ادارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئٹری روز اول سے منفرد پروگرام پیش کرنے میں پیش پیش رہا ہے ۔ادارے نے اردو ادب کی ہر صنف سخن پر یونیک و انفرادیت سے بھر پور پروگرام پیش کئے ۔۔ چاہے کتنی ہی رکاوٹیں آئیں ، وہ دشمن نما دوست کی صورت ہو یا مخالفین کے مفاد پر پڑتی ضرب کی تلملاہٹ۔۔جسے روکنے کے لیے موقع پرستوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر زردصحافت پر ضرب کاری پڑنے کے بعد نام نہاد مخلص میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ ۔۔۔تنقید ہر کسی کو ہضم نہیں ہوتی ۔۔واہ واہی بٹورنے والے آئینہ دکھانے کے بعد دامن چھڑا کر رفوچکر ہوگئے ۔یا پھر ،
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
ادارے کے بانی اور چیئرمین توصیف ترنل صاحب کچھ الگ کرنے کی دھن میں بہت سوں سے الگ ہوگئے ۔۔۔مگر اپنے آپ کو ،"ون مین آرمی" ثابت کرکے رہے ،۔۔یا راج کپور۔۔کی طرح ،"ون مین شو" یہ اور بات کہ راج کپور۔۔جوکر بن کر ناکام ہوئے مگر توصیف ترنل ہر محاذ پر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہوئے ۔۔نئے احباب کو ساتھ لیے اپنی دھن میں آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے:
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
ماشاءاللہ توصیف سر کو ہمیشہ نئے احباب نعمت غیر مترقبہ کی صورت ملے ۔۔فعال،دراک،فہیم ونابغئہ روزگار ۔۔۔چاہے وہ ٹیم شعرا کی ہو یا نثرنگاروں کی ۔۔منتظم کی ہو یا ناقدین کی ۔ ۔۔قارئین کی ہو یا سامعین کی ۔۔۔پروگرام میں بدرجہ مجبوری شامل نام ہونے پہ معذرت اس گروپ کا خاصہ رہا ہے ۔ ۔۔میدان تنقید میں بھی نقاد نے اپنا حق ادا کیا ۔۔بے لاگ و بیباک تنقید ۔۔ہر ناظم نے اپنی انفرادیت کے لافانی نقوش چھوڑے ۔۔۔توصیف سر کی خوش قسمتی پر رشک آتا ہے ۔۔کہتے ہیں ہر مرد کی ترقی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔۔سر کی ترقی کا راز۔۔۔شاید اردو ادب سے دیوانہ وار محبت ہے !! گویا:
جب کہ مقہور اپنی بولی ہے
ایسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری اب تک انفرادیت سے بھر پور سب سے الگ تھلگ 186پروگرام پیش کر چکا ہے جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے ۔۔جنہوں نے اقصائے عالم میں دھوم مچا رکھی ہے ۔۔۔کیا نظم ،کیا نثر ہر صنف سخن نے اپنے لافانی نقوش چھوڑے ہیں ۔۔پروگرام اول سے اب تک تمام الیکڑانک میڈیا پر محفوظ ۔۔ایک جنبش انگشت سے سامنے حاضر ۔۔۔یہی ادارہ کی خصوصیت رہی ہے جو اسے ہر دوسرے گروپ سے ممتاز کرتی ہے نیز ہر پروگرام کو لائیو فیس بک پر ٹیلی کاسٹ کرنا توصیف سر کی فعالیت اور نمایاں کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے جو انہیں ممیز کرتا ہے دیگر میر ہائے کارواں سے ۔۔فعال ٹیم کی کمان سدا ان کے ہاتھ رہی جس نے برقی دنیا کے ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ،انتھک محنت اور کارہائے نمایاں انجام دے کر ۔۔ہر سدراہ کو یہ کہہ کر عبور کیا ،
جو ہچکچا کے رہ گیا ،سو رہ گیا ادھر
جس نے لگائی ایڑھ وہ خندق کے پار تھا
ادارہ نے ایک اور سنگ میل پار کرتے ہوئے پروگرام نمبر 187 بعنوان "کرپشن" منعقد کیا ۔کرپشن جیسا سلگتا موضوع جس میں عوام جھلس اور خواص ہاتھ تاپ رہے ہیں ۔۔ رشوتوں کی گرم بازاری سے جھوجھتے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ۔۔ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں ۔۔زیریں ایوان سے ایوان بالا تک ۔۔آفس کی دہلیز سے افسر اعلیٰ کی میز تک ،بجلی کے محکموں سے ٹی وی کے چینلوں تک ،پریس سے لے کر دیس پردیس کی فضاوں تک ۔۔۔ایک مقابلہ کی دوڑ لگی ہے ۔ ۔۔ناجائز کمائی کی ۔ ۔۔۔زہریلی بالائی کی ۔۔ جس مال حرام سے یہ اپنے شکم کا جہنم بھر رہے ہیں وہ ہل من مزید ۔۔پکار رہا ہے ۔۔انہیں رشوتوں کا جنگل دے دو تو بھی دوسرے کی خواہش کریں گے ۔۔۔یہ حرص وہوس کے پچاری۔۔مال وزر کے بھکاری ، ان کی زنبیل ۔۔۔طلسم ہوشربا کے عمرو عیار کی زنبیل کی ہم پلہ اور یہ !! وارثین قارون !!!
