الجزیرہ کی کہانی
الجزیرہ عرب دنیا کا آزاد ٹی وی چینل ہے، جس کی نشریات عربی اورانگریزی میں ہوتی ہیں۔الجزیرہ کی نشریات دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔اس کی عربی کی نشریات مشرق وسطیٰ میں دیکھی جاتی ہیں اور انگریزی زبان کے چینل دیکھنے والے پاکستان، افغانستان، ایران، بھارت، وسطی ایشیائی ممالک، چین، یورپ اور امریکا میں بھی موجود ہیں۔ الجزیرہ قطر کے شاہی خاندان نے قائم کیا تھا۔ یوں تو قطر میں ایک مطلق العنان بادشاہت قائم ہے مگر قطر کے حکمرانوں نے ایک آزاد ٹی وی چینل قائم کرکے اپنے پڑوسی امارات کو مشکل میں ڈال دیا۔
برطانیہ کے صحافی ہیو ملز نے الجزیرہ کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس کا نام انھوں نے Inside story of The Arab News Channel that is challenging the West رکھا۔ ہیو ملزکاکہنا ہے کہ الجزیرہ کے ناظرین کی تعداد 50 ملین سے زیادہ ہے۔الجزیرہ کے قیام کا پس منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ گزشتہ صدی کی 90ء کی دہائی کے ابتداء میں سعودی عرب کے شاہ فہد کے ایک قریبی رشتے دار نے بی بی سی کے اشتراک سے ایک چینل قائم کرنے کے لیے کمپنی ORBIT کے نام سے قائم کی تھی۔
اس کمپنی کا مقصد بی بی سی کی ورلڈ سروس کی نشریات کو عربی زبان میں پیش کرنا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں بی بی سی کی اردو کی نشریات تو عرصہ دراز سے دیکھی جاتی تھیں مگر اس علاقے میں انگریزی سمجھنے والے افراد کی تعداد کم تھی، یوں عربی زبان کی نشریات کا معاملہ مختلف تھا۔ بی بی سی کے حکام نے یہ شرط رکھی کہ عربی چینل کی پالیسی وہی ہوگی جو بی بی سی انگریزی چینل کی ہے، یوں 22 مارچ 1994ء کو بی بی سی اور اورینٹ میں 10 سالہ نشریات کا معاہدہ ہوا۔ مگر کچھ برسوں بعد اوریئنٹ کمپنی کو بی بی سی کی نشریات پر اعتراضات پیدا ہوئے۔ بی بی سی اورکمپنی کے درمیان معاہدہ ختم ہوگیا اور 20 ستمبر 1994ء کو یہ سروس بند ہوگئی۔ بی بی سی عربی سروس کے اچانک بند ہونے سے 250 پیشہ ور عربی صحافی بے روزگارہوگئے۔اس دوران الجزیرہ کے قیام کا خیال قطری حکمرانوں کے ذہن میں آیا اور بی بی سی سے فارغ ہونے والے 120 صحافی الجزیرہ میں شامل ہوگئے۔الجزیرہ کی انتظامیہ نے فلسطینی صحافیوں کو ترجیح دی۔ فلسطینی صحافیوں کے بارے میں تصورتھا کہ وہ زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور بی بی سی سمیت میڈیا کے اداروں میں کام کرتے رہے ہیں۔
الجزیرہ کے منتظم مصطفی کا کہنا ہے کہ الجزیرہ کے آپریشن اور بی بی سی کے آپریشن میں فرق تھا۔الجزیرہ نے عربی زبان میں 24 گھنٹے نشریات کا فیصلہ کیا تھا۔عربی صحافیوں کو بی بی سی اوردیگر بین الاقوامی میڈیا چینل کے معیارکے برابر اپنے مواد کو تیارکرنا تھا۔الجزیرہ نے پہلے ایک عربی سیٹلائیٹ کے ذریعے 6 گھنٹے کی نشریات کا آغازکیا، جنوری 1997ء میں نشریات کا دورانیہ 8 گھنٹے ہوا اور پھر 24 گھنٹے ہوگیا۔ نومبر 1997ء میں الجزیرہ اس پوزیشن میں آگیا کہ دنیا کے دیگر چینل سے مقابلہ کرسکے۔الجزیرہ اور دیگر بین الاقوامی چینلز میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ الجزیرہ کے انتظامی، ادارتی اور تکنیکی معاملات مکمل طور پر عربوں کے پاس ہیں اور الجزیرہ کے لیے ساری سرمایہ کاری بھی قطر نے کی ہے، یوں الجزیرہ پر بظاہر غیر عربیوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔
الجزیرہ کی خبروں کے علاوہ ٹاک شوز نے بھی خصوصی شہرت حاصل کی۔الجزیرہ کے ٹاک شوز لندن اور دیگر شہروں سے پیش کیے جاتے ہیں، یوں مختلف پس منظر رکھنے والے ماہرین کے خیالات ناظرین کو سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان ٹاک شوز میں دو مہمان ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد خیالات رکھتے ہیں۔ الجزیرہ کا ایک ٹاک شو Opposite Direction بہت مقبول ہوا۔ تاہم الجزیرہ کے ان پروگراموں کے خلاف عرب ممالک کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آئے۔ Opposite Direction میں سابق صدرکرنل قذافی کے ایک مخالف نے انھیں ڈکٹیٹر قرار دیا تھا تو لیبیا نے قطر سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔ اسی طرح حماس کے ایک رہنما کے انٹرویو نشر ہونے پر فلسطینی اتھارٹی نے الزام لگایا کہ فلسطین اتھارٹی کا امیج خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی طرح تیونس، بحرین اور ایران کی حکومت ان پروگراموں سے ناراض ہوئی۔
شام کے صدر اسد نے الجزیرہ کو اسرائیل کا ایجنٹ قرار دے دیا۔ جب الجزیرہ نے صدر صدام کے دور میں اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بناء پر عراق میں غذائی قلت پر ڈاکیومنٹری بنائی تو صدام کا خیال تھا کہ اس سے ان کے اقوام متحدہ کے خلاف مؤقف کو تقویت ملے گی مگر جب الجزیرہ نے صدام کی سالگرہ کی تقریبات کی کوریج کی تو وہ ناراض ہوگئے تھے۔الجزیرہ والے کہتے ہیں کہ اگرچہ چینل کی فنڈنگ قطر کی حکومت کرتی ہے مگر یہ اسی طرح کرتی ہے جیسے برطانیہ کی حکومت بی بی سی کی کرتی ہے مگر بی بی سی کی طرح الجزیرہ اپنی انتظامی اور ادارتی پالیسی بنانے اور اس پر عملدرآمد کرنے میں آزاد ہے۔ الجزیرہ نے یکم فروری 1999ء کو تین مختلف چینلز سے 24 گھنٹے نشریات شروع کی۔ اس کے ملازمین کی تعداد 500 تک پہنچ گئی تھی اور عرب ممالک کے علاوہ روس اور امریکا میں بھی اس کے بیورو قائم ہوئے۔
ایرانی ٹی وی چینل سے تہران میں بیورو کھولنے کا معاہدہ ہوا۔ اسی زمانے میں چینل نے اسرائیلی کیبل کمپنی سے معاہدہ کیا۔ انگریزی کے ڈیجیٹل چینل ایک ڈاکیومنٹری کے چینل کے ساتھ اسرائیل میں آباد عربوں کے لیے علیحدہ چینل شروع کرنے کا فیصلہ ہوا۔ افغانستان پر طالبان حکومت نے 2000ء میں الجزیرہ اور سی این این کو پیشکش کی تھی کہ وہ کابل میں اپنے بیورو قائم کریں۔ سی این این نے اس پیشکش کو مسترد کردیا مگر الجزیرہ نے کابل میں بیورو قائم کرنے کا فیصلہ کیا، یوں افغانستان کی صورتحال کو الجزیرہ نے بہتر انداز میں کور کیا۔ اکتوبر 2000ء میں فلسطین میں دوسری انتفاضہ شروع ہوئی۔ مقبوضہ عرب علاقوں میں فلسطینیوں نے اسرائیل کے اقتدار کو چینلج کیا۔ انتفاضہ کے واقعات کی کوریج کے اسرائیل، مقبوضہ فلسطین اور مشرق وسطیٰ میں مختلف نتائج برآمد ہوئے۔
