عالمی ادارہ بیسٹ اردو پویئٹری کی جانب سے 22-09-2018 بروز ہفتہ شام سات بجے ایک آن لائن منفرد 172 مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان اور بھارت اور پوری دنیا سے اردو کے بولنے اور چاہنے والے قدیم اور جدید شعراء نے اور اردو سے دلچسپی رکھنے والے شائقین نے بھرپور حصہ لیا اردو کی اس محفل میں مرد شاعروں کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین شاعرہ بھی موجود تھیں ۔ نظامت محترمہ نیر رانی شفق کی اور اپنا کلام بھی پیش کیا لپیٹے ہاتھ میں دھاگا گزرارا خوف میں بچپن
جو چھوٹا ہاتھ سے دھاگا غبارے پھر نہیں ملتے،محترم احمر جان رحیم یار خان تیرے شہرِ طَرب کی رونقوں میں
طبیعت اور بھی گھبرا رھی ھےمحترمہ ڈاکٹر صابرہ شاہین پاکستان نے کی نے انجام دیں۔جنہوں نے اپنا کلام بھی پیش کیا ،مخاطب جس طرح ہو گا زمانہ
اسی لہجے میں اس سے بات ہوگی،
محفل کے روح رواں پروگرام آرگنائزرخالد سروحی گکھڑ سٹی گوجرانوالہ سے تھے جنہوں نے اسٹیج پر تمام مہمانوں کا پر تپاک استقبال کیا اور سب کو اپنی اپنی حاضر یقینی بنانے پر شکریہ ادا کیا۔ پروگرام کی صدارت محترم ابنِ عظیم فاطمی کراچی نے کی اور مہمانانِ خصوصی میں محترم وسیم احسن ٹھاکرگنج جن کا تعلق بہار بھارت سے ہے اور محترم فانی ایاز احمد جن کا تعلق کشمیر سے تھا اور مہمانان اعزازی محترم عقیل احمد رضی اور محترم مصطفی دلکش صاحب جو ممبئی بھارت سے تھے پروگرام چونکہ تنقیدی تھا اس لئے سینئر شعراء ناقدین میں شامل محترم شفاعت فہیم بھارت سے ہیں آنکھوں کو دریا ، لب کو صحرا لکّھیں
ممکن ہو پیاس کی کچھ تفسیر کریں
محترم شہزاد نیّر پاکستان سے محترم امین اڈیرائی پاکستان سے محترم شمس الحق لکھنؤ ہندوستان سے تھے ان سب نے مل کر محفل کو چار چاند لگا دیے تمام شعرائے کرام اپنی اپنی جگہ براجمان ہوئے تو محفل کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا تو حمد باری تعالی
نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی جو بھارت سے تھے اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، وسیم احسنؔ ٹھاکرگنج جو کہ بہار، بھارت سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے پیش کی تو اس کے ساتھ سبھی شعراء نے اپنا اپنا کلام تنقید کے لئے پیش کیا جہاں ناقدین نے کھل کر تنقید کی وہی اچھے کلام اور دلکش و خوبصورت کلام کو سراہا بھی اور بھرپور انداز میں داد و تحسین بھی دی نظامت میں پڑھے جانے والے شعروں پر نا ظرین جھومتے رہے اور تمام شعراء کو داد بھی دیتے رہے تمام شعرائے کرام کے کلام کا نمونہ پیش کرتے ہوئے احباب سے معذرت خواہ ہوں کہ سب شعراء کے اشعار بہت خوبصورت تھے جن سے کوشش کی گئی کہ دل کو لبانے والے اشعار رپورٹ میں شامل کریں نمونہ کلام تمام شعراء
حمد باری تعالی
یا رَب تری تَـجلّی کـوئی نہ دیکھ پایا
بَس تجھکو دیکھ پایا خَـیرالانام تیرا
نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی بھارت
نعت رسول
آقا سے دل کا حال سنانا نصیب ہو
اے کاش مجھکو روضے پہ جانا نصیب ہو
وسیم احسنؔ ٹھاکرگنج بہار، بھارت
یوں جھاڑتا ہوں گرد مسلسل میں بدن سے
لاتا ہوں یہ مٹی کا ہنر تیری زمیں تک
محترم علی شیداّ صاحب کشمیر
آنکھیں غزال، ہونٹ کنول، رخ گلاب سا
مکھڑا حسین دل میں سمایا تھا اور بس
محترم عامر حسنی ملائیشیا
جب تک ماں کا سایہ سر پر رہنا ہے
سورج کو اوقات کے اندر رہنا ہے
محترم مشرف حسین محضر علی گڑھ انڈیا
پتھروں کی بارشوں میں سر کھلا رکھتا ہوں میں