یہ موضوع نیا نہیں ،نہ ہی مرض نئی دریافت ۔۔۔ہابیل ،قابیل سے سفر کرتا ۔۔بولہب وبوجہل میں سرایت کرتا ۔۔سقوط ہسپانیہ کو روندتا۔۔میر قاسم ومیر جعفر کو ابھارتا ،لارنس آف عربیہ سا دندناتا ،خلافت کو توڑتا ،ہوس کے پجاریوں کو جوڑتا حتیٰ کہ قلم کے پنجے مروڑتا۔۔۔ادبی سرقہ و متشاعروں کی بالیدگی کرتا ہر میدان میں خیمہ زن ۔۔راشی خندہ زن، ۔۔اور عامی !! زہرخند۔۔!!!
عالمی تنقیدی فکشن بعنوان ،،کرپشن ،، کا آئیڈیا زرخیز ذہن توصیف سر نے پیش کیا ۔۔اسے آرگنائز کیا احمد منیب صاحب نے ۔۔مسند صدارت پر جلوہ نشین تھے ڈاکٹر ارشاد خان جبکہ مہمان خصوصی تھے صابر جاذب صاحب ۔۔ مہمان اعزازی اشرف علی اشرف صاحب ۔۔ناظم بزم کے فرائض احمد منیب صاحب نے اپنے دلنشیں انداز میں انجام دیئے۔۔۔منفرد ، پراثر ،ودلچسپ انداز بیان سے احمد منیب صاحب نے حاضرین محفل کا دل جیت لیا ۔۔۔ان کی پُرسوز و دل گداز آواز کے جادو نے انجمن کو سحر آگیں کردیا ۔۔شریک بزم کے ساتھ ناقد شفاعت فہیم صاحب نے بھی احمد منیب صاحب کی سحر کاری کی داد دی ۔ ۔۔محفل کا آغاز ۔۔مورخہ 5۔۔جنوری 18 کو پاکستانی وقت ، شام سات بجے ،ہندوستانی وقت ساڑھے سات بجے ۔۔۔باری تعالی کی ثنا خوانی سے ہوا ۔۔۔۔اول تلاوت قرآن کریم احمد منیب صاحب نے پیش کی جس کے بعد حمد باری تعالی صفی ربانی صاحب نے ۔۔۔بعدہ۔۔جمیل احمد صاحب نے ۔۔۔بارگاہ رسالت مآب میں نعت کا نذرانہء عقیدت پیش کیا ۔حمدو نعت کو اہل محفل نے خوب سراہا ۔۔محفل کا باقاعدہ آغاز احمد منیب صاحب کے کالم "کرپشن" سے ہوا ۔۔موصوف نے قرآن وحدیث کی روشنی میں رشوت ستانی کو قابل تعزیر جرم ثابت کیا ۔۔۔اسلامی تعلیمات کے منافی اور اسلامی نظام معیشت کے برخلاف قرار دیا ۔۔۔
احمد منیب صاحب نے سرکش اقوام عالم کی مثالیں دے کر کرپشن کے ہولناک نتائج سے آگاہ کیا ۔۔عرق ریزی سے تحریر کردہ کالم کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔۔تحریر کے ماخذ کے حوالہ جات ان کے وسیع مطالعہ کے غماز ہیں ۔۔تاریخی حقائق کو سیاق وسباق کے ساتھ پیش کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔۔کرپشن جیسے سم قاتل کو رفع کرنے کے لیے تجاویز پیش کیں۔۔اس معاشرتی زہر کا تریاق پیش کیا ،یہی اس تحریر کا خاصہ ہے ۔اہل محفل نے اسے خوب سراہا ۔۔۔ ماشاء اللہ
اس کے بعد محترم جعفر بڈھانوی صاحب نے کرپشن پر شعری کلام پیش کیا اور اس کی نثری صراحت پیش کی ۔۔ یہ اس پروگرام کی انفرادیت ٹھہری۔
پہلا موقع ہے جس میں فکشن کے ساتھ شعری آمیزش ہوئی اور اس شراب دوآتشہ سے انجمن سیراب ہوئی ۔۔موصوف نے بعنوان "معاشرہ" نظم و نثر میں خامہ فرسائی کی جو لائق ستائش ہے ۔۔۔اراکین بزم نے ان کی خوب پذیرائی کی ۔۔یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ادارہ سے جڑے اراکین نثر ونظم دونوں بحر بیکراں کے شناور ہیں نہ صرف شعری بلکہ نثر نگاری میں بھی یکتا ہیں اور کسی بھی دقیق موضوع کو صفحہ قرطاس پر بکھیر سکتے ہیں ۔
اس کے بعد ناظم بزم نے اپنے دلکش انداز میں روبینہ میر صاحبہ کو اپنا کالم پیش کرنے کی دعوت دی ۔۔محترمہ نے بعنوان "رشوت خوری ہولناک مرض" کے تحت اپنے خیالات کا منفرد انداز میں اظہارِ خیال کیا ۔۔رسالت مآب کی حدیث مبارکہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں، ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں ۔۔اس قبیح فعل کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ،ہم فعل بد خود کرکے شیطان پر لعنت بھیجتے ہیں !! راشی اور مرتشی دنیا وآخرت کی سزا کے مستحق ہیں۔۔۔نسوانی انداز فکر ۔۔۔عفت موہانی ،قرة العین ،خدیجہ مستور ،عصمت کے بعد نثر نگاری میں خلا سا محسوس ہو رہا ہے ۔۔جدید نسائی قلم کار شاید اسے پر کام کریں ۔۔یہ ایک خوش آئند قدم ہے اس کی جتنی پذیرائی کی جائے کم ہے ۔۔روبینہ میر صاحبہ مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے سلیس انداز میں موئے قلم کو جنبش دی اس اعتبار کے ساتھ کہ وہ مستقبل میں بھی فکشن پر طبع آزمائی کریں گی۔
عامر حسنی صاحب شاعر ہونے کے ساتھ ادیب بھی ہیں ۔ان کے قلم کی جولانیاں "کرپشن ۔۔ایک زہر قاتل" میں دیکھنے کو ملیں ۔۔میری نظر میں شعر گوئی سے نثر نگاری مشکل فن ہے اور خصوصاً فکشن ۔۔ہوسکتا ہے بعض متفق نہ ہوں ۔۔اگر کوئی شاعر نثار ہو تو اس کی تحریر نکھر جاتی ہے ، بعض کا رنگ تغزل وغنائیت نثر میں غیرمحسوس طریقے سے در آتی ہے ۔۔یہی بات من و عن عامر حسنی صاحب کی تحریر میں نظر آئی ۔۔اہل محفل نے خوب پذیرائی کی اور بھر پور داد سے نوازا ۔۔مبروک ۔
محترم سمیع اللہ عباسی صاحب نے کرپشن کی شعریت میں ڈھال کر پیش کیا ۔۔بعض اشعار موضوع کو سمیٹے ہوئے تھے ۔۔بہرحال ان کی کاوش کو نہ سراہنا ناانصافی ہوگی ۔۔موصوف کی کوشش کو اراکین بزم نے خوب داد سے نوازا ۔۔
اب جگر تھام کے بیٹھو میری باری آئی
کے مصداق علی شیدا صاحب نے اپنی توپوں کے دہانے کھول دیے۔۔رخ تھا ادبی کرپشن پر ۔۔ایک نئی سوچ ۔۔ایک نیا انداز فکر ۔۔وہ اچھوتا موضوع جو سامنے ہوکر بھی اس پر کسی کی نظر نہ پڑی۔۔اور اسے علی شیدا صاحب نے اچک لیا ۔۔سرقہ اور متشاعر حضرات کی کرپشن کی یلغار ۔۔۔ادبی ماحول میں بے ادب گھس پیٹھیے۔۔جو ادبی فضا کو مکدر کررہے ہیں ۔۔نام نہاد قلم فروش ۔۔ادب و ثقافت کو پراگندہ کررہے ہیں ۔۔۔علی شیدا صاحب کی ہر جانب سے پذیرائی ہوئی جس کے وہ واقعتاٙٙ مستحق ہیں ۔۔۔فکشن میں ایک خوشگوار اضافہ ۔۔۔خصوصی مبارکباد ۔
