ہمارے یہاں اکثر فیس بکس، یوٹیوب، کتابوں و رسالوں اور اپنی تقریروں میں شداد اور فرعون کو ملامت کرتے ہیں کہ انہوں نے خدائی دعویٰ کیا تھا۔ انہیں تاریخ سے آگہی نہیں ہے اور انہیں صرف مذہبی روایات سے معلوم ہوا ہے کہ ان بادشاہوں نے خدائی دعویٰ کیا تھا۔ حالانکہ عہد قدیم میں ہر بادشاہ الوہی مظہر ہوتا تھا اور اس کی پوجا کے لیے باقیدہ مندر بنے ہوتے تھے اور ان میں پجاری مقرر تھے۔ جہاں ان بادشاہ وقت کی باقیدہ پوجا ہوا کرتی تھی۔ جو بادشاہ زیادہ مقبول ہوتا اس کی پوجا میں لوگ ذوق و شوق سے جاتے تھے اور مرنے کے بعد بھی عرصہ دراز تک ان کی پوجا کی جاتی تھی۔ یہ قدیم زمانے میں ہر قوم کا رواج و دستور تھا۔ کیا روم، آشورین، چین، کلدانی، میسوپٹامیہ، یونانی، چینی اور مصری وغیرہ قوموں میں باشاہ یا فرمان روا کی پوجا کی جاتی تھی۔
جب لوگوں میں شعور بڑھا تو ان باشاہوں کو مذہبی تقدس حاصل ہوگیا اور یہ خدائی اوتار ہوگئے۔ ہمارے سامنے رام اور کرشن کی مقبول مثالیں موجود ہیں۔ چینوں اور تبتیوں میں کثرت سے اوتار پیدا ہوئے اور دلائی لامہ بھی خدائی اوتار کی مثال ہے۔ یہ بادشاہ مظہر خداوندی بن گئے اور انہیں دیوتاؤں کی اولاد کہا جانے لگا۔ جاپان کے شاہی خاندان کو آج بھی لوگ دیوتاؤں کی اولاد تسلیم کرتے تھے اور ماضی کے ایرانی بادشاہ کا یہی دعوی ہوتا تھا اور عوام بھی ان کا تقدس تسلیم کرتے تھے۔ ہندو اکبر اور دوسرے مغل بادشاہوں کا چہرہ اس لیے صبح دیکھنا مبارک سمجھتے تھے۔
ساسانی بادشاہ اپنے کو وجود ربانی یا دیوتا کہتے تھے۔ یہ اپنے کو قدیم کیانی خاندان کے اولاد اور حکومت و فرکیانی کی اولاد کا جائز وارث سمجھتے تھے۔ فرکیانی ایک طرح کا آسمانی حق ہے، یہ مادی صورت تھی اور اس کی وجہ سے صرف آل ساسان کو عجمی تاج پہنے کا حق حاصل تھا۔ اسی تقدس کی بنا پر تاج شاہی پر ان کا حق عوام تسلیم کرتے تھے اور ان بادشاہوں کا ہر حکم حکم ربانی تصور کیا جاتا تھا اور ان سے رد گردا نی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ نکولاء ومانوجی لکھتا ہے کہ ایرانی اپنے باشاہوں کے اتنا مانتے ہیں کہ کسی امیر کو بھرے دربار میں گردن زنی کا حکم ملتا تھا تو وہ اس خم تسلیم کرلے تا تھا۔ ایرانیوں کے یہی اثرات بعد میں مذہب پر بھی پڑے۔
ایڈور براؤن اپنی کتاب ادبیات ایران میں لکھتا ہے کہ ساسانیوں کے بادشاہی حق کو آسمانی حق کا جس شدد کے ساتھ پرچار کیا گیا اس کی مثال کسی دوسری قوم میں نہیں ملتی ہے۔ شاہی خاندان کے علاوہ کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ شاہی لقب اختیار کرلے۔ بہرام جوبیں کی ناکامی کی وجہ اس کا شاہی خاندان سے نہ ہونا تھا۔ آسمانی حق کی اس پرچار اور عقیدے نے ایرانیوں کے آئندہ تاریخ اور مذہب پر نہایت وسیع و دقیح اثر ڈالا۔ شیعہ مذہب اس کی نہایت بین مثال ہے۔ آنحضرت کے خلیفہ کا انتخاب جمہوریت پسند عربوں کی طبعیت و روایات کے مطابق تھا۔ دوسرے خلیفہ سے حضرت عمر سے ایرانی نفرت کرتے ہیں اور اس نفرت کو مذہبی رنگ دے دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے عجم کو فتح کیا تھا۔ حسین بن علیؓ کی نسبت ان کا عقیدہ ہے کہ انہوں نے یزدگر کی بیٹی شہر بانو سے نکاح کیا۔ ان کے نذیک علیؓ جائز طور پر تاج کے مالک ہیں اور یہ اس دوہرے حق سے یعنی یزدگرد کی بیٹی کی طرف سے شہر بانو کی طرف سے ساسانیوں کے وارث ہیں۔ یعنی علی کے سوا دوسرے بادشاہ طاقت کے زور سے بادشاہ بنے ہیں وہ اس کا حق نہیں رکھتے ہیں اور وہ غاصب ہیں اور یہی بنیاد ہے جس پر سیاست کی گئی اور اہنے عقیدے کی عمارت تعمیر کی گئی۔ شہر بانوں کی شادی ہوئی یا نہیں ہوئی، مگر شیعہ اسے ایک تاریخی واقعہ مانتے ہیں اور ایرانیوں نے مذہب میں جتنی بدعتیں پیدا کی ہیں اس کی مثال دنیا کی کوئی قوم پیش نہیں کرسکتی ہے۔ یہی اثرات تھے کہ شیعہ امامت کے لیے آسمانی حق کو مانتے ہیں اور ہر امام میں چونکہ ساسانی خون ہوتا ہے اس سے مذہبی عقیدہ پیدا ہوا۔
ایڈور براؤن نے جو تجزیہ پیش کیا ہے اس میں صاف صاف لکھا ہے کہ اسلام ایرانیوں کی طبعیت کے مطابق نہیں تھا اس لیے اس میں بدعتیں کیں ہے۔ مثلاً سیدوں کا احترام و حرمت جس کے بارے میں قران میں ایک لفظ بھی نہیں ہے اور نہ ہی حدیث کی ابتدائی کتابوں موطلا مالک اور موطا محمد میں کچھ ملتا ہے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ ان اہل بیت کی حرمت کا عقیدہ بعد کی پیداوار ہے کیوں کہ یہ تقدس خود قران کے خلاف ہے اور قران صلی اللہ علیہ وصلم سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اے محمد ہم نے تمہیں بیٹا نہیں دیا کہ لوگ پوجیں۔ مگر اس کے باوجود بہت سی آیات کی تاولیں کیں گئیں کہ ان سے مراد اہل بیت ہیں اور اہل بیت سے مراد ان کی عرب محاورے کے خلاف گھر والے نہیں بلکہ حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین ہیں اور اس ترکیب میں اس صلی اللہ علیہ وصلم کے دوسری بیٹیاں، دامادوں، نواسوں اور نواسیوں کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ ابتدائی حدییث کی کتب میں ان کی حرمت کے بارے میں کسی قسم کا تذکرہ نہیں ملتا ہے۔ مگر بعد کی حدیث کی کتابیں ان کے تذکرہ اور حرمت سے بھری ہوئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے ابتدائی مسلمان اہل بیت کی ترکیب کو نہیں جانتے تھے۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ابتدائی مسلمان اہل بیت کی حرمت کا عقیدہ رکھتے تو اہل مدینہ نے صلی اللہ علیہ وصلم کی وفات کے بعد حضرت علی کو خلیفہ کیوں نہیں چنا؟ حضرت علی نے خلافت کے حصول کے لیے حضرت فاطمہ کو خچر پر بیٹھا کر مدینہ کی گلیوں میں پھرے مگر کسی نے مسلمان نے ان کی بات کیوں نہیں مانی؟ اگر ان اہل بیت کو ربانی تقدس حاصل ہوتا تو کیا کوئی مسلمان اس سے رد گردانی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا؟ یہی وجہ حضرت علی خلافت کی تمنا رکھتے ہوئے بھی ہر دفعہ ناکام رہے۔ انہیں کامیابی بھی ملی تو مدینہ کے لوگوں کی وجہ سے نہیں بلکہ باغیوں کی حمایت سے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں ان اہل بیت اورکی حرمت و امامت کا ربانی حق کو کوئی عقیدہ یا تصور نہیں تھا اور یہ عقائد بعد کی پیداوار ہیں۔ عباسی خلفہ منصور کو ایک خلافت کے ایک حسینی مدعی نے خط لکھ کر خلافت پر اپنا حق جواز یہ پیش کیا تھا کہ صلی اللہ علیہ وصلم کے قرابت دار کی پیش کی تھی۔ اس اپنے تقدس کی تو کوئی بات نہیں کی تھی جو بعد کی حدیث کی کتابوں ملتا ہے۔
پہلی صدی میں فتوحات کی کثرت کے ساتھ اسلام بھی تیزی سے پھیلا ۔ دوسرے مذہب کے لوگ کثرت سے اسلام لائے تھے ۔ ان کے ذہنوں میں اپنے مذہبی خیالات اور افکار بددستور قائم تھے ۔ وہ اسلام کی تعبیر و تفسیر اپنے ان خیالات کی بنا پر کرتے تھے جو کہ ان کے ذہنوں میں تھے اور یہی خیالات و افکار تھے جو شیعہ فرقہ کی تشکیل کا باعث بنے ۔ دوسرا بنے والا فرقہ خارجی تھا جو کہ حضرت علی کے ان حامیوں پر مشتمل تھا جنہوں بعد میں ان سے بعد میں اختلاف کیا ۔ اس وقت اسلام پر بہت سے عقلی اعتراضات اور تاولیں کی جانے لگیں ۔ ابتدا میں مسلمان مذہب میں عقل کا استعمال درست نہیں سمجھتے اور ان اعتراضات اور تاویلوں سے لوگوں کے عقیدوں اور خیالات میں انتشار پیدا ہونے لگا ۔ ان کے اعتراضات کے جوابات دینے کے لیے متعزلہ وجود میں آئے جو اعتراضات کا جواب عقلی دلیل سے دیتے تھے اور یہ حنفی فقہ سے وابستہ تھے ۔ ایسے لوگ جو مذہب میں فلسفہ یا عقل کو پسند نہیں کرتا تھا اور اسے کفر جانتے تھے انہوں نے ایک دبستان اشریعہ کی بنیاد رکھی ۔ یہ خارق العادات کے قائل تھے اور وہ شافعی فقہ سے تعلق رکھتے تھے ۔
اسلام کے یہ چار ایسے گروہ جن میں شیعہ اور خارجی اعتقادی فرقے تھے اور متعزلہ اور اشریعہ فکری دبستان تھے ۔ ان کے خیالات و افکار کا مسلمانوں کے ہر گروہ پر بہت گہرا اثر ہوا ۔ اسلام میں آئندہ جو بھی مکتبہ فکر و فرقے وجود میں آیا ان میں ان میں سے کسی نہ کسی کے افکار و خیالات کا اثر کا اثر تھا ۔ مزید فرقوں کا باعث ان کے آپس میں مختلف نوعیت کے اختلافات تھے جو ان کے درمیان ہوئے اور یہ اختلافات بڑھتے گئے اور مزید فرقے بنتے گئے اور مٹتے گئے ۔ یہی وجہ ہے اسلام میں فرقوں کی تعداد تعداد بہتر بتائی جاتی ہے ۔ مگر حقیقت میں یہ پانچ بنیادی گروہ جن میں پہلا اہل سنت تھا جو کہ اسلام پر چلنے کا داعی تھا ۔ وہ دور سخت انتشار کا تھا ہر گروہ نے اپنے کو درست ثابت کرنے کے لیے حدیثوں کا سہارا لیا گیا اور اپنے فقہ اور نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے ہر فرقے نے حدیثیں وضع کیں ۔ امام ابو حنیفہ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے صرف سترہ حدیثوں کو مانا ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ حدیثوں کو نہیں مانتے تھے ۔ مگر بعد میں ان کے پیرووَں نے ان پر اس دھبے کو ہٹانے کے لیے ان کے نام سے ایک مستند تحریر کردیا ۔ جس میں وہ تمام خرافات شامل ہیں جن کو امام ابوحنیفہ نہیں مانتے تھے ۔ دوسری مثال امام احمد بن حمبل کی ہے ۔ جو کہ اپنے افکار کو تحریر میں لانے کے قائل نہیں تھے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنا فقہ بھی مدون نہیں کیا تھا ۔ مگر ان کے نام سے دس موٹی موٹی جلدوں پر مشتل حدیثوں کی کتاب مستند احمد بن احمبل ترتیب دی گئی ۔ علامہ تمنا عمادی کا کہنا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے یہ کتب سو سال کے بعد سامنے آئیں تو ان کا راوی ایک شخص روایت کرتا رہے اور اس میں بہت سی حدیثیں ان کے موقف کے خلاف ہیں ۔
حضرت علی کی فاطمی اولاد کے خلافت کے حق کے لیے شیعوں نے شدد سے کوششیں جاری رکھیں ۔ مگر اس وقت کوئی شیعت مذہبی فرقہ نہیں تھا ۔ ان میں اور دوسرے مسلمانوں میں فراءض اور عبادتوں میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ قدیم شیعہ علماء کے نام ہانچویں صدی ہجری تک یزید ، معاویہ ، ابوبکر ، عثمان ، عمر ملتے ہیں ۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ اموی غاصب ہیں اور خلافت کا حق حضرت علی کی فاطمی اولاد کا ہے ۔ اس لیے امویوں کو فاطمین کا حق سلب کرنے پر ظالم و جابر بتایا گیا ۔ حالانکہ امویوں اور ان اہل بیت کے درمیاں بہت اچھے تعلقات رہے ہیں اور ان کے مابین شادیاں بھی ہوتی رہیں ۔ زینب بنت علی نے اپنی ساری زندگی یزید بن معاویہ کے زیر سایہ گزاری ہے ۔ جہاں علی بن حسین ان سے ملنے جاتے رہتے تھے ۔ تاریخ کی کتابوں میں زینب بنت علی سے منسوب ایک جملہ بھی ایسا نہیں ملتا ہے جس میں شامیوں یا یزید بن معاویہ کو برا کہا ہو اور زینب بنت علی کوفیوں کو برا بھلا ضرور کہا ہے ۔ اس لیے امویوں ظالم و جابر کے لیے بہت سی کہانیاں لکھی گئیں جو اب تک جاری ہیں ۔ مثلاًً مولانا ابو اعلیٰ مودوی نے لکھا ہے کہ امویوں میں بہت سے ظالمانہ ٹیکس لگائے اور انہیں عمرو بن عبدلعزیز نے ختم کیا ۔ مگر انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ وہ کون سے ٹیکس تھے ;238; اس طرح امویوں اور ان نام نہات اہل بیت کی عداوت کی اتنی کہانیاں گھڑی گئیں ۔ کہا گیا ہے کہ حضرت معاویہ نے حضرت علی کو منبر اور خطوں میں برا بھلا کہنے کی رسم جاری کیا ۔ مگر اس کا کیا کیا جائے اموی خلفا اور امیروں کے خطبات اب بھی ملتے اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ ان حمد و درود کے بعد اپنا منشاء بیان کیا گیا ہے ۔ اس طرح حجاج بن یوسف کی خون ریزیوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔ لیکن چچ نامہ میں ہی آپ حجاج بن یوسف کے خطوط پرھ لیں ۔ اس میں محمد بن قاسم کو در گزر اور نرمی سے کام لینے کو کہا ہے ۔ اس میں وہ کہتا ہے جہاں کوڑے سے کام چل جائے وہاں تلوار استعمال نہیں کی جائے ۔ یہ خطوط ایک ظالم و جابر کے بجائے ایک دور اندیش انسان کے معلوم ہوتے ہیں ۔ اصل میں ساری تاریخ کی کتابیں بنو عباس کے دور میں لکھی گئیں تھیں ۔ وہ بنو امیہ کے خلاف تھے اس لیے ان میں عباسیوں کو خوش کرنے کے لیے یہ سب لکھ کر بنو عباس کے لیے جواز پیش کیا گیا ۔ بنو امیہ کے دور بہت لوگوں نے جو حضرت علی کی فاطمی اولاد میں سے بغاوتیں کیں ۔ مگر اس کے پیچھے ان کا وہ خیال تھا کہ خلافت پر ان کا حق ہے ۔ ان باغی اہل بیت سے ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں خون خرابہ کیا اور شراب پی ۔
میں اپنے ایک مضمون برہمنیت کے عروج میں لکھ چکا ہوں کہ برہمنوں نے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے نئے عقائد کے مطابق بہت سے نئے گرنتھ لکھے گئے اور اس کے ذریعہ دلیلیں پیدا کی گئی۔ یہی کچھ اسلام میں ہوا۔ چونکہ قران میں ویدوں کی طرح تبدیلی ممکن نہیں تھی اس لیے اس کے لیے حدیثیں وضع کی گئیں اور مسلمانوں میں ان خیالات اور عقیدے داخل کیا گیا۔ ایسی بہت سی باتیں جن کے بارے میں ابتدائی حدیث کی کتابیں خاموش ہیں۔ جن اہل بیت کی حرمت کا عقیدہ، دور ابراہیمی کی اخترع اور اس کا نماز میں شامل کرنا وغیر اور کلمہ طیب وغیرہ شامل ہیں۔
کلمہ طیب کا ذکر سن کر آپ شاید چونکیں گے۔ مگر یہ حقیقت ہے پہلے لوگ مسلمان ہوتے تھے تو کلمہ شہادت پڑھتے تھے اور کہیں کلمہ طیب کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ یہ کلمہ قران میں الگ الگ آیا ہے اور جہاں بھی اس کلمہ کی فضیلت کا تذکرہ ملتا ہے وہاں صرف اس کا پہلا جزو ہے۔ یہ موجودہ صورت میں کہیں نہیں ملتا ہے۔ مگر اس تذکرہ کو کلمہ طیب سے مربوط کیا گیا۔ ہم اس کا ترجمہ کرتے ہیں ’اللہ ایک ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں ’مگر اس کے درمیان اور کے لیے ’و’نہیں آیا ہے اور عربی کے قائدے کی رو سے اگر ’و’نہیں آئے تو پہلا حصہ دوسرے حصہ کا جزو بن جاتا ہے۔ اور اس کا مفہوم اس طرح بنتا ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہی محمد رسول اللہ۔ یہ کلمہ طییب میرا گمان ہے کہ اہل تصوف کی اختراع ہے۔ کیوں کہ اس سے ان کے عقیدے کو تقویت ملتی ہیں اور اہل تصوف نے اسے عقیدے کی تائید میں پیش کیا ہے۔ اس طرح حدیث قدسی جن سے اہل تصوف کی تائید ہوتی ہیں یہ بھی غالباًً ان ہی کی ایجاد ہیں۔ درود ابراہیمی کو وضع کیا گیا اور اس کو حدیثوں کی کتابوں درج کیا گیا اور اسے موطا امام مالک میں بھی شامل کیا گیا۔ اس لیے یہ درود موطا کے کچھ نسخوں میں ملتا ہے اور کچھ نسخوں میں نہیں ملتا ہے۔ نماز جو کہ کلمہ شہادت پر ختم ہوجاتی تھی اس میں بھی درود ابراہیمی شامل کیا گیا۔ ورنہ کسی بھی حدیت کی کتاب میں یہ درود نماز کا جزو نہیں شامل نہیں۔ پہلے جنگوں میں مسلمان نعرہ تکبیر۔ اللہ اکبر اور یامعین۔ المدد لگایا جاتا تھا۔ یامیعن۔ المد کو ختم کرکے یاعلی المدد لگایا جانے لگا۔ اس طرح لوگوں کے ذہنوں حضرت علی کے الوہی کردار کی اہمیت لوگوں کے ذہنوں میں بٹھائی گئی۔ یہ وضع کردہ حدیثوں کی اہمیت کا اس قدر پرچار کیا گیا کہ اس کے آگے قران کے حکامات کو منسوخ بتایا گیا۔ جب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ حج الوع میں کہا تھا میری کوئی بات قران کے خلاف ہے تو جان لو وہ میری کہی بات نہیں ہے اس کی صریح نفی کی گئی۔ لوگوں میں حدیث کو متبر اور اس کا معیار عقل نہیں صرف صرف روای کو ٹہرایا گیا۔ حبب اہل بیت اور تقدیر پر ایمان رکھنے کو اور عمل سے زیادہ دعا کی تلفین کی گئی۔ تقدیر پر ایمان کو نئے معنے پہنائے گئے اور زور شور سے تلفین کرکے ذہنوں میں بٹھاکر ہمیں علمی و عقلی طور پر بے گانہ کردیا گیا۔ عقل کے مقابلے میں مانوق الفطرت پر ایمان رکھنے کی تلفین کی گئی اور جہل کے بجائے ہر کام دعا سے کرنے کا پرچار کیا گیا۔ گویا اہل تصوف نے ہمیں بالکل مفلوج کردیا۔ ان حدیثوں میں مانوق الفطرت قصے بیان کیے گئے۔ اس کے لیے آپ نماز کے فرض ہونے کا قصہ امام مالک کی موطا اور بخاری شریف سے کرسکتے۔ ویسے تو ان حدیثوں میں بہت خرافات ہیں، مگر ہمیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس اتنا ضرور کہوں گا رنگیا رسول اور شیطانی آہات کے ماخذ یہی کتب ہیں۔
شیعوں نے اہل بیت کے تقدس کا اس زور شور سے پرچار کیا کہ لوگوں یقین آگیا کہ حضرت علی کی فاطمی اولاد تقدس کی حامل ہے۔ اس تقدس کو اہل تصوف نے اس عقیدے کو مزید ترقی دی اور اپنے عقائد کی بنیاد اہل بہت کے تقدس پر رکھی۔ مسلمانوں میں ابتدا سے ہی ایک گروہ زہد کی طرف مائل تھا اور یہ وعظ کے ذریعے اسلام کے احکامات عوام تک پہنچاتا تھا۔ ان میں ابتدا میں جن کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی وہ حضرت حسن بصری تھے۔ مگر خواجہ حسن بصری تصوف کے کسی سلسلے کو نہیں جانتے تھے۔ لیکن ایران کے بعد وسط ایشا بھی سرنگوں ہوگیا جہاں بدھ مت کا چلن تھا اور وہاں بدھ خانقائیں قائم تھیں۔ جن کی اپنی مربوط تنظیم تھی۔ مسلمان صوفیا ان تنظیموں سے بہت متاثر ہوئے اور نے اسی کی نہج پر اپنی تنظیمیں قائم کیں۔ ان تنظیوں سے متاثر ہوکر شہاب الدین سہرودی نے سب سے پہلے صوفیا کی تنظیم قائم کی تھی اور ابن عربی کے فلسفہ نے تصوف کو ایک بنیاد فراہم کی۔ اس کے لیے قران کی بہت سی آیات کی تاویلیں پیش کیں گیں اور شیعیوں کے اہل بیت کی حرمت کے فلسفے کو مان کر اپنی عقیدے کی بنیاد رکھی اور تصوف کے سلسلے قائم کیئے گئے اور اپنے چار بنیادی سلسوں کو حضرت حسن بصری تک پہنچایا۔ ان میں سے تین سلسلوں حسن بصری سے حضرت علی سے اور اور ایک سلسلے میں حضرت ابوبکر سے اجازت لی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے حسن بصری کی وفات ۰اا ہجری میں ہوئی تھی اور حضرت علی شہید ۰۴ ہجری میں ہوئے تھے۔ اگر دونوں کے مابین ملاقات ہوئی بھی ہوئی ہوگی تو خواجہ حسن بصری بچے ہوں گے اور حضرت ابوببکر صدیق سے ملاقات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر غالباً اس لیے کیا گیا کہ شیعت کا الزام نہیں لگ جائے۔
تہذیب و ترتیب
(عبدالمعین انصاری)