطا کیا۔ بے شمار لوگوں نے سفر نامے لکھے، منثور و منظوم میں لوگوں نے ہجرو فراق کو پرویا اور اشکوں کی مالائیں بنا کر اس موضوع کو بھی امر کر دیا۔
میرا ذاتی خیال حدیث حب الوطن من الایمان سے یہی ہے کہ
مکاں یاں پر مکیں پردیس
جہاں ہم ہیں وہیں پر، دیس
احمدمنیب
اگر ہم ہر ملک کو اہنا ملک سمجھیں اور یکساں محنت کر کے وہاں اثر و رسوخ حاصل کریں چاہیں تعلیمی چاہے کسی تحقیقی یا کسی بھی میدان عمل میں تو ہم بھی فتح و نصرت کی لازوال داستانیں رقم کر سکتے ہیں۔
قارئین محترم
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری وہ منفرد ادارہ ہے جو مختلف موضوعات پر پروگرام منعقد کروانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تو بھلا پردیس کا موضوع کیسے اس کی عقابی نظر سے نہاں رہ جاتا؟ چنانچہ مورخہ 2مارچ 2019 بروز ہفتہ
پاکستانی وقت ۔7بجے شام
ہندوستانی وقت۔7.30بجے شام یہ پروگرام منعقد کیا۔ ایک اور کامیاب پروگرام ادارہ کے ماتھے کا جھومر بنا۔ جس پر ادارہ کی انتظامیہ اور ممبران یکساں مبارکباد کے مستحق ہیں۔
شرکاءِ پروگرام اپنی نثری و شعری یا دونوں طرح کی کاوشیں پیش کر سکتے تھے۔
اس خوب صورت پروگرام کا آئیڈیا جناب توصیف ترنل جارڈن ہانگ کانگ
بانی و چیئرمین ادارہ نے پیش کیا۔
احمر جان رحیم یار خان پاکستان نے اس کامیاب پروگرام کو آرگنائز کیا۔
اس منفرد پروگرام کی رپورٹ تیار کرنے کی ذمہ داری خاکسار احمد منیب لاہور پاکستان
(ریسرچ سکالر ادارہ) کے سر رہی۔
پروگرام کا اعلان اور بروشر کی تیاری جنرل سیکریٹری ادارہ
صابر جازب لیہ پاکستان نے بہت اعلی طریق پر کی۔
اس پروگرام کی مسندصدرات پر جناب ڈاکٹر شاھد رحمان فیصل آباد سے متمکن ہوئے۔
مہمانان خصوصی کی نشستوں پر ثمینہ گل سرگودھا پاکستان اورغلام مصطفی دائم اعوان اسلام آباد پاکستان سے تشریف فرما ہوئے۔
مہمانان اعزازی کے طورعاطف جاوید عاطف لاہور اور ساجدہ انور صاحبہ کراچی پاکستان سے تشریف لائے۔
محترم مختار تلہری بھارت نے بہت خوب صورت اور دلکش انداز میں نظامت کے ساتھ اس پروگرام کا آغاز کیا تو جیسے قلب و جان میں ایک کوندا سا لپک گیا۔
بڑےجچے تلے انداز میں نظامت کا آغاز ہوا اور آخر تک ایک لگن کے ساتھ ناظم مشاعرہ پروگرام کو لے کر چلے اور خوب گرمایا۔ دوران پروگرام محترم مسعود حساس کویت نے نوازا اور محترم ڈاکٹرشفاعت فہیم بھارت نے بھی اپنے مخصوص لب و لہجہ میں شعرا اور نثرنگاروں کو داد دی اور قیمتی نصائح سے نوازا۔
محترم شہزاد نیّر پاکستان اپنی مصروفیات کی بنا پر دوران ہروگرام نقد و نظر سے نہ نواز سکے لیکن بعد میں نوازیں گے۔ انشاءاللہ
پروگرام کا آغاز حسبِ سابق و حسبِ روایت حمد باری تعالی سے ہوا۔
جناب عامر حسنی نے ایک خوب صورت حمد باری تعالی سے نوازا
ایک ایک شعر آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے کچھ نمائندہ اشعار پیش ہیں:
سمندر کی طلاطم خیز موجیں
چلی ہیں جانبِ ساحل یہ فوجیں
فضا میں جو نظر آتے ہیں طائر
زمانے کو بنا دیتے ہیں شاعر
یہ سب رنگینیاں جو کھولتا ہے
مرا محبوب مجھ سے بولتا ہے
حمد کے بعد محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی نے نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کی سعادت پائی۔ نمونہء کلام حاضر ہے:
آقا کے در کی مجھ کو ہوجا ئے اب زیارت
پائے نجات غم کی زنجیر ہے سوالی
اس نعت کے بعد پروگرام کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے عامر حسنی کو ملائشیا سے کلام سنانے کی دعوت دی گئی انہوں نے کلام سنایا کہ