اس کے بعد ناظم بزم کی ایما پر ماورا سعید صاحبہ نے اپنی تحریر بعنوان "کرپشن" پیش کی ۔۔کرپشن کی ابتدا گھر سے شروع ہوکر ۔۔مکتب کی دہلیز سے عملی زندگی تک ۔۔۔ہر شعبہ حیات میں سرایت کرچکی ہے ۔۔محترمہ نے مکمّل احاطہ کیا ہے ۔۔ہرپہلو سے روشنی ڈالی ۔۔۔یہی قلمکار کی پہچان ہے کہ وہ ایک نقطہ کو کتنی وسعت دے سکتا ہے ۔۔اسی کمال فن کی داد اہل بزم نے دے ،تحسین وآفرین کے کلمات سے نوازا ۔۔بیسٹ پوئٹری کے بیسٹ لکھاری دھیرے دھیرے منظر عام پر آرہے ہیں اور کمال فن کی داد پارہے ہیں ۔۔
محترم صابر جاذب صاحب مہمان خصوصی کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔۔ان کا کام اور قلم بولتا ہے ۔۔آپ نے کرپشن کے تعلق سے جو صورت حال سرحد کے اس پار بتائی وہی سرحد کے اس پار بھی ہے،
پژمردہ بشر آج ادھر بھی ہے ادھر بھی
بلکہ بین الاقوامی صورت حال جس سے جڑے چھوٹے موٹے گرہ کٹ نہیں ۔۔وہائٹ کالر ڈاکو ہیں ۔۔ایجنٹ ،دلال،گھپلے باز،سودے بازی کے گھوس خور۔۔جن کی جڑیں گہرائی تک چلی گئی ہیں ۔۔۔جس کے لیے آپ نے اشارہ دیا ہے کہ ۔۔انسداد رشوت ستانی ،، دن بھی منایا جارہا ہے ۔۔بہت سے ممالک اینٹی کرپشن بیورو بنا چکے ہیں مگر ،
بقول دلاور فگار ،
لے کے رشوت پھنس گیا تو دے کے رشوت چھوٹ جا
کے مصداق سب چل رہا ہے اور یہ سرطان معاشرے میں پھل رہا ہے ۔۔صابر جاذب صاحب کی قلم دوستی اور ادب نوازی کو سلام ۔۔
مہمان اعزازی اشرف علی اشرف صاحب نے اشعار میں کرپشن کے دلفگار کرب کو پرویا ہے ۔۔ایک پختہ کار قلم کار کی حیثیت سے اشرف صاحب پہچانے جاتے ہیں ۔۔تازہ ونوبہ نو مضامین کی سحر کاری ان کے قلم میں جھلکتی ہے ۔۔۔آپ کی کاوش کو خوب داد وتحسین سے نوازا گیا ۔
اخیر میں صدر مجلس ڈاکٹر ارشاد خان نے اپنی تحریر "کرپشن رک سکتا ہے بھائی" پیش کی ۔۔بعدہ ان کے خطبۂ صدارت پر کم وبیش تین گھنٹے چلنے والا منفرد واپنی نوعیت کا انوکھا پروگرام اختتام پذیر ہوا ۔۔۔میں ذاتی طور پر ناقد ۔۔محترم شفاعت فہیم صاحب کی آراء سے متفق ہوں کہ ۔۔۔فکشن کے پروگرام میں شریک بزم افراد کم ہوں تو تحاریر کو پرسکون پڑھنے اور تبصرہ کرنے میں آسانی ہوگی ۔ ۔۔بہرکیف ایک اور سنگ میل عبور کرتا ۔۔کامیابی وکامرانی کے پرچم لہراتا ،دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑتا یہ دلفیریب پروگرام اختتام کو پہنچا ۔۔جس کے لیے سالار کارواں توصیف ترنل سر اور ٹیم دی بیسٹ کو ڈھیروں مبارکباد ۔
تمام شد