عالم اسلام کی عظیم روحانی شخصیت
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ : پیکر کردار و عمل
جن کا 20/واں عرس 11 دسمبر 2023ء کو منایا جا رہا ہے۔
💥 دینی اور سیاسی خدمات کا ایک ناقابل فراموش باب 💥
لبوں پر پان کی سرخی ، سر پر خس کی بنی ہوئی ٹوپی، اس پر گہرا عنابی رنگ کا عمامہ ،گلے میں اسی رنگ کا پٹکا ،ہاتھ میں شاہ بلوط کی چھڑی ،قدم میں سبک رفتاری ،مزاج میں خاک ساری ،لباس نورانی اور نام بھی نورانی ، مولانا شاہ احمد نورانی درویشانہ زندگی گزار کر اندرون اور بیرون ملک لاکھوں سوگواروں کو غم سے نڈھال کر کے 11 دسمبر 2003ء کو ابدی نیند سو گئے ۔
سال دسمبر کا دوسرا عشرہ شروع ہوتے ہی پاکستانی سیاست کے ایک روشن اور اُجلے کردار کی یاد تازہ کر دیتا ہے بلکہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی رحمہ اللہ کی کمی پہلے سے بھی زیادہ شدت سے محسوس کی جاتی ہے کیونکہ وہ ایک ایسی ہفت پہلو اور ہشت رنگ شخصیت کے مالک تھے جس میں علم وعمل کا حسین امتزاج موجود تھا ۔ وہ صاحبِ بصیرت ،پیکرِ اخلاص اور منبعِ حسنات تھے۔ سن ولادت1926ءجبکہ تاریخ وفات11دسمبر2003ءہے۔ صدیقی النسب ہیں۔ خاندان خالص علمی و روحانی پایا۔ والد گرامی مولاناشاہ عبد العلیم صدیقی بن حضرت مولانا شاہ عبد الحکیمؒ ،حسان الہندشیخ الاسلام سیدی امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز تھے۔قرآنِ کریم حفظ کیا اور پھر ساری زندگی اسے حرزِ جاں بنا لیا۔ہر سال باقاعدگی سے ماہِ صیام میں نمازِ تراویح کے دوران محراب سناتے تھے۔ ہزاروں غیر مسلموں نے آپکے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرنے کا شرف پایا اور لاکھوں مسلمانوں نے گناہوں کی زندگی سے توبہ کر کے اپنی اصلاح کی اور آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔آپ سیرت طیبہ کے رنگ میں رنگے ہوئے ایسے عظیم مسلمان رہنما تھے کہ جس پر سوادِ اعظم اہلسنت ہی نہیں بلکہ پورا عالم اسلام فخر کرتا رہے گا۔اس بات کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ قوم نے آپ کو قائدِ اہلسنت ، شیخ الاسلام ، قائدِ ملتِ اسلامیہ، امام انقلاب، قطب العصراور مرشد زماں کے القاب سے یاد کیا۔مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے چالیس برس ملک کی سیاست میں بھرپور اور منفرد کردار ادا کیا ۔ انہوں نے ملک کی دینی سیاست میں نفاذِ نظام مصطفی ﷺاور تحفظ مقامِ مصطفیﷺ کی اصطلاحات کو رائج کیااور اس حیثیت کے ساتھ کے پہلے پہل جو مذہبی طبقات اس اصطلاح کے بارے میں ابہام رکھتے تھے بلا تفریق پوری قوم کے زعما کی زبانوں پر نفاذِ نظامِ مصطفی ﷺاور تحفظ مقامِ مصطفی ﷺ کی اصطلاحات جاری ہوگئیں۔ وہ ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے بانی بھی تھے اور سربراہ بھی۔ مولانا نورانی کی بھرپور شخصیت کااندازہ اس امر سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ 4،اپریل 1970ءکو جمعیت علمائے پاکستان کے مختلف چھ گروپوں کو متحد کرنے کیلئے اکابر نے جو اجلاس طلب کیا تھا ،اس کی صدارت کیلئے شارح بخاری علامہ سید محمود احمد رضوی رحمة اللہ نے مولانا شاہ احمد نورانی کو دعوت دی۔ وہ تحریکِ ختمِ نبوت1974ءکے محرک اور قائد تھے۔آپ نے 30جون1974ءکو پاکستان کی قومی اسمبلی میں قرار داد پیش کی جس کے نتیجے میں تحریک چلی اور بالآخر 7ستمبر1974کو سربراہِ مملکت ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی کے فلور پر قرارداد کی منظوری کا اعلان کیا۔۔ وہ1946ءکی بنارس سنی کانفرنس میں اپنے والدِ گرامی مولانا شاہ عبد العلیم صدیقی کے ساتھ شریک ہوئے اور نعت شریف پڑھنے کا شرف پایا۔ بین الاقوامی تبلیغی دورے ساری دنیا میں کیے۔ خصوصاً افریقی ممالک موریشس ،کینیا، تنزانیہ ، نیروبی، دارالسلام ، یوگنڈا، منباسہ،موزمبیق اور مشریقی افریقہ میں بھرپور تبلیغی کام کیا ۔انہیں عربی ،انگریزی ،فارسی کے علاوہ افریقی اور سواحلی زبانوں پر عبور حاصل تھاجبکہ پاکستان کی قومی زبان اردو ان کی مادر ی زبان تھی۔ 1980ءمیں کولمبیا یونیورسٹی نیو یارک امریکہ میں اسلام کی ہمہ گیریت کے موضوع پر خطاب کے دوران سوال و جواب کی نشست کے اختتام پر ایک خاتون پروفیسر نے اسلام قبول کر لیا۔ وہ ایک بے باک اور لیڈر رہنما تھے۔
مولانا پیرانہ سالیوں میں بھی جوانوں سے زیادہ کام کرتے تھے ۔مولانا مایوسیوں اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی کرن تھے ۔وہ استقامت اور ہمت کا ایک کوہسار تھے ۔۔وہ روحانیت میں اوج ثریا پر متمکن تھے ۔۔سیاست میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔وہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امین تھے ۔ان کا نام شاہ احمد نورانی تھا۔لیکن وہ شاہ مدینہ کے غلام تھے ۔وہ نورانی بھی تھے اور خدا کے نور کے نور کے طلب گار بھی تھے۔عاجزی انکساری مہمان داری ان کی فطرت میں رچ بس گئی تھی۔ حاضر جوابی اور سیاسی تدبر ان کا طرہ امتیاز تھا۔ وہ حسین و جمیل بھی تھے باوقار اور رحم دل بھی تھے ۔دلوں کو موہ لینے والے مسکرانے والے، محبت کرنے والے تھے جو آج اس دنیا میں نہیں ہیں ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے
🕳ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے ۔۔۔۔۔۔۔
مولانا شاہ احمد نورانی نے اپنی پوری زندگی میں اسلام کا پرچم بلند کیا ۔عقیدہ اہل سنت کو فروغ دیا اور امت مسلمہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے روشناس کروایا ۔اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی اور اپنے والد مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی کے مشن کو انہوں نے پوری جانفشانی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دن رات انتھک محنت کی۔ ساتھیوں کی بے وفائیاں برداشت کیں، لیکن کبھی بھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے ۔
مولانا شاہ احمد نورانی کی زندگی کے دو مشن تھے۔ اول مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفظ اور دوم نظام مصطفی کا نفاذ۔۔۔ وہ 1970ء میں سیاسی میدان میں مرد مجاہد کی طرف اترے وہ ایسے چمکے کہ آخری سانس تک ان کی چمک باقی رہی۔ان کی تابانی نے سیاست کے اندھیروں کو بڑی حد تک دور کر دیا ۔ان کا پختہ یقین تھا کہ سیاست کو مذہب سے جدا نہیں کیا جا سکتا ،یہ ایک سکے کے دو رخ ہیں وہ کبھی کسی ڈکٹیٹر کے سامنے جھکے اور نہ کبھی حق بات کہنے سے باز رہے ۔اسی لیے قطب مدینہ حضرت ضیاء الدین مدنی نے ان کے متعلق فرمایا تھا کہ
“نورانی نہ بکنے والا ہے اور نہ ہی جھکنے والا”
مرحوم ذوالفقار علی بٹو چونکہ شوشلزم کے نام پر اقتدار میں آئے تھے اس لیے دستور پاکستان میں انہوں نے “سوشلسٹ دی پبلک اف پاکستان” کا نام تجویز کیا لیکن علامہ شاہ احمد نورانی کی وکالت ، فراست اور ٹھوس دلائل کی بنیاد پر بھٹو کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔۔”اسلامک ری پبلک اف پاکستان” کے الفاظ کو دستور میں شامل کرنا پڑا۔۔ مولانا نے 1973ء کے دستور پاکستان کی تشکیل میں بڑا اہم کردار ادا کیا اور تقریبا 200 تجاویر پیش کیں۔مولانا شاہ احمد نورانی اور کئی دیگر حضرات کی کاوشوں اور ان کے سیاسی تدبر کی وجہ سے 1973ء کا دستور اسلامی بنا 1973ء کے دستور پاکستان کے خدوخال کو اسلامی بنانے کے لیے مولانا شاہ احمد نورانی کی درج زیل اہم تجاویز دستور پاکستان میں شامل کی گئیں۔۔
(1)پاکستان کا نام “اسلامک ری پبلک اف پاکستان” ہوگا۔
(2) دستور میں مسلمان کی تعریف کی شمولیت
(3)اسلام “مملکت” کا سرکاری مذہب ہوگا اور حکومت مذہب کے تحفظ کی ذمہ دار ہوگی ۔
(4) کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنے گا۔
(5) اسلامی قوانین کی تشریحات کے لیے اسلامی نظرتی کونسل کا قیام.
(6) مملکت کا سربراہ مسلمان ہوگا ۔
(7)حلف اٹھانے کی تعریف۔۔ صدر، وزیراعظم ،وزرائے اعلی، ہائی کورٹس، سپریم کورٹ کے ججز ،کمانڈر انچیف اور جو بھی اعلی عہدے دار حلف اٹھاتے ہیں وہ انہی کے ہاتھوں کا تحریر کردہ ہے ۔
مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفظ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا شاہ احمد نورانی نے 1973ء کے دستور پاکستان میں جب مسلمانوں کی تعریف شامل کرائی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ قادیانیت کے تابوت میں اخری کیل ٹھوک دی جائے گی۔30 جون 1974 کو قومی اسمبلی کے فلور پر قادیانیوں اور مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے تاریخی قرارداد پیش کی۔اس قرارداد پر پہلی ارکان نے دستخط کیے بعد میں یہ تعداد بڑھتی گئی دستخط کرنے والے ارکان کی تعداد 37 ہوگئی۔
مولانا شاہ احمد نورانی جب پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں پہنچے۔فولادی قوت اور ٹھوس دلائل دے کر قادیانیوں اور مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔فتنہ قادیانیت کے خلاف جدوجہد میں انہوں نے تاریخ ساز اور ناقابل فارموش کردار ادا کیا ۔اپ نے سیاسی حریفوں کے سازشیں اور چالیں بھی برداشت کیں۔متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ مخالفین نے آپ پر گولیاں بھی برسائیں لیکن مولانا نے اپنے نظریے سے دستبردار ہونا تو درکنار، ایک انچ بھی اپنے موقف سے ہلنا گوارا نہ کیا۔مولانا نورانی ہمیشہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے حکمرانوں کی تمام دھمکیاں اور ترغیبات بے سود ہوئیں ۔ان کا عقیدہ تھا کہ موت اور زندگی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ان کی قدر کے منصوبے بھی بنے اور قاتلانہ حملوں میں گولیوں میں برسیں لیکن مجال کے انہوں نے کبھی مقدمہ ،کبھی استغاثہ، فریاد اور شکایت کی ہو،ان کا پختہ یقین تھا کہ سارے معاملات اللہ رب العزت کے سپرد ہیں اور اللہ ہی حفاظت کرنے والا ہے ۔
ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کا قیام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا شاہ احمد نورانی دین اور سیاست کو جدا نہیں سمجھتے تھے وہ اتحاد ملت اسلامیہ کے نقیب ،مسلم قومیت اور اتحاد ملی کے بہت بڑے داعی تھے۔ وہ اپنے موقف پر سختی سے گامزن رہتے تھے۔ علاقائی اور لسانی تنظیموں کو غیر اسلامی اور اسلام دشمن قوتوں کی بیساکھی سمجھتے تھے۔وطن عزیز میں جب مذہبی منافرت کی بنا پر مسلمان ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے تو فورا مولانا نورانی نے ملی جنگجدی کونسل قائم کی اور گول میز کانفرنس منعقد کر کے مذہبی منافرت اور عناد کو ختم کروایا۔مولانا نورانی کے اس سیاسی تدبر اور ملی جذبے کی قدر کرتے ہوئے اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ مولانا نورانی کی سیاسی فراست ہی کی وجہ سے متحدہ مجلس عمل کی تشکیل ہوئی۔ قبل ازیں تمام دینی جماعتیں انتخابات میں الگ الگ حصہ لیتی تھیں جس کی وجہ سے دینی ووٹ آپس میں تقسیم ہو جاتے تھے دین سے تعلق رکھنے والے سیاستدان قومی اسمبلی میں پہنچنے سے قاصر رہتے تھے۔۔مولانا نورانی نے تمام دینی جماعتوں کے سیاسی اتحاد پر زور دیا اور متحدہ مجلس عمل کے نامزد امیدوار پہلی مرتبہ موثر کوز کے ساتھ قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔قومی اسمبلی میں اتنی بڑی تعداد دینی رہنماؤں کی کبھی نہیں دیکھی گئی تھی ۔
متحدہ مجلس عمل ہو یا ملی یکجہتی کونسل دونوں اتحادوں کی سربراہی کے لیے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے مولانا شاہ احمد نورانی کی قد آور شخصیت کو منتخب کیا۔
پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے سیاست میں فعال بنانے کے لیے مولانا شاہ احمد نورانی ؒ کا کردار نہایت اہم رہا۔ قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ مولانا نورانی تمام مکاتبِ فکر کے علماء اور سیاسی تنظیموں کے نزدیک اتحاد اور یگانگت کی علامت اور معتبر ہستی تھے۔ آج علّامہ شاہ احمد نورانی ؒ کی برسی ہے۔
مولانا نورانی ؒ 1972ء سے جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے فعال تھے۔ وہ ایک تجربہ کار سیاست داں، مذہبی راہ نما اور مبلغِ اسلام تھے جنھیں ان کے چاہنے والے اور معتقد قائدِ اہلسنت، نورانی میاں، علّامہ نورانی کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔
علّامہ شاہ احمد نورانی نہایت قابل اور تعلیم یافتہ شخص تھے جنھوں نے تقسیمِ ہند سے قبل الہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ ایک بہترین خطیب اور مقرر بھی جو اردو کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، سواحلی اور فرانسیسی زبانیں جانتے تھے۔
ان کا تعلق میرٹھ شہر تھا جہاں انھوں نے 31 مارچ 1926ء کو آنکھ کھولی۔ ان کا میرٹھ میں روحانی اور علمی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ آپ کی تعلیم و تربیت ایک علمی اور فکری خا نوادے میں ہوئی تھی اور کم عمری میں حفظِ قرآن کے بعد میرٹھ میں ہی آپ نے اپنی ثانوی تعلیم مکمل کی، بعدازاں گریجویٹ کیا، اسی دوران میرٹھ کے مشہور مدرسہ سے درسِ نظامی کی مرو جہ و غیر مروجہ کتب پڑھیں۔
علامہ صاحب نے اپنے والدِ ماجد سے بیعت و خلافت حاصل کی تھی۔ آپ 11 برس کے تھے جب حرمین شریفین کی زیارت کو گئے اور مدینہ میں ایک سال تک تجوید و قرأت کی تعلیم بھی حاصل کی۔ علّامہ نورانی عالم باعمل تھے اور انتہائی سادہ اور پُروقار زندگی بسر کی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ انھوں نے اپنی پاکیزہ زندگی میں خانقاہی اور سیاسی نظام کو بڑی خوب صورتی سے بہم کردیا تھا اور منبر سے ایوان تک ان کی شخصیت کا ایک رعب اور علمی و نظریاتی تأثر دیکھنے والے پر قائم ہوتا تھا۔
علّامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ نے ملکی سیاست میں حصّہ لیتے ہوئے اپنی اوّلین اور سب سے بڑی ذمہ داری یعنی تبلیغ اسلام اور تعلیماتِ دین کو پھیلانے کا مشن کبھی کسی مصروفیت کی نذر نہیں ہونے دیا اور خاص طور پر غیر ممالک میں تبلیغی کام جاری رکھا۔ انھوں نے اپنے والد کی وفات کے بعد 1955ء میں علمائے ازہر کی دعوت پر مصر کا دورہ کیا تھا اور وہاں مختلف مقامات پر علماء کے اجتماعات سے یادگار خطاب کیے تھے۔ 1958ء میں پاکستان میں روسی سفیر کی تحریک اور مفتیٔ اعظم روس مفتی ضیاء الدّین بابا خانوف کی خصوصی دعوت پر وفد کے ساتھ روس گئے، اگلے برس مشرقِ وسطیٰ کے ممالک طویل خیر سگالی دورہ کیا۔ 1960ء میں مشرقی افریقہ، مڈغاسکر اور ماریشس کا دورہ کیا۔ ان کے غیرملکی تبلیغی دوروں کی فہرست میں سری لنکا، شمال مغربی افریقہ، کینیا، یوگنڈا، شمالی نائجیریا وغیرہ شامل ہیں جہاں علماء اور وہاں کے مسلمانوں سے خطاب کے علاوہ مولانا نورانی نے مختلف اداروں اور تنظیموں کے توسط سے غیرمسلموں تک بھی توحید اور اسلام کی حقانیت کا پیغام پہنچایا۔
1963ء میں شادی کے بعد علّامہ شاہ احمد نورانی ترکی، مغربی جرمنی، برطانیہ، نائجیریا، ماریشس و دیگر کئی ممالک کے تبلیغی دورے پر روانہ ہوگئے، اسی سال کے آخر میں چین اور اگلے برس کینیڈا کا تبلیغی دورہ کیا۔ 1968ء میں یورپ گئے جہاں قادیانی رسالے کے ایڈیٹر سے طویل مناظرہ کیا اور اپنے حریف کو علمی اور منطقی دلائل سے زیر کیا۔ 1972-73ء میں پارلیمانی سیاست، پاکستان کے آئین، اور تحریکِ ختم نبوت کے سلسلے میں متحرک رہے۔ علّامہ نورانی 1973ء میں خانیوال کے کنونشن میں جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ منتخب ہوئے تھے اور تاعمر اسی تنظیم سے وابستہ رہے۔
دنیا بھر میں ہزاروں غیرمسلم علّامہ نورانی کے وعظ اور خطبات سے متاثر ہوئے اور بڑی تعداد حلقہ بگوشِ اسلام ہوئی۔ پاکستان میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے نفاذ کے لیے آخری سانس تک متحرک رہنے والے علّامہ نورانی کو مذہبی منافرت کی حوصلہ شکنی اور کارکنوں کو تشدد سے دور رکھنے کے لیے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
وہ 1953ء میں ورلڈ مسلم علما آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل بنے۔ 1970ء میں جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 2003ء میں ایم ایم اے کے ٹکٹ پر سینٹ کے رکن بنے تھے۔
11 دسمبر 2003ء کو مولانا شاہ احمد نورانی اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ انھیں کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔مولانا شاہ احمد نورانی آمریت کے مخالف اور جمہوریت کے ہمیشہ دلدادہ رہے۔مولانا شاہ احمد نورانی ایک عظیم مبلغ تھے ان کا انداز تبلیغ اتنا منفرد تھا اور اس کی تاثیر اتنی مسحور کن تھی کہ سینکڑوں غیر مسلم ان کی دعوت دین سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ان کی قائم کردہ تنظیم “ورلڈ اسلامک مشن” دنیا کے 45 ممالک میں دین اسلام کی ترویج کا کام کر رہی ہے ۔ورلڈ اسلامک مشن کی زیر نگرانی مختلف ممالک میں درجنوں مساجد مدرسے ،کالجز، لائبریریاں ،جریدے، قرآن پاک کی طباعت اور رفاہی ادارے کام کر رہے ہیں۔۔مولانا شاہ احمد نورانی کا سیاسی کیریئر بہت روشن تھا انہوں نے دیانت اور کردار کی سیاست کی۔ اس حوالے سے ان کی خدمات ملک کی سیاسی اور دینی تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ہر سال دسمبر کا دوسرا عشرہ شروع ہوتے ہی پاکستانی سیاست کے ایک روشن اور اُجلے کردار کی یاد تازہ کر دیتا ہے بلکہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی رحمہ اللہ کی کمی پہلے سے بھی زیادہ شدت سے محسوس کی جاتی ہے کیونکہ وہ ایک ایسی ہفت پہلو اور ہشت رنگ شخصیت کے مالک تھے جس میں علم وعمل کا حسین امتزاج موجود تھا۔ وہ صاحبِ بصیرت،پیکرِ اخلاص اور منبعِ حسنات تھے۔۔اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے اور ان کا فیضان جاری و ساری رکھے ۔۔آمین۔
💥خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را ۔۔۔۔