ہم پردیسی دیس کو سوچیں
سوچوں کی برساتیں قاتل
اس کے بعد ڈاکٹر مینا نقوی مرادابادبھارت نے اپنا کلام پیش کیا
بچھڑے گاوں سے عرصہ بیت گیا پھر بھی دل اس کا دم ہی بھرتا ہے
اے مرے گاوں مجھ کو یہ تو بتا کیا مجھے تو بھی یاد کرتا ہے
خوب صورت لب و لہجہ کے شاعر اخلادالحسن اخلاد جھنگ پاکستان سے گویا ہوئے
تری مجبوری لاچاری بنے گی بیڑی پاوں کی
نہ جلدی لوٹ پائے گا دیارِ غیر میں جا کے
ایک بہت ہی ہمدرد دل کی مالک شاعرہ اور نثر نگار محترمہ روبینہ میر راجوری جموں کشمیربھارت سے ایک اچھوتا نثر پارہ احباب کی خدمت میں پہش کیا
پردیسی بیٹے کے نام ماں کا خط
جناب عاطف جاوید عاطف لاہور پاکستان سے شرک محفل ہوئے اور کہنے لگے کہ
بڑا مہنگا پسینہ ہے بڑے سستے کھلونے ہیں
یہاں ارماں لٹا کر ہم بڑے ڈالر بچاتے ہیں
جناب محمد زبیر، گجرات، پاکستان سے اپنی باری پر گویا ہوئے کہ
تلاش زیست میں نکلے سمندروں سے پرے
گنوا کے جان بھی آئے سمندروں سے پرے
تلاش رزق میں پردیس لینے والے جناب جعفر بڈھانوی بھارت سے گویا ہوئے
میری غربت کھینچ لائی جس گھڑی ہردیس میں
ساتھ ہنس کر آ گئی تنیائی بھی پردیس میں
ایک خوب صورت شاعر اور صاحب طرز نثر نگار ڈاکٹر ارشاد خان بھارت نے بھی اس ہروگرام میں اپنا حصہ یوں ڈالا
جب بھی آتا ہے وطن یاد تو رو لیتا ہوں
شور بازار کا قیمت پہ کہیں تکراریں
خوانچہ والوں کی ہیں شام تلک آوازیں
اشکِ بے تاب کو پلکوں میں پرو لیتا ہوں
جب بھی آتا ہے وطن یاد تو رو لیتا ہوں
جناب اصغر شمیم،کولکاتا،انڈیا سے ایک انوکھی طرز کا کلام لے کر تشریف فرما ہوئے۔ آپ نے ایک ہی مصرع ہر پانچ مختلف گرہیں لگائیں اور ایک سے بڑھ کر ایک۔
خوشبو کہاں مل پاتی اسے اپنے چمن کی
گملے میں لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے
جناب اشرف علی اشرف سندھ پاکستان سے اپنی باری پر گویا ہوئے
اپنے پیپل کی گھنی چھاوں وہ چڑیوں کی چہک
پہلو سے نار کے لپٹا گھڑا نہیں ملا ہے
میرے برادر خاص، ایک نہایت اعلی پائے کے جدت طراز شاعر اور بہترین نثر نگار اور ادارہ کے جنرل سیکرٹری صابر جاذب لیہ پاکستان سے اس بار ایک خوبصورت نثر لے کر حاضر ہوئے۔
فرنگیوں نے سو سال تک ہم پر حکومت کی لاتعداد قربانیوان کے بعد انہیں یہاں سے جانے پر مجبور کیا لیکن درحقیقت وہ ابھی تک ہم پر قابض ہیں۔۔۔
اب باری تھی جناب جابر ایاز سہارنپور بھارت کی۔
وجہِ ترک وطن ہی کچھ اور ہے ورنہ
وہاں جو ملتا ہے کیا وہ یہاں نہیں ملتا؟
نہایت منظم، صاحبِ ادا اور شیریں دہن گلِ نسرین ملتان پاکستان سے خوب صورت کلام لے کر حاضر ہوئیں
چاند کی دیوار پر ہم آ ذرا سا گھوم لیں
چاندنی کے پانیوں سے آنکھ بھی ہو باوضو
اب باری تھی شاداب و معطر شخصیت غزالہ انجم بورے والا پاکستان کی آپ نے اپنے خیالات کے جوہر بکھیرے
پھر تخیل میں مرے چہرہ اتر آیا کوئی
پھر کسی کی یاد نے تڑپا دیا پردیس میں
جناب احمد کاشف۔مہاراشٹر ۔انڈیا سے شرک محفل ہوئےاور کہنے لگے
کیسے سچائی کو پرکھیں گے وہ احمد کاشف
جھوٹی تعریف کے دلدل میں جو پھنس جاتے ہیں
محترمہ ساجدہ انور کراچی پاکستان کی ایک من موہنی شاعرہ نے کہا کہ
گردو غبار شہر وفا بھول کر صنم
شیشوں کی کائنات نبھانے ادھر گیا
اسلام آباد پاکستان سے تعلق رکھنے والے ذہن رسا کے مالک ایک اچھے شاعر اور عمدہ و موقر نثر نگار جناب غلام مصطفےٰ دائم اعوان نے کہا کہ
مجھے بتا ناں!!
تری زباں ہی سے سننا چاہوں گا
اے مرے بختِ نارسائی
مجھے بتا ناں!
اس کے بعد شمعِ محفل صدر مجلس کے سامنے آ گئی اور جناب ڈاکٹر شاہد رحمان فیصل آباد نے کلام پیش فرمایا
اپنوں کی یاد آئی ہمیں اتنی رات دن
پردیس میں ہمارا گزارہ نہیں ہوا۔
احباب پروگرام اہنے اختتام کو پہنچ رہا تھا کہ صدر محفل نے خطبہء صدارت پیش فرمایا۔ ملاحظہ ہو۔
خطبہء صدارت
تمام احباب بالخصوص جناب توصیف ترنل،احمد منیب ،احمر جان اور صابر جاذب کا بے حد ممنون ہوں۔ادارہ بیسٹ اردو پوئیڑی گروپ کے ساتھ جڑے ہوئے تمام دوستوں کو کامیاب پروگرام پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
دوسرے ملک میں جانا چاہے پڑھائی کے لیے ہو یا روزگار کے لیے ہجرت ہے۔ ہجرت ایک دوری ایک کرب اور اذیت کا نام ہے۔
اپنے آبائی علاقے اور ملک کو چھوڑنا بہت تکلیف دہ عمل ہے۔
یہ کوئی آسان نہیں بڑے حوصلے اور ہمت کا کام ہے۔اپںے عزیزوں اور دوستوں سے دور رہنا بہت دشوار ہوتا ہے۔
گھر سے مجبوریوں نے دور کیا
گھر سے دوری بھلی نہیں ہوتی
وہ شخص خوش قسمت ہے جسے اپنے شہر اور ملک میں روزگار مل جائے۔ چاہے زیادہ کمائی نہ بھی ہو مگر شام کو واپس اپنے اہل وعیال کے پاس آجانا بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ دن بھر کے دکھ سکھ بانٹ لیتا ہے بیوی بچوں میں رہ کر کئی پریشانیوں سے بچ جاتا ہے۔ چھوٹے بچوں کی معصوم شرارتوں سے دل بہل جائے تو اور کیا چاہیے۔
یہ چیزیں دیار غیر میں کہاں۔ وہاں تو بس کام ہی کام ہے ۔ ایک مشین ہے اور بندہ ہے۔
پردیس میں رہتے ہوئے اپنوں کی یاد ستاتی اور رلاتی ہے ۔ہزاروں میل دور بیٹھا ہوا شخص اپنے بہتر مستقبل کے خواب دیکھتا ہے
اور اپنا حال اذیت میں گزارتا ہے صرف اس امید پر کہ اس کے لیے اچھا وقت اور خوشیاں آئیں گی۔
ڈاکٹر شاھد رحمان فیصل آباد
تمام احباب نے ایک اور کامیاب پروگرام کے انعقاد پر ایک دوسرے کو مبارک بادیاں دیں۔ اللہ کرے کہ ہمارا ادارہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہے اور ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ بے لوث محبت کے اس رشتے میں بندھے ہوئے اردو ادب کی خدمت کرتے رہیں۔ آمین
والسلام
خاکسار
احمدمنیب۔ لاہور پاکستان