اختر حسین جعفری ( ولادت:۔ 15۔ اگست 1932۔ ہوشیار پور وصال :۔ 3۔ جون 1992۔ لاہور) اختر حسین جعفری جدید اردو نظم کے قدآور شاعر تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ وہ جدید اردو نظم کے انتہائی معتبر شاعر ہیں۔ اس لیے کہ وہ جہان ادب میں آج بھی زندہ ہیں۔ آسمان ادب کا ”اختر“ ڈوبا نہیں ٔ بلکہ جھلملا رہا ہے اور خوب جگمگا رہا ہے۔ وہ یقینی طور پر اختر صبح تھے اس لیے دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہوتے بھی ہمیں ”آخری اجالا“ دے گئے ہیں۔ ”آخری اجالا“ دراصل کلیات اختر حسین جعفری کا نام ہے۔ جس کی دھوم کل بھی مچی ہوئی تھی اور آج بھی ایوان ادب میں پوری گھن گرج کے ساتھ اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
اس کلیات سے پہلے ان کے دو خوبصورت شعری مجموعے آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے زیور طباعت سے آراستہ ہو کر کاغذی پیرہن میں سامنے آئے۔ یہ تینوں شعری مجموعے جدید اردو ادب کا گراں مایہ سرمایہ ہیں۔ میرے والد بزرگوار قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب انہیں جدید اردو نظم کی آبرو اور پہچان کہا کرتے تھے اور ادبی محافل میں انہوں نے فیض احمد فیض ۔ احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا کی موجودگی میں یہ بھی فرمایا کہ مجھے اس عہد میں جدید نظم کا کوئی شاعر اختر حسین جعفری سے بڑا نظر نہیں آتا اور اگر آپ میں سے کوئی بھی کسی اور قدآور شاعر کا نام جانتا ہے جو اختر حسین جعفری سے بڑا ہو تو مجھے ضرور بتائے۔
ایک روز احمد ندیم قاسمی صاحب ریڈیو پاکستان سے اپنا ہفتہ وار کالم پڑھ کر فارغ ہوئے اور طے شدہ پروگرام کے مطابق سیدھے قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ کی اقامت گاہ (جی۔ او۔ آر۔ تھری) پہنچے ان کے ہمراہ خالد احمد بھائی اور نجیب احمد صاحب بھی تھے۔ اور کچھ ہی دیر بعد طارق عزیز صاحب اور عارفانہ کلام پڑھنے میں بے مثل مقبولیت پانے والے اقبال باہو بھی پہنچے۔ اختر حسین جعفری صاحب کو پک کر کے لانے کی ذمہ داری جناب ابصار عبدالعلی صاحب کی تھی کیوں کہ ہمسائیوں کے بھی تو حقوق ہوتے ہیں۔ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کبھی خود چین و قرار کے ساتھ نہیں بیٹھے تو ہمسائیوں تک بھی تو فیض پہنچنا ضروری ہے
اس روز احمد ندیم قاسمی صاحب کا موڈ کچھ کوفت زدہ سا لگ رہا تھا۔ قاسمی صاحب سید فخرالدین بلے شاہ سے کچھ یوں مخاطب ہوئے بلے صاحب حد ہی ہو گئی خدا معلوم کیا ہو گا ان عاقبت نا اندیشوں کا ۔ بابا جانی نے دریافت کیا ہوا تو پھر ان کو قاسمی صاحب نے بتایا کہ میں تو برسوں سے ریڈیو سے وابستہ ہوں اور میرا مسلسل ریڈیو سے اور وابستگان ریڈیو سے رابطہ بھی ہے۔ آج جب ریڈیو پر ایک انتہائی نا اہل شخص سے رابطہ ہوا تو محسن ملک و ملت جناب سید مصطفی علی ہمدانی بہت یاد آئے۔ کیا نفیس انسان تھے ریڈیو پاکستان کی پہچان اور جان۔ پیشہ ورانہ مہارت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا نہ ہے۔ جب آج ریڈیو پر ایک نا اہل شخص سے سابقہ پڑا تو میں نے اس سے کہا کہ کاش آج سید مصطفی علی ہمدانی حیات ہوتے تو وہی آپ کو کچھ سمجھا سکتے تھے لیکن نہیں ایسا ممکن نہیں ہو سکتا تھا کہ آپ اور مصطفی علی ہمدانی صاحب بیک وقت ریڈیو کی اس چھت تلے اکٹھے ہوتے۔ بس اتنی ہی بات کر کے احمد ندیم قاسمی صاحب نے بہت کچھ کہہ ڈالا تھا۔ قاسمی صاحب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ابصار عبدالعلی گویا ہوئے ہائے ہائے کیا ہیرا راہبر و راہنما تھے استاد محترم جناب مصطفی علی ہمدانی صاحب۔ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ بھی کمال شفقت فرمایا کرتے تھے اور بہت سی کام کی باتیں سمجھانے کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان کے مختلف مراکز میں پنپنے والی داخلی سیاست سے دور اور محفوظ رہنے کا مشورہ دیا کرتے۔ ہمزاد دا دکھ کے خالق اور مقبول ٹی وی شو نیلام گھر سے شہرت کی بلندیوں کو پہنچنے والے جناب طارق عزیز صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب اور ابصار عبدالعلی صاحب کے موقف کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان ریڈیو اور پاکستان ٹیلی وژن ( کے قیام ) کی عمروں میں جو فرق ہے باپ بیٹے یا ماں بیٹے کی عمروں میں بھی اتنا ہی فرق ہوتا ہے اور ریڈیو پاکستان کے سامنے پاکستان ٹیلی وژن کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسی ماں باپ کے سامنے اولاد کی یا استاد کے سامنے شاگرد کی اور میں تو فخریہ طور پر جناب مصطفی علی ہمدانی صاحب کو اپنا گرو اور راہبر بلکہ روحانی استاد سمجھتا ہوں۔ اختر حسین جعفری صاحب نے عقیدت مندانہ انداز میں مصطفی علی ہمدانی کو خراج پیش کیا اور پھر فرمایا ہم اپنے اسلاف اور محسنین ملت سے آنکھیں چرا کر کہیں کے نہیں رہیں گے یہ بات نئی نسل کو سمجھ لینی چاہیے۔ یہ بات سن کر طارق عزیز صاحب نے فرمایا اختر حسین جعفری۔ احمد ندیم قاسمی۔ سید فخرالدین بلے صاحب اور منیر نیازی میرے پھر طارق عزیز صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب سے مخاطب ہو کر کہا آپ کی سفارش بھی کام نہ آئی میں نے بارہا جناب سید فخرالدین بلے صاحب سے گزارش کی کہ وہ میرے شو میں مہمان شاعر و محقق کے طور پر شرکت فرمائیں اور وہ ہمیشہ یہ کہہ کر ٹلا دیتے ہیں کہ نہ تو آپ کہیں جا رہے ہیں اور نہ ہی میں۔ قاسمی صاحب آپ ہی فرمائیے کہ میں کیا کروں اور بلے صاحب سے احتجاج بھی کروں تو کیسے پسندیدہ شعرا میں سے ہیں۔ محترمہ توصیف افضل صاحبہ اپنی یادوں کے حوالے سے جناب مصطفی علی ہمدانی شاہ صاحب کو خراج پیش کیا
جناب اختر حسین جعفری صاحب گو کہ احمد ندیم قاسمی صاحب اور والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا بے حد احترام فرمایا کرتے تھے جبکہ یہ دونوں بزرگوار اور خالد احمد بھائی۔ نجیب احمد بھائی۔ ڈاکٹر سلیم اختر۔ مظفر وارثی۔ شہزاد احمد۔ منصورہ احمد۔ صدیقہ بیگم۔ ادا جعفری۔ فہمیدہ ریاض۔ بانو قدسیہ آپا۔ اشفاق احمد خاں صاحب۔ ممتاز مفتی جی۔ پروفیسر انجم اعظمی۔ شبنم رومانی صاحب۔ جون ایلیا۔ منیر نیازی۔ سیف الدین سیف۔ طفیل ہوشیار پوری۔ کلیم عثمانی۔ محسن نقوی۔ یوسف حسن۔ اور علامہ غلام شبیر بخاری۔ علامہ طالب جوہری۔ پیر نصیرالدین نصیر۔ سلطان ارشد القادری۔ اور کس کس کا نام لیں اور کون ہے جس کو ہم نے قبلہ اختر حسین جعفری صاحب کی تعظیم و تکریم کرتے نہیں دیکھا۔
شاعر باکمال قبلہ اختر حسین جعفری صاحب سرکار کا مزاج خالصتاً درویشانہ تھا۔ وہ کیا شہرت کے پیچھے بھاگتے ہم نے تو مقبولیت اور شہرت کو ان کے پیچھے بھاگتے دیکھا ہے اور جس محکمے سے ان کا تعلق تھا اس محکمے کا مالی بدعنوانی اور رشوت ستانی میں کوئی ثانی نہ تھا لیکن ہم آج بھی ببانگ دہل چیلنج کرتے ہیں کہ ہے کوئی کہ جو ان کے حوالے سے جھوٹا دعوی کرنے کی بھی جرات رکھتا ہو۔
سید فخرالدین بلے اور پوری بلے فیملی کو جناب اختر حسین جعفری صاحب کی میزبانی اور مہمان نوازی کا مسلسل اعزاز بھی حاصل ہوتا رہا گو کہ عام طور وہ ہمارے والد گرامی کی طرح کم کم ہی کہیں جایا کرتے تھے لیکن اگر وہ اپنے گھر پر موجود نہیں اور کسی خاص تقریب میں بھی تو اس کا مطلب یہ ہوا کرتا تھا کہ یا تو وہ احمد ندیم قاسمی صاحب کے کسی بھی ٹھکانے مثلاً مجلس کے دفتر یا فنون کے دفتر یا پھر والد گرمی سید فخرالدین بلے کے گھر پر ملیں گے۔
اختر حسین جعفری کی شعری تخلیقات ویسے تو بلا شبہ 90 فیصد انتہائی تواتر اور اہتمام کے ساتھ فنون میں شائع ہوا کرتی تھیں یا پھر یہ اعزاز سید فخرالدین بلے اور راقم السطور ظفر معین بلے کے زیر ادارت شائع ہونے والے جریدے ”آواز جرس“ کو حاصل ہوا۔ فنون کے مدیر احمد ندیم قاسمی اور معاون مدیرہ منصورہ احمد نے قبلہ اختر حسین جعفری کی رحلت کے بعد شاندار و جاندار فنون کا اختر حسین جعفری نمبر بھی شائع کیا تھا۔ ہمارے پیارے اور محترم جناب اختر حسین جعفری صاحب کی والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے سے محبت اور تعلق داری اور رفاقت کی داستان اللہ جانے کتنی عمر رسیدہ ہوگی ہم تو کم از کم اپنے ہوش سنبھالنے کے بعد سے دیکھتے چلے آئے ہیں اور بے شک ہمیں اختر حسین جعفری انکل کی محبت و چاہت وراثت میں ملی ہے۔ ہمیں جناب منظر حسین اختر بھائی صاحب اور برادر عزیز جناب امیر حسین جعفری کا شمار خوبصورت شعرا میں ہوتا ہے اور وہ ہمیں بہت عزیز ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے اختر حسین جعفری صاحب کی موجودگی میں قافلہ کے ایک پڑاوٴ میں شرکائے قافلہ سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ اگر منظر حسین جعفری اور امیر حسین جعفری نے اسی محنت اور لگن سے اپنے شعری سفر کو جاری رکھا تو ایک دن ضرور یہ آسمان ادب کے درخشاں ستاروں میں شمار ہوں گے
اور اب اختر حسین جعفری کا ایک سلام دیکھیں
مجلس شہ4 میں نئی سطر معانی پڑھئے
سخن اس پر ہو تو کیوں نظم پرانی پڑھئے
وہی اک درس فنا اول و آخر موجود
چاہے سو بار تجھے عالم فانی، پڑھئے
کس کا اقرار سر نوک سناں شہ نے کیا
بات کیا تھی جو تہ تیغ نہ مانی پڑھئے
چہرۂ احمدمرسل4کو بہ تفصیل پڑھیں
اسی تفصیل میں اکبر4 کی جوانی پڑھئے
صفحۂ دشت پہ یاریت تھی یا پیاس تھی درج
کہیں پانی تھا تو کیسے اسے پانی پڑھئے
جمع میں کرتا ہوں جلتے ہوئے خیموں کے حروف
آپ اس شام بیاباں کی کہانی پڑھئے
کہاں ترتیب میں اس طرح کے غم آتے ہیں
اشک عنواں کو یہاں مصرعء ثانی پڑھئے
(جہاں دریا اترتا ہے )
غزل۔
ہجر اک حسن ہے، اس حسن میں رہنا اچھا
چشم بے خواب کو خونناب کا گہنا اچھا
کوئی تشبیہ کا خورشید نہ تلمیح کا چاند
سرقرطاس لگا حرف برہنہ اچھا
پار اترنے میں بھی اک صورت غرقابی ہے
کشتیٔ خواب رہ موج پہ بہنا اچھا
یوں نشیمن نہیں ہر روز اٹھائے جاتے
اسی گلشن میں اسی ڈال پہ رہنا اچھا
بے دلی شرط وفا ٹھہری ہے معیار تو دیکھ
میں برا اور مرا رنج نہ سہنا اچھا
دھوپ اس حسن کی یک لحظہ میسر تو ہوئی
پھر نہ تاعمر لگا سائے میں رہنا اچھا
دل جہاں بات کرے، دل ہی جہاں بات سنے
کار دشوار ہے اس طرز میں کہنا اچھا
نظم : فیصلہ صبح کرے۔ اختر حسین جعفری
فیصلہ صبح کرے۔
رات، تصویر، منتشر چہرہ
چھت گری ہے کہ آئنہ ٹوٹا
کوئی پتھر ہوا کے کاتھ میں تھا
راستہ خود ہو رہنما جیسے
تیز قدموں سے یوں چلا جیسے
اندھا لاٹھی میں آنکھ رکھتا تھا
باغ، جلسہ، افق افق نعرہ
شور، تقریر، قہقہہ، نوحہ
چاند شاید ابھی نہیں نکلا
بلب، فٹ پاتھ، ٹیلیفون کے تار
جسم جیسے پڑھا ہوا اخبار
بورڈ پر نرخ، کان میں جھمکا
چائے عورت کے رنگ سی کالی
بیرا، ہوٹل، غلیظ سی گالی
صاف وردی میں جسم میلا تھا
شیشہ و سنگ جوہری کی دکاں
بند شو کیس، قید روشنیاں
قفل، زنجیر، آہنی پہرا
کذب، دعوے، حقوق، سچائی
ہاتھ خنجر، محاذ آرائی
صبح ہوگی تو فیصلہ ہو گا
ممتاز شاعر ادیب محقق نقاد اور استاذ الاساتذہ جناب پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر صاحب نے اس فقیدالمثال نوحے کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ رقم فرمایا ہے آپ بھی پڑھیے ”اس نوحے کا ایک حصہ ضیا الحق نے اپنی ایک تقریر میں اپنی رواداری کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ اہل قلم کانفرنس کے اس افتتاحی اجلاس میں اختر حسین جعفری بہ نفس نفیس تشریف فرما تھے“
ہم خالد اقبال یاسر صاحب کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے یہ تاریخی واقعہ تحریر فرمایا کہ جو اکثر احباب کو معلوم نہیں تھا۔
(چار اپریل ) ۔ نوحہ۔ اختر حسین جعفری
اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب
اب کسی ابجد سے زندان ستم کھلتے نہیں
سبز سجا دوں پہ بیٹھی بیبیوں نے
جس قدر حرف عبادت یاد تھے، پو پھٹے تک انگلیوں پر گن لیے
اور دیکھا۔ رحل کے نیچے لہو ہے
شیشہ محفوظ کی مٹی ہے سرخ
سطر مستحکم کے اندر بست و در باقی نہیں
یا الٰہی! مرگ یوسف کی خبر سچی نہ ہو
ایلچی کیسے بلاد مصر سے
سوے کنعاں آئے ہیں
اک جلوس بے تماشا
گلیوں بازاروں میں ہے
تعزیہ بر دوش انبوہ ہوا
روزنوں میں سر برہنہ مائیں جس سے مانگتی ہیں منتوں کا اجر، خوابوں کی زکوٰة
سبز سجا دوں پی بیٹھی بیبیو!
اب کسی ابجد سے زندان ستم کھلتے نہیں
اب سمیٹو مشک و عنبر، ڈھانپ دو لوح و قلم
اشک پونچھو، اور ردائیں نوک پا تک کھینچ لو
کچی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں
( اختر حسین جعفری)
ایک روز جب میں صدیقہ بیگم کے ہمراہ ادب لطیف کے دفتر سے کچھ کام سمیٹ کر اپنے گھر شادمان جی۔ او۔ آر تھری پہنچا تو ماشا اللہ رونق لگی ہوئی تھی احمد ندیم قاسمی۔ اختر حسین جعفری۔ منصورہ احمد۔ خالد احمد۔ نجیب احمد ڈاکٹر سلیم اختر۔ ڈاکٹر اجمل نیازی اور غالباً دیگر احباب کے علاوہ سرفراز سید بھی ہمارے والد گرامی کے ساتھ محفل جمائے بیٹھے تھے۔ اختر حسن جعفری احباب سے مخاطب تھے اور فرما رہے تھے کہ ”اختر واقعی ادب پرور تھا اور احمد ندیم قاسمی صاحب سے تو اسے خاص قلبی لگاوٴ تھا جب کبھی فنون کے خدمت گاروں کی فہرست تیار ہوگی تو اختر کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہو گا۔
اللہ اختر کے درجات بلند فرمائے۔“ ہم کیونکہ دوران پہنچے تھے اس لیے جو کچھ بھی ہمارے کانوں نے سنا ہم اس کے پس منظر بالکل بھی واقف نہ تھے البتہ جو کچھ سنا وہ سن کر حیران ضرور تھے پیارے بھائی خالد احمد نے بھانپ لیا کہ ہم موضوع گفتگو سے لاعلم ہیں۔ اسی لیے خالد احمد بھائی قبلہ اختر حسین جعفری سے انہی کی بات میں اضافہ کرنے کے لیے مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ ہمارا بھائی ظفر معین بلے جب بھی فنون کے دفتر آتے تو اختر تمام کام چھوڑ کر ان کی آؤ بھگت میں لگ جاتا اور کہتا کہ بس پانچ سات منٹ میں آ جائیں گے قاسمی صاحب۔ تب ہم سمجھے کہ فنون کے دفتر میں احمد ندیم قاسمی صاحب کے معاون و مددگار اختر بھائی کی بات ہو رہی ہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے ہی گھر میں قافلہ کا ماہانہ پڑاوٴ ڈالا گیا تو اختر حسین جعفری صاحب نے (ہمارے والد قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی اس گزارش پر کہ اب باقاعدہ پڑاوٴ کا آغاز فرمائیے ) حاضرین محفل کو ان الفاظ میں مخاطب فرمایا کہ آج کے اس قافلہ پڑاوٴ کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ آج احمد ندیم قاسمی صاحب۔ خالد احمد۔ اجمل نیازی۔ ڈاکٹر سلیم اختر۔ طفیل ہوشیار پوری۔ شہزاد احمد۔ کلیم عثمانی۔ ڈاکٹر آغا سہیل۔ منیر نیازی اور آج کے قافلہ کے تمام شرکائے پڑاوٴ اور مجھ خاکسار و میزبان اختر حسین جعفری کی بھرپور اور پرزور فرمائش پر سید فخرالدین بلے صاحب سے ان کا کلام سنا جائے گا اور آج ہم سب بلے صاحب کے میزبان ہیں اور بلے صاحب ہمارے مہمان لہذا آج ہم سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کو یہ باور کروانا چاہتے کہ ان کا ہم سب سے جس قدر قلبی اور روحانی تعلق ہے اور ان کے دل میں میرے اور ہم سب کے لیے جتنا خلوص ہے ہم سب بھی انہیں اس سے زیادہ نہ بھی سہی تو اس سے کم بھی نہیں چاہتے اور پھر اختر حسین جعفری صاحب اور احمد ندیم قاسمی صاحب سمیت تمام شرکائے قافلہ پڑاوٴ نے والد گرامی سے فرمائش کر کر کے کلام سنا۔ اختر حسین جعفری اور قاسمی صاحب نے بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ سے بطور خاص
نعت۔ ہے خوف خدا
منقبت سرکار مولائے کائنات
مری نماز علی ہے مری دعا بھی علی
سلام۔ سرکار امام حسین ع
حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے
نظم ”آگ“ ۔ نظم 6۔ ستمبر۔
نظم۔ خلا کی تسخیر
نظم۔ بازیافت
اور
نظم۔ سالگرہ کا تحفہ
اور دیگر نظمیں اور غزلیں مسلسل فرمائش کر کر کے سنتے رہے
