رپورٹ : ڈاکٹر ارشاد خان
پروگرام نمبر227
ادارہ,عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
بتائیے !۔۔ہم اسے کیا عنوان دیں ؟
کہ ۔۔ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو
اور ،
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
اور اسے بھی کہ ،
تیری آنکھوں کو بتا کیسے غزالی لکھوں
ان آنکھوں کو ہم کیا عنوان دیں ۔۔۔مہکتی آنکھیں !۔۔شرابی آنکھیں ؟۔۔غزالی آنکھیں ؟۔جھیل سی گہری آنکھیں ؟۔۔بولتی آنکھیں ؟ سوالی آنکھیں ؟؟؟۔۔ہر ایک کا الگ نقطہءنظر ۔۔
ہم اسے کیا عنوان دیں کہ ،
جنھیں ۔۔۔شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے
جن کے لیے ،
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا
یا جن کے خیال میں ،
بوند بوند سے ساگر بنتا
رائی رائی سے پربت
یا اسے جن کی نظر میں قطرے کی معنوی حیثیت یہ کہ ،
آخری بوند مہاجن نے نچوڑی میری ۔۔بتائیے کیا عنوان دیں کہ ، قطرے میں دجلہ دکھائی دے ۔۔یا قطرۂ نیساں ،یا قطرہ بقدرِ اشک بلبل ۔۔یا قطرہ قطرہ دریا ۔۔ہر دانشور ایک نیا نکتہِ پیش کررہا ہے ۔
ہم اسے کیا عنوان دیں کہ ،
یہ آنسو میرے دل کی زبان ہیں
وہیں ، کوئی محسوس کرتا ہے کہ ،
یہ مسافر ہیں بہت دور سے آنے والے
تو کوئی یوں اظہارِ خیال کرتا ہے ،
ٹکڑے ہیں میرے دل کے اے یار تیرے آنسو
کیا عنوان دیں انہیں ، خوشی کے آنسو !۔۔چھلکتے آنسو ؟۔چمکتے آنسو ، برستے آنسو ؟؟۔۔ہر ایک کی ۔۔اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔۔
ہم کیا عنوان دیں کہ ۔۔کسی کو سمندر پیاسا نظر آئے ۔۔تو کسی کو اس کی خاموشی ظرف کی آئینہ دار نظر آئے کوئی کہے،
بھیک لیتا ہے موج دریا کی
یہ سمندر بھی اک بھکاری ہے
اب کیا کہیں ۔۔کوئی شمع کو للکارتے ہیں کہ ۔۔پروانہ ادھر جاتا ہے یا ادھر جاتا ہے ۔۔ کسی کی نظر میں ۔۔پروانے کو جلانے سے پہلے خود شمع کو جلنا پڑتا ہے ۔۔اقبال صاحب کو جگنو کی روشنی ۔۔ایسی محسوس ہوتی ہے کہ ۔۔شمع پھولوں کی انجمن میں جل رہی اور غالب اسے ہر رنگ میں جلا ۔۔۔دلیل سحر کہہ کر ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گئے ۔۔
بہرحال ۔۔ہم اگر کچھ عنوان دیں تو تو لازماً کئی مستند عناوین سامنے آجائیں گے ۔۔۔ہماری سوچ سے پرے۔۔کہ جہاں روی نہ پہنچے وہاں کوی پہنچ جاتے ہیں ۔۔جو رگ گل سے بلبل کے پر باندھنے کا ہنر خوب جانتے ہیں ۔۔۔یہ تو رونے پہ آجائیں تو دریا بہا دیتے ہیں ۔۔۔انہیں شبنم کی طرح رونا نہیں آتا ۔۔۔ان کی رنگ آمیزی دیکھ مانی بھی دنگ رہ جائے !!۔۔جنہیں ۔۔پائے نگاہ میں سو آبلے پڑے دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔جنہیں ۔۔سست قدم رستے چلتے دکھائی دیتے ہیں ۔۔جنہیں ۔۔زیر زمیں رستم کا بدن کانپتا محسوس ہوتا ہے ۔۔۔چاند تاروں سے مانگ سجانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔۔سورج کو بھی چیلنج کرتے ہیں کہ اپنی کرنیں گن کے رکھ لے !۔۔خبردار ۔۔ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا !! ۔۔حتیٰ کہ وہ رئیس کی محفل کیا !۔۔خدا کے گھر بھی بن بلائے جانے کے لیے تیار نہیں !!
غرض ۔۔۔اسی لیے ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری نے ۔۔ایک اور منفرد پروگرام منعقد کیا کہ ۔۔آزاد وطن کے آپ آزاد شہری ہیں ۔۔کسی عنواں کے جنوں میں کچھ کہنے کی بجائے ،،بلا عنوان ،،کچھ کہیے ۔۔۔آپ کو تحریر کی آزادی ہے ،تقریر کی آزادی ہے ۔۔صنف سخن کے انتخاب کی آزادی ہے ۔۔قلم کے جوہر دکھانے کی آزادی ہے ۔۔۔یہی تحریک رہی ہے ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کی کہ آپ کے قلم کی روشنائی منجمد نہ ہو! ادب پر جمود طاری نہ ہو !!
