کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن کے بعد جو عنصر ہمارے جسم میں سب سے زیادہ ہے، وہ نائیٹروجن ہے۔ اگرچہ ہوا کا تین چوتھائی حصہ ہے لیکن یہ دوسرے عناصر سے آسانی سے ری ایکشن نہیں کرتی۔ اس کو ہوا سے اس شکل تک لانے کے لئے جس سے یہ ہمارے جسم کا حصہ بن سکے، ہم ان بیکٹریا کے محتاج رہے جو زمین میں چھپے ہیں اور نائیٹروجن سائکل کا حصہ ہیں۔ اپنی زندگی کے لئے ہمارا ان جراثیموں پر ہمارا انحصار اس وقت کم ہو گیا جب ہم نے اس نائیٹروجن کو ہائیڈروجن سے ملانے کا طریقہ سیکھ لیا اور یہ طریقہ ہیبربوش ری ایکشن کا ہے۔ اس وقت دنیا کے انسانوں کے جسم پائی جانے والی نائیٹروجن کا نصف اب فیکٹریوں میں اس طریقے سے بن رہا ہے۔
کیمسٹری کی نظر سے دیکھیں تو نائیٹروجن کے دو ایٹم مالیکیولز کی شکل میں انتہائی مضبوط ٹرِپل بانڈ سے جڑے ہیں۔ قدرتی گیس کی میتھین سے اس کا ری ایکشن چار سو ڈگری سینٹی گریڈ پر اور بیس میگاپاسکل کے پریشر پر میگنیٹائٹ کی موجودگی میں کروایا جاتا ہے جس سے نائیٹروجن امونیا میں بدل جاتی ہے۔
اس ری ایکشن کو صنعتی سکیل پر قابلِ استعمال بنانے پر ہیبر کو 1918 میں اور بوش کو 1931 میں نوبل انعام دیا گیا۔ یہی ری اکشن پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی نے دھماکہ خیز مواد بنانے کے لئے درکار نائیٹرک ایسڈ استعمال کیا۔ اس وقت تمام نائیٹروجن کی بنیاد پر کھادوں کی تیاری اسی سے ہوتی ہے۔
ان کھادوں کی وجہ سے ایک صدی قبل کی نسبت اس وقت فی ایکڑ پیداوار چار گنا زائد ہے۔ اگر یہ اضافہ نہ ہوتا تو دنیا میں اتنی زمین ہی نہ تھی کہ آج کی آبادی کا نصف بھی اپنی خوراک کی ضروریات پوری کر سکتا۔ دنیا کی آبادی بیسویں صدی کے آغاز میں ایک ارب ساٹھ کروڑ تھی جو کہ صرف ایک صدی میں سوا سات ارب سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
ساتھ لگا پہلا گراف صرف ترقی پذیر ممالک میں پچھلے پندرہ سال کی عالمی بھوک کا ہے جبکہ دوسرا گراف دنیا کی پچھلے سات صدیوں کی آبادی کا۔ اس قدر تیزی سے بڑھتی آبادی کے باوجود بھوک کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ ہم نے ہوا میں پائی جانے والی نائیٹروجن کے ایٹموں کا آپس میں تعلق توڑنے کا طریقہ کیمسٹری کے علم سے تلاش کر لیا۔
اس ری ایکشن کے بارے میں جاننے کے لئے
https://en.wikipedia.org/wiki/Haber_process
نائیٹروجن سائیکل کے بارے میں پہلے کی گئی پوسٹ
https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/963265677175302/
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