الباکستان میں عیسائی طالبعلم کے قتل کی کہانی
یہ ایک حقیقی کہانی ہے ، جو بیس دن پرانی ہے ،غور سے اس کہانی کو سنیئے اور پھر سوچیئے ہم کس طرح کے سماج کا حصہ ہیں ۔بیس دن پہلے سولہ سال ایک طالبعلم پہلے دن اسکول جاتا ہے ،اس بچے کا نام شیرون مسیح ہے ،اسکول کا نام گورنمنٹ ایم سی ماڈل اسکول ہے ۔یہ اسکول بورے والا میں واقعے ہے ۔بچہ غریب ہے ،اس لئے وہ پہلے دن یونیفارم پہن کر اسکول نہیں جاسکتا ،بغیر یونیفارم وہ مسلمانوں کے اسکول چلا جاتا ہے ۔نویں جماعت کا یہ عیسائی طالبعلم جب بغیر یونیفارم کے کلاس پڑھنے جاتا ہے تو مسلمان ٹیچر اسے کھڑا کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ کیوں یونیفارم پہن کر نہیں آیا ،جس پر بچہ کہتا ہے جناب کل سے یونیفارم پہن کر آوں گا ۔مسلمان ٹیچر اس مسیح بچے کو کلاس میں کہتا ہے کہ کلاس سے دفع ہو جاو،تم چوڑھے ہو ،اور تمہارے کرتوت بھی نیچ ہیں ،اس لئے اب اگر کلاس میں آنا ہے تو یونیفارم پہن کر آنا ورنہ کلاس میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔بچہ آنکھوں میں آنسو چھپائے کلاس سے گھر چلا جاتا ہے ۔کلاس سے گھر تک اس کے کان میں ایک ہی آواز گونجتی رہتی ہے کہ وہ چوڑھا ہے ،گھٹیا زات سے ہے جس کا کام گٹر کی صفائی ہے ۔ گھر پہنچتے ہیں والدین کے سامنے اس کے آنسو چھلک پڑتے ہیں ،وہ کہتا ہے کہ کل سے وہ اسکول نہیں جائے گا ،مسلمان ٹیچرز اور طالبعلم ا سکی بے عزتی کرتے ہیں ۔والدین اسے کہتے ہیں کہ بیٹا گھبرانے کی ضرورت نہیں ،اس طرح کی چھوٹی موٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔بچہ کہتا ہے کہ ٹیچرز نے اسے زلیل و رسوا کرکے کلاس سے نکالا ہے ،اب وہ ہر روز ایسا کرے گے ،اس طرح کی زلت وہ ہر روز برداشت نہیں کرسکتا ۔بچہ کہتا ہے کہ اسکول کے کولر سے اسے پانی بھی پینے نہیں دیا گیا ،جب وہ پانی پینے گیا تو مسلمان طالبعلموں اور ٹیچرز نے کہا کہوہ عیسائی ہے ،ایک چوڑھا ہے ،اس لئے کولر سے پانی نہیں پی سکتا ۔بچہ والدین کو کہتا ہے کہ مسلمان طالبعلوں نے اسے وارننگ دی ہے کہ اگر آئندہ پانی پینا ہے تو اپنا گلاس لیکر آنا ۔بچے کے والد کا نام الیاس مسیح ہے ،وہ کہتا ہے کہ بیٹا کوئی مسئلہ نہیں ،بڑا انسان بننے کے لئے اس طرح کی چھوٹی موٹی قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں ۔تمہیں اسکول ہر صورت جانا چاہیئے ۔پھر دو ستمبر آجاتی ہے ،الیاس مسیح اسے یونیفارم لیکر دیتا ہے اور کہتا ہے یہ ہے یونیفارم اسے پہنو،اور اسکول جاو،بچہ وہ یونیفارم پہنتا ہے اور اسکول پہنچ جاتا ہے ۔الیاس مسیح کو کچھ گھنٹوں بعد اسکول انتظامیہ کی طرف سے ایک فون کال آتی ہے ،اس فون کال میں شیرون مسیح کے والدین کو بتایا جاتا ہے کہ ان کے بیٹے کی ایک حادثے میں موت واقع ہو گئی ہے اور لاش فلاں اسپتال میں پڑی ہیں ۔والدین چیختے چلاتے اور آنسو بہاتے جب بورے والا کی اسپتال میں پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ سامنے ان کے بیٹے شیرون مسیح کی لاش پڑی ہے ۔