بے پناہ داد دیتے رہے۔ سر دھنتے رہے اور سنتے رہے۔
ایک اور اہم واقعہ بھی مجھے یاد آ رہا ہے۔ ہم لاہور میں تھے محترمہ منصورہ احمد کا فون آیا اور انہوں نے کہا بابا یعنی محترم احمد ندیم قاسمی صاحب بات کرنا چاہ رہے ہیں اور پھر قاسمی صاحب نے بتایا کہ ہم بہت تھوڑی دیر کے لئے علامہ طالب جوہری صاحب کے ساتھ آپ کے گھر آرہے ہیں۔ میرے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے یہ سن کر جی اٹھے۔ انہوں نے اصرار کر کے مختصر ملاقات کو ظہرانے میں تبدیل کرانے پر علامہ صاحب کو راضی کر لیا۔
نظم کے عظیم اور معروف شاعر اختر حسین جعفری اپنے صاحبزادے منظر حسین اختر اور مشکور حسین یاد کے ساتھ تشریف لے آئے۔ ادب لطیف کی چیف ایڈیٹر محترمہ صدیقہ بیگم کو بھی میں نے فون پر آگاہ کر دیا۔ روزنامہ ڈان کے اشفاق نقوی کو بھی مدعو کر لیا گیا۔ مایہ ء ناز صداکار اور فلمی اداکار محمد علی بھی آ گئے۔ اہم ادبی موضوعات پر بڑے لوگوں کے مابین گفتگو شروع ہو گئی۔ اور بڑی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد علامہ طالب جوہری سید فخرالدین بلے صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور امیر خسرو کے بعد انہوں نے جو قول ترانہ تخلیق کیا ہے، اسے سننے کی فرمائش کردی۔ فضا من کنت مولا فھذا علی مولا کی صداؤں سے گونج اٹھی۔ علامہ طالب جوہری نے بڑے ذوق و شوق سے یہ سنا اور فرمایا کہ امیر خسرو کے سات سو سال بعد نیا قول ترانہ تخلیق کرنا بجائے خود اہمیت کا حامل ہے اور بلاشبہ سید فخرالدین بلے صاحب کا یہ قول ترانہ معرفت کا انمول خزانہ ہے۔ علامہ طالب جوہری نے احمد ندیم قاسمی اور محترم اختر حسین جعفری سے ان کے تازہ کلام کی فرمائش کردی۔ یہ کلام سن کر میرے والد محترم سید فخرالدین بلے نے اتنا کہا کہ آج کے عہد میں اختر حسین جعفری سے بڑا نظم کا کوئی شاعر ہوتو علامہ صاحب مجھے اس کا نام ضرور بتائیے گا۔
اداکار محمد علی نے انیس اور دبیر کا کلام اپنے مخصوص انداز میں سنا کر سماں باندھ دیا۔ علامہ طالب جوہری سے ان کا شعری کلام بھی سنا گیا۔ انہوں نے اپنی کئی نظمیں اور غزلیں سنا کر دامان سماعت کو علم و عرفان کے موتیوں سے بھر دیا۔ یہ بیٹھک کئی گھنٹے رہی اور اس کے نقوش اب بھی میری یادداشتوں میں محفوظ ہیں۔ ایک یہی نشست کیا؟ جہاں جہاں اور جب جب بھی میں نے علامہ طالب جوہری کو سنا، ان تمام یادوں اور باتوں کو شاید میں عمر بھر نہیں بھلا پاؤں گا
احمد ندیم قاسمی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اکثر لوگ مجھ سے میرے ، سید فخرالدین بلے صاحب اور اختر حسین جعفری صاحب کے حوالے سے کہتے ہیں کہ آپ تینوں ہم جسامت ہونے کے ساتھ ساتھ ہم مزاج بھی نظر آتے ہیں اور ہم لباس بھی آپ کس برانڈ کا ڈریس زیب تن کرتے ہیں۔ تو میں ان سے جو اباً کہتا ہوں کہ آپ نے بالکل درست تجزیہ فرمایا ہم تینوں کسی حد تک واقعی ہم جسامت بھی ہیں اور ہم مزاج بھی اور ہم لباس بھی کیونکہ ہم تینوں کا تعلق خاندان فقرا سے ہے۔ ہم تینوں فقیرانہ مزاج اور درویشانہ روش کو پسند کرتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم تینوں پر ایک دوسرے کی شخصیت کے گہرے اثرات ہیں البتہ یہ فیصلہ ہم نہیں کرپائے کہ ہم تینوں میں سے کس کی شخصیت کے زیادہ اثرات مرتب ہوئے۔ ہم تینوں کے درمیان اعتماد اور خلوص کا اٹوٹ رشتہ نصف صدی سے قائم ہے اور جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اور آخری بات یہ کہ یہ برانڈ وغیرہ کا معاملہ ہم جیسے وضعدار اور مشرقی اقدار و روایات کے پاس دار خاندانوں میں تاحال تو دیکھنے میں نہیں آیا۔
ممتاز شاعر اور قلمکار جناب رضا مہدی باقری نے اپنے ایک مضمون میں اختر حسین جعفری صاحب کا خاندانی پس منظر اور اہم کوائف کا ذکر ان الفاظ میں رقم فرمایا ہے بتیس کو برطانوی انڈیا کے ہوشیار پور کے ایک موضع میں سید محمد علی جعفری کے ہاں پیدا ہوئے جو ایک سرکاری افسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب مطالعہ سخی درد مند اور درویش صفت انسان تھے۔ جناب اختر حسین جعفری نے سرسولی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور غیرمعمولی ذہانت و فطانت کے سبب سرکاری وظیفہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ابھی پرائمری کے طالب علم تھے کہ ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا جس کے بعد وہ گجرات اپنے دادا شاہ محمد کے پاس آ گئے جو اپنے علاقے کی با اثر شخصیت تھے۔ اور ایک وسیع و عریض اراضی کے مختار عام تھے۔ کالج لائف سے ہی ترقی پسند حلقہ میں شامل ہو گئے۔ اسی وجہ سے ان کے کاج کے استاد جناب صفدر میر کو ملازمت اور انہیں کالج سے نکال دیا گیا۔ چونکہ قیام پاکستان کے بعد ان کے والد بھی گوجرانوالہ آ گئے تھے۔ لہذا وہ گوجرانوالہ کے کالج میں داخل ہوئے اور وہیں سے بی اے کیا۔ بعد ازاں کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہوئے اور ڈپٹی کلکٹر کے عہدے تک پہنچے۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ماہ قبل تین جون انیس سو بانوے کو اپنے دفتر میں حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث مالک حقیقی سے جا ملے۔
اختر حسین جعفری جدید شاعری کا بہت بڑا نام تسلیم کیا جاتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے مطابق وہ ایسے عظیم المرتبت شاعر تھے کہ وہ اپنے بے مثال کلام کی وجہ سے تاریخ ادب میں صدیوں گونجتے رہیں گے۔ انہیں انگریزی ادب سے خاص شغف تھا جس کے سبب ان کے کلام میں کیٹس براؤننگ شیلے اور شیکسپئیر وغیرہ کے فکری اثاثے جابجا نظر آتے ہیں۔ بلکہ بعض نقاد تو انہیں بیدل کی سطح کا بے بدل شاعر قرار دیتے ہیں جبکہ بیدل کے بارہ میں دبیر الملک حضرت اسداللہ خان غالب یہ کہنے پر مجبور تھے کہ
طرز بیدل میں ریختہ لکھنا
اسداللہ خاں قیامت ہے
اختر حسین جعفری نے نئی روایات کو جنم دیا شعر کی دنیا کو نئی کہکشاؤں اور نت نئے افق دکھائے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ سچائی اور محبت کا یہ خوبصورت شاعر کالج لائف سے آخری عمر تک طاغوتی طاقتوں سے برسر جنگ و جدل رہا ” ایک مرتبہ ہم جب احمد ندیم قاسمی صاحب کے بلوانے پر مجلس کے دفتر پہنچے تو قاسمی صاحب اختر حسین جعفری اور منصورہ احمد سے محو گفتگو تھے ہمیں دیکھتے ہی قاسمی صاحب نے جعفری صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ نے کھوج لگائی کہ یہ شعر کس کا ہے
ایسا ہونا بھی کار دارد ہے
جیسے اختر حسین جعفری ہیں
تو جعفری صاحب نے معصومیت سے فرمایا مجھ تک تو جب یہ شعر آپ کے توسط سے پہنچا تو شاعر کی کیا مجال جو وہ روپوش رہ سکے۔ یہ سن کر قاسمی صاحب نے یہی شعر دوبارہ پڑھا اور اس مرتبہ شاعر یعنی ہمارا نام بھی پڑھا کچھ اس طرح سے
ایسا ہونا بھی! کار دارد ہے
جیسے اختر حسین جعفری ہیں
(ظفر معین بلے جعفری)
اختر حسین جعفری ، سید فخرالدین بلے اور احمد ندیم قاسمی
ولادت:۔ 15۔ اگست 1932۔ ہوشیار پور وصال :۔ 3۔ جون 1992۔ لاہور
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری