بسم تعالیٰ
رب زدنی علما
عکس در عکس ۔۔ فن۔۔شخص ۔۔شخصیت
اقبال نے برسوں پہلے کہا تھا ،
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اقبال نے پتہ نہیں اپنے کس آئیڈیل کے لیے یہ شعر کہا تھا مگر یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ ہراس شخصیت کے لیے ہے جس نے اپنی حیات فانی میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہوں جس نے اسے حیات جاوداں عطا کی ہو کہ شاید برسوں یا پھر وہ صدیوں تک زندہ رہے گا ۔ ذہنوں میں ،سینوں میں ،کتابوں میں ،حکایتوں میں ،خلوت میں ،جلوت میں ،محفلوں میں ،انجمنوں میں ،عوام وخواص میں ۔جیسے مولانا روم اپنی مثنوی میں جلوہ فگن ہیں تو خیام کا عکسِ جھلکتا ہے وہیں سعدی کے نقوش گلستان بوستان پر ثبت ہیں ۔ وہ البیرونی ہو کہ غزالی ،بوعلی سیناہو کہ بخاری ،ابن ہیثم ہو کہ شیرازی کہ فردوسی رہتی دنیا تک ان کا نام زندہ رہے گا ۔ سقراط و افلاطون دنیا سے مٹ گئے مگر ان کا نام آج بھی باقی ہے ۔
ایسی ہی ایک تاریخ ساز شخصیت ہے ،عزت مآب توصیف ترنل کی جو آج برقی دنیا پر راج کررہی ہے ۔جس نے مخالفت کی تیز آندھیوں میں بھی اپنی ادبی خدمات کے چراغ جلائے رکھے ۔آسمان ادب کے پرچم کو سرنگوں نہ ہونے دیا بلکہ ہر محاذ پر اپنی انفرادیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔جس نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔جس کی آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا ۔ایک زمانہ حیرت زدہ ہے کہ یہ شخص ۔۔یہ کب کماتا کھاتا ہے ؟ کب سوتا ہے ؟۔۔سوتا بھی ہے یا نہیں !! ۔۔ہمیشہ حاضر ۔۔ایک چراغ بجھا تو دوسرے کو رو،کردیا ،ایک نے منھ موڑا تو دوسرے کو کھڑا کر دیا ۔حاضر جواب کو لاجواب کردیا اور بدزبان کو اپنی خاموشی سے مات دے دی ۔وہ نرم گوشہ ،سحر آگیں شخصیت جس کے ہونٹوں پہ ہمیشہ تبسّم کی بجلیاں کھیلتی ہیں ۔اپنے فن کو دوسرے کے فن پر ترجیح نہ دیتے ہوئے نوآموز لکھاریوں کہ حوصلہ دیتا رہا ۔حوصلہ شکنی نہ کر تے ہوئے حوصلہ افزائی کرتا رہا ۔جس نے ہمیشہ قلمکاروں کو پرموٹ کیا ۔اپنی ذہانت سے ادارے کی ذہن سازی کی اور ایک ایسی فعال ٹیم ترتیب دی جو اپنی مثال آپ ہے ۔
برقی دنیا کے ہر شعبے میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو سنہری حرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہیں ۔یہ شخصیت ہر کسی کے دکھ سکھ، شادمانی ومسرت،خوشی وغم میں برابر کی شریک رہی ۔شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود کبھی کسی کو یہ نہ کہنا پڑا کہ ،
تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
ہمیں زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے