ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر ۱۸۳
رپورٹ: عامرؔحسنی ملائیشیا
پروگرام آئیڈیا: صابرجاذب لیہ پاکستان
بعنوان: درصنعت اعداد
اس صنعت میں غزل کے اشعار میں اعداد (ایک،دو،دس،بیس وغیرہ ) کا استعمال کیا جاتا ہے ۔مثلا
عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزومیں کٹ گئے دوانتظار میں
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری دورِ حاضر میں دنیا کا واحد ادارہ ہے جو اِس برقی ترقی یافتہ دَور میں شعراء، ادباء و مُصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسّانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے. ادارۂ ہٰذا میں تمام تر پروگرام برائے تنقید منعقد کئے جاتے ہیں.عالمی سطح پر کامیابی کے ساتھ ادبی تنقیدی پروگرام کا انعقاد یقیناً ادارۂ ہٰذا کی انفرادیت و مقبولیت نیز کامیابی کی ضمانت ہے۔
لہٰذا اس پروگرام کے لئے کہے گئے جملہ کلام کو برائے تنقید پیش کیا گیا اور اساتذہ نے اس پر بھرپور تنقید کی جس سے شعرا نے بھرپورفائدہ بھی اٹھایا۔ علاوہ ازیں احباب نے شعرا کو بہت داد و تحسین سے بھی نوازا۔ اس طرح سے یہ پروگرام بہت بڑھیا اورکامیاب رہا۔ الحمدللہ
یہ تمام کلام سوشل میڈیا پردنیا بھرمیں مشتہر بھی کیاگیا۔ جس کے لیے ادارہ ہٰذا آرگنائزر بانی وسرپرست ادارہ مکرم توصیف ترنل صاحب ہانگ کانگ کا شکرگزار ہے ۔
پروگرام کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ یہ پروگرام۔8 دسمبر 2018 بروز ہفتہ پاکستانی وقت۔شام 7بجے بھارت کے وقت کے مطابق شام7:30 بجے منعقد کیا گیا۔
صدارت محترم علی شیدا صاحب کشمیر نے کی۔
مہمانان خصوصی مکرم احمد منیب صاحب اور محترمہ غزالہ انجم صاحبہ پاکستان تھے۔
مہمانان اعزازی مکرم اصغر شمیم صاحب کولکاتابھارت اور محترم علمدارعدم صاحب جموں و کشمیرانڈیا تھے۔
ناقدین مکرم مختارتلہری صاحب بھارت اورمکرم مسعود حساس صاحب کویت تھے۔
نظامت محترمہ صبیحہ صدف صاحبہ بھارت نے بہت خوبصورت انداز میں کی جسے تمام شاملین نے بہت سراہا اور اب رپورٹ کے لیے خاکسار عامر حسنی ملائیشیا کو سعادت مل رہی ہے۔ الحمدللہ
==========================
حمدِ باری تعالیٰ اور نعت پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ حمد خاکسارعامرؔحسنی نے پیش کرنے کی سعادت پائی:
سدا حمد و ثنا لب پر جاری
خدا کے فضل و احساں ہم پہ بھاری
اور نعت پیش کرنے کی سعادت مکرم احمد منیب پاکستان کو نصیب ہوئی۔
وہ میرا ہجرتی دل میں بسا ہے
نہیں اب دور مکے اور مدینے
اس کے بعد تمام شعراکرام نے کلام پیش کیا جس کی ترتیب کچھ یوں رہی:
۱۔ صبیحہ صدف بھارت
اگر ہم چارقدم ساتھ ہی چلے ہوتے
تو زندگی میں ہماری نہ مسئلے ہوتے
۲۔ اخلاد الحسن اخلاد جھنگ پاکستان
لب پہ تالے ہیں پانچ سالوں سے
منہ کے چھالے کسے دکھائیں ہم
۳۔ صابرجاذب لیہ پاکستان
اک بے قرار آنکھ کی بے چین جھیل میں
میں غرق ہوگیا ہوں کسی نین جھیل میں
۴۔ عامرؔحسنی ملائیشیا
دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں
لاکھوں ہیں مرے اہل وطن ظلم کے نیچے
۵۔ اطہر حفیظ فراز فیصل آباد پاکستان
کبھی جوچارآنے بھی ملے، ہم نے بچاڈالے
وہ غلے میں چھپا اپنا خزانہ یاد آتا ہے
۶۔ صفیؔ ربانی مانسہرہ پاکستان
اک خواب کی سوچی گئی تعبیر مسلسل
لکھی تھی مگر بخت میں تعزیر مسلسل
۷۔ ڈاکٹرشاہد رحمان فیصل آباد پاکستان
یوں تو چلتا ہوں میں پہروں ہی اکیلا شاہد
دو قدم ساتھ وہ چلتا ہے غزل ہوتی ہے
۸۔ ڈاکٹر مینا نقوی مردآباد بھارت
ترے خیال کا منظرجواں ہے چاروں طرف
زمیں پہ چھایا ہوا آسماں ہے چاروں طرف
۹۔ جعفربڑھانوی بھارت
ایک انسان آ کے دنیا میں
دو فرشتوں کے درمیاں کیوں ہے
۱۰۔ جابرایازسہارنپوری بھارت
بنائے جارہا ہوں ایک لفظوں کا جہاں میں بھی
چلے آؤ کسی مضمون کے رستے غزل بن کر
۱۱۔ ماورا سید کراچی پاکستان
تمام عمر کا اتنا ہی گوشوارہ ہوا
بس اک زمین مری آسماں تمہارا ہوا
۱۲۔ ششی مہرہ پنجاب بھارت
لاکھوں چاہے نام ہوں چاہے روپ انیک
خالق سب کا ایک ہے سب کا مالک ایک
۱۳۔ علمدار عدم جموں کشمیربھارت
اگر چہرے کوئی دوچار ہوتے
کہانی میں نئے کردار ہوتے
۱۴۔ اصغر شمیم کولکاتا بھارت
اس نے دیکھا تھا ایک دن ہنس کر
میرے پیچھے پڑا زمانہ ہے
۱۵۔ غزالہ انجم پاکستان
سرعت سے بیت جاتے ہیں ہرروزصبح وشام
دو چاردن کی بات ہے عمر رواں۔۔۔۔ تمام
۱۶۔ احمد منیب پاکستان
ہم پہ کھل جائے گا اک روز جگر کا رونا
گھاؤ کو روح سے دیکھیں گے اکیلا کرکے
۱۷۔ مختار تلہری بریلی اترپردیش بھارت
مدت ہوئی ہے سوئے تھے اک پیڑ کے تلے
مختار اس کے سائے کا اب تک خمار ہے
۱۸۔ علی شیدا صاحب کاشمیر بھارت
ہم ساتھ اٹھا لائے سبھی سات سمندر
تم پیاس کہانی کے اداکار میں رکھ دو
=============
ناقدین میں مکرم مختارتلہری صاحب بھارت اور مکرم مسعود حساس صاحب کویت نے بھی گاہے گاہے شعراء کے کلام پر تبصرہ فرمایا جو پیش ہے:
محترمہ صبیحہ صدف صاحبہ کے کلام پر مکرم مختار تلہری صاحب نے فرمایا:
سیرت میں منفرد تھا مکمل صفات تھا وہ اپنی ایک ذات میں کل کائنات تھا بہت خوب واہ سبحان اللہ یہ دو آنکھیں تمہاری جامِ جم کا کام کرتی ہیں کہ ان میں جھانک کر ہم ساری دنیا دیکھ لیتے ہیں بہت خوب زندہ باد مرے ساتھ صرف تم تھے کوئ تیسرا نہیں تھا تمہیں کہ سکوں میں دل کی مگر حوصلہ نہیں تھا شعر اچھا ہے لیکن حوصلہ کی ح گر گئی ہے اس وجہ سے خارج از بحر کہا جائے گا اگر… مگر… کی جگہ ..مرا.. کہہ دیا جاتا تب بحر میں ہوتا اگر ہم چار قدم ساتھ ہی چلے ہوتے تو زندگی میں ہماری نہ مسئلے ہوتے اس کا مصرع اولٰی خارج از بحر ہے.. ہم… اس جگہ نہیں آ سکتا جہاں پر استعمال کیا گیا نیز تعقید لفظی بھی ہے زبان یہ ہونا چاہئے اگر چار قدم ہی ساتھ چلے ہوتے وہ پانچ وقت نمازوں کے سلسلے میں رہے اور ہم نے دل کو ہی کعبہ بنا لیا اپنا اس کے بھی ثانی مصرع میں.. ہم.. کی ھ گر رہی ہے دھنک کے سات رنگوں سی چھٹا ہے آج اس دل پر کسی نے آج پھر مجھکو کیا ہے یاد برسوں میں بہت خوب ہزار کانٹوں میں رہ کر جو گل کھلا ہوگا وہی تو فصلِ بہاراں کا دیوتا ہوگا فصل بہاراں کا دیوتا سمجھ سے باہر ہے معذرت…. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکرم صفیؔ ربانی مانسہرہ پاکستان کے کلام پر تبصرہ کچھ اس طرح تھا:
