ہوا چلی،پتے گرے، ٹہنیوں پر بیٹھے ہوئے پرندوں نے گریہ کیا، اس بات پر کہ وہ بلبلیں اور کوئلیں جو مشرقی پاکستان کے آم اور جامن کے درختوں پر بیٹھ کر گیت گایا کرتی تھیں جدا ہو گئیں ،اور گریہ کیا اس بات پر کہ جب بھی سولہ دسمبر آتا ہے، ان روتے سسکتے پرندوں کو بھانت بھانت کی بولیاں سننا پڑتی ہیں۔ ’’دانشور‘‘ جنہیں مشرقی پاکستان کے مزاج اور مسائل کی الف بے بھی نہیں معلوم، عجیب و غریب تجزیے پیش کرتے ہیں ؎
کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ
سب اسباب بیان کیے جاتے ہیں سوائے اپنی غلطیوں کے۔ غیر ملکی مداخلت کا ذکر بھی ہوتا ہے اور مشرقی پاکستانی سیاست دانوں کے ’’باغیانہ‘‘ انداز فکر کا بھی۔ نہیں ہوتا تو اس بات کا ذکر نہیں ہوتا کہ مرکز کیا کرتا رہا اور مغربی پاکستان کے سیاست دان اور پالیسی ساز کیا کرتے رہے؟ ؎
نہ روزنوں سے کسی نے جھانکا نہ ہم ہی مانے
وگرنہ سرزد ہوئے تو ہوں گے گناہ سارے
مشرقی پاکستانیوں کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب انہیں بتایا گیا کہ ملک کی قومی اور سرکاری زبان ایک ہی ہوگی اور وہ اردو ہوگی! وہ بھونچکے رہ گئے۔ بنگالی زبان اردو کی نسبت سینکڑوں سال پرانی اور زیادہ ترقی یافتہ زبان تھی۔ اس کا ادب تو عالمی سطح کا تھا ہی، تقریباً سبھی علوم میں یہ زبان بڑی حد تک خود کفیل بھی تھی۔ مشہور خاتون ریفارمر رقیہ سخاوت حسین جنہوں نے مسلمان عورتوں میں تعلیم کا شعور عام کیا تھا، بنگالی زبان ہی کی ادیبہ تھیں۔ 1937ء میں جب لکھنؤ میں منعقدہ مسلم لیگ کے اجلاس میں شمالی ہند کے رہنمائوں نے اردو کو مسلم ہندوستان کی واحد زبان قرار دیا تو اس وقت بھی بنگال کے مندوبین نے اس تجویز کی مخالفت کی تھی۔ پاکستان بنا تو مشرقی پاکستانی نمائندوں کو اسمبلی میں بنگالی بولنے کی اجازت نہ دی گئی۔ ڈاکٹر شہید اللہ جیسے محقق اور سکالر نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ خواجہ ناظم الدین نے بطور گورنر جنرل جنوری 1952ء میں ایک بار پھر ’’اردو اور صرف اردو‘‘ کا ذکر اپنی سرکاری تقریر میں کیا۔ احتجاج ہوا۔ دفعہ 144 نافذ ہوئی۔ گولی چلی، فسادات ہوئے، طلبہ مارے گئے، شہید مینار بن گئے اور دلوں میں ایسی گرہ پڑی کہ کبھی کھل نہ سکی۔ 1956ء میں بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا لیکن کوتاہ نظری اور کج فہمی اپنا کام کر چکی تھی۔
پھر مشرقی پاکستان کی اکثریت کو مغربی پاکستان کی کم آبادی کے برابر کرنے کے لیے ون یونٹ بنایا گیا۔ ون یونٹ ایک دو دھاری تلوار تھی۔ لاہور کو پورے صوبے کا دارالحکومت بنا کر سندھ، سرحد اور بلوچستان کے دور افتادہ مقامات کو اذیت میں ڈالا گیا۔ پنجاب کے خلاف خوب نفرت پھیلی جو آج تک قائم ہے۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان قومی اسمبلی میں مصنوعی برابری پیدا کی گئی۔
وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم خود سرکاری دستاویزات سے عیاں ہوتی ہے۔ 58 فیصد آبادی رکھنے والے مشرقی پاکستان کو 1955-60ء کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کے دوران 31.7 فیصد حصہ ملا۔ اگلے تین منصوبوں میں یہ حصہ اکتالیس فیصد سے نہ بڑھ سکا۔ زرمبادلہ کمانے میں سالہا سال تک مشرقی پاکستان کا حصہ زیادہ رہا۔ فوج میں بنگالیوں کی تعداد برائے نام تھی۔ بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ برصغیر کے جن علاقوں نے برطانوی فوجوں کا مقابلہ کیا، برطانوی حکومت نے ’’پالیسی‘‘ کے طور پر انہیں فوج میں تعداد کے لحاظ کبھی ابھرنے نہ دیا۔ انگریزوں کا مقابلہ بنگالیوں نے کیا تھا، پھر یوپی کے مسلمانوں نے، جہاں 1857ء کی جنگ آزادی کے میدان سجے تھے اور پھر سندھیوں نے مدافعت کی تھی۔ سندھ کے تالپور حکمرانوں نے 1843ء میں حیدر آباد سندھ پر چڑھائی کرنے والی برطانوی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ میر شیر محمد تالپور سپہ سالار تھا۔ انگریز توپ خانے کی برتری کی وجہ سے جیتے۔ کئی سندھی سورما شہید ہوئے۔ اس کے بعد ہی سندھ انگریزوں کے ہاتھ لگا؛ چنانچہ بنگالیوں، یوپی کے مسلمانوں اور سندھیوں کو برطانوی ہند کی فوجوں میں کبھی غلبہ نہ پانے دیا گیا۔ پنجاب اور سرحد میں انگریزوں کو کسی فوجی مدافعت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ اس لیے وہ ’’مارشل ایریا‘‘ قرار دیے گئے۔ پنجابی سپاہیوں نے انگریزی فوج کا حصہ ہونے کی حیثیت میں کعبہ پر بھی گولیاں چلائیں اور ترکوں پر بھی۔ شورش کاشمیری نے کہا تھا ؎
اوڈؔوائر کی رضا جوئی کی خاطر گولیاں
تُرک فوجوں پر چلائو کیا یہی اسلام ہے
بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد بھی بنگالیوں کو ’’قد کاٹھ‘‘ کی نام نہاد بنیاد پر فوج میں وہ پزیرائی نہ ملی جو ان کا حق تھا۔ ہم اس سے پہلے ایک کالم میں لکھ چکے ہیں کہ پست قد ویت نامیوں نے طویل قامت قوی ہیکل امریکیوں کو شکست دے کر ’’قد کاٹھ‘‘ اور ’’مارشل ایریا‘‘ جیسی سطحی تھیوریوں پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔ آج ہمارے جو دوست الیکٹرانک میڈیا پر بنگالیوں اور ان کے لیڈروں کو فسطائی کہہ رہے ہیں، یہ بھول رہے ہیں کہ دس سال تک ایوب خان کی آمریت اور پھر یحییٰ خان کی جانشینی کے بعد مشرقی پاکستان کا کون سی جمہوریت اور کون سے مستقبل پر ایمان قائم رہ سکتا تھا؟ اعتراض بہت سادہ تھا کہ اگر جرنیلوں ہی نے حکومت کرنی ہے تو ہم جرنیل کہاں سے لائیں گے؟ ایوب خان کے جس عہد کو نام نہاد معاشی ترقی کا مظہر کہا جاتا ہے، وہ دراصل آمریت کا آسیب تھا جو مشرقی پاکستان کے سر پر چھایا رہا اور وہ مستقبل سے مایوس ہو گئے۔
پھر، ایک مجموعی حقارت تھی جس سے مغربی پاکستانی بنگالیوں کو ’’نوازتے‘‘ تھے۔ کیا فوجی اور کیا سول بیوروکریٹ اور کیا عوامی نمائندے! کل ہی ایک کالم نگار نے قدرت اللہ شہاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ کس طرح مغربی پاکستانی وزراء اپنے بنگالی ساتھیوں کی تذلیل کرتے تھے۔ ایک بزرگ صحافی، زمینی حقائق کو مکمل طور پر پس پشت ڈالتے ہوئے اکثر فرماتے ہیں کہ دونوں بازوئوں کو پھر ایک ہو جانا چاہیے۔ انہی کے اخبار میں کچھ عرصہ پیشتر ایک قلم کار نے لکھا ہے کہ ایک میس میں مولوی فرید احمد لُنگی (تہمد) میں ملبوس تشریف لے آئے تو ان کی ناقابلِ یقین حد تک تحقیر کی گئی۔ اس کالم نگار نے اڑھائی تین سالہ قیام کے دوران مشرقی پاکستان میں کئی بار ان گنہگار آنکھوں سے دیکھا کہ کیا وہاں رہنے والے مہاجر اور کیا مغربی پاکستانی، بالخصوص پنجابی، بنگالیوں کے لباس، زبان، خوراک اور تمدن کا تمسخر اڑاتے تھے۔ وہ ان کی ’’بھات خوری‘‘ پر آوازے کستے تھے اور انہیں غیر مہذب اور سوقیانہ القابات سے پکارتے تھے۔ اس کالم نگار کا تعلق ’’مارشل ایریا‘‘ سے ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں قیام کے دوران اپنے گائوں اور علاقے کے فوجی بھائیوں سے ملنے اکثر و بیشتر ڈھاکہ چھائونی جانا ہوتا تھا۔ کئی دوستوں نے بتایا کہ وہ بنگالی دکاندار سے بھائو پوچھتے تھے۔ فرض کیجئے اس نے آٹھ آنے بتایا، ایک تھپڑ لگاتے تھے کہ اتنا مہنگا… پھر چھ آنے دے کر شے اٹھا لیتے تھے۔ میں فروری 1970ء میں واپس آیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی کسی فوجی جوان کا چھائونی کی حدود سے اکیلے نکلنا ممنوع قرار دے دیا گیا!
لیکن ان سب غلطیوں ،زیادتیوں اور حماقتوں کی تلافی ہو سکتی تھی اگر 1970ء کے عام انتخابات کے نتائج تسلیم کر لیے جاتے! کاش ان لوگوں میں جو اس وقت قضا و قدر کے مالک بنے بیٹھے تھے، اتنی دور اندیشی ہوتی، اتنا وژن ہوتا اور اتنی انصاف پسندی ہوتی کہ قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو پرامن انتقال اقتدار کر دیتے! الجزائر میں اسلام پسندوں کو انتخابات جیتنے کے بعد حکومت نہ دی گئی تو آج تک عالم اسلام اس کا ماتم کر رہا ہے لیکن ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر روح کی گہرائیوں تک اِمتلا لانے والے دانشور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کسی بھی اخلاقی، قانونی، سماجی اور شرعی اعتبار سے عوامی لیگ کو حکومت بنانے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا تھا!مگر ’’اِدھر ہم ،اُدھر تم‘‘ کی سرخی لگا کر تاریخ صحافت میں ایک سطر اپنے نام کرا لی گئی۔ بس ایک سطر! قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند ۔کسی نے کہا کہ دو وزیراعظم ہونے چاہئیں، کوئی گرجا کہ جو ڈھاکہ جا کر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ یہ ’’مشورہ‘‘ بھی دیا گیا کہ جو ڈھاکہ جائے، واپسی کا ٹکٹ نہ خریدے!
سات مارچ 1971ء کو ریس کورس گرائونڈ ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمن نے اپنی تقریر میں چار شرائط پیش کیں اور مطالبہ کیا کہ یہ شرائط تسلیم کی جائیں تاکہ 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جا سکے۔ مارشل لاء فوری طور پر ختم کیا جائے۔ مسلح افواج کو بیرکوں میں واپس بھیجا جائے۔ جانی نقصانات کے بارے میں انکوائری کرائی جائے اور منتخب نمائندوں کو انتقال اقتدار کیا جائے۔ یہ تجاویز حقارت سے ٹھکرا دی گئیں اور پھر اسی گرائونڈ میں سولہ دسمبر 1971ء کے دن ٹائیگر نیازی نے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کیے۔
آپ کسی خطے کو بھی گولی اور گالی کے زور پر اپنے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ٹوکا خان تو کیا، راکٹ خان اور توپ خان بھی جمہوریت کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ احمد ندیم قاسمی نے ایشیا کے حوالے سے کہا تھا ؎
جنسِ ناموسِ آدم کے سوداگرو! یہ صدی ہے مرے ایشیا کی صدی
اب جو مانگو تو برگِ گلاب ایشیا اور چھینو تو موجِ سراب ایشیا
یہ اصول ہر زمانے اور ہر خطے پر کارفرما ہے۔ چھیننے سے ہاتھ ضائع تو ہو جاتا ہے، ہاتھ آتا کچھ نہیں!
اکتالیس سال بعد بھی بنگلہ دیش کے حوالے سے ہم حقائق سے کس قدر دور ہیں اور کن غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں، اس کا ذکر ہم اگلی نشست میں کریں گے۔