اس طرح اسلاف سے کچھ سلسلہ رکھتا ہوں میں
محترم ساجد سرمدی جموں کشمیر بھارت
میں تمناؤں کی تدفین میں لگ جاتی ہوں
جب گھڑی بھر میں بدل جاتا ہے لحجہ تیرا
محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی مرادابادبھارت
چاند جگتا ہے تو جاگنے دیجئے
آپ سو جائیے بات بڑھ جائے گی
محترم خالد سروحی گکھڑ سٹی گوجرانوالہ
سونے جیسے لمحے جھونکے ہم نے وقت کی بھٹی میں
کندُن بنتے بنتے اب تو چاندی اُتری بالوں میں
محترم عاطف جاوید عاطف لاہور پاکستان
روح نے جسم کہاں چھوڑ دیا
اک کرائے کا مکاں چھوڑ دیا
محترم صابر جاذب لیہ پاکستان
ساری دنیا کو جیتنے والا
اپنے بچوں سے ہار جاتا ہے
محترم اصغر شمیم،کولکاتا،بھارت
جو تراشی تھی خیالوں میں وہ مورت نکلے
تجھ سے ملنے کی خدارا کوئی صورت نکلے
محترمہ نفیسہ حیا احمدنگر مہاراشٹر بھارت
دل کے شیشے پہ جونہی عکس تمہارا جائے،
جیسے عیسی کوئی سولی سے گزارا جائے
محترم اطہر حفیظ فراز فیصل آباد پاکستان
کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں
ٹھہرے ہوئے اگرچہ ہم اپنے ہی گھر میں ہیں
محترم ڈاکٹر شاھد رحمان فیصل آباد
انقلابی سوچ شاعر کا قلم اپنی جگہ
آپ کی انگڑائیاں زلفوں کا خم اپنی جگہ
محترم اشرف علی اشرف پاکستان
قائم نبی کے دین کو رکھنے کے واسطے
مطلوب کبریا تھی شہادت حسین کی
محترم احمد رضا مہدؔی رامپوری بھارت
ملّا شیوخ تو سبھی مسلک پرست ہیں
کس کو کروں امام مجھے سو چنے تو دے
محترم جمیل ارشد خان کھام گانوی ناگپور انڈیا
خیال جاتا ہے ضد کرکے گھومنے جب بھی
اسے گلی سے میں دلبر کی ڈھونڈ لاتا ہوں
محترم بی ایم خان معالے اچلپوری بھارت
زندگی روگِ محبت میں ہے کاٹی جس نے
اس کے نزدیک فقط لفظِ سزا کچھ بھی نہیں
محترم انوارؔ الحق قریشی پاکستان
سفر حیات کا بے حد محال ہوجاتا
میں تیرے ساتھ نہ چلتا نڈھال ہوجاتا
محترم مائل پالدھوی سورت گجرات بھارت
جس کو جانا ہے وہ چلا جائے
لو چراغوں کو میں بجھاتا ہوں
محترم امین اڈیرائی پاکستان
اب مجھ سے ان آنکھوں کی حفاظت نہیں ہوتی
اب مجھ سے ترے خواب سنبھالے نہیں جاتے
محترم شہزاد نیّر پاکستان
تبصرے
ڈاکٹر نبیل احمد نبیل
لاہور کلام پر تنقید و تبصرہ کرتے ہوئے کہا ،معاصر انڈیا میں جس طرح بڑے پیمانے پر انسانوں کو موب لنچنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔منافرت پھیلائی جا رہی ہے۔اقلیتوں سے ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔دلتوں کے ساتھ جس انداز سے غیرانسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔یہ وہ محسوسات ہیں جو غزل کے قالب میں تمام تر تخلیقیت کے ساتھ ڈھل کر سامنے آتے ہیں۔شاعر ایمائی طرزِ اظہار سے کام لیتے ہوئے اپنے مافی الضمیر کی آواز پر لبیک بھی کہتا ہے اور اپنے مافی الضمیر کا بھرپور طریقے سے اظہار بھی کرتا ہے مگر شاعر کا اظہار استعاراتی و علامتی ہونے کے ساتھ ساتھ شعریت سے بھرپور ہو تو وہ اپنے عہد کی معروضی تاریخ بھی بن جاتا ہے اور عہدِ آیندہ کی آنکھ کو سچائی کی بینائی بھی منتقل کرتا ہے۔ایسے ہی کمالات سے مشرف محضر صاحب کے اشعار مزین ہیں
،تخلیق کار کا اولیں فریضہ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے کلچر اور سماجی صورتِ حال کو تخلیقی پیرائے میں آئینہ کرے۔زیرِ نظر اشعار میں شاعر نے
