عالمی تنقیدی فکشن پروگرام نمبر 184
بعنوان :صحافت کا گرتا ہوا معیار وشاعری کا گرتا ہوا معیار
رپورٹ : ڈاکٹر ارشاد خان بھارت
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری عام روش سے ہٹ کر ۔۔پروگرام پیش کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے ۔ذرائع محدود ہوں یا لامحدود ،حریفوں کی شقاوت ہو یا بغاوت ،کم مایہ کی ریشہ دوانیاں رہی ہوں کہ بزعمِ خود لنترانیاں،۔۔ادارے نے ہر چیلنج قبول کیا ۔ہر محاذ پر کامیابی وکامرانی کے جھنڈے گاڑے ۔علم بغاوت بلند کرنے والوں کے پرچم سرنگوں کیے ۔۔۔اور ادارے میں اسی نے جگہ بنائی جس نے اہل بزم کے دلوں میں جگہ بنائی ۔اہلِ قلم کی سرپھٹول سے یہ ادارہ ہمیشہ محفوظ رہا ۔۔۔وجہ تسمیہ ؟؟ ۔۔میر کارواں کی دور رس نگاہیں ۔۔،مردم شناسی ،۔۔کس فنکار سے کون سا کام لیا جائے ؟ کس نگینے کو کہاں فٹ کیا جائے کہ وہ نولکھا ہار بنے۔۔اور وہ قدر گوہر شناس ہیں عزت مآب توصیف ترنل ۔۔۔ان کی مساعی جمیلہ سے ادارہ 183 کامیاب ترین پروگرام پیش کرچکا ہے ۔۔تمامی اپنے آپ میں منفرد ،انوکھی نوعیت کے حامل ۔۔چیلنجنگ۔۔۔جس طرح ہر ہر چیلنجنگ رول کو قبول کرکے ہند وپاک میں دلیپ کمار شہنشاہِ جذبات بنے تو محمد علی ایک کامیاب فنکار ۔۔۔یہی چیلنج سکھاتا ہے ۔۔۔انہی پتھروں پہ چل کے ۔۔۔یا ۔۔۔چلا جاتا ہوں میں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے ۔۔۔ یہی چیلنجنگ کیس ابن صفی کو دیے تھے تو ۔۔۔ادارے نے توصیف ترنل کو !!
ایک اور مشکل ترین ۔۔انفرادیت سے بھرپور پروگرام ،،صحافت کا گرتا ہوا معیار ،،۔۔صالح معاشرے میں پنپنے والا کینسر جو بڑی تیزی سے نظام حیات کو پراگندہ کررہا ہے ،جو زر کا اثر رکھتا تھا ۔۔زرد ہوگیا ہے ،جو زہر کا تریاق تھا ۔۔ زہریلا ہوگیا ہے ۔۔۔ایک برننگ ٹاپک جس کے لیے ہر دردمند ،فکر مند ہے ۔۔جس کے حصار میں کرہ ارض کے ۔۔دبے ہوئے ،پچھڑے ہوئے ،کچلے ہوئے مدقوق چہرے جن کی اور آس لگائے بیٹھے ہیں ۔۔اپنی دادرسی کی ،جو ماتم کناں ہیں اپنے آقاؤں سے ۔۔وہ چہرے ،جنھیں وہ اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں وہی اپنے آقاؤں کے تلوے چاٹ رہے ہیں ۔۔یہی زندگی سے جڑا عنوان ،،صحافت کا گرتا ہوا معیار زیر بحث رہا ۔ادارے نے حق گوئی و بے باکی کا وہ مظاہرہ کیا کہ زرد صحافت کے چہرے زرد ہوگئے ۔۔۔عنوان کی تبدیلی کا عندیہ دیا تو بائیکاٹ کی دھمکیاں بھی ۔۔۔مگر توصیف ترنل۔۔نہیں کرنل بلکہ جرنیل کی طرح محاذ پھر ڈٹے رہے اور ٹیم دی بیسٹ کے ہراول دستے کو کیل کانٹے نہیں بلکہ قلم وقرطاس سے لیس کرتے رہے ۔۔۔ایک کامیاب پروگرام 184 کی صورت جو 15 دسمبر کی سرد رات میں پیش ہوا ۔۔وہ بھلے ہی نقار خانے میں طوطی کی آواز ہو ۔۔بھلے ہی صدا بہ صحرا ہو مگر ۔۔یقیناً یہ پہلی بوند کا حوصلہ ہوگا ۔۔۔پھر رم جھم۔۔پھر موسلادھار بارش ۔۔۔گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پہلی تیلی ۔۔جس کی مدھم روشنی ۔۔جو بڑھ کر اندھیرے کو فنا کردے گی ۔۔۔ان شاءاللہ
صدر محفل صابر جاذب صاحب ،مہمان خصوصی ماورا سید صاحبہ و مہمان اعزازی جعفر بڈھانوی صاحب تھے ۔نظامت جو ہر تقریب کی جان ہوتی ہے اس کے علمبردار تھے ڈاکٹر علمدار عدم صاحب ۔۔پروگرام کو آغاز حمد باری تعالی سے ہوا ۔ڈاکٹر ارشاد خان اور مسعود حساس صاحب نے بارگاہِ خداوندی میں حمد وثنا کے نذرانے پیش کیے ۔۔بعدازاں قلمکاروں نے جو قلم کے جوہر دکھائے اسے دیکھ کر ناقدین بھی ششدر و انگت بدنداں رہ گئے ۔۔احمد منیب صاحب اور صابر جاذب صاحب نے تو قلم توڑدیا ۔۔۔صحافت کا گرتا معیار ۔۔۔اسباب وعلل پر نہ صرف بھرپور روشنی ڈالی گئی بلکہ اسباب کے حل بھی پیش کیے ۔۔دیگر قلمکاروں کے قلم کی جولانیاں بھی قابل رشک تھیں ۔۔عامر حسنی صاحب ،خالد سروجی صاحب ،جعفر بڈھانوی صاحب و راقم الحروف کی تحاریر نے متعلقہ موضوع پر ہر ہر گوشے سے روشنی ڈالی ۔۔۔بزم کا اختتام صابر جاذب صاحب کے خطبۂ صدارت پر ہوا ۔۔شریک محفل نے سبھی اہل قلم کی کاوشوں کو سراہا نیز دادوتحسین سے نوازا ۔
اس جارحانہ پروگرام کے لیے توصیف ترنل صاحب اور ٹیم دی بیسٹ کو خصوصی مبارکباد ۔۔۔اس امید کے ساتھ کہ مستقبل قریب میں ایسے ہی سلگتے موضوعات پر مشتمل پروگرام ترتیب دیے جائیں جو سماج میں پنپنے والے ناسور کے لیے نشتر کا کام دیں ،تہذیب و تمدّن کی تشکیلِ نو میں خشت اول ثابت ہو ۔۔۔
تمام شد
======================
صابر جاذب لیہ پاکستان
تنقیدی پروگرام نمبر 184
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گرامی قدر چیئرمین ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری برادرم توصیف ترنل، مہمانان خصوصی نہایت ہی معزز اراکین ادارہ، نثر نگار و شعراء کرام…
السلام علیکم
میرے لئے باعثِ توقیر ہے کہ آج کی اس منفرد پروگرام کی مسند صدارت سونپ دی گئی.
ادارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئٹری جب عرصہ تین سال قبل معرض وجود میں آیا اس نے ہمیشہ ہی منفرد پروگرامز کا اہتمام کیا ہے ۔جس کا تمام کریڈٹ اس ادارے کے بانی و سرپرست جناب توصیف ترنل کے سر جاتا ہے.جن کی انتھک کاوشوں نے اس بزم کو رونق بخشی ہوئی ہے.. اور یقیناً ان کا جذبہ لائق تحسین ہے ورنہ اس برق رفتار دور میں کسے فرصت ہے کہ وہ ایسے پروگرامز میں اپنے آپ کو مصروف رکھے کہ جہاں بظاہر کوئی ذاتی مفاد نظر نہیں آتا اور جسے آج کا سائنسی ماحول قبول کرنے سے بھی گریزاں ہے….
ان تمام تر مشکلات اور مسائل کے برعکس توصیف صاحب نہایت سنجیدگی اور متانت سے شاید اپنی قلبی تسکین کے حصول کی خاطر ہمہ وقت اسی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں کہ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی منفرد اور اچھوتا پروگرام پیش کیا جائے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہیں. یقیناً ایسے کام اکیلے کوئی شخص نہیں کر سکتا.یہ ایک ٹیم ورک ہوتا ہے اور اس میں فعال معاونین کی اشد ضرورت ہوتی ہے… اور توصیف بھائی کو اس سلسلے میں ہمیشہ چند ایسے مخلص دوستوں کا ساتھ میسر آجاتا ہے جو انہیں بے یار و مددگار نہیں چھوڑتے اگرچہ وقتاً فوقتاً ان کے احباب بدلتے رہے ہیں.
آج کایہ پروگرام بلا شبہ ایک منفرد پروگرام تھا جس میں شریک نثر نگاروں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور فکری پرواز کی عطر بیزی سے سامعین اور حاضرین کو مسحور کر دیا.گو آج کل پروگرام انتہائی حساس بھی تھا صحافت اور شاعری کا گرتا ہوا میعار۔جس میں صحافت کی گرتی ہوئی قدروں کے بارے میں قلم اٹھائی گئی۔انتہائی معزز پیشہ جب زوال کی طرف جارہا ہو تو قلم کار کا حق ہے کہ وہ ان باتوں کے بارے اپنے قلم کے ذریعے ان باتوں کو سامنے لائے۔تمام قلم کاروں نے اپنی اپنی ذمہ داری کو خوب نبھایا ہے جس کے لئے میں تمام نثرنگاروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں.
نیز چیئرمین ادارہ اور انتظامیہ سے گزارش کرتا ہوں۔ آج کی اس مشق سخن پر نقد و نظر کا اہتمام کچھ اس طرح کیا جائے کہ نوآموز قلمکار فنی معائب و محاسن سے روشناس ہو سکیں…
میں آخر میں ایک بار پھر سب کا متشکر و ممنون ہوں اور سب کو ایک بہترین اور کامیاب پروگرام کے انعقاد کے لئے مبارکباد پیش کرتا ہوں..
خدا وند کریم تمام احباب کا حامی و ناصر ہو
والسلام
صابر جاذب لیہ پاکستان