عالمی معیشت، ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں
چند روز پہلے ترکی امریکہ میں محفوظ کردہ اپنا " گولڈ ریزرو" اٹھا کے اپنے ملک لے گیا ہے۔ جو کل 29 ٹن تھا۔ اس سے پہلے جرمنی نے بھی ایسے ہی کیا تھا۔ امریکہ کی مضبوط معیشت کے سبب بہت سے ملک اپنا سونے کا سرکاری خزانہ وہاں محفوظ کراتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوئیٹزر لینڈ اور جرمنی میں بھی نسبتا" کمزور معیشتوں والے ملکوں کے قیمتی دھاتوں کے ریزرو محفوظ کرائے جاتے ہیں۔ اس حفاظت کے عوض خاصی رقم دینی پڑتی ہے۔ علاوہ ازیں جس ملک میں یہ سونا یا کوئی اور قیمتی دھات محفوظ ہو۔ اس کے عوض وہ ملک کچھ حد تک اپنے کرنسی نوٹ بھی چھاپ سکتا ہے۔ اس دھات کی قیمت کے برابر یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ۔
جہاں تک بات ہے دنیا کے ملکوں کی حکومتوں کے سرکاری خزانوں میں محفوظ سونے کی تو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ سونا امریکہ کے پاس ہے جس کا حجم 8130 ٹن ہے۔ اس کے بعد بالترتیب جرمنی کے پاس 3380 ٹن، اٹلی کے پاس 2450ٹن، فرانس کے پاس 2435 ٹن، روس کے پاس تقریبا" 1900 ٹن سونا محفوظ ہے۔ چین 1808 ٹن سرکاری سونے کے ذخائر کا حامل ہے۔ نیدر لینڈ اور ہندوستان کے پاس بھی سونے کے بڑے سرکاری محفوظ خزینے موجود ہیں۔
حکومتیں سونا اور دیگر قیمتی دھاتیں اس لیے جمع کرتی ہیں تاکہ کسی بھی وقت اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس محفوظ متاع ہو۔ سونے کو "غیر سیاسی دھات" کہا جاتا ہے جس کی قیمت پر کسی ملک کی کرنسی یا تیل اور دوسرے خام مال کی گھٹتی بڑھتی قیمتیں اثر انداز نہیں ہوتیں بلکہ اس کے برعکس سونے کی قیمت محتلف اشیاء کے دام مقرر کرنے پر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ جس ملک کے پاس جتنا زیادہ سونا ہوگا اس کی کرنسی اتنی ہی مستحکم ہوگی۔ بین الاقوامی اصول کے مطابق، محفوظ قیمتی دھاتوں اور ہیرے جواہر کی قیمت کے سات تا دس گنا قیمت کے کرنسی نوٹ چھاپے جا سکتے ہیں۔ اگر اس معین حد سے زیادہ چھاپے جائیں گے، جو چھاپے جاتے ہیں، تو وہ غیر مستحکم کرنسی کی علامت ہونگے جن کے سبب افراط زر کی شرح میں اضافہ ہو جائے گا۔ مہنگائی اور بیروزگاری جیسے بہت سے مسائل بڑھتے ہوئے افراط زر سے وابستہ ہوتے ہیں۔
ہر ملک اپنے ٹھوس وسائل کی مناسبت سے سرکاری "ٹریژری بانڈز" یا تمسکات جاری کر سکتا ہے جو دوسرے ملکوں کو بھی بیچے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے قرض لینے کے مترادف ہوتا ہے۔ ان بانڈز کے عوض متعلقہ ملک کو ایک خاص مدت کے بعد طے شدہ منافع یا سود بھی دینا ہوتا ہے۔
امریکہ کی " ٹریژری " میں محفوظ ان تمسکات کی مالیت 3ء6 ٹریلین ڈالر ہے جو امریکہ سے غیر ممالک نے خریدے ہوئے ہیں ( یاد رہے ایک ٹریلین ڈالر 1000 بلین ڈالر کے مساوی ہوتے ہیں یعنی دس کھرب ڈالر )۔ سب سے زیادہ مالیت کے تمسکات چین اور جاپان کے جن کی بالترتیب مالیت 2ء1 ٹریلین اور 1ء1 ٹریلین ڈالر ہے۔ عرب ملکوں کے تمسکات بھی خاصی قیمت کے ہیں اور تو اور امریکہ کے خزانے میں شامل روس کے تمسکات کی مالیت 8ء93 بلین ڈالر ہے۔
جس ملک میں کسی ملک کی جتنی زیادہ سرمایہ کاری ہو وہ ملک الٹا محفوظ سرمایہ کاری کرنے والے ملک کا اتنا ہی رہین منت رہتا ہے کیونکہ ایک تو اس نے ان کا کیش محفوظ کیا ہوتا ہے دوسرا ایک خاص مدت گذرنے کے بعد اس پر خاص شرح سے سود بھی دے گا۔ البتہ اگر قبل از وقت کیش نکالنے کی خواہش کرے تو وہ یک لخت تمام تمسکات نہیں بیچ سکتا بلکہ ایک متعین حد تک بیچ سکتا ہے جس کے عوض دی جانے والی رقم میں سے کچھ کٹوتی بھی کی جاتی ہے۔ شاید ہی کوئی ملک ایسا کرتا ہو تا وقتیکہ کوئی اقتصادی مصیبت سر پر نہ کھڑی ہو۔
