عالمگیریت اورصارفی ڈنگر
عالمگیریت سومونہے سانپ کی مانند ہے،اور اس کا جنم سرمایہ داریت سے ہوا ہے جسے ایک آسٹریائی مفکر نے ’’تخلیقی طور پر تباہ کن‘‘ (Creative Destruction) کا نام دیا ہے۔ اس کا اشارہ سرمایہ درایت کی اس خصوصیت کی طرف ہے جس کے مطابق یہ مسلسل نئی ایجادات کرتی ہے اور ان ایجادات کی ترسیل کے نئے طریقوں کی تخلیق کرتی ہے ،اور اس سب کے نتیجے میں طبقے، نظریات، اقدار ،کلچر،زبانیں،یہاں تک کہ اقوام تباہی کے خطرے سے دوچار ہوتی ہیں۔سرمایہ اپنی مسلسل تخلیق اور لامتناہی گردش چاہتا ہے اور اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ خواہ وہ قوانین ہوں، قومیں ہوں، طبقے ہوں، زبانیں ،مذاہب ، کلچر ،ماحول، قدیم تاریخی مقامات…..کچھ ہو ،انھیں اپنی گردش کا حصہ بنالیتا ہے اور اگر رکاوٹ ڈالیں تو انھیں برباد کرنے میں تامل نہیں کرتا۔ سرمائے کی مسلسل تخلیق اور لامتناہی اور ہمہ اطراف گردش نے عالمگیریت کے سومونہے سانپ کو جنم دیا ہے۔ عالمگیریت کے لیے سومونہے سانپ (Hydra-headed) کی تمثیل ،ا س کی ماہیت اور کارفرمائی کو کافی حد تک واضح کرتی ہے۔ اس کی کثیر شاخیں،کثیرشناختیں ہیں ،مگر وہ سب ایک جگہ آکر ضم ہوجاتی ہیں۔یعنی یہ بہ یک وقت مرکزگریز اور مرکزیت کی حامل ہے۔ عالمگیریت اصل میں معاشی نظام ہے، جو کثیر قومی کارپوریشنوں کی مدد سے کام کرتاہے جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں(یعنی مرکزگریزہیں)اور جن میں سے اکثریت امریکی ہیں(یعنی مرکز یت کی حامل ہیں)۔اسی لیے کئی لوگ عالمگیریت کو امریکنائزیشن سے بھی یاد کرتے ہیں۔ یہ کارپوریشنیں ،چھوٹے ،مقامی کاروبار اورچھوٹی سرکاری ونجی کمپنیوں کو سومونہے سانپ ہی کی مانند ہڑپ کر جاتی ہیں؛ انھیں پہلے کنگال کرتی ہیں اور پھرنج کاری کے نام پر خرید لیتی ہیں۔ انسانی تخیل میں بہ مشکل سمانے والا حجم ،ان کی خصوصیت ہے۔ یہ حکومتوں ، ان کے آئین ، اداروں سے طاقت و اختیار میں بڑی ہیں۔یہ قوانین سازی یہاں تک کہ دوسرے ملکوں کے عدالتی نظام پر فیصلہ کن انداز میں اثرانداز ہوتی ہیں۔ آپ نے چند دن پہلے پڑھا ہوگا کہ سی پیک (جوپاکستان میں عالمگیریت کے اثرات کی ایک نئی اور تاریخ ساز صورت ہے) سے متعلق منصوبوں پر پاکستانی عدالتیں ممکن حد تک حکم امتناعی سے اجتناب کریں گے۔
عالمگیریت کے اثرات پاکستانی سماج کے تمام شعبوں پر ہیں: معیشت، سیاست ،تعلیم ، ثقافت ، ادب، زبانوں ،آرٹ، ماحول، فن تعمیر، کھانے پینے کی عادات ،لباس، یہاں تک کہ باہمی انسانی تعلقات پر۔ ان اثرات کی نوعیت ہر جگہ یکساں نہیں ہے ۔ ہم یہاں صرف ایک پہلو پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ یہ کہ عالمگیریت نے کس طرح ہمیں ایک سوچنے والے جانور سے صارفی ڈنگر میں بدل دیا ہے۔
صارفی ڈنگر کی ترکیب خاصی ناشائستہ ہے، لیکن عالمگیریت نے ہمارے ذہن ، جذبات اور سماج و ماحول و خدا سے ہمارے تعلق کو بدل کر جو صورت دے دی ،اسے اسی ترکیب سے بیان کیا جاسکتا ہے۔صارفی ڈنگر در اصل عالمگیریت کی بہ یک وقت ضرورت اور پیداوار ہے۔عالمگیریت ان گنت اشیا پیدا کرتی اور انھیں دنیا بھر میں صَرف کیے جانے کے انتظامات کرتی ہے۔ عالمگیریت سے پہلے صنعتی عہد میں اشیا انسانی ضرورتوں کے تناسب سے تیار کی جاتی تھیں۔ اس سے سرمایہ گردش میں تو رہتا،مگر لامتناہی گردش اس کے لیے خواب تھا۔ اس خواب کی تکمیل کے لیے ایک نئی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ انسانی ضرورتیں تخلیق کرنے کی حکمت عملی۔ جب تک انسان کچھ فطری ،جبلی یا زیادہ سے زیادہ سماجی ضرورتیں رکھتا تھا ،اسے خود پر اختیار تھا۔یعنی تن ڈھانپنے کو لباس، دو وقت کی روٹی، رہنے کو چھت اور تفریح کے لیے کچھ ثقافتی مشاغل۔انسانی طبقات کی تقسیم تھی ، فرق اشیا کے معمولی و غیر معمولی ہونے میں تھا، تعدد وکثرت میں نہیں۔البتہ کچھ چیزوں کو آسائشوں میں شمار کیا جاتا تھا،جن کے نہ ہونے کا غم کم ہی ہوتا تھا۔ صنعتی عہد انھی ضرورتوں کو سامنے رکھ کراشیا تیار کرتا تھا۔مابعد ں صنعتی عہد یعنی عالمگیریت نے انسان کے اس اختیار کو راستے کی رکاوٹ سمجھااور انسانی ضرورتیں تخلیق کرنا شروع کیں۔ اس کے لیے نفسیات اور سماجیات کے علوم سے خاص مدد لی گئی ہے۔ وہ جو غالب نے کہہ رکھا ہے:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان پھر بھی کم نکلے
توا نسانی خواہش کی حرکیات کو سمجھ کر انسانی ضرورتیں تخلیق کی گئی ہیں،اور اس سے پہلے بدھ مذہب میں خواہش کو انسانی دکھوں کا سبب قرار دیا گیا تھا،اور نجات ان خواہشوں سے آزادی میں دیکھی گئی تھی۔دوسرے لفظوں میں انسانی فطرت میں خواہشوں کے بے انت ہونے کا تصور موجود تھا مگر انھیں اپنے اختیار میں رکھنے کے لیے مذاہب اور فلسفے بھی موجود تھے۔ اس سے سماج میں تواز ن قائم رہتا تھا۔ عالمگیریت نے خواہش کی حرکیات میں ترغیب،مقابلے ، جشن ،تغیرجیسے عناصر کو نشان زد کیا ہے۔ یعنی ان عناصر کو جن کی مدد سے نہ تو ایک خواہش سیر ہوتی ہے ، نہ خواہشوں کے ختم ہونے یا انھیں ختم کرنے کو براسمجھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بے انت انسانی ضرورتوں کا باقاعدہ جشن منایاجاتاہے۔ جسے ہم نے صارفی ڈنگر کہا ہے ،وہ اشیا کو صرف کرنے کا جشن مناتاہے۔ یہ جو آپ طرح طرح کے گالا اور فیسٹول : ادبی ، ثقافتی، فوڈ، میوزک، ڈانس وغیرہ اور روز نئے نئے دنوں کا جشن مناتے دیکھتے اور ہرگالا، فیسٹول اور دن منانے پر عالمی برانڈز کے خصوصی ڈسکاؤنٹ جگہ جگہ دیکھتے ہیں، یہ سب عالمگیریت کے سومونہے سانپ سے متعلق ہیں،اور یہاں جو مخلوق دیکھتے ہیں وہ صارفی ڈنگر ہوتے ہیں۔ وہ ہرشے خریدتے ہیں: نئی نئی دنیاؤں کے کھانے، طرح طرح کے ذائقے، نئے نئے لباس اور ان کے فیشن، زیور، میک اپ آئٹم ،موبائل، گاڑیوں اور دیگر اشیا کے نئے نئے ماڈل۔ عالمگیریت اگرچہ آرٹ ،فلم، میوزک ، ادب اور ہر طرح کی کتب کو بھی شے کا درجہ دیتی ہے، اور ان کے لیے ایک خاص رجحان اور ذوق کو پیدا کرتی ہے۔ سنسنی پھیلانے والی کتب، گھوسٹ مصنفوں کی نام نہاد انکشافات سے عبارت کتابوں ،پلپ فکشن،قومی ،مذہبی ، مسلکی اختلافات سے متعلق کتب ، پاپ ،ری مکس میوزک ، معاصر عہد میں قوموں کے جھگڑوں سے متعلق فلمیں اور آئٹم سانگ….ان سب کا ذوق پید ا کیا جاتا ہے اور صارفی ڈنگر کو یہ سب ہڑپ کرنے کے لیے فراہم کیا جاتا ہے اور وہ ان سب کا جشن مناتا ہے۔ میڈیا اس میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔
صارفی ڈنگر سوچنے والی مخلوق نہیں، کسی اور کے رائج کردہ فیشن ،ذوق اور رواج والی اشیا کو شکم ، دل اور ذہن میں اتارنے والی مخلوق ہے،جو آپ کو دنیا بھر میں نظر آتی ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ عالمگیریت خود جدت پسند، اختراع پسندو انحراف پسند(یعنی Divergentکی حا مل ہے )جب کہ اپنے صارفین کے لیے جو طرز فکر پسند کرتی اور رائج کرتی ہے وہ مطابقت پسند ی و تقلید سے عبارت یعنی Convergentہے۔وہ سب صارفین کو ایک ہی طرح سے سوچنے ، محسوس کرنے ،یکساں چیزیں پسند کرنے اور ایک طرح کی Homogenisationکو پروان چڑھاتی ہے۔ اس کا نتیجہ تخیل کا افلاس اور تنقیدی فکر سے محرومی ہے۔ آپ بہت سے اشتہارات دیکھیں گے جن میں لوگوں کو سوچنے جیسی بیماری سے محفوظ رہنے ،انھیں خود فیصلہ کرنے کی تکلیف سے بچنے، خود چیزوں کو تیار کرنے کی زحمت نہ اٹھانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔’’جب ہم موجود ہیں تو آپ کو کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے‘‘ ۔اشتہارات کا مرکزی نکتہ ہوتا ہے۔ سب کچھ بنابنایا، انسٹنٹ ملتا ہے۔ اس سے صارف کا تعلق کسی چیز سے قائم ہی نہیں ہوپاتا۔وہ ہر شے کو حاصل کرتاہے،اسے ہڑپ کرتا ہے ،پھراگل دیتا ہے ،یا پھینک دیتا ہے تاکہ مزید اشیا کی بھوک پیداکرسکے۔ اس کا حال ظفر اقبال کے اس شعر کے مصداق ہوتا ہے:
چپاتیاں تھی بندھیں پیٹ پرمگر شب بھر
ابھرتا ڈوبتا میں بھوک کے بھنورمیں رہا
عالمگیریت ان کتابوں ، آرٹ کے ان نمونوں ، ان دانش وروں کو حاشیے پر دکھیلتی ہے جو سوچنے پر مائل کرتے ہوں، اور صارفی ڈنگر کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہوں کہ وہ کس بڑے کھیل کا حصہ ہے۔ سوشل میڈیا ،اس صارفی ڈنگر کی سب سے مرغوب غذا ہے۔ یہاں اسے یقین دلایا گیا ہے کہ وہ پوری طرح آزادہے۔ جو چاہے دیکھے ،دنیا میں سے کچھ بھی کہیں سے بھی کچھ ، جنس ، مذہب ، سیلف ہیلپ بکس ،لیکچر خریدے یا مفت حاصل کرے ،نئی دلھن چین ، امریکا کہیں سے لے آئے ، جو چاہے پوسٹ کرے ، جس کے بارے میں جو لکھے، کسی کو آسمان پر چڑھادے یا ذلیل کردے، کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ ہاں صرف اس طاقت ور کے بارے میں کوئی لفظ نہ لکھے جس نے اسے سوشل میڈیا دیا ہے یا اس تک رسائی دی ہے۔ آپ غور کیجیے گا۔ سوشل میڈیا پر صرف انھی کے بارے میں کھل کر بات کہنے کی آزادی نہیں جو طاقت کے اس عظیم کھیل کے کھلاڑی ہیں،جو عالمی کارپوریشنوں کا شروع کیا ہواہے اور جن میں کئی مقامی طبقے حصہ دار ہیں۔باقی ہماشما ،میرے آپ کے لیے سوشل میڈیا کے صارفی ڈنگروں کو سب کہنے کی مطلق آزادی ہے ۔مگر وہ نہیں جانتے کہ ہر آزادی کی قیمت ہوتی ہے، سوشل میڈیا کی بے مہار آزادی کی قیمت ہمہ گیر Surveillance ہے ، آپ سب کچھ اس کے سپرد کرتے ہیں،اور پھر اسے اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔سوشل میڈیا کی یادداشت عام انسان کی یادداشت سے نہ صرف زیادہ مکمل اور درست ہے ، بلکہ اسی یادداشت کو دل چسپ ،لطیف ، قدرے مزاحیہ انداز میں آپ کے بارے میں رائے قائم کرنے کا فن بھی آتا ہے۔آپ خوش ہوکر اسے مزید اپنے بارے میں معلومات دینے پر بخوشی تیار ہوجاتے ہیں۔ وہ آپ کے دوستوں ،دشمنوں ، پسند ناپسند ، آپ کے مذہبی سیاسی عقائد کے بارے میں جاننے لگتا ہے ،اور آپ کے ماضی و مستقبل کے بارے میں آپ کو بتانے لگتا ہے۔آپ اسے تفریح سمجھتے ہیں مگر سوشل میڈیا اسے بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ پھر اس سب کی مدد سے وہ ایک طرف طرح طرح کی ضروری غیر ضروری پراڈکٹ بیچتا ہے اور دوسری طرف ان معلومات کی بنیاد پر جنگیں اور الیکشن جتوانے میں کامیاب ہوتا ہے!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“