میرے جزبات سے اس قدر واقف ہے میری نوک قلم
میں اشک بھی لکھنا چاہوں تو بھی انقلاب لکھ جاتا ہے
قرآن کریم میں القلم کے نام کی ایک صورت ہے مطلب یہ کوئی نیا نام نہیں بلکہ لوگ اس قلم کے نام سے واقف ہیں یہ اور بات ہے کہ زمانے کے پر دور میں اس کی پہچھان بنتی گئی عروج پاتی گئی اور اصحاب علم و ادب کی سب سے پسندیدہ شئے ٹھر گیا یہ قلم
قلم کی نوک پلک سنوارنے کے لئے کس نے جتن نہ کئے ہوں گئے میں نے جب اسے پہلی بار دیکھا تب یہ لکڑی کا تھا اور اسے ہم تختی پر لکھنے کے لئے استعمال کیا کرتے تھے میرے نزدیک وہ قلم بہت بڑی شئے تھی جو مجھے صبح ٹڑکے استاد کی مار سے محفوظ بناتا تھا
ہر دن اس قلم کی دیکھ بال کرنی پڑتی تھی اور کبھی کبھار کوئی خوبصورت معصوم سی لاٹھی ملتی تو اسے نئے قلم بنانے کے لئے اٹھا کر رکھتے تھے کاپی پر ٹیڑھی لکیریں کھینچنے کا وقت ہوا تو پنسل ہاتھ میں تھام لی اور خوب لکھائی ہوتی رہی اور قلم سے محبت بڑھتی رہی پھر وہ زمانہ بھی آیا کہ قلم ایک خوبصورت آلہ بن گیا جسے ہر کتب فروش کی دکان کی زینت بنتے ہوئے دیکھا جس قلم کو خریدنے کی سکت نہ ہوتی اسے دیکھ کر ہی آہین بھرنے لگتا پر محبت جو اس سے ہوئی تھی وہ مجبور کرتی رہی
اور پھر زمانہ جو اپنے شام و سحر سے بڑھتا رہا آگئے کی جانب سوچا تھا کہ قلم میں لذت و چاشنی آئے گی پر ہوا کچھ یوں جب ہم ہوش سنبھالنے کی حد کو پہنچے تو دل نے محسوس کیا کہ
زبان پر پہرے نہ ہوتے قلم زنجیر میں جکڑا نہ ہوتا
ہم بھی اظہار غم میں شریک سفر تو رہتے
خاموشی سناٹا وحشت و تردد ہی باقی بچا ہے
کون جانتا تھا کہ وہ زمانہ بھی آئے گا جب اسی قلم کی نوک پلک سنوارنے کے بجائے اس کا گلہ گھونٹ دینا پڑے گا مجبور ہوکر قلم اپنی مرضی سے زیادہ دوسروں کی مرضی کا محتاج بن کر رہے گا اور پھر نوک قلم ٹوٹ کر بکھر جائے گی اور اس قلم کی آہ بکا سن کر بھی ان سنی کردی جائے گئی حتی کہ قلم زنجیر میں جکڑا ایک ایسا آلہ بن جائے گا کہ سانپ تو موذی نہ رہے پر قلم موذی بن کر رہ جائے گا اسی لئے ہر کوئی اس کی نوک کو بگاڑنے کے لئے کوشاں ہوکر رہ جائے گا
تو اک روز قلم سے محبت کرنے والا اس پر اک مرثیہ لکھنے کے لئے خود کو آمادہ کرکے خوب آنسو بہائے گا پر وہ آنسوؤں کی دھار قلم کی سیاہی بن نہ پائے گی قلم کی جو نوک سوکھ گی ہوگی وہ سوکھی ہی رہے گی پھر چاہئے کوئی لہو سے بھی اس کی نوک کو تر کرنے کی کوشش کرے پر قلم کی نوک تر نہ ہونے پائے گی شاید اس زمانے کو دیکھنے والے بھی قلم کی بے بسی پر نوحہ کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوں کیوں کہ بچپن میں دیکھا ہوا ہے جس قلم کی نوک ٹوٹ جاتی تھی وہ قلم پھر لکھنے کے بجائے بوجھ بن جایا کرتا تھا تب مجبوری تھی تو دوسرے قلم کی نوک سنواری جاتی تھی پر اب تو قلم سے وفا کا ارادہ بھی نہیں اب کون اس قلم کی نوک سنوارے کسی کو شاید حاجت ہی نہیں اب اسی لئے جو اس قلم کی نوک ٹوٹ گی تب سے یہ اسی حال میں اپنے ماضی کی حسین یادوں کے سہارے خود کو تسلی دینے کے سوا کچھ کر نہیں پارہا ہے آئے کاش قلم کے وہ دیوانے پھر سے آئیں اور اس قلم کی نوک پلک سنوارنے کے لئے کوشاں ہوجائیں
میں تو کہتا ہوں
محسوس ہو رہا ہے میرے الفاظ مر گئے
نوک قلم مچل رہی ہے الفاظ کے لئے
مل جائیں گر الفاظ تو لکھ دیجئے گا آپ
جیسے کہ یہ نوحہ بھی ہے کہ
کیسا لگتا ہے جب آپ کچھ لکھنا چاہیں مگر لکھ نہ پائیں؟
آپ کی واحد دوا آپ کے الفاظ جو آپ کی بے چینیوں کو اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے وہ آپ کا ساتھ چھوڑ دیں؟
جب بہترین دوست منہ موڑ لے…
آپ کی بے چینی دور کرنے اور قلم سے جدا ہونے سے انکار کردے
جب آپ اپنے اندر کے انتشار کو باہر پھینکنا چاہیں مگر وہ مضبوطی سے اندر جمے رہنے کی ضد کرے…
جب جذبات کا ایک سمندر آپ کے اندر بپھر رہا ہو اور قلم کی سیاہی خشک ہو جائے،آپ کے آنسو بھی اسے تر نہ کر پائیں…
جب آپ محبتوں کے جواب دینا چاہیں مگر زبان گنگ ہو جائے
جب آپ اداسیوں کو زبان دینا چاہیں مگر وہ گونگی رہنا پسند کریں
جب آپ ساتھ ہونے اور الگ ہونے کے فرق کو بیان کرنا چاہیں،جب آپ دو کیفیات کا محسوس کیے جانا بیان کرنا چاہیں مگر اپنے آپ کو معذور پائیں…
یقینا یہ بے بسی ہے
اور بے بسی کسے پسند ہوتی ہے
کچھ یوں محسوس ہورہا ہے اب
قلم کی روانی تھم سی گئی ہے سوچوں کا زاویہ رک سا گیا ہے
ہائے سکون جان پر لکھنے سنانے کا حوصلہ ہی بکھر سا گیا ہے
میرا قلم کا حال زار کچھ یوں ہے اب
سمجھ نہیں آتا کہ کیا ہورہا ہے
گر خوشی لکھوں تو لکھا نہیں جاتا کشمیر کو جنت لکھوں تو لکھا نہیں جاتا امن عالم لکھ دوں تو نوک قلم تڑپتی ہے حق مانگوں تو دل میں ہوک سی اٹھتی ہے میرے حالات ایسے ہیں کہ لکھا نہیں جاتا
اس پر مستزاد
دانشوروں کی کج فہمی نے کہیں کا نہ چھوڑا ہر کوئی خود ہی صاحب رائے اور دیانت کا جیتا چراغ دکھتا ہے اندورن خانہ دیکھیں تو وہ خود بھی خود سے آشنا نہیں ہے
تماشہ دیکھنے کو من ہر کسی کا کرتا ہے پر دل میں چھپے ارادے کے اظہار میں منافقت کا سہارا لیا جاتا ہے
“