رپورٹ : صابر جاذب لیہ پاکستان
جنرل سیکریٹری ادارہ
ادارہ ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
کی جانب سے پیش کرتے ہیں
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 182
بعنوان : درصنعت واسع الشفتین
وقت کا دھارا جس برق رفتاری سے بدل رہا ہے اور آئے دن جو نئے تقاضے پیدا ہو رہے ہیں ان کے ساتھ ساتھ چلنا ہر شاعر کے لیے انتہائی مشکل کام ہے۔ انہی وقتی تقاضوں کی پوری پوری ترجمانی کرنے کے لئے ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کا قیام شعراء کرام کے لیے قلبی راحت کا باعث ہے کہ ان کے شہ پارےاورافکار کی نشرواشاعت کے لیے بہترین ادارہ موجود ہے ۔جو لسانیات،رنگ و نسل اور علاقہ کی تفریق سے مبرا ہے ۔اس ادارے کا مقصد اردو ادب کی ترویج ہے ۔جس کے لیے ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری نت نئے پروگراموں کا اہتمام کرتا ہے ۔تاکہ شعراء کرام کی ذہنی آبیاری ہو سکے ۔
نئے دور کا عزم و استقلال بھی اسی ادارہ کا نمایاں پہلو ہے۔اس میں انفرادیت کےساتھ اجتماعیت کا پہلو بھی موجود ھے۔اس ادارے میں شامل ہر شاعر کہکشاں_ادب کا ایک درخشاں ستارہ ہے۔
فن دراصل نام ہی اس کا ہے کہ زندگی کےحقائق تخیل کے سانچے میں ڈھل کر جلوہ پذیر ہوں جہاں فکری پہلو اور پیکر لوازمات پر پوری توجہ ہو اور کلام میں معنوی گہرائی اور اظہار خیال کا حسین امتزاج ہوں اپنے شخصی اثرات محسوسات اور واردات قلبی کو الفاظ کا خوبصورت پیکر عطا کرنا ایک شاعر کا کام ہے۔
اس ادارے کے چیئرمین توصیف ترنل صاحب کاجذبہ فروغ ادب بھی لائق صد تحسین ہے ۔جنہوں نے اردو ادب کے فروغ کے لیے اپنی مصروفیات کو بالاطاق رکھا ہوا ہے ۔یہ ادارہ ہمیشہ ہی نت نئے پروگراموں کا اہتمام کرتا ہے ۔یہ پروگرام بھی اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام تھا جو درصنعت واسع الشفتین میں تھا ۔اس صنعت میں ایسے اشعار کہے جاتے ہیں ۔جن میں ہونٹ آپس میں نہیں ملتے ۔یہ صنعت کافی عرصہ سے متروک ہوچکی تھی۔اس سوئی صنعت کو دوبارہ اجاگر کرنے کا سہرہ اسی ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کے سر ہے۔
یہ اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام جسب دستور ہفتہ کی شب یکم دسمبر 2018 کو پاکستانی وقت کے مطابق شام7 بجے اور ہندوستانی وقت کے مطابق شام30۔7 بجے منعقد ہوا ۔اس پروگرام کی صدارت ہندوستان سے تعلق رکھنے والی بہترین اور مشہور و معروف شاعرہ ڈاکٹر منیا نقوی صاحبہ مراد آباد نے کی ۔جبکہ مہمانان اعزاز میں پاکستان سے تعلق والے شاعر شرجیل قلزم صاحب جو عنقریب اسی صنعت واسع الشفتین میں ایک پورا مجموعہ لا رہے ہیں۔جو دبستان ادب میں ایک حسیں اضافہ ہوگا ۔اس کے ساتھ مہمان خصوصی ۔پاکستان کی نامور شخصیت اخلاد الحسن اخلاد جھنگ تھے۔جبکہ ناقدین میں مسعود حساس صاحب کویت اور۔جناب محترم شہزاد نیر صاحب پاکستان شامل تھے۔جبکہ مبصرین میں مختیار تلہری صاحب بھارت اورشہیر تہامی صاحب پاکستان شامل تھے
جن کی ناقدانہ رائے نے بہت کچھ سیکھنے کا موقع دیا ۔
اس خوب صورت اور منفرد پروگرام کی نظامت کے فرائض ہندوستان کی ہر دلعزیز شخصیت ۔خوبصورت کلام و آواز کی مالکہ صبیحہ صدف انڈیا نے دیے۔جن کی نظامت نے پروگرام کے حسن کو دوبالا کردیا ۔
اس پروگرام کا آغاز حمد باری تعالی سے ہوا ۔جس کی سعادت پاکستان کے شاعر ظہیر احمد ضیاء آزاد کشمیر نے حاصل کی ۔حمد کے بعد نعت مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے جناب نصیر حشمت گرواں چینوٹ پاکستان کو دعوت دی گئی جس سے ماحول میں روحانی کیفیت پیدا ہوگئی ۔
اس کے بعد تمام شعراء کرام نے اپنی اپنی باری پر اپنے خوب صورت کلام پیش کیے ۔جو نہ صرف صنعت واسع الشفتین کو پورا کرتے تھے بلکہ مختلف موضوعات کو بھی اجاگر کیا ہوا تھا ۔
اس پروگرام کے درمیان میں ایک اہم اعلان اس ادارے کے چیئرمین توصیف ترنل کی طرف سے کیا گیا کہ جناب صابر جاذب لیہ پاکستان(راقم الحروف ) کو ان کی محنت و کارکردگی کی بنا پر اس ادارے کا جنرل سیکریٹری نامزد کیا جاتا ہے ۔تمام شرکاء کرام نے جناب صابر جاذب لیہ پاکستان کو باقاعدہ مبارکباد دی۔
اس پروگرام جن شعراء کرام نے اپنا اپنا کلام پیش ان کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے ۔
حمدِ باری تعالیٰ
اے بادشاہِ عالَم.. عالی مقام تیرا
ہر شے پہ چل رہا ہے حکمِ دوام تیرا
ہر سُو جہاں میں یارب بکھری ہے تیری خوشبو
روشن ہیں دل بھی جس سے مولا ہے نام تیرا
میری جلوتیں ہیں یارب آباد تیرے دم سے
میری خلوتوں کا ساتھی جگمگ کلام تیرا
ظہیر احمد ضیاء بھمبر آزاد کشمیر
==========================
دل کو در ِ آقا پہ جھکائیں تو عجب کیا
طیبہ کو تصور میں جو لائیں تو عجب کیا
یہ رونقِ عالم ہے فقط آپ ﷺ کے دم سے
قربان جو سب آپﷺ کےجائیں تو عجب کیا
یہ ان کا کرم ہے کہ میں محفوظ ہوں اب تک
دکھ درد مری سمت نہ آئیں تو عجب کیا
نصیر حشمت گرواہ چنیوٹ پاکستان
==========================
دل کی دنیا سنوار دیتی ھیں
اس کی آنکھیں قرار دیتی ھیں
یہ ھوائیں حسیں کے سندیسے،
نقد دیتی، ادھار دیتی ھیں
اس کی سکھیاں اسی سے جل جل کے،
اس کو دل سے اتار دیتی ھیں
اطہر حفیظ فراز
==========================
وہ جس کی دید کو ترسے ہے دنیا
ہوا اس سے سکھی سنسار سا ہے
تجھے روشنی سے نکھار دیں سو چراغ خوں سے جلا دیے
وہی زندگی جو تری ہوئی، تجھے جانِ جاں نہ زوال ہو
دور دل سے ہو کدورت نفرت
کاش انسان ہو شفقت الفت
عامر حسنی ملائیشیا
=========================
یوار کہیں حدت عارض سے نہ جل جائے
کیوں ٹھہرے ہو دیوار سے یوں کان لگا کر
سر کٹتے رہے تن سے تو قاتل کا تھا اصرار
سر لاکھ نظر آئے تو کہنے لگا اور
صابر جاذب لیہ پاکستان
==========================
اجل کی سرحدِ راسِخ سے تُو گزرا کرے یعنی
حیاتِ عارضی کے سحر سے نکلا کرے یعنی
سکوتِ عکسِ حیرت کی جسے تشریح ہو درکار
نگاہِ حسرت آگیں سے تجھے دیکھا کرے یعنی
کوئی سیلِ حوادث کی صدائے تلخ ہی سُن لے
ورائے فکر طوفاں سے نہ کترایا کرے یعنی
غلام مصطفیٰ دائم اعوان
==========================
دل کے داغ دکھانے والے
نینوں کی گہرائی کیا تھی
ٹھوکر تو ٹھوکر ہے صاحب
اِس نے کھائی اُس نے کھائی
نوائے دشتِ جنون ہوں نا
خرد کا جس کو نہیں ہے یارا
احمدمنیب
==========================
تُو اگرلؤٹ کر نہیں آیا
زندگی کا سکون کیا ہو گا۔
یہ دور ہر اک دور سے الگ نکلا۔
یقین آتا نہیں ہے کہ سانس چلتی ہے۔
اشک رکتے نہیں ہیں آنکھوں سے۔
روگ ایسا لگا لیا دل نے۔
