عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دوست! مجھے تو لگتاہے یہ دنیا ویسی نہیں ہے جیسی ہمیں نظر آتی ہے۔ مجھے لگتاہے مادے کے پجاری سخت دھوکے اور خسارے میں ہیں۔ ہمیں جو کچھ دکھائی دیتاہے یہ سب حقیقی نہیں۔ یہ سب ایک خواب ہے۔ ایک سپناہے۔ یہ کائنات۔ اس کائنات میں موجود یہ سارے کا سارا مادہ۔ وہ مادہ بھی جس سے ہم بنے ہیں۔ میرا جسم ۔ تمہارا جسم۔ یہ ٹھوس مائع گیس کے کیمیائی تعاملات اور بنتے ٹوٹتے مرکبات۔ یہ ساری کیمیائی اور طبیعی دنیا۔ یہ سب سفید جھوٹ ہے۔ اِن میں سے کوئی چیز فی الحقیقت وجود ہی نہیں رکھتی۔ نہ تم، نہ میں اور نہ یہ دنیا۔ ہم سب ایک خواب دیکھ رہے ہیں۔ ایک مسلسل خواب جو اچانک کسی دن شروع ہوگیا تھا۔ خواب کی نشانی ہی یہی ہوتی ہے کہ ہمیں پتہ نہیں ہوتا وہ کب شروع ہوگیا اور جب شروع ہوا تو اس سے پہلے ہم کہاں تھے اور ہم کہاں سے وہاں آپہنچے جہاں خواب میں موجود تھے۔ ایسا ہی کچھ اس زندگی کا بھی معاملہ ہے۔ ہم اچانک کہیں سے نمودار ہوگئے۔ یہ خواب ہی تو ہے۔ اور پھر اس پرمستزاد فلسفہ اور سائنس کے نتائج، جو سارے کے سارے اسی ایک بات کی طرف چیخ چیخ کر اشارے کررہے ہیں کہ،
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
ہاں غالب کا بھی میرے والا ہی خیال تھا میرے دوست! عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے۔ یہ ساری دنیا میرے خیال کے جال میں میں ہی موجود ہے۔ بائیبل نے بھی تو یہی کہا تھا،
God Created Man in his image
میرے دوست! ہم شاید خداکے ذہن میں چلتی ہوئی ایک سوچ ہیں۔ اگر ہم مذہبی نہیں ہیں تو پھر ہم ضرور عقلیت پرست ہونگے۔ ہم خیالات کا مجموعہ ہیں۔ منجمد خیالات۔ وہ خیالات جو ہمارے اپنے پرسیپشنز ہیں۔ وہ خیالات جن کا پرنٹ پیدائش کے بعد ہم نے لیا اور اپنے ذہن کی الماریوں میں محفوظ کرلیا۔ یہ دیکھی ہوئی دنیا کا ہرپرنٹ۔ یہ بڑی عمارتیں۔ یہ بڑے بڑے میدان اور جنگل اور صحرا اور پہاڑ اور پتھر اور بارش اور پانی اور دریا اور سمندر اور درخت اور پھل اور سب کچھ ۔ یہ سب پرنٹس ہیں جو ہمارے دماغ میں محفوظ ہیں۔ ہم نے یہ فوٹو کیسے کھینچ کر محفوظ کرلیے؟ کیا ہمارے پاس اچھے کیمرے ہیں؟ ہمارے کیمرے ہماری آنکھیں ہیں۔ ہماری آڈیو ریکارڈنگ ہمارے کانوں کے ذریعے محفوظ ہوتی ہے۔ ہاں! ہمارے پاس آڈیو اور وڈیو کے علاوہ بھی ، چکھنے، چھوکر محسوس کرنے اور سونگھنے کے آلات بھی ہیں۔ کیا یہ آلات قابلِ اعتماد ہیں؟ یہ آلات کیسے وجود میں آئے؟ کیا یہ آلات اذل سے ہیں۔ کیا یہ آلات اِسی مٹی سے بنائے گئے ہیں جس مٹی سے یہ کھیت بنایا گیا ہے جس کے کنارے میں ٹہل رہاہوں؟