ایسی مصیبت عموما" امریکہ خود یا امریکہ اور اس کے اتحادی ملک مل کر کھڑی کرتے ہیں، گذشتہ دو عشروں میں ایسی مصیبتوں کی کئی مثالیں دنیا میں سامنے آ چکی ہیں۔
اپنا زیادہ پیسہ امریکہ میں لگانے کی وجہ سے بہت سے ملک اس سے دبتے ہیں۔ عرب ملکوں کی تو خیر بات ہی کیا کرنی، جاپان ویسے ہی امریکہ کے زیر نگیں ہے ، اسی طرح جنوبی کوریا بھی۔ چین کو وہ ہر طرح سے الجھن میں ڈالے رکھتا ہے۔
جب ایسا ہے تو یہ ملک امریکہ میں سرمایہ کاری کیوں کرتے ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں کی معیشت کا بظاہر مستحکم ہونا ہے۔ معیشت کا استحکام کرنسی کے مستحکم ہونے کی بنیاد ہوتا ہے۔ 6300 ارب ڈالر کے محفوظ غیر ملکی خزانے کے سبب ہی امریکہ میں موجود ڈالر چھاپنے کے چار کارخانے 24 گھنٹے ڈالر چھاپتے رہتے ہیں۔ تمسکات کے علاوہ بھی دوسرے ملکوں نے نہ صرف امریکہ کے کئی منصوبوں میں سرمایہ لگایا ہوا ہے بلکہ بعض اوقات تو براہ راست یا بالواسطہ امریکہ کو قرض بھی دیتے ہیں۔ وہ جو کہاوت ہے کہ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے تو وہ امریکہ پر بالکل صادق آتی ہے۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ہر ملک اپنی کرنسی کے عوض، کرنسی پر درج رقم کے مساوی قیمت کا سونا یا دوسری قیمتی دھات عندالطلب کو دینے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ امریکہ نے ڈالروں کے عوض سونا دیے جانے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں زرمبادلہ کے محفوظ خزانوں میں ڈالر کا حصہ بہت زیادہ ہے کہیں دو تہائی کہیں اس سے کم یا زیادہ۔ کہتے ہیں ایک بار 1960 کے عشرے میں جب امریکہ کے فرانس کو ضرورت تھی تو اس نے سوچا کہ وہ اپنے ہاں محفوظ ڈالر امریکہ واپس بھجوا کر اس کے بدلے میں سونا لے لے۔ جب تک فرانس کی ملکیت ڈالر امریکی ساحل کے نزدیک پہنچے سونے کی قیمت تقریبا" ڈیڑھ گنا ہو چکی تھی یعنی مارکیٹ میں مصنوعی بحران پیدا کرکے سونے کی قیمت چڑھا دی گئی تھی۔ یوں فرانس کو اپنے ڈالر جیسے بھیجے تھے ویسے واپس لانے پڑ گئے تھے۔
دنیا نے ڈالر کے استحکام کو ہلانے کی خاطر بہت سے حربے آزمائے ہیں جیسے نئی کرنسی یورو تخلیق کرکے، زرمبادلہ کے طور پر اپنی اپنی کرنسیوں میں قیمتیں چکانے کا طریقہ اختیار کرکے، مال کے بدلے مال دیے جانے کی روش اپنا کے مگر کوئی بھی ترکیب کارگر ثابت نہ ہو پائی ہے۔
یوں امریکہ ایک ہاتھی ہے جس کی معیشت کے پاؤں میں چاہتے نہ چاہتے ہوئے سب کی معیشتوں کے پاؤں ہیں چاہے چین ہو یا روس، جاپان ہو یا سعودی عرب۔ امریکہ جب چاہے کسی کی بھی ناک میں دم کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر روس اور امریکہ کی باہمی تجارت نہ ہونے کے برابر ہے مگر اس نے نہ صرف روس پر اپنی جانب سے یک طرفہ اقتصادی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں بلکہ یورپی ملکوں کو بھی روس پر پابندیاں لگانے پر مائل یا مجبور کیا ہوا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ جرمنی جلد ہی امریکہ سے درخواست کرنے والا ہے کہ اسے روس پر عائد پابندیوں سے آزاد کرے، مگر کون جانے کہ امریکہ ایسی اجازت دے یا نہ دے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“