اک خواب کی سوچی گئی تعبیر مُسلسل لکھّی تھی مگر بخت میں تعزیر مُسلسل خوب دو چار ہی ہوتے تو کوئی بات نہیں تھی غم، زیست کے صفحات پہ تحریر مُسلسل میرے خیال سے مصرع اولٰی ..ھے.. کا طالب ہے یوں ہوتا تو شاید بہتر ہوتا غم. زیست کے صفحے پہ ہیں تحریر مسلسل صد شکر کہ اِس مرض سے محفوظ رہا ہوں…..لفظ مرض فاع کے وزن میں استعمال ہوا ہے جبکہ فعو کا وزن ہے م رض یاروں میں رہی خواہشِ تشہیر مُسلسل سو بات کی اک بات کہ چاہت ہے سبھی کچھ ہوتی رہی گو عشق کی تفسیر مُسلسل عمدہ شعر ہر رات مری آنکھ کے فانوس جلے ہیں دو دن کی محبت سے ہوں دلگیر مُسلسل واہ ہیں لاکھ زمانے میں محبت کے خریدار کیوں جانے لٹی عشق کی جاگیر مُسلسل کوئی خاص شعر نہیں اک پل کو بھی آرام میسر ہو تو کیسے؟ جلتا ہے ابھی آگ میں کشمیر مُسلسل دو چار تھپیڑوں نے ہی دیواریں گرا دی جس قصر کی ہوتی رہی تعمیر مُسلسل بہت خوب واہ اک میں ہوں کہ کرتا ہوں سدا تیرا تعاقب اک تو ہے کہ ہے مائلِ تاخیر مُسلسل خوب یوں تو ہیں سخندان یہاں لاکھوں ، ہزاروں لاکھوں کے بعد ہزاروں کہنے کی ضرورت نہیں تھی اعصاب پہ حاوی ہے صفیؔ ! میر مُسلسل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکرم اصغر شمیم، کولکاتا،انڈیا کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: ان ہواؤں کو آزمانہ ہے اک چراغِ وفا جلانا ہے بہت خوب چار دن کی یہ زندگی اپنی ایک دن ہم کو لوٹ جانا ہے یہ کہ جگہ ہے ہوتا تو بہتر ہوتا جو بھی غم ہے اسے بھلا کر کے دو گھڑی ہم کو مسکرانا ہے بات ..بھلا کر ..تک پوری ہو رہی ہے .. کے حشو ہے.. کے.. کی جگہ.. اب.. مناسب ہے اس نے دیکھا تھا ایک دن ہنس کر میرے پیچھے پڑا زمانہ ہے ردیف کمزور ہے زندگی کی لڑائی میں اصغر ایک دن مجھکو ہار جانا ہے سچا اور اچھا شعر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علاوہ ازیں مکرم مسعود حساس صاحب نے جو تبصرہ کیا وہ وائس کلپ کی شکل میں درج ذیل لنک پر سنا جاسکتا ہے:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2288548141390679&id=100007065459862
=============================
آخر پر صدر مجلس نے فرمایا: مجھے انتہائی مسرت ہورہی ہے کہ اردو کی خدمت میں رواں دواں ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری نے آج ایک اور منفرد پروگرام کامیابی کے ساتھ منعقد کیا.جسمیں حسب سابقہ مختلف ممالک کے مقتدر شعرا نے اپنے مخصوص انداز میں صنعت اعداد میں طبع آزمائی کی میں ان تمام معزز شعرا کو سلام پیش کرتا ہوں پروگرام کے مہمانان خصوصی و اعزازی کا بے حد شکر گزار ہوں جنکی حاضری باعث افتخار ہے سبھی اساتذہ کو جو بحثیت ناقدین پروگرام کی زینت بنے رہے ' کا بے حد شکر گزار ہوں۔ انکی آراء نقدو نظر کی خوشبو بکھیرتی رہی۔ محترمہ صبیحہ صدف نے جس خوبصورتی سے مشاعرے کی نظامت کی وہ قابل تحسین ہے پروگرام کے بانی و سرپرست محترم ترنل صاحب کی اردو زبان و ادب کے تئیں ان تھک کوششیں ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔ انہیں میں خصوصی مبارک باد پیش کرتا ہوں میں تمام معزز اراکین ادارہ کا انتہائی ممنون ہوں جنہوں نے مجھ ناچیز کو مسند صدارت پہ بٹھا کر مری عزت افزائی فرمائی اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ اللہ حافظ والسلام علی شیدا کشمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمین یا رب العالمین