ہاں یہ آلات اِسی زمین کی مٹی اور معدنیات سے وجود میں آئے ہیں۔ یہ آلات کچھ بھی نہیں۔ یہ آلات تو ہمارے دماغ کے خلیوں کو فقط کچھ ارتعاشات، کچھ وائبریشنز پہنچاتے ہیں فقط ۔ آنکھیں روشنی کی شعاع کی وائبریشنز اور کان آواز کی موج کی۔ چکھنے، سونگھنے اور چھونے کی حسیں مادی اجزأ کے مالیکیولوں کی وائبریشنز لاتے ہیں، فقط ہمارے دماغ کے مخصوص خلیوں تک۔ تو کیا ہمارے دماغ کے خلیے کوئی اور مخلوق ہیں؟ کسی اور چیز سے بنائے گئے ہیں؟ نہیں تو! ہمارے دماغ کے خلیے بھی اسی مٹی، اسی مادے کی ترقی یافتہ شکل ہیں۔ اس کا تو یہ مطلب ہوا میرے دوست! کہ ہمارے حواس ِ خمسہ قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔ وہ جس چیز سے وجود میں آئے ہیں اسی کے بارے میں رائے قائم کرتے رہتے ہیں۔ مٹی اپنے ہی بارے میں کوئی رائے کیسے دے سکتی ہے؟ کوئی بھی مخلوق اپنے وجود کا جواز نہیں بتاسکتی۔ یہ فضول سی بات ہے۔ مخلوق تو مخلوق ہوتی ہے۔ وہ تو اسی کیچڑ سے پیدا ہوئی ہے جس کے بارے میں بتارہی ہے کہ وہ کیچڑ ہے۔ اس پر مستزاد ہم جانتے ہیں کہ ہمارے حواس ہمیں کیا دکھاتے ہیں۔ ہروقت جھوٹ بولتے ہیں۔ میری طرف آتی ہوئی ایمبولینس کے ہُوٹر کی آواز بیس قدم کے سے اگر اسّی ڈی بی تھی تو مجھ سے دور جاتی ہوئی ایمبولینس کی آواز مجھ سے بیس قدم کے فاصلے پر صرف چالیس ڈی بی کیوں تھی؟ میں نے گرم پانی سے نکال کر اپنے ہاتھ کو نارمل پانی میں ڈالا تو وہ نارمل پانی مجھے ٹھنڈا کیوں محسوس ہوا؟ مٹھائی کھانے کے بعد میں نے چائے پی تو وہ میٹھی کیوں نہ تھی؟ دور سے آتا ہوا شخص پست قد تھا اور نزدیک آکر اتنا لمبا نکلا؟ میں کیسے یقین کرلوں کہ جو کچھ میں حواس سے محسوس کرتاہوں وہ واقعی ویسا ہی ہے جیسا مجھے محسوس ہوتاہے؟ کیونکہ اور لوگوں کو تو اور سا بھی محسوس ہوتاہے۔
میرا خواب تو خواب تھا پھر مجھے خواب میں سیب کی خُوشبُو کیوں محسوس ہوئی؟ کیا میرے بستر کے آس پاس سیب پڑے تھے؟ میں نے خواب میں گانا سنا۔ میں نے خواب میں رنگدار کپڑوں والی لڑکی دیکھی۔ یہ سب تو میں نے بند آنکھوں سے دیکھا۔ اس وقت تو میں سورہا تھا۔ اس وقت تومیرے حواسِ خمسہ کام نہیں کررہے تھے۔ کیا میرا دماغ کبھی کبھار میرے حواس خمسہ کو کام میں لائے بغیر بھی ویسا ہی محسوس کرتاہے جیسا میں جاگ رہاہوتا ہوں تو کرتاہے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے پھر۔
مجھے دے جاوُو کیوں ہوتاہے؟ میں کبھی کبھار محسوس کرتاہوں کہ جو کچھ میرے ساتھ پیش آرہاہے یہ پہلے بھی پیش آیا تھا؟ اس کا کیا جواب دیا ہے سائنس نے؟ اس کا تو کوئی جواب نہیں دیا سائنس نے میرے دوست!
اور پھر ہلوسی نیشنز کیا ہیں؟ شیزوفرینیا کے مریضوں کو جاگتی آنکھوں سے چیزیں کیوں نظر آجاتی ہیں۔ ایسی چیزیں جو کسی اور کو نظر نہیں آرہی ہوتیں؟ پھر کولیٹِکو ہلوسی نیشن بھی تو ہوتاہے۔ جو ایک شخص کی بجائے کئی لوگوں کو ایک ساتھ نظر آتاہے۔ یہ ساری دنیا کہیں دھوکا تو نہیں۔ یہ ساری دنیا کہیں کوئی کولیٹِکو ہلوسینیشن تو نہیں؟
میں فلسفے اور مذہب سے کیوں پوچھوں؟ فلسفے اور مذہب کے پاس مبہم جواب ہوتے ہیں۔ میں سائنس سے پوچھنا چاہتاہوں۔ اے سائنس! تُو مجھے بتا! کیا یہ دنیا سچ مچ وجود رکھتی ہے؟ میں ایٹموں سے مل کر بناہوں نا؟ اور ایٹمز الیکٹرانوں اور پروٹانوں اور نیوٹرانوں سے مل کر بنے ہیں۔ یہ چھوٹےچھوٹے ذرّات ہیں؟ کیا یہ ذرّات واقعی مادے کے ذرّات ہیں۔ ارے نہیں! سائنس تو کہتی ہے یہ مادے کے ذرّات نہیں ہیں یہ توانائی کی لہریں ہیں۔ کارل ساگان نے مجھے بتایا تھا کہ یہ فقط رفتاروں کا مجموعہ ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے ذرّات دراصل، ذرّات کے طور پر وجود ہی نہیں رکھتے۔ یہ تو ایک موج ہیں۔ ایک ویو۔ ایک لہر۔ جو دیوار سے آرپار بھی چلی جاتی ہے۔ ایٹم کے نیوکلیئس کے اندر موجود الفا پارٹیکلز کی موج ایٹم کے نیوکلیئس سے باہر تک وجود رکھتی ہے۔ وہ تو چاند تک بھی وجود رکھتی ہے۔ بس امکانات کے شما رکی بات ہے۔ وہ کہاں ہوسکتی ہے، ہم نہیں جانتے۔ ہائزن برگ کہتاہے، ہم نہیں بتاسکتے کہ وہ کہاں ہے۔ ایک چھوٹا ذرّہ جس سےمیرا جسم بناہے وہ کہاں ہے یہ میں نہیں بتا سکتا۔ یہ کوئی بھی نہیں بتا سکتا۔ وہ کہیں بھی ہوسکتاہے کیونکہ وہ سپر پوزیشن پر ہے۔ یہ سپر پوزیشن کیا ہوتی ہے میرے دوست؟ یہ کسی بھی موج کے تمام امکانات ہیں۔ ایک ساتھ ۔ تمام کے تمام امکانات، ایک ساتھ ۔
سبحان اللہ! یہ کیا بات ہوئی؟ مجھے بتاؤ! مجھے بتاؤ کہ میں کہاں کھڑا ہوں؟ کیا میں زمین اور چاند پر ایک ساتھ موجود ہیں؟ تمہاری سپر پوزیشن میری سمجھ سے باہر ہے۔ لیکن سائنس تو یہی بتائے گی۔ کوپن ہیگن انٹرپریٹیشنز یہ بتائیں گی کہ جب کوئی ایسی سپرپوزیشن والی موج کو دیکھتاہے تو وہ اسے کولیپس کردیتاہے۔ یعنی وہ فقط اس کو وہیں نظر آنے لگتی ہے جہاں کوئی اس کی پیمائش کرنے لگتاہے۔ لیکن ’’ہیوایورٹ‘‘ کی انٹرپریٹیشن تو کچھ اور کہتی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ دراصل جہان بہت سارے ہیں۔ سب کے سب متوازی ہیں۔ حقیقی جہان مادی ہیں ہی نہیں۔ وہ سب ایک خواب جیسے ہیں۔ میں جتنی بار ٹائپنگ مسٹیک کرکے بیک سپیس ماررہاہوں اتنی ہی بار ایک نئے متوازی جہان میں چلا جاتاہوں۔ بٹرفلائی ایفکٹ کو پڑھو میرے دوست! ۔ دنیا ایسی نہیں ہے جیسی ہمیں دکھائی دیتی ہے۔ رئیلیٹی لامتناہی امکانات میں پھیلی ہوئی ہے۔ رئیلٹی ہی تو سپرپوزیشن پر ہے۔ میرے سارے جہان میرے آس پاس بکھرے ہیں۔ ان لامتناہی متوازی جہانوں میں کوئی سے دو جہان جو ایک دوسرے کے نزدیک ترین واقع ہیں وہ بالکل ایک جسیے ہیں۔ جیسا کہ تمہارے لیے یہ مضمون پڑھنا یا یہ مضمون اِسی وقت چھوڑ کر فیس بک کے کسی اور پیج پر چلا جانا۔ دونوں الگ الگ جہان ہیں۔ لیکن متوازی ہیں اس لیے تمہیں پتہ نہیں چلتا کہ تم ایک جہان سے دوسرے جہان میں چلے گئے ہو۔