یہی سوچ کہ قلمکار کو عنوان کے بندھن میں نہ جکڑا جائے ۔۔اسے کھل کر کچھ کہنے کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔۔۔لہٰذا ادارے نے 2 نومبر 2019 کو انفرادیت سے بھرپور پروگرام ،،بلا عنوان ،، منعقد کیا ۔۔بروز ہفتہ شام 7 ۔و 7/30 بجے پاک و ہند مقامی اوقات کے مطابق ۔۔ادارے کے بانی و چیئرمین توصیف ترنل صاحب کے زرخیز ذہن کی اپچ ۔۔یہ مسلسل 227واں منفرد پروگرام ہے ۔۔عام ڈگر سے ہٹ کر ، سب سے الگ ، ان ٹچ۔۔و۔۔فائین ٹچ پروگرام ۔۔جس کی مثال ملنی غیر ممکن ہی نہیں نا ممکن ہے ۔حسب سابق مع تنقید و تبصرہ ۔۔
پروگرام آرگنائزر تھے خواجہ ثقلین صاحب ۔۔۔جو کہ پروگرام کے معاون ناظم بھی تھے ۔۔ان کے ساتھ ایڈووکیٹ متین طالب صاحب نے ۔۔اپنی پرکشش نظامت سے سب کے دل موہ لیے ۔۔صابر جاذب صاحب نے پر جاذب بروشر بنا قوس قزح کے رنگ بکھر دییے ۔۔
صدارت کے فرائض عرفان مہدی صاحب نے انجام دیے جبکہ مہمان خصوصی تھے ایڈوکیٹ متین طالب صاحب ۔پروگرام کا آغاز مختار تلہری صاحب کی پیش کردہ ،،حمد باری تعالی ،،ہوا ۔۔بارگاہ رسالت میں ،،نعت پاک ،، کا نذرانہ خواجہ ثقلین صاحب نے پیش کیا ۔۔اہل قلم نے جو قلم کی جولانیاں پیش کیں ملاحظہ کیجئے ۔
نمونہ کلام
متین اس کے ہی کرم کا ہے طالب
سدا قہر پر رحم اس کا ہو غالب
ایڈوکیٹ متین طالب ۔ناندورہ
اک نور مجسم جو اٹھا غار حرا سے
اور نعرہ توحید بنا کوہ صفا سے
خواجہ ثقلین ناگپور
کہیں سے کچھ اشارہ آگیا کیا
کسی پہ دل تمہارا آگیا کیا
اصغر شمیم کولکاتہ
لگتا ہے اے صدف تیرے عشق نے پالیا عروج
ٹھہرا ہوا ہے دل میرا سوزِ نہاں کے آس پاس
صبیحہ صدف بھوپال
آتشِ نمرود بحر نیل ہو یا کربلا
عشق ہنستا مسکراتا کود جاتا ہے جناب
شاہ رخ ساحل ۔تلسی پوری
وہ گفتگو میں کبھی اتنا بے تکلف ہو
کہ آپ آپ سے تم اور تم سے تو ہو جائے
ڈاکٹر مسز الماس کبیر ۔ممبئی
شکست حوصلوں کی وجہ سے ٹھہرے ہوئے ہیں ہم
اجازت آگے بڑھنے کی ارادہ بھی نہیں دیتا
شاداب انجم کامٹی
غضب موجوں کا بس وسط سمندر میں ہی ہوتا ہے
مگر سر کش کا سر ساحل پہ آکر ٹوٹ جاتا ہے
خواجہ ثقلین ۔ناگپور
بے کل جب سے نکلے اپنے کرکے یہ گھر خالی سا
دل میں تب سے آتے دیکھے اور بھی پیارے پیارے لوگ
عبدالرزاق بے کل۔کشمیر
چکور کی تڑپ یہ ہے کہ چاند اس کے پاس ہو
یہ دور اب نیا سا ہے حکایتیں بدل گئیں
اطہر حفیظ فراز
شائبہ تک نہیں رہتا ہے کمی کا فیضی
خیر جب گنبدِ خضریٰ کا مکیں دیتا ہے
فیضان فیضی ۔چکوال
شوق سے ہجر کاٹ لیتے ہیں
خود کو برباد بھی نہیں کرتے
قیصر عمران مگسی ۔ملتان
اس طرح کر داستاں اپنی بیاں
،،آنکھ سے آنسو نکلنا چاہیے ،،
واجدہ تبسّم ناصر
بکنے والا کہاں تھا میں لیکن
تو خریدار تھا سو چپ تھا میں
امین اوڈیرائی
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
زخم ہنستے ہیں تو کیوں رنج فزا ہوتا ہے
ڈاکٹر ارشاد خان ۔۔ممبرا
لاکھ گرداب نے بھی مجھ کو ڈبونا چاہا
پھر بھی طالب کے مقدر میں کنارے نکلے
ایڈوکیٹ متین طالب ۔ناندورہ
جن سواروں کی مرسل سواری بنیں
ان کے سر، نوک نیزہ چڑھائے گئے
عرفان مہدی حیدری ۔سندھ
صدر محترم کے کلام کے ساتھ ،یہ محفل اختتامِ پذیر ہوئی ۔۔میں ادارے کے بانی و چیئرمین توصیف ترنل صاحب ،آرگنائزر خواجہ ثقلین صاحب ۔۔ناظم بزم و ٹیم دی بیسٹ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس قدر دلکش و دلنشیں پروگرام ترتيب دیا ۔۔اس امید کے ساتھ کہ مستقبل میں بھی اسی نوعیت کی بزم آرائیاں ہوں گی ۔۔۔ان شاءاللہ ۔