قیصرعمران مگسی ملتان پاکستان
==========================
رُخِ جاناں سہاروں کی ضرورت ہے
کہ روشن استخاروں کی ضرورت ہے
اکیلا چرخِ تنہائی سجاؤں کیا
ستارہ ہوں ستاروں کی ضرورت ہے
حخِرد کے دائرے لاؤ نہ شیداّ
جنوں کو ریگزاروں کی ضرورت ہے
علی شیداّ کشمیر
==========================
آج کی رات گزر جانے دے
تیرے کوچے سےچلےجائینگے
دردِدل کی کوئی دوا کردے
کل سے تجھکو نظر نہ آئیں گے
شاعری روگ ہے گھنا آفت
رات کٹتی ہے جاگ کر ہر دن
جعفر بڑھانوی بھارت
==========================
چھوڑ دیتی ہے نَفَس روح کا شانہ جاناں
اتنا آساں تو نہیں جان سے جانا جاناں
اک تری چاہ فقط زیست کا حاصل ہے کہاں
اور سے اور ہے اس دل کا فسانہ جاناں
اک تری آس ہے جینے کی وجہ جانِ صفیؔ
ورنہ کیا جان ہے ؟ کیا جان سے جانا جاناں؟
صفیؔ ربانی
==========================
کہِیں کیا عشقیہ ہوگا کسی انجان کا چرچا
جہاں ٹھہرے وہیں دیکھا دلِ نادان کا چرچا
صحرا کو چلے ہو تو کاہے کا ڈر ہے
یہ ریت کا اُڑنا کوئی یلغار نہیں ہے
رقص کرنے لگا گلستاں کا وجود
کیا وہ نکلے ہیں سیر کی خاطر؟
علی اکبر پاکستان
==========================
سوتا نہیں لحظہ وہ سدا دیکھ رہا ہے
بندے کی تو ہر ایک ادا دیکھ رہا ہے
اخلاد گناہوں کی خواہش نہ ذرا ہوتی
ہوتا جو یقیں پختہ خدا دیکھ رہا ہے
کیا کروں شخص کوئی شناسا نہیں
تجھکو آیا کہاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
اخلادالحسن اخلاد جھنگ پنجاب پاکستان
==========================
لوٹے نہیں ہنوز وہ آنکھیں ترس گئیں
یادوں سے خدوخال کے نقشے اتر گۓ
یہ کافی، قصیدہ یہ شعروقطعہ
ہے دراصل یہ خاندان_غزل
ضرور ہاتھ ہے تقدیر کا وگرنہ کہاں
یہ دست_ہجر ترے زائچوں سے روشن ہے
سجیل قلزم، پاکستان
==========================
نرالا سا لگتا ہے دلدار کا رخ
ہواؤں میں جیسے ہو اشجار کا رخ
دل جنگل احساس ہے صحرا
رنگ سے عاری ہر اک چہرا
عشق کا دکھ بھی کیسا دکھ ہے
دل کے اندر گھاؤ ہے گہرا..
یہ دھرتی تری ، تیری ہی یہ کاہکشاں ہے
لگتا ہے تو ہر سو ہے یہاں اور وہاں ہے
ڈاکٹر مینا نقوی مرادابادبھارت
==========================
مبصر شہیر تہامی پاکستان
عامر حسنی ملائیشیا
روایت سے جڑی ایک اچھی کاوش
صابر جاذب لیہ پاکستان
جدید اسلوب میں بہترین اشعار کہنے پر ہدیہءِ تہنیت پیش کرتا ہوں جو شعر جتنی بار بھی پڑھا جائے لطف بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، فن پر دسترس سے ایک پختہ کار شاعر کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے
مصطفی دائم صاحب
انتہائی جاندار بیانیہ، مفاہیم کی پرتیں الٹتے پلٹتے مضامین، خیال آفرینی و کیف آوری سے سرشار، مرصع بنت لائقِ صد تحسین ہے
شجیل قلزم فیصل آباد
شعریت پسندانہ فکر نے تجرید وتجسیم سے گزر کر ایک نئے بیانیے کو جنم دیا ہے، خوش کن تجربات پر دلی مبارک باد قبول کریں
احمد منیب صاحب
روایتی مضامین کو نئی جہتوں سے ہمکنار کرتا ہوا جدید بیانیہ وقت کی ضرورت ہے، ان اشعار می بڑی حد تک اس ضرورت کو پورا کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے، مفاہیم کی ترسیل میں ایک استادانہ رنگ اپنایا گیا ہے، مبارکباد پیش کرتا ہوں
قیصر عمران مگسی ملتان
