ہمارے حلقہء احباب میں ڈاکٹر عاکف ہمیشہ منفرد اور نمایاں رہا ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔پہلی وجہ اس کی متنوع اور پیچیدہ شخصیت ہے جسے سمجھنے کا دعوی آج تک کسی دوست نے نہیں کیا اور نہ کبھی کرے گا۔دوسری بڑی وجہ عاکف کا اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایسی ساکھ قائم کرنا ہے جو میڈیکل کے شعبے میں ایک مشکل بلکہ کٹھن کام ہے۔عاکف بظاہر ایک کھلنڈرا سا نوجوان نظر آتا ہے جو دوستوں کی محفلوں میں ہنستا مسکراتا اور قہقہے لگاتا ادبی اور سماجی مسائل پر بات کرتا دکھائی دے گا،لیکن یہ اس کی پہلو دار شخصیت کا محض ایک عام سا رخ ہے۔عاکف کے باطن میں کئی خوابیدہ آتش فشاں دہک رہے ہیں جس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب وہ کوئی سنجیدہ بات کر رہا ہو یا پھر اس کی شاعری ایک ایسا موثر وسیلہ ہے جس کی مدد سے قاری یا قاری نما دوست کو اس Magma Chamber تک کچھ رسائی حاصل ہو سکتی ہے،ورنہ یہ کوہ قاف جیسی شخصیت کسی پر ذرا کم ہی آشکارا ہوتی ہے۔
مجھے ذاتی طور پر عاکف کی شخصیت کا یہ پراسرار پہلو ہمیشہ متاثر کرتا رہا ہے۔اس کتاب کے قاری کو بھی بار بار یہ احساس ہوگا کہ اس شاعری میں پراسراریت کے زاویے کچھ زیادہ ہی تیکھے اور سجیلےہیں،کلام میں اس نوع کی خوبی بلاوجہ پیدا نہیں ہوتی بلکہ مسلسل ریاضت اور تفکر کی بدولت تخلیقی عمل کا حصہ بن کر شاعری میں حلول کر جاتی ہے۔جذب و انجذاب کا یہ سلسلہ نجانے کب سے جاری و ساری تھا جو آخر کار اس شعری روپ میں ہمارے سامنے آیا ہے۔جناب عاکف گزشتہ تین دہائیوں سے فنون لطیفہ کی مخلتف جہتوں کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے وابستہ ہے،کبھی Miniature Art میں اپنی مہارت اور تکنیک کے جوہر دکھاتا ہے تو کبھی آثار قدیمہ کے موضوع پر گھنٹوں بول کر سننے والوں کو اپنی گرفت میں کر لیتا ہے۔البتہ شاعری کے ساتھ یہ وابستگی خاصی گہری اور مسلسل ہے۔۔شاعری کے ساتھ عاکف کامعاملہ جز وقتی بھی ہے اور کُل وقتی بھی۔اس تعلق کو کسی اصول کے تحت بیان کرنا خاصا مشکل یے۔ عاکف کی شاعری کا سب سے اہم اور لائق توجہ پہلو یہ ہے کہ اس نے شعری اظہار کے نئے نئے اسالیب اور جدید قرینے متعارف کرائے ہیں۔اپنی شاعری میں نئی لفظیات اور نئی تراکیب اس خوبی سے برتی ہیں کہ کئی سینئر شعرا بھی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔عاکف کا اسلوبیاتی اور علامتی نظام بھی اپنی مخصوص وضع رکھتا ہے۔"حاصل" کی شعری فضا روایتی شاعری سے یکسر مختلف ہے اس لیے قاری کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔
عاکف کی شاعری کا اصل حُسن یہ ہے کہ اس نے شعری روایت کے ایسے پیٹرن جو کلیشے بن چکے تھے ان میں جدت اور حدت پیدا کر دی ہے۔ہمارا یہ شاعر دوست زندگی کے ہر معاملے میں اپنا راستہ خود بنانے کا قائل یے بلکہ مجھے تو یوں لگتا کہ یہ اردو ادب کا مجتہد شاعر بھی ہے کہ جس نے لفظیات و فکریات میں ایسے ایسے اچھوتے شعر اور نظمیں لکھیں ہیں جو قاری کو بار بار حیرت اور خوشی سے دوچار کرتی ہیں۔عاکف ایک جادو گر شاعر بھی ہے جو شعری لطافت اور سائنسی صداقت کو باہم آمیز کرکے ایک نئی دنیا تخلیقی کرتا ہے جس میں فکر و نظر کے ابعاد(Dimensions)اور امکانات جدید شعری وسعتوں کا پتا دیتے ہیں۔ ہمارے تمام دوست اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ عاکف کی شاعری گہرے غوروفکر کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ہر نظم خواہ وہ مختصر ہو یا قدرے طویل اس میں فکر کی اکائیاں دہائیوں کے حساب سے نظر آتی ہیں۔اس کی فکری جمالیات اشیا کو از سرِ نو تخلیق کرکے شعری اظہار میں منکشف ہوتی ہے۔عاکف کی شاعری میں ہمیں جو مشکل پسندی یا اچھوتا پن نظر آتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اردگرد پھیلے کائناتی مظاہر کی نئی نئی توجہیات و تعبیرات کرنے پر قادر ہے۔وہ ظاہر کی آنکھ سے تماشا نہیں کرتا بلکہ دیدہء دل وا کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔آرٹ سے گہری وابستگی نے اس کے اندر شعری حوالے سے تصور،تعقل،ہیئت،تکنیک اور دیگر فنی رموز کے رنگ روپ ارزانی کر دیئے ہیں۔جب کسی شاعر کی بنیادیں اتنی پائیدار ہوں تو پھر عصری شعور کو منزل آشنا ہونے میں دیر نہیں لگتی۔عاکف کا شمار انھی خوش نصیب اور صاحبِ توفیق شعرا میں ہوتا ہے جن کا تخلیقی اظہار ہر قاری کو ایک نئے انداز سے متاثر کرتا چلا جاتا ہے۔عاکف گمریانی کی شعری فضا کو ایک اور زاویے سے دیکھنا پرکھنا بہت لازمی ہے۔یہ زاویہ کچھ اس طرح کا ہے جسے ہم جدیدیت،ثقافتی شعور یا وجودی فلسفے جیسے نام دے سکتے۔ہر بڑے فن کار کی طرح عاکف بھی اپنے سماج سے پوری طرح جُڑا ہوا ہے اور وجودیاتی دریافتوں کا سبب بنتا رہتا ہے۔وہ بخوبی جانتا ہے کہ وجود ہر شئے سے پہلے ہے یا دوسرے لفظوں میں وجود درحقیقت جوہر پر مقدم ہے۔ بات صرف وجودیاتی شعور پر ہی منتج نہیں ہوتی بلکہ وجود کی دیگر سطحوں کو بھی فعال رکھتی ہے۔اس مجموعہء کلام میں وجودیاتی رنگارنگی پڑھنے والوں کو ہر لمحہ اپنی گرفت میں رکھتی یے۔ ہمارا یہ سجیلا شاعر روشن خیالی کو خضرِ راہ سمجھتا ہے اور صداقت کی تلاش میں ہفت افلاک کی پہنائیوں میں خود کو گم کردینے کو ایک عام واقعہ خیال کرتا ہے۔زندگی اور فطرت کے ہر راز کو کھلی آنکھ سے دیکھتا اور دکھاتا ہے۔یہ سب ایسے اوصاف ہیں جن کی مدد سے انسان بآسانی ایک کُلی تناظر حاصل کر لیتا ہے.یہ سب باتیں پیش لفظ میں بیان کرنا اس لیے ضروری ہیں کہ قاری جہاں اس کتاب کو آزادانہ پڑھے گا وہاں ان نکات کی روشنی میں بھی دریافت کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔سچ پوچھیں تو" حاصل" کا مطالعہ ایک جمالیاتی تجربہ ہے جو شاعر کی قوتِ متخیلہ کو بار بار ہمارے باطنی تجربے سے آمیز کرتا ہے جس کے نتیجے میں قاری کئی مقامات پر شاعر کی تخلیقی فعلیت سے مکالمہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