معاصر سماجی اور انسانی صورتِ حال اور محسوسات کو نہایت عمدہ انداز سے آئینہ کیا ہے۔پرولتاری طبقے اور کمزور اقلیتوں کو ہمیشہ پسماندگی کا ہی شکار رکھا جاتا ہے۔جیسے بورژوا طبقہ استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے پرولتاری طبقے اور اقلیتوں کے ساتھ بعینیہ اکثریتی متعصب مقتدرہ کا بھی یہی ناروا سلوک اور رویہ کیوں ہوتا ہے۔اس ضمن میں صاف سی بات ہے کہ اس کی ساری منصوبہ بندی ہی کمزور اقلیتوں کے خلاف ہوتی ہے۔جس میں عمومی طور پر اکثریتی طبقے کو خوش رکھنے کے لیے یہ سب کیا جاتا ہے، معاصر زندگی کی صورتِ حال کو شعر کے قالب میں ہنرمندی سے ڈھالنا شاعر کا منصبِ اولیں ہے۔مذکورہ اشعار میں شاعر نے تمام تر شعریت اور تخلیقیت کے ساتھ اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔
زیادہ تر مطلع ہاے غزل پر انحصار کیا گیا ہے۔یہ مشاعروں کی عمدہ تیکنیک ہے۔
تمام اشعار ہی داد و تحسین کے مستحق ہیں۔اگر وقت نے مہلت دی تو مذکورہ اشعار پر کسی وقت تفصیل سے لکھیں گے۔
ڈاکٹر شاہد رحمان صاحب
کا کلام پڑھا۔اپنے ڈھنگ کے اچھے اشعار نکالتے ہیں جن پر کسی کی چھاپ نہیں ہے۔اُن کا شعر کہنے کا اپنا خالصتاً اپنا انداز ہے۔منفرد انداز۔
ڈاکٹر شفاعت فہیم صاحب نے تنقید کرتے ہوئے شعراء کے کلا م کو باریکی پرکھا اور ساتھ ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے اور بلاشبہ ماہرانہ تبصروں اور عمدہ ناقدانہ آرا سے نوازا اور کہا کہ جب تک ہم تراشتے ہی نہیں کوئی پھتر خدا نہیں ہوتا شعر میں کا شکار ہے اور بہتر ہو سکتا تھا اور کہا کہ شعراء ہی الفاظ کا سہی استعمال کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ ہر الفاظ جب جگہ پر فٹ بیٹھے گا تو ہی ایک خوبصورت شعر ہو گا اور ہم جب کو کو کی پڑھ لیا جائے تو ہمارا تبصرہ ہی درھم برھم ہو گیا مطلب وہ بہت خوش اسلوبی کے ساتھ تنقید کے ساتھ تعریف بھی کر رہے تھے
محفل بہت کامیابی سے اختتام پذیر ہوئی۔ تو آخر میں ادارے کے ایڈمن اور پروگرام کے آرگنائزر
خالد سروحی جن کا تعلق گکھڑ سٹی گوجرانوالہ پاکستان سے ہے انہوں نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ ہم سب مل کر اردو کو ایک خوبصورت مستقبل دے سکتے ہیں۔ ہمارا ادارہ ہراس شخص کیلئے ہےجو اردو سے محبت کرتا ہے مجھے اردو زبان اور اردو بولنے والوں پر فخر ہے اردو ہماری قومی اور مادری زبان ہے اردو کو فروغ دینے کے لئے ہمارے ادارے کے سبھی ممبران ہمہ تن دن رات محنت اور جی جان سے اپنی اپنی پوری لگن سے کام کر رہے ہیں اسی وجہ سے ادارے نے مقبولیت حاصل کی ہے ہمارے ادراے میں ۔ بڑے بڑے پروگراموں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی اردو نشستیں بھی سجائی جاتی ہیں جن میں ،بیت بازی اور طرحی مشاعروں کے ذریعہ نئی نسل میں اردو کا شوق پیدا کیا جا رہا ہے اور میں دعا گو ہوں کہ اللہ ہم سب کو کامیابی دے آمین انہوں نے کہا کہ میں تمام ججز اور پروگرام میں شریک سب حاضرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں ادارے اور انتظامیہ کو مبار باد پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنے قیمتی وقت میں سے اس پروگرام کے لئے وقت نکالا اور احباب کا کلام سنا اور داد و تحسین سےنوازتےرہےاور ادارے کی پوری ٹیم اور شعراء کا شکریہ ادا کیا اور خوبصورت دعا اور نئی امید کے ساتھ خدا حافظ کہا کہ اللہ ہمیں دوبارہ یوں ہی مل بیٹھنے کا موقع دے اور ہم ایسے پروگراموں کا انعقاد کرتے رہیں جن میں نئے اور پرانے شعراء کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے وہ ایسے تنقید پروگراموں میں شرکت کرتے رہیں گے اور اپنے کلام میں نکھار پیدا کرتے رہیں گے انشاءاللہ
شکریہ و اسلام