تو کیا ایک جہان سے دوسرے جہان میں اپنی مرضی سے بھی جایا جاسکتاہے؟ کیوں نہیں؟ کیوں نہیں؟ تم جب بھی کوئی فیصلہ کرتے ہو ایک نئے جہان میں چلے جاتے ہو۔ کیونکہ رئیلٹی سپرپوزیشن پر ہے۔ تم اسے کولیپس نہیں کرتے تم فقط اپنے شعور کے ساتھ ایک جہان میں موجود رہتے ہو۔ان میں سے کسی ایک جہان میں۔ تمہاری لامتناہی کاپیاں یعنی نقول ہیں۔ وہ سب دوسرے جہانوں میں رہتی ہیں۔ تم اِس جہان میں بیمار ہو۔ تم اِس جہان میں ہارٹ کے مریض ہو۔ لیکن ایک اور جہان ہے جس میں تم بالکل صحت مند ہو۔ تم چاہو تو اپنے گریوٹانز کو دماغ سے قابو میں کرلو اور اس صحت والے جہان میں منتقل ہوجاؤ! ارے کیا؟ کیا میں واقعی ایسا کرسکتاہوں؟ ہاں تم ایسا کرسکتے ہو۔ لیکن تمہیں ایسا کرنے کے لیے ’’قوتِ یقین‘‘ کی ضرورت ہے۔ تم یوگا کے ذریعے بھی یقین حاصل کرسکتے ہو۔ تم اپنے جذبے کی شدت سے بھی یقین حاصل کرسکتے ہو۔ تم بس ہروقت اچھا اچھا سوچا کرو! تم اپنے کینسر کو اپنے ذہن سے مات دے سکتے ہو۔ تم نے کرنا فقط اتنا ہی تو ہے کہ ایک جہان سے نکل جاناہے۔ ایک جہان جہاں تم بیمار ہو۔ اس کے ساتھ ہی متوازی جہان ایک اوربھی ہے جہاں تم بیمار نہیں ہو۔ نکل جاؤ! اپنے اندر سے ایک قوت، ایک شکتی، ایک طاقت، ایک سلطان کو پکارو! نکل جاؤ! تمہیں کسی علاج کی ضرورت نہیں۔ تمہیں ضرورت ہے تو فقط یقین کی۔
میرے دوست! یہ دنیا قابلِ اعتبار نہیں ہے۔ حواس بھی اور عقل بھی۔ میرے دوست! ہم جس کسی شئے کو دیکھتے ہیں یہ فقط ہماری اپنی سمجھ ہے ورنہ چیزیں ایسی نہیں ہیں۔ یہ ہمارا منطقی فہم ہے جو ہمیں بتاتاہے کہ چیزیں ایسی ہیں۔ اگر ہماری انگلیاں دس نہ ہوتیں تو کیا ہم اعشاری نظام میں گنتی گن سکتے تھے؟ کیا ہم سات سو پچیس کہہ سکتے؟ نہیں نا؟ اگر ہماری انگلیاں آٹھ ہوتیں تو ہم ہمارا سو 100 ہی کچھ اور ہوتا۔ تب ہمارا سو ، چوسنٹھ کا ہوتا۔ ہیں نا؟ اور پھر یہ دُوراور نزدیک کیا ہے؟ کیا سچ مچ چیزیں دُور اور نزدیک بھی ہوتی ہیں؟ نہیں۔ یہ فقط ہمارے منطقی فہم میں موجود سپیس ہے۔ یہ خلا۔ یہ فاصلہ۔ یہ فاصلہ جانوروں کے ذہن میں ویسا نہیں جیسا ہمارے ذہن میں ہے۔ جانور تو دور کی بات ہے۔ اس فاصلے کو تو انسانی بچہ بھی نہیں جانتا کہ یہ واقعی موجودہے۔ ایک چھ ماہ کا بچہ چاند کو کتنا نزدیک سمجھ رہاہوتاہے؟ کیوں؟ کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ درمیان میں فاصلہ ہے۔ فاصلے ہمارے ذہن کی فیکلٹی ہیں ۔ ہر دیکھنے والے ذہن کی اپنی اپنی فیکلٹیاں ہوتی ہیں دوست!
اور یہ ٹائم؟ کیا واقعی وقت گزررہاہے؟ نہیں تو! سائنس تو کہتی ہے کہ وقت نہیں گزرتا۔ ہم وقت میں سے گزرتے ہیں۔ بلکہ سائنس تو یہ کہتی ہے کہ وقت ایک اضافی چیز ہے۔ یہ ہمارا خیال ہے کہ وقت ہوتاہے۔ ہم مختلف رفتاروں پر وقت کے مختلف تجربوں سے گزر سکتے ہیں۔ کبھی تو ہمارے لیے وقت کم گزر سکتاہے اور کبھی توہمارے لیے وقت زیادہ گزر سکتاہے اور کبھی توہمارے لیے وقت گزرتاہی نہیں ہے۔ وقت اضافی ہے۔ وقت سکڑ جاتاہے۔ وقت پھیل جاتاہے۔ وقت رک جاتاہے۔ وقت ہوتا ہی نہیں ہے۔ نہ زمانہ ہے نہ مکان ہے۔ کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سب ہمارا وہم ہے۔ یہ سب ہماری سوچ ہے۔ میرے دوست! ہمیں معلوم ہی کتنا کچھ ہے؟ کائنات میں جانے پہچانے مادے اور جانی پہچانی توانائی کی مقدار فقط پانچ فیصد ہے۔ ڈارک انرجی کی مقدار 68 فیصد اور ڈارک میٹر کی مقدار 27 فیصد ہے۔ جس کائنات کا پچانوے فیصدابھی ہمارے لیے ’’ڈارک‘‘ یعنی بالکل ہی نامعلوم ہے تو ہم کیسے دعوے لے بیٹھے کہ کائنات ہماری سمجھ میں آگئی اور یہ کہ بس مادہ پرستی ہی دنیا کا واحد اکلوتا فہم ہے جو درست ہے؟ ارے یہ تو احمقوں والی بات ہوگی یارا! باقی کا پچانوے فیصد معلوم ہوئے بغیر رائے ؟ یہ کیسی رائے ہے؟ یہ کیسی جنرلائزیشن ہے؟ قربان جاؤں تمہارے فلاسفی کے طالب علم ہونے پر۔ ارے نہیں نہیں! جو ڈارک ہے پہلے وہ معلوم ہولینے دو۔ پھر رائے دینا۔ کہیں یوں نہ ہو تمہاری ساری کی ساری عمارت جس کی بنیاد ہی مادے پر ہے دھڑام سے گرپڑے۔
اوہ مائی گاڈ! دوست! مجھے لگتاہے کہ ہم ایک خواب دیکھ رہے ہیں یا کسی کمپیوٹر پروگرام کی طرح کسی کی ہارڈ ڈرائیو پر چل رہے ہیں۔ یہ کائنات ایک سی ڈی جیسی ہی نہ ہو۔ کیا ہم ہیں؟ مجھے تو نہیں لگتا کہ ہم ہیں۔ ہم فقط ایک سوچتی ہوئی حقیقت ہیں۔ ایک سوچتی ہوئی حقیقت۔ شاید ایسا بھی نہیں ہے۔ شاید ہم فقط سوچتی ہوئی حقیقت بھی نہیں ہیں۔ شاید ہم حقیقت ہی نہیں ہیں۔ سب کچھ ہمارا وہم ہے۔ سب اجزأ ہمارے منطقی فہم نے ترتیب دیے ہیں۔ اگر کچھ ہوگا تو پھر وہ سارے کا سارا کسی ایک کُل میں موجود ہے۔ ایک کُل جہاں نہ کوئی دُوری ہے نا نزدیکی۔ جہاں سب کچھ ایک ہی جگہ موجود ہے۔ ایک ہی جگہ؟ جگہ کا کیا تصور؟ نہیں وہ سب کچھ دراصل سب کچھ نہیں ہے۔ وہ فقط ایک کُل ہے۔ ایک ایسا کُل جو محض رُوح ہے۔ حقیقتِ مطلقہ محض رُوح ہے دوست!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“