2003ء میں رام اللہ میں الجزیرہ کے بیورو چیف ولید ال عمری نے دنیا کا سب سے خطرناک کام انجام دیا۔ انھوں نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مرنے والے ہزاروں فلسطینیوں کی لاشوں کو دکھایا اور دنیا کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کیا۔ پھر یہ بھی خبریں شایع ہوئیں کہ اسرائیلی وزیراعظم اوروزیرخارجہ کسی دوسری عرب چینل کے مقابلے میں الجزیرہ کو مسلسل دیکھتے ہیں۔ 2001ء میں اسرائیل کے وزیراعظم نے الجزیرہ کوایک طویل انٹرویو دیا۔اسرائیلی وزیر اعظم نے انٹرویو میں انتفاضہ کے بارے میں سوالات کے جوابات دیے۔ انھوں نے پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات سے اپیل کی کہ وہ فلسطینی علاقے میں تشدد کو رکوائیں۔ الجزیرہ نے فلسطین اور اسرائیل میں اس انٹرویو پر انعامات حاصل کیے مگر اسرائیلی وزیراعظم انتخابات میں شکست کھا گئے۔اسرائیل کی نئی حکومت نے اس حقیقت کو محسوس کیا کہ الجزیرہ کی نشریات کی بناء پر انھیں میڈیا وار میں شکست ہوئی،اس بناء پر اسرائیلی حکومت نے ایک انگریزی اورعربی کے چینل کے لیے فنڈ فراہم کیے تاکہ الجزیرہ کا جواب دیا جاسکے۔
اس زمانے میں فلسطینی اتھارٹی اور یاسرعرفات الجزیرہ کی کوریج سے ناراض ہوئے۔ یاسرعرفات کو شکایت تھی کہ اس چینل نے ایک ڈاکومنٹری میں یاسرعرفات کی زندگی کے بارے میں امیج کو بگاڑا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے الجزیرہ پر پابندی لگادی اور الجزیرہ کے رپورٹرزکی آمدورفت محدودکردی۔نائن الیون کی دہشتگردی کے واقعے کے بعد الجزیرہ کے نیویارک بیوروکو ایک فیکس موصول ہوا۔ اسامہ بن لادن کے دستخط سے جاری ہونے والے فیکس میں نائن الیون کی دہشتگردی کے واقعے میں ملوث ہونے سے انکارکیا گیا اورکہا گیا کہ یہ انفرادی کارروائی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ وہ افغانستان میں ہیں مگر وہ طالبان کے قانون کے پابند ہیں،امریکا نے اس تردید کو مسترد کردیا تھا۔اسامہ نے کئی دفعہ الجزیرہ کو بیان جاری کیے۔
ان بیانات میں انھوں نے امریکا کی عراق میں پیش قدمی پر سخت کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ مغربی میڈیا نے الجزیرہ کے اسامہ کے فوٹیج کو مسلسل استعمال کیا۔الجزیرہ نے افغانستان میں اتحادی فوج کے حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے واقعات کو براہِ راست کورکیا جس سے امریکا اورالجزیرہ کے تعلقا ت کشیدہ ہوگئے۔ کابل میں الجزیرہ کے دفترکے قریب 227 کلو گرام کے دو امریکی بم گرائے گئے۔ دفتر میں کوئی موجود نہیں تھا، یوں جانی نقصان نہیں ہوا۔عراق جنگ کے دوران بھی ایسا ہی ہوا۔ عراق جنگ میں الجزیرہ کے کئی رپورٹر جوعراق کے شہروں میں کام کر رہے تھے زخمی ہوئے۔امریکی انتظامیہ نے قطرکی حکومت پر دباؤ ڈالاکہ الجزیرہ کو بندکیا جائے۔ الجزیرہ نے مصر، لیبیا، شام، یمن اور باقی عرب دنیا کے واقعات کو بھی اسی طرح کورکیا جس سے حقائق ظاہر ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ الجزیرہ عرب حکومتوں کے لیے ایک خطرہ بن گیا، مگر الجزیرہ کو بند کرنے کا مطلب عوام کے کانوں اور آنکھوں کو بندکرنا ہے مگر نئی ٹیکنالوجی کے دور میں یہ ممکن نہیں ہے۔
1959ء میں ایوب خان کی حکومت نے پی پی ایل کے اخبارات پر پابندی امریکا کی ایماء پر لگائی تھی جس کا سارا نقصان پاکستان کے عوام کو ہوا۔ الجزیرہ جیسے چینل ہر مسلمان ملک میں قائم ہونے چاہیئیں جبھی حقیقی تبدیلی رونما ہوگی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