شیرون کی موت کی بھی ایک کہانی ہے ،اسکول کے بچوں کے مطابق ۲ ستمبر کو جب شیرون نائن کلاس میں پڑھ کر با ہر نکل رہا تھا تو کچھ مسلمان بچوں نے اس پر حملہ کردیا ،یہ مسلمان بچے کئی گھنٹوں تک عیسائی بچے پر تشدد کرتے رہے ،تمام اسکول تماشائی بنکر یہ تماشا دیکھتا رہا ،مسیح بچے کو مسلمان بچے گھونسوں ،لاتوں اور مکوں سے مارتے رہے اور باقی اسکول اس منظر کو دیکھتا رہا ،بچہ بیحوش ہو کر گر پڑا اور پھر اس کی موت واقع ہو گئی ،اسپتال میں جب اسے لے جایا گیا تو ڈاکڑوں نے کہا بچہ تو پہلے ہی مر چکا تھا ۔کہا گیا کہ تشدد کرنے کے بعد کچھ بچے اسے اسپتال لیکر گئے تھے ۔بچے کی ماں زبیدہ مسیح کہتی ہیں کہ وہ اس خون کا حساب کس سے لیں ؟کہتی ہیں کہ کیسے پانچ بچے لہو لہان شیرون کو اسپتال لیکر جاسکتے ہیں ،اسکول میں چھبیس سو طالبعلم پڑھتے ہیں ،یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک بچے کو قتل کیا جارہا تھا ،ٹیچرز اور انتظامیہ خاموشی سے یہ منظر دیکھتے رہے ،وہ جو تشدد کررہے تھے ،انہیں کیوں نہیں روکا گیا ،مسیح طالبعلم کو تین دن میں ہی قتل کردیا گیا ۔آخر یہ کیا نفرت ،تعصب اور دشمنی تھی کہ اسے بے دردی سے قتل کردیا گیا؟شیرون اب قبر میں ابدی نیند سو چکا ہے ،رپورٹس کے مطابق اسکول کے ہیڈ ماسٹر سیت پانچ اساتذہ کو معطل کردیا گیا ہے۔دفعہ 203 کے تحت الباکستان کی پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے ۔اسپتال سے جو ابتدائی رپورٹ جاری کی گئی ہے اس کے مطابق شیرون کی موت شدید چوٹوں کی وجہ سے ہوئی ہے ،رپورٹ کے مطابق شیرون پر بے رحمانہ اور وحشیانہ قسم کا تشدد کیا گیا تھا اسی وجہ سے وہ مر گیا ۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جب وہ یعنی شیرون کلاس میں جارہا تھا تو اچانک ایک مسلمان بچے سے اس کی ٹکر ہو گئی ،مسلمان بچے کا موبائل زمین پر جاگرا ،جس سے موبائل کی اسکرین ٹوٹ گئی ،ا سکے بعد کیا تھا مسلمان بچوں نے ملکر شیرون پر تشدد شروع کردیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی ،صرف موبائل کا شیشہ ٹوٹنے سے ایک نوجوان بچے کا قتل کردیا گیا ،اس کا قصور یہ تھا کہ وہ مسیح تھا ،ایک چوڑھے یعنی خاروب کا بچہ تھا ،جو اسکول کے ٹھنڈے کولر سے پانی تک نہیں پی سکتا تھا ۔بی بی سی کی ایک رپورٹر نے جب اس حوالے سے اسکول انتظامیہ سے سوال کیا کہ کیسے شیرون قتل ہوا؟تو اس پر اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شیرون جسمانی طور پر بہت کمزور تھا ،تشدد کی وجہ سے مر گیا ،وہ کیا کرسکتے تھے ؟ایکٹیچر نے کہا شیرون کی جس مسلمان بچے سے لڑائی ہوئی تھی ،اس کا بھی ایک دانت ٹوٹ گیا تھا ،لیکن اس بچے کی بات کوئی نہیں کررہا ۔یعنی اسکول انتظامیہ کے مطابق دانت توڑنا قتل سے بڑا جرم ہے ۔ظلم اور زیادتی کی انتہا کردی گئی ،وحشیانہ اور ظالمانہ جرم کا ارتکاب کیا گیا ،لیکن حقیقت اب بھی چھپائی جارہی ہے ۔عیسائی بچے کے والدین اور کچھ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس قتل کے حقائق چھپائے جارہے ہیں ۔پولیس کے مطابق جس مسلمان طالبعلم نے شیرون کا قتل کیا تھا ،اسے گرفتار کر لیا گیا ہے ،مارنے والے کی عمر سترہ برس ہے ،اس لئے اسے نابالغ کے شبہہ میں چھوڑا بھی جاسکتا ہے ،یہ ہے وہ انصاف کا نظام جس کی وجہ سے ہم وحشی بن گئے ہیں ۔یہ تو تھی شیرون مسیح کی کہانی ۔اب سوچیں پاکستان کا مستقبل کتنا محفوظ ہے ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