عام طور یہ دَعویٰ کیا جاتا ہے کہ اخلاقیات مذاہبِ عالَم کی دَین ہے. مگر ارتقائی سائنس / Evolutionary biology کی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ اخلاقیات کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ اخلاقیات کی بُنیاد حیاتیاتی / Biological ہے یعنی اخلاقیات کا منبع یا اس کی جَڑیں خود زندگی میں پَیوَست ہیں چاہے وہ زندگی کی کوئی بھی شکل و صورت ہو. یہ اخلاقی اقدار یا جذبات و احساسات جیسے ہمدردی، محبت، نفرت، خوف اوائلی یا نِچلے درجے کے جانداروں Primates میں بھی موجود ہیں جن سے انسان کی ارتقا ہُوئی ہے. بائیولاجیکل یا ارتقائی سائنسدان اخلاقیات کو نیچے دیے گئے تصورات، جو ٹھوس شواہد و ثبوتوں پر مَبنی ہیں، کے ذریعے سمجھاتے ہیں:
1. خونی رشتے یا Kin selection: اگر ہم Gene کی نظر سے دنیا کو دیکھیں تو زندگی کی جتنی اشکال ہیں وہ محض Gene کو پھیلانے اور نَسل آگے بَڑھانے گے سامان یا ذرائع ہیں. شروع شروع میں چھوٹے قبائل صرف ان افراد پہ مشتمل تھے جو قریبی رشتیدار یعنی Genetically related تھے جیسے ماں باپ ان کی اولاد، کَزنز وغیرہ. وہ مصیبت کا مقابلہ ساتھ مِل کر کرتے تھے اور ایک دوسرے کے لئے اپنی جانیں بھی خطرے میں ڈالتے تھے جیسا کہ اب بھی ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے / بیٹی وغیرہ کو بَچانے کے لئے اپنی جان بھی خطرے میں ڈالتا ہے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ دراصل ماں باپ میں بَسا Gene خود کو بَچانا چاہتا ہے جو اولاد میں مُنتقل ہُوا ہُوا ہے. اس phenomenon کو رچرڈ ڈاکنز Selfish gene کا نام دیتا ہے اور اِسی نام سے اُس کی کتاب بھی ہے. آج بھی ہمارے ہاں جو اخلاقیات مُروج ہے وہ اسی اصول پہ کام کرتی ہے کہ سب سے پہلے اپنے قریبی رشتیدار یا جن سے ہمارا خونی رشتہ ہے، باقی بعد میں. جانوروں سے لیکر انسانوں تک یہی اصول کارفرما ہے.
2. دوسرا تصور Reciprocal Altruism ہے جس کو سمجھنے کے لئے نہایت سادہ اور زبان زدِ عام مقولہ ہے کہ if you scratch my back