رپورٹ : ڈاکٹر ارشاد خان بھارت
عالمی تنقید ی پروگرام نمبر 195
شیرو کا خط۔۔جھبرو کے نام
ہاں یار ! تمہارا فون آیا تھا ،مگر میں ریسیو نہ کر سکا ۔۔تم جزبز تو بہت ہوئے ہوں گے ۔۔تمہاری ناراضی بجا ،مگر سنو تو !۔۔اب من بھی جاؤ۔۔بات دراصل یہ ہے کہ میں اس وقت ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کی پروگرام رپورٹ تیار کر رہا تھا لیکن بھائی میں اس ادارے کو نہیں جانتا۔۔لو،اب تم یہ بھی نہیں جانتے کہ ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کس چڑیا کا نام ہے ؟؟جبکہ برقی دنیا کا ہر ذی فہم اس سے واقف ہے ۔۔اور کیوں نہ ہو ! ۔۔یہی واحد ادارہ لاثانی اور منفرد پروگرام پیش کرتا ہے ۔۔تعجّب کررہے ہو !۔۔ارے صاحب اس ادارے نے 194 پروگراموں کی جھڑی لگادی ۔۔۔۔اور تمہیں خبر بھی نہیں !! جس طرح ذوق ہمیشہ شاکی رہے کہ بہت زور مارنے کے باوجود غزل میں میر کا انداز نصیب نہ ہوسکا ، اسی طرح برقی دنیا میں بہت سوں نے زور مارا ۔۔۔بہت ہاتھ پاؤں مارے ۔۔تھگی لگائی مگر ناکامی ہاتھ آئی ۔۔۔۔میرے پیارے جھبرو! گوہرِ مقصود ہمیشہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کو ہی ملا ۔
اب تو مسکرا دو میرے یار ۔۔اسی منفرد ادارے کے لیے انفرادیت سے بھر پور رپورٹ لکھنے کے لیے یکسوئی چاہیے کہ نہیں ؟۔۔اب تمہارا فون ریسیو کروں ۔۔پہلے تو تم شکایت کے دفتر لگا دیتے ہو ۔۔پھر اپنی ہی ہانکتے رہتے ہو ۔میں نہیں کہتا تم میں خود نمائی ہے اس کا فیصلہ خود کرو۔۔ہاں دوست ! فون کے جواب میں فون سے بات نہیں کررہا ہوں بلکہ خط کا سہارا لے رہا ہوں ۔۔ہاں ! ہاں !! تم یہی کہوگے نا ۔۔خط کا زمانہ لد گیا ۔۔اب تو ای میل کا زمانہ ہے ۔۔خطوط نصابی کتابوں سے بھی غائب ہوچکے ہیں ۔۔۔مگر ، کان کھول کر سن لو۔۔ای میل کا زمانہ ہو یا فی میل کا ہم جیسے سودائی ،
لوٹ کر پھر سے چراغوں کے زمانے آئے
کے مصداق خط کا سہارا لے رہے ہیں ۔۔ہاں بھائی ۔۔۔یہ ممبئی ہے ،دل والوں کی ۔۔یہاں کا مکین بھوکا اٹھتا ہے ،بھوکا سوتا نہیں ۔۔سب کی پناہ گاہ ۔۔پانی جیسی خصوصیت رکھنے والی ۔۔اس میں ہر رنگ سما جاتا ہے ۔۔کیا ملکی ،کیا غیر ملکی ۔۔رامپور تو دارالسرور تھا مگر ممبئی دارالامان ۔۔۔ہر کسی کی پناہ گاہ۔۔۔تم تو دور دیس جا بیٹھے ۔۔۔میں بھی کیا لے بیٹھا ،تم بور ہورہے ہوں گے مگر مجھے تو احوالِ واقعی لکھنا ہے ۔اس عالمی ادارے کے بارے میں ۔۔ہر ہفتے محفل سجتی ہے ۔۔اردو ادب کے ہر شعبے کے مہارتھیوں کی ۔۔اب تعجّب سے ،استفہامیہ انداز میں کیا دیکھ رہے ہو ؟۔۔کیا تمہیں معلوم نہیں ،۔۔شعری و نثری ادب کے جغادری ۔۔اساتذۂ فن،بے مثال منتظمین ،منفرد آئیڈیالوجی رکھنے والے اراکین ،مسندِ صدارت پر براجمان ماہرین ،اور لاثانی ناقدین ۔۔۔تم حیرت کے دریا میں غوطہ زن ہو ! اور سوچ رہے ہو کہ یہ گنج گراں مایہ کس نے اکٹھا کیا !!۔۔تو سنو! میرے پیارے جھبرو۔۔یہ شخصیت ہے زرخیز ذہن کے مالک توصیف ترنل۔
تو میرے پیارے جھبرو۔۔اسی منفرد ادارے کی رپورٹ لکھ رہا ہوں ۔۔۔اب تو تمہاری خفگی دور ہو گئی نا ! میرے پیارے دوست ،ہمیں تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے ۔۔اب دیکھو نا ،اس ادارے سے جڑے نابغہ روزگار افراد سے ہر ہفتے ملاقات ہو جاتی ہے ۔ایک نئے زاویہ سے اپنے فن پاروں کے ذریعے ۔۔دوست !۔۔کس جانفشانی سے وہ نخلِ اردو ادب کی آبیاری کررہے ہیں ۔اب تم بھی پڑھو اور سر دھنو۔۔تمہارے سامنے نمونہ کلام پیش ہے ۔یار صرف پڑھو نہیں اپنی آراء سے بھی نوازو۔۔جوابی خط میں ،کہے دیتا ہوں ۔ خط کے دام گانٹھ میں نہ ہوں تو بیرنگ بھیجو۔۔سمجھ لو بیرنگ لکھا ہوں بےرنگ نہیں ، اب اتنے سمجھ دار تو تم ہو کہ بیرنگ کا مطلب سمجھ لو۔۔۔بغیر ڈاک ٹکٹ کے ۔۔یار جھبرو،! جب تم بغیر ٹکٹ کے ،بس،ریل یا ہوائی سفر نہیں کرسکتے تو خط بغیر ٹکٹ کے کیسے سفر کرے گا ؟؟۔۔اب کبوتر یا نامہ بر کا زمانہ تو نہیں رہا !!۔۔امن کے کبوتر اڑ گئے ۔۔اور نامہ بر کی چھٹی ہوگئی ۔۔۔خیر میں پھر پٹری سے اتر رہا ہوں ۔کیا کروں کہ غالب کا ورثہ ہوں مضامین غیب سے آتے ہیں ۔
تو صاحب نمونہ کلام حاضر ہے ۔
ہاں تو بھائی جھبرو!۔۔شعری ادب سے سیری ہوئی یا نہیں ؟خود نمائی پر احباب نے کیا کیا لکھ مارا ۔۔۔پچھلے وقتوں میں شراب نے جگر کو۔۔۔اور سب کو جگر کے شعروں نے مارا تھا مگر ہمارے قلمکار جو ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری سے جڑے ہیں وہ ہر میدان ماررہے ہیں ۔۔کیا نظم کیا نثر ۔۔یہ لو، کرلو بات !۔۔تم نے دیکھا نہیں حمد ونعت سے لے کر دیے گئے عنوان پر شعری سرمایہ ۔۔۔کیا دیکھا ہے کسی برقی دنیا میں ؟؟ترقی پسند تحریک نے غزل کی مخالفت میں نظم کو فروغ دیا ۔۔نتیجہ ؟۔۔ساری اردو دنیا جانتی ہے ۔۔لافانی نظمیں معرض وجود میں آئی۔۔۔مجاز نے ،،آوارہ ،،تو مخدوم نے ،،چارہ گر،، لکھ کر وہ تیر مارا کہ ۔۔ہائے ہائے !!۔۔پھر اختر الایمان نے ،،ایک لڑکا ،،میں کہا کہ ،،وہ میں ہوں ،،تو فیض صاحب نے محبوب سے صاف کہہ دیا کہ ،،مجھ سے پہلی سے محبت میرے محبوب نہ مانگ ،،اور محبوب خاموش یہ سوچ کر کہ ،،اور بھی دکھ ہیں ۔۔ ،،حفیظ صاحب کی ،،ابھی تو میں جوان ہوں ،، ابھی بھی جوان ہے ۔۔۔چاہے ہم پر بڑھاپا آجائے ۔۔۔اب ہنسو نہیں ،۔اس پیرانہ سالی میں تمہیں بارہا گنگناتے سنا ہے ۔۔۔مگر شہنشاہِ تغزل جگر اپنی ڈگر پر اور مجروح ،باوجود مجروح ہونے کے ،،گنہگار کی طرح ،،جان غزل سے لپٹے رہے ۔۔ارے بھائی اتنے بھولے نہ بنو۔۔مجھے معلوم ہے اردو ادب کو تم نے گھول کر پیا ہے ۔۔۔اب ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کی طرف آؤ۔۔کیا کیا منفرد عناوین دے کر شہ پارے لکھوائے ۔شعری ادب ہو یا ،نثری ۔ہر صنف سخن میں میدان مارا۔۔منٹو تو افسانے جیب میں رکھتے تھے مگر ۔۔ہمارے قلمکار ،،کھیپ،،رکھتے ہیں ،کوئی سا بھی ٹاپک ہو ۔۔جدید اردو ادب کی تاریخ لکھی جائے گی تو ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کی خدمات صف اول میں جگہ پائے گی ۔۔۔پیارے جھبرو، ،،مجھے یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ،،۔۔بلکہ اچھی طرح یاد ہے کہ 194۔یونیک پروگرام ہوچکے ہیں ،اب یہ پروگرام 195 ایک نئی تاریخ رقم کررہا ہے ۔۔۔عزیز از جاں۔۔کہاں کھو گئے
صابر جاذب لیہ پاکستان
ہر ایک شخص کو دیتا ہے رزق آب وہوا
ہر ایک شخص پہ یہ فیض عام تیرا ہے
سوز سے میرے ہے جہاں والو
ان چراغوں میں روشنی باقی
غزالہ انجم پاکستان
لا شعوری میں کرتا ہے جو خود نمائی
کرائےگا اپنی سدا جگ ہنسائی
جعفگر بڑھانوی مملکةالھند
رزق ملنا ہےخود ثنائی سے
بھوک اچھی ہے اس کمائی سے
عظمیٰ خان گوندل انگلینڈ
مشکل سے اک چراغ جلایا ہے بام پر
کیوں ہنس رہے ہو چاند ستارو جواب دو
اصغر شمیم،کولکاتا،انڈیا
ساجدہ انور،کراچی پاکستان
عکس دیوار کا نہیں سمجھو
سایہ شجر کی مثال ہوں میں
تیری میں میں کو سن کے اے واحد
بکریاں شرمسار ہوتی ہیں
عبدالغفار واحد سورت گجرات بھارت
زرا دل کو تھامو مرے ہم نشینو
نگاہیں فلک کو جکڑنے لگی ہیں
گل نسرین ملتان پاکستان
آپ کی بیکار ساری پارسائی ہو گئی
کا ر نا موں سے زیادہ خود نمائی ہو گئی
مختار تلہری بھارت
وہ جنوں پیشہ بھی اب اہل خِرد ہے،حد ہے
سامنے اسکے ہراک بات ہی رد ہے،حد ہے
اشرف علی اشرف سندھ پاکستان
سوچنا خود کو معتبر سب سے
پیش خیمہ ہے سب برائی کا
اخلادالحسن جھنگ پنجاب
تھوڑا مشہور کیا ہوا میں ضیاء
اب میری ذات بٹ گئی شاید
ضیاء شادانی بھارت
وہ کسی فنکار کو ہرگز سراہے گا نہیں
اس میں پایا جاتا ہے بس خودنمائی کا مزاج
ڈاکٹر مینا نقوی مرادابادبھارت
بہت ہنس ہنس کے جو ہمدریوں کی بات کرتے ہیں
عمل سے دور ایسے مہرباں اچھّے نہیں لگتے
امین جس پوری بھارت
==========================
گھائل
عامرؔحسنی ملائیشیا
خود نمائی
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 195
بعنوان خود نمائی
وہ جتنی خود نمائی کر رہا ہے
خود اپنی جگ ہنسائی کر رہا ہے
خود نمائی کیا ہے؟ یہ دراصل اپنی کسی خوبی یا صلاحیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کو کہتے ہیں اور اس کی وجہ میرے خیال میں انسان کے اندر پیدا ہونے والا احساسِ کمتری بھی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ چاہتا ہے کہ وہ دوسروں میں نمایاں ہوکر نظر آئے۔ کیونکہ وہ یہ محسوس کرتا رہتا ہے کہ لوگ اسے کم تر سمجھتے ہیں لہٰذا اسے اپنی صلاحیتوں کا باربار، جگہ جگہ ذکر کرنا چاہیے۔
خود نمائی ایک ایسی بیماری ہے جو کہ بعض لوگوں کی نفسیات پر حاوی ہو کر ان کی معاشرے میں وقعت کھو دیتی ہے اور جگ ہنسائی کا باعث بن جاتی ہے۔
دنیاوی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو جو صلاحیت یا خوبی انسان میں ہو۔ اسے چاہیے کہ وہ اس میں ترقی کرنے کی کوشش کرے اور دوسروں سے بہتر نتائج پیدا کرنے کی کوشش کرے تو خود بخود وہ نمایاں مقام پر پہنچ جائے گا۔
لیکن اگر کوئی ایسا ہے کہ ترقی کی کوشش بھی نہیں کرتا اپنی صلاحیتوں میں نکھار بھی نہیں لاتا اور صرف خودنمائی سے خود کو بڑا یا اعلیٰ یا خادم اعلیٰ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اس کی حالت قابل رحم ہوجاتی ہے کہ یہ عمل اس کے لیے جگ ہنسائی کاباعث بن جاتا ہے ۔ کوئی اسے سیاسی اداکار کہتا ہے تو کوئی ریاکار۔ کوئی اس کی ان باتوں کے نتیجے میں مرعوب نہیں ہوتا بلکہ کوئی اس کی پیٹھ پیچھے ہنستا ہے تو کوئی سامنے۔
ایک طبقہ ایسا ہے جو کہ دولت مند ہے وہ اپنی کار کوٹھی لباس وغیرہ سے خودنمائی میں مصروف رہتا ہے اور اس طرح سے سب کو مرعوب کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اورایک حد تک وہ اس میں کامیاب بھی رہتا ہے کیونکہ اکثر لوگ اس سے ڈرتے بھی ہیں اور بظاہر بہت عزت بھی دیتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا شخص اخلاق سے عاری ہو اور مخلوق کا ہمدرد نہ ہو بلکہ لوٹ مار اور بد دیانتی کے پیسے سے یہ سب خود نمائی کررہا ہو تو معاشرے میں ایسے شخص کی کوئی عزت اور وقار قائم نہیں ہوتا ۔ لوگ منہ پر تو اس کی عزت کرتے ہیں لیکن اس سے الگ ہوکر اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور جن لوگوں کا مال لوٹ کر وہ اس مقام پر پہنچا ہوتا ہے ان کی بد دعائیں اس کا مقدر ہوتی ہیں ۔ لہٰذا نہ تو وہ دنیا میں باعزت ہوتا ہے نہ خدا کے حضور۔ بلکہ میرا یہ تجزیہ ہے کہ ایسے لوگ بے شمار بیماریوں اور بے چینی میں مبتلا رہتے ہیں۔ ان کو کبھی سکون کی نیند نصیب نہیں ہوتی۔ ان کے زندگی کرب کی علامت ہوتی ہے۔ دنیا کی یہ مال و دولت جس سے وہ خود نمائی کرتے ہیں اور خود کو بڑا اور معزز ظاہر کررہے ہوتے ہیں ۔ یہ ان کی زندگی میں کسی خوشی کا باعث نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے سے بڑے دولت مند شخص کو دیکھ کر اس کی برابری کی لامتناہی خواہش کے پیچھے ساری عمر دوڑتا رہتا ہے اور اپنی اسی ہوس کے ساتھ قبر میں اتر جاتا ہے۔ جس میں اس کے ساتھ اس دولت میں سے کچھ بھی جانے والا نہیں ہوتا۔
بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ایسے لوگوں کی اولاد بے راہ روی کا شکار ہوجا تی ہے اوران کی اس دولت کو پھر بے ہنگم طریق پر اڑا دیتی ہے اور نہ اس کے ہاتھ کچھ آتا ہے اور نہ اولاد کے ۔ دراصل یہ خدائی تقدیر ہے جو کام کرتے ہوئے ان کو اس انجام تک لے جاتی ہے ۔
لیکن اس کے بالمقابل کچھ لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیامیں بظاہر کوئی سزا نہیں مل رہی ہوتی اور ان کی رسی دراز کی جاتی ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کے لیے زیادہ خوف کا مقام ہے کیونکہ ان کے لیے پھر آخرت کا بہت بڑا عذاب مقدر ہے۔ جس کا قرآنِ پاک میں باربار ذکر ہے۔
ایک اور طبقہ جو عہدہ اور اختیار کی خود نمائی میں مبتلا رہتا ہے اس میں خاص طور پر نمایاں طبقہ سیاستدانوں کا ہے ۔ آج کے اس دور میں یہ ایک بڑی تعداد ہے جو ایک تو عوام کا ہی خون چوس کرملک کا مال لوٹ کر دولت اکٹھی کرتا ہے پھر اسی پیسے کی بنیاد پر لوگوں کے ووٹ خریدتا ہے اور اسی چور دروازے سے اختیار حاصل کرتا اور بڑے عہدوں پر جاکر خود نمائی کے ذریعہ لوگوں پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ان کا خیرخواہ ہے ان گنت مختلف اقسام کے ڈرامے کرکے عوام کو خودنمائی سے بیوقوف بناتا ہے ان کے ٹیکسوں کےپیسے پر اپنی دولت میں اضافہ کرتا ہے اور ہر کام میں خود نمائی کرتے ہوئے بڑے بڑے اشتہارات دے کر بینرز اور بلبورڈ لگا کر باربار وزارت حاصل کرتا ہے اور بڑے احسان جتا کر عوام کے لیے کچھ منصوبے شروع کرتا ہے اور بعض اوقات نامکمل چھوڑ کر پھر اگلے الیکشن کے وعدے کرکے دوبارہ آجاتا ہے۔ لیکن انجام کار ان کی کوئی عزت معاشرے میں نہیں ہوتی کیونکہ ہر دیکھنے والی آنکھ ان کے اعمال سے واقف ہونے کی وجہ سے ان سے نفرت کرتی ہے اور پھر ایک دن وہ پکڑا جاتا ہے اور دنیا میں بھی رسوا ہوجاتا ہے۔
الغرض خودنمائی سے حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ سوائے دنیا و آخرت کی رسوائی ہی رسوائی کے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس سے کیسے بچا جائے؟
کیونکہ ہر انسان کی یہ خواہش ہے کہ اسے اچھا سمجھا جائے اور اس کی ہر طرف سے تعریف ہو ایک قدرتی بات ہے۔ تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ
ہمیں چاہیے کہ ہمارے اندر جو صلاحیتیں اور خوبیاں ہیں ان کو بروئے کار لا کر انسانیت کی خدمت میں جتے رہیں۔ جس کے نتیجے میں کسی خودنمائی کی قطعی طور پر ضرورت نہیں رہتی اور وہ انسان ہر معاشرے میں ایک نمایاں مقام پر خود بخود فائز ہو جاتا ہے جہاں ہر طرف سے اس کی تعریف کی جارہی ہوتی ہے اور یہ خواہش جو انسان میں پائی جاتی ہے کہ اسے اچھا سمجھا جائے یہ بھی پوری ہوجاتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ خداتعالیٰ بھی خوش ہوجاتا ہے۔
راقم الحروف : عامرحسنی ملائیشیا ۲۳ فروری ۲۰۱۹
===========================
پروگرام نمبر 195
صابر جاذب لیہ پاکستان
خود نمائی ( دو مخلتف پہلو)
فارسی زبان سے ماخوذ لفظ 'خود' کے ساتھ فارسی مصدر 'نمودن' سے فعل امر 'نما' کے ساتھ 'ئی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب 'خودنمائی' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔
انگریزی زبان میں Self. Projection ostentation, ostentatiousness یعنی خود فروشی۔ خود ستائی۔ تفخر۔ ٹیم ٹام۔ نمود۔ نمائش کو کہتے ہیں۔
کینسر ایک انتہائی مہلک مرض ہے۔ کسی اندرونی عضو میں لاحق ہوجائے تو بظاہر آدمی صحت مند دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ مرض اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کرتا رہتا ہے، پھر اگر یہ اس عضو میں جڑ پکڑ لے اور دوسرے اعضا میں بھی سرایت کرجائے تو زندگی کی امید باقی نہیں رہتی اور موت یقینی ہوجاتی ہے۔
دینی اور تحریکی زندگی میں ٹھیک ایسا ہی مہلک مرض خود نمائی ہے۔ آدمی بظاہر نیک کام کرتا ہے، اس کی تقریروں اور تحریروں سے خلقِ خدا خوب فیض اٹھاتی ہے اور اس کی سرگرمیوں سے اسلام کا بڑے پیمانے پر تعارف ہوتا ہے، لیکن یہ مرض اس کی تمام نیکیوں کو غارت کردیتا ہے۔
ہر چيز ہے محو خود نمائی ہر ذرہ شہيد کبريائی
خود نمائی اور اپنى شخصیت کو نما یاں کرنے کا احساس ہر ایک میں تھوڑا بہت موجود ہے ہر انسان کى یہ خواہش ہوتى ہے کہ جاذب نظر اور اہم کام انجام دے کر اپنى شخصیت و اہمیت دوسروں پر ثابت کرسکے تا کہ دوسرے اسے سرا ہیں ، اس کى قدر پہچانیں اور اسکے وجود کو غنیمت شمار کریں تقریبا ایک سال کى عمر کے بعد اس فطرى خواہش کى علامتیں بچے میں ظاہر ہونے لگتى ہں بچہ کوشش کرتا ہے کہ محفل میں ایک سے دوسرى جگہ جاتا رہے اور اپنى حرکات سے دوسروں کى توجہ اپنى طرف مبذول کروائےجس کام سے اس کے ماں باپ اور دوسرے لوگ خوش ہوں اور وہ ہنسیں ان کا تکرار کرتا ہے ، انہیں دیکھ کر خوش ہو تا ہے اور اپنى کامیابى پر فخر کرتا ہے کبھى اشار ے اور کبھى تصریح کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ دیکھیں میں کتنا اہم کام انجام دے رہاہوں
خود نمائی کى خواہش فى نفسہ کوئی برى صفت نہیں ہے یہى درونى احساس
انسان کو کوشش اور جدوجہد کے لیے ابھار تا ہے تا کہ وہ سبق پڑھ کر بہتریں نمبرحاصل کرے یا بہترین مقرربن جائے یا اچھا خطیب قرار پائے یا ماہر مصور ہو جائے یا ایک زبر دست شاعر بن جائے یا ایک اچھا مصنف بن جائے یا ایک اچھا صنّاع یا موجد ہو جائے۔
اس صفت کا اصل وجود برانہیں لیکن اہم بات اس سے استفادہ ہے اگر اس خواہش
کى درست راہنمائی کى جائے اسے صحیح طریقے سے سیراب کیا جائے تو یہ بہترین
نتائج کى حاصل ہو تى ہے۔ ابتدائی طور پر بچہ اچھے اور برے میں تمیز نہیں کرسکتاہر کام کى اچھائی یا برائی کا معیار اس کے لیے یہ ہے کہ اس کے والدین اسے پسند کرتے ہیں یا ناپسند ایک اچھا مربى کہ جسکى اس نکتے پر توجہ ہو وہ تحسین و تشویق کے ذریعے بچے کى خودنمائی کى خواہش کى تقویت کرتاہے اس کے اچھے اور مفید کاموں پر اظہار مسرت کرتا ہے اور اس طرح سے اس میں اچھے اخلاق و آداب کى بنیاد رکھتا ہے اگر اس سے کوئی غلط اور خلاف ادب کام دیکھتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اظہار مسرت نہیں کرتا بلکہ اپنى ناراضى اور ناپسندیدگى کا اظہاربھى کرتا ہے اور اس طرح سے اس عمل کى برائی بچے کو سمجھتا ہے اس کى طرف سے تعریف سوچى سمجھى اور حقیقت کے مطابق ہوتے ہیں اور اس بارے میں وہ تھوڑى سى بھى سہل انگارى اور غفلت نہیں کرتا اور اس طریقے سے وہ بچے کو اچھائیوں کى طرف جذب کرتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے البتہ بعض نادان ماں باپ اس بارے میں افراط سے کام لیتے ہیں بچے کے ہر کام پر اگر چہ وہ غلط او ربےادبى پر مبنى کیوں نہ ہو اظہارمسرت کرتے ہیں اور اس طرح سے اس میں ناپسندیدہ اخلاق و آداب کى بنیادرکھتے ہیں۔ اسکى خوبیوں کے بارے میں مبالغہ کرتے ہیں ہر جگہ اور ہر کسى کے سامنے اس کى تعریف کرتے ہیں اس کى ہنر نمائیوں کو دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں ایسا بچہ ممکن ہے تکبر اور خود
پسندى میں مبتلا ہوجائے اور پھر آہستہ آہستہ ایک خو د غرض اور جاہ طلب شخص بن جائے اور اپنے لیے ایک
جھوٹى شخصیت گھڑے اور لوگوں سے خواہس کرے کہ اس کے ماں باپ کى طرح اس کى موہوم اور خیالى
شخصیت کى تعریف و توصیف کریں اور اگر وہ اس بارے میں کامیاب نہ ہو ا تو ممکن ہے اس میں ایک نفسیاتى عقدہ پیدا ہوجائے اور وہ لوگوں کو قدر ناشناسمجھنے لگ جائے یہاں تک ممکن ہے کہ اپنى خیالى
شخصیت کے لیے اور لوگوں کى ناقدرى کا بدلہ لینے کے لیے وہ کوئی غلط یا خطرناک اقدام کرے وہ چاہے گاکہ اپنى شکست خوردہ خواہشات کو پورا کرے اور دوسروں کى توجہ اپنى شخصیت کى طرف مبذول کرے۔چاہے اس کے لیے کچھ بھى ہوجائے۔
اس نکتے کى یاد دھانى بھى ضرورى ہے کہ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کے اس احساس سے استفادہ کریں اور تدریجاً اس کى تربیت او رت کامل کى کوشش کریں اور اس کى ایک بلند اور بہتر راستےکى طرف راہنمائی کریں ماں باپ کى رضا اور خوشنودى کى جگہ آہستہ آہستہ الله کى رضا اور خوشنودى حاصل کرنے کى اس میں خوپیدا کریں آہستہ آہستہ اس طرح کے جملے کہنے کى بجائے کہ مجھے یہ کام پسند نہیں یا فلاں کام ابو کو پسند نہیں یہ کہیں کہ الله کو یہ کام پسند نہیں اوروہ اس کام پر راضى نہیں۔
جس شخص میں خود نمائی یا ریا کاری کا خناس نہ ہو وہ اعلی ظرف ہوتا ہے، وہ اپنی زندگی اعلی اخلاقی اصولوں کے تحت بسر کرتا ہے۔انسان کی زندگی میں ظرف کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے، کیونکہ انسان کو اس کے ظرف سے ہی پرکھا اور پہچانا جا تا ہے، جس کا ظرف جتنا اونچا اور اعلی ہو گا وہ انسان اتنا ہی قابل اعتبارو اعتماد، قابل احترام اورباعزت ہوگا در اصل ظرف ہی انسان کی عزت و آبرو کا بھرم رکھتا ہے اس لئے وہ دوسروں کی نظر وں میں قابل قدر بن جاتا ہے، انسان کی اعلی ظرفی زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان میں اس کے بہت کام آتی ہے۔اعلی ظرف انسان کے خیالات بھی ہمیشہ اونچے ہوتے ہیں، کسی بھی کام کو وہ انسانی فرض سمجھتا ہوا اسے بخوبی انجام دیتا ہے، وہ کسی کام، منصب یا عہدہ کو دولت کے سمیٹنے کا ذریعہ کبھی نہیں بناتا، یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کی نظروں میں نہ صرف اونچا مقام رکھتا ہے، بلکہ باعزت اور باعث احترام بن جاتا ہے۔
آج دنیا میں ہمارے حکمرانوں سے بڑھ کر کوئی خود نما، خودغرض اور کم ظرف نہیں۔ ہمارے حکمران لاکھوں کا کام کر کے کروڑوں اس کی تشہیر پر لگا دیتے ہیں صرف اپنی خود نمائی کیلئے۔ یہ عوام کے پیسوں سے نہ صرف خود نمائی کرتے بلکہ احسان بھی جتلاتے کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا۔اگر تو منصوبے انہوں نے اپنے وسائل سے قوم کو دئیے تو مانا جا سکتا کہ احسان کیا۔ لیکن اگر منصوبے ملکی اور عوامی وسائل سے بنے تو کیا وہ ان کا فرض اور ذمہ داری نہیں تھی ؟ پھر ان قومی پروجیکٹس اور پبلک مقامات کو اپنے ناموں سے منصوب کردینا ان کی خودنمائی کی ادنی سی مثال ہے۔ ایک فرض اور ذمہ داری کے ادا کرنے پر خود نمائی اور احسان کیسا؟کیا کوئی باشعور اپنی نماز کی ذمہ داری و فرض ادا کرکے خدا پر احسان رکھتا ہے؟ مگر یہ اپنا قومی فرض اور وہ بھی قوم کے وسائل سے ادا کرکے قوم پر احسان رکھتے کہ ہم نے یہ کردیا وہ کر دیا۔
المختصر دعا ہے رب جلیل سے کہ خود نمائی جیسی لعنت سے بچائے
آمین ثمہ آمین
==========================
روبینہ میر جموں کشمیر بھارت
خِرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فِکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
مقامِ گُفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوزِ نقش ہے اور میری کیمیا کیا ہے ( اقبال)
میرے معزز ومحترم اہلِ علم و ادب قارین و سامعین۔آج کا ہمارا زیرِ بحث Topic و موضوع ”خود نماٸی “ ہے
یاد رہے کہ یہ خود نماٸی موضوع ظاہری طور پر ایک انسان کے لۓ سیلف شو تو ہو سکتا ہے۔مگر یہ موضوع اپنے اندر وسیع تر اور گہرے اثرات رکھتا ہے جو انسانی قدروں کے لۓ نہ تو مفید ہے اور نہ ہی قابلِ رشک و قابلِ تقلید۔کیونکہ اس موضوع ”خودنماٸی“کی ظاہری و اندرونی ساخت ہی اس کی خود پسندی اور ظاہر پرستی کو ثابت کرتی ہے۔بعض اوقات ایک انسان اپنے قد اور اپنی حثیت سے بڑھ کر بیجا طور پر ظاہر پرستی کا مظاہرہ کرتا ہے جو اصل میں خود نماٸی کی ایک جھوٹی شان اور جھوٹی شہرت کے سِوا اور کُچھ نہیں ہوتا۔بقول شکیل بدایونی۔
اپنے سِوا کسی کو دادِ ہُنر نہ دی
انساں ہے جس کا نام بڑا خود پسند ہے
میں خود نماٸی کے اس موضوع کو یہاں سمیٹ کر آپ کی توجہ
حضرت فاطمہؓ کی زندگی اور آج کی ہم مُسلم خواتین کی طرزِ زندگی کی طرف لے جانا چاہتی ہوں۔بقول علامہ اقبال۔
عجب نہیں کہ خُدا تک تیری رساٸی ہو
تیری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام
==========================
خطبہ صدارے برائے پروگرام نمبر-195 بعنوان
خود نمائی
خطبۂ صدارت
بسم اللہ الر حمٰن الرحیم
ادارہ :عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری الیکٹرونک کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں رہ گیا۔بلکہ وہ اپنےوسائل کے حوالے سےاردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے سرگرمِ عمل دوسرے گروپوں ، فورمز اور بزموں کی سرگرمیوں کا محاسبہ کرتے ہوئے اور ان کی اردو نوازکارگزاریوں کو، مشترکہ پروگرامز منقعد کرتے ہوئے عالمِ اردو کے سامنے متعارف کراتا رہتا ہے۔
یہ ادارہ اپنے انعقادات کے 200 منازل طے کرنے کے قریب پہنچ چکا جو ایک قابل رشک رکارڈ کہا جا سکتا ہے۔ آج195 واں انعقاد اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ اس پروگرام کی صدارت مجھ جیسے نا اہل کو سونپی گئی ۔ میں سمجھنے سے قاصر اور حیران ہوں میں میری کس خوبی کے سبب مجھے اس عزّت سے نوازا گیا۔ میں بھی اس ادارے سے تقریباً تین سال سے وابستہ ہوں اور مجھے اچھی طرح احساس ہے یہاں کافی پڑھنے لکھنے والے ، ہر دم کتب کے ساتھ اپنا بیشتر وقت گزارنے والے ممبراک اور اراکین انتظامیہ موجود ہیں۔ جو قدرے معیاری ادب تخلیق فرما رہے ہیں اور ادارے کو خوب سے خوب تر کی جانب لے جانے کے لئے مسلسل سعئ جمیل فرماتے رہتے ہیں۔ ایسے اہلِ اہل کے درمیاں میں کاروباری شخص اچھّا ادب پوسٹ نہیں کر سکا۔ اسی لئے کبھی کچھ پوسٹ کیا تو اس کی پزیرائی نہیں ہوئی ۔ مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہے اس لئے پزیرائی نہ ہونے پر میں ملول بھی نہیں ہوا۔
اس کے باوجود ادارے میں مجھے بہت عزّت دی۔ مجھے ادارے کا نائب چیئر مین بنا دیا گیا مگر میں اس کا اہل نہیں تھا۔ لہٰذا جلد ہی جوا شانے سے اتار کر نکل بھاگا۔
ادارے کی مختلف پروگرام منعقد کرنے والے سر گرمِ عمل اہلِ علم سے میں یہ التماس بھی کرنا چاہوں گا ادارے کے کسی رکن سے اگر کوئی خدمت لینی مقصود ہو تو اس سے پہلے اس کی اجازت بھی لے لی تائے۔ تاکہ وہ کسی خلفشار کے بغیر ان باوقار پروگرام میں بھر پور توجّہ کے ساتھ شریکِ محفل ہونے کے لئے آن لائن موجود رہنے کا انتظام پہلے سے کر کے رکھے۔ اپنی دوسری مٖصروفیوں سے با آسانی وقت نکال کر ادارے کے ساتھ سر گرمِ عمل رہے۔
میں اس گراں قدر انعقاد کے لئے اس میں شمولت فرمانے والے آن لائن موجود رہنے والے ۔ اور اپنے فرائضِ منصبی بحسن و خوبی انجام دینے والے انتظامیہ کےجملہ راکین حضرات اورہر پرستارِ اردو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ ایسے معیاری اور منفرد پروگرام اکثر منقعد کرتے رہتے ہیں۔اللہ رب العزّت صاحبِ لوح و قلم سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ کے ہمیشہ معیاری اور بلند پایہ ادب تخلیق کرنے صلاحیتوں سے نوازتا رہے جو دین دنیا اور آخرت تک آپ کے لئے رحمت و برکات کا سبب بنیں اور دنیا کے لوگوں کی فلاح و بہبودی کا بھی باعث ہوں۔آمین
السلام
امین جس پوری
تاریخ۔ 21 فرورہ 2019 ء
==========================
ڈیئر جھبرو۔۔نثری کاوشیں کیسی لگیں ؟۔۔یار تم تو انگشت بدنداں ہوں گے ،ذرا دھیرے سے ۔۔حیرت کے مارے دانتوں تلے انگلیاں نہ کٹ جائیں ۔ادارے کے اراکین ۔۔کیا نثر ،کیا نظم ،کیا نظامت ۔۔ہر فن میں تاک۔کیوں صاحب رشک آرہا ہے نا ؟۔۔رشک کرو،حسد نہ کرو۔ہاں ! ایک بات بتانا ہی بھول گیا ۔۔۔وہ بتائے دیتا ہوں تاکہ سند رہے ۔دھیان سے سنو۔۔میں جانتا ہوں اکثر بے دھیانی میں تم آم کو املی سنتے ہو اور ہمارے آم کی مٹھاس کھٹائی میں پڑ جاتی ہے ۔۔خیر ۔
پروگرام کا آئیڈیا پیش کیا تھا وسیم ہاشمی صاحب نے ۔۔آرگنائزر تھے احمد منیب صاحب ،صدر نشین ،امین جس پوری صاحب ،مہمان خصوصی ۔ضیا شادانی صاحب وڈاکٹر مینا نقوی صاحبہ ۔۔مہمان اعزازی ۔۔اشرف علی اشرف صاحب و اخلاءالحسن صاحب ۔۔۔اور پیارے جھبرو۔۔اس پروگرام کی جان، احمر جان صاحب کی نظامت تھی جس نے ہر کسی کا دل موہ لیا ۔۔ایسی نظامت تم نے کہیں دیکھی ہو تو کہو؟۔۔مجھے معلوم ہے تمہارا جواب نفی میں ہی ہو گا ۔ان سب سے بڑھ کر عزت مآب توصیف ترنل صاحب کی سرپرستی ۔۔جو ہرپروگرام کو چار چاند لگاتی ہے ۔۔
اب تم پوچھوگے پروگرام کی تاریخ اور وقت ؟۔۔میں جانتا ہوں یہ سوال تمہارے ذہن میں کلبلا رہا ہو گا ۔اور تم میرا احترام کرتے ہوئے پوچھنے سے کترا رہے ہوں گے ۔۔۔پیارے ، اب ایسا بھی کیا احترام کہ ہم اپنے اوقات ہی بھول جائیں !!۔۔تو سنو۔پروگرام 23 فروری 2019 کو شام 7/- 7/30 بجے صابر جاذب صاحب کے حمدیہ کلام سے شروع ہوا ۔بعدہ محمد زبیر صاحب نے نعت پاک کا نذرانہ پیش کیا ۔۔پھر مسلسل قلمکاروں کی تخلیقات ۔۔۔اخیر میں امین جس پوری صاحب کا معرکتہ الآراء خطبۂ صدارت ۔پروگرام میں ناقد کی حیثیت سے ضیاء شادانی نے بے لاگ تبصرے کر تنقید کا حق ادا کر دیا ۔
بس جھبرو۔۔ہم سے اور نہ لکھواؤ۔۔احوالِ واقعی تمام تر قلمبند کردیے ۔۔قلم کی روشنائی منجمد ہونے کو ہے ۔۔۔توصیف ترنل صاحب اور ٹیم دی بیسٹ کو ایک اور کامیاب پروگرام کی مبارکباد دے کر اجازت چاہتا ہوں ۔۔
خدا حافظ ۔
خیر اندیش ۔۔۔۔تمہارا شیرو
ڈاکٹر ارشاد خان بھارت