تمام اشعار میں نئے انسلاکات کا اہتمام خوش آئند ہے، صحتِ کلام سے واضح ہے کہ جناب قیصر عمران چھوٹی بحر کے بڑے شاعر ہیں، ہدیہءِ تہنیت پیش کرتا ہوں
علی شیدا صاحب کشمیر
ایک مخصوص صنعت میں رہتے ہوئے روایتی مضامین کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کی اس بہترین کاوش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں
جعفر بڑھانوی صاحب
تمام اشعار عمدہ ہیں، بالخصوص آخری شعر کہ جس میں ایک نیا منظر تخلیق کرنے کی بہترین کوشش نظر آتی ہے، اس پر خصوصی دااد
ڈاکٹر منیا نقوی صاحبہ
شعریت پسندی میں رچی بسی فکر روایت کی تہوں سے نئے مفاہیم کو تلاشتی نظر آتی ہے، ہدیہ ءِ تہنیت قبول فرمائیں
اطہر حفیظ صاحب
بہت خوب، صنعت کو احسن انداز میں نبھانے کی کوشش کی گئی ہے، تاہم خیال کہیں کہیں دب سا گیا ہے
اخلاد الحسن اخلاد جھنگ
روایت پسندانہ اسلوب میں کہے گئے تمام اشعار عہدِ حاضر کے بیانیہ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی سعی میں نظر آتے ہیں، بہت دااد
علی اکبر ملتان
اچھی کاوش ہے، عام فہم زبان میں شعریت پسندی کا بھرم رکھنے کی اچھی کوشش
صفی ربانی مانسہرہ
جونہی مطلع پڑھا ہونٹوں سے بے ساختہ واہ نکل پڑی اور ایسی واہ کہ جس میں بڑی حد تک آہ کا دخل تھا، بھئی سبحان اللہ، باقی اشعار بھء عمدہ ہیں سلامتی کی دعائیں
==========================
خطبۂ صدارت
معزز حاضرین محفل
السلام علیکم !
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری گروپ روز اول سے ہی اردو کے فروغ کے لئے کوشاں ہے اور کامیای سے ترقیات کے مرحلے سر کر رہا ہے۔۔آج تک اس ادارے نے ایک سے بڑھ کر ایک منفرد پروگرام انجام دئے ییں ۔۔دیکھنے میں آتا ہے کہ آج کل واٹس ایپ پر گروپس کی بھرمار ہے۔۔اور سب اپنے حساب سے اردو پروگرام منعقد کر بھی رہے ہیں ۔۔لیکن
جو بات اس ادارے میں ہے وہ کسی میں بھی نہیں۔اس کے بانی و چئیر مین توصیف ترنل ایک ایسے فعال اور ذہین شخص کا نام ہے جسے اردو کے فروغ کے لئے منفرد کام کرنے کا جنون ہے ۔۔اور جو رات دن نئے نئے ذاویے سوچتے رہتے ہیں
اب ادارے کا پروگرام نمبر 182 جس کی صدارت کی ذمہ داری مجھ زرہء بے مقداد اور کم مایہ کے ناتواں شانوں پر رکھی گئی ہے۔۔اپنی نوعیت کا منفرد ترین پروگرام ہے۔۔
)در صنعت واسع الشفتین(…
اس صنعت میں شعر کے الفاظ میں ہونٹ ایک دوسرے سے نہیں ملتے
یہ انتہائی مشکل تر پروگرام ہے ۔۔لیکن تمام شعرا اکرام نے انتہائی پختگی اور خوب صورتی سے اپنے کلا۔ پیش کئے۔بہترین اور لاجواب نظامت کے لئے محترمہ صبیحہ صدف صاحبہ قابلِ مبارک باد ہیں ۔تمام شعرائے کرام کے بہترین کلام کے لئے بھی دل کی گہرائیوں سے مبارک باد
۔۔۔۔۔۔اور پروگررام کے بانی بے مثال شخصیت بے حد فعال محترم توصیف ترنل کو اس خوب صورت اور منفرد پروگرام کے لئے جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔۔۔خدا انہیں توفیقات سے نوازے ۔۔۔
مجھ حقیر کو منصبِ صدارت سے نوازے جانے پر بہت بہت شکریہ عنایت۔۔نوازش ۔۔۔۔!!!
ڈاکٹر مینا نقوی مرادابادبھارت
آخر پر چئیرمین توصیف ترنل صاحب اور شرکا مشاعرہ نے ایک دوسرے نے اس مشکل اور کامیاب ترین پروگرام پر ایک دوسرے کو مبارکباد دی ۔یوں یہ یونیق پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا