آج – ۵ا ؍ اگست ۱۹۲۰
نظم نگار، افسانہ نگار، تنقید نگار، رسالہ " مشرق" کے مدیر اور اردو ادب کے استاد شاعر” اخترؔ انصاری اکبر آبادی صاحب“ کا یومِ ولادت…
اخترؔ انصاری کا نام محمد ایوّب انصاری تھا ، اخترؔ تخلص اختیار کیا ۔ ۵ا اگست ۱۹۲۰ کو آگرہ میں پیدا ہوئے ۔ تقسیم ملک کے بعد کراچی ہجرت کرگئے ۔ ادبی دنیا میں اخترؔ انصاری کی شناخت ان کی شاعری اور ادبی صحافت کے باب میں ان کی مسلسل کوششوں کے ذریعے قائم ہوئی ۔ کراچی ہجرت کر جانے کے بعد اخترؔ نے ماہنامہ ’’ نشیمن ‘‘ اور ’’ مشرق ‘‘ کی ادارت کی ۔ پھر حیدرآباد ( سندھ) میں اپنے قیام کے دوران مشہور ادبی رسالہ ’’ نئی قدریں ‘‘ نکالا ۔ اخترؔ انصاری کی شاعری اور نثر میں متعدد کتابیں شائع ہوئیں ۔
شعری مجموعے :
کیف و رنگ ، نالہ پابند نے ، جامِ نو ، دلِ رسوا ، لبِ گفتار ۔
نثری کتابیں :-
نظریات ، جمالِ آگہی ، اکبر اس دور میں ، فردوسِ مغلیہ ، نگارشات ، ادبی رابطے لسانی رشتے ، سبد چیں ، شاہ عبداللطیف : حیات اور شاعری ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر اخترؔ انصاری کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
لحاظ وضع داری میں کبھی ممکن نہ ہو شاید
تمہارا دو قدم آنا ہمارا دو قدم جانا
—
تیری خاک پہ روشن روشن اخترؔ جیسے ستارے تھے
تجھ سا اے مہران کی وادی کوئی بلند اقبال نہ تھا
—
ان کے لب پر ہے تبسم مری آنکھوں میں سرور
کیا دکھائی ہے دعاؤں نے اثر کی صورت
—
دور تک روشنی ہے غور سے دیکھ
موت بھی زندگی ہے غور سے دیکھ
—
زندگی ہوگی مری اے غم دوراں اک روز
میں سنواروں گا تری زلف پریشاں اک روز
—
گلوں کا ذکر بہاروں میں کر چکے اخترؔ
اب آؤ ہوش میں برق و شرر کی بات کرو
—
ہر لمحہ عطا کرتا ہے پیمانہ سا اک شخص
آنکھوں میں لیے بیٹھا ہے مے خانہ سا اک شخص
—
نظر سے صفحۂ عالم پہ خونیں داستاں لکھیے
قلم سے کیا حکایاتِ زمین و آسماں لکھیے
—
کاروانوں کے رہبر نے راہزن پھر بھی منزل پہ کچھ راہرو آ گئے
وہ نئے کاروانوں کے رہبر بنے جن سے ہے عظمتِ رہبراں آج تک
—
کوششِ پیہم کو سعیٔ رائیگاں کہتے رہو
ہم چلے اب تم ہماری داستاں کہتے رہو
—
کیفیت کیا تھی یہاں عالم غم سے پہلے
کون آیا تھا تری بزم میں ہم سے پہلے
—
موجِ تلاطم خیر ہیں ہم ساحل کے قریب آتے ہی نہیں
وقت کی رو میں بہہ جائیں ہم ایسے خس و خاشاک نہیں
—
طلب میں صدق ہے تو ایک دن منزل پہ پہنچو گے
قدم آگے بڑھاؤ خود کو اپنا رہنما سمجھو
—
یہ رنگ و کیف کہاں تھا شباب سے پہلے
نظر کچھ اور تھی موجِ شراب سے پہلے
—
یہ محبت کی جوانی کا سماں ہے کہ نہیں
اب مرے زیرِ قدم کاہکشاں ہے کہ نہیں
—
فسردہ ہو کے میخانے سے نکلے
یہاں بھی اپنے بیگانے سے نکلے
—
گلوں کا ذکر بہاروں میں کر چکے اخترؔ
اب آؤ ہوش میں برق و شرر کی بات کرو
اخترؔ انصاری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