ممتاز دانشور ،ماہر لسانیات ،مایہ ناز استاد ، مترجم ،ماہر عمرانیات ،تاریخ ، نفسیات ، ہندی اور فلسفہ کے یگانہ روزگار فاضل اخلاق حیدرآبادی 11/ مئی 1958 کو ٹوبہ ٹیک سنگھ ضلع لائل پور (فیصل آباد) میں ڈاکٹر عبدالحمید خان کے گھر پیدا ہوئے ۔ان کا پورا نام محمد اخلاق خان ہے ۔۔ادبی دنیا میں اپنے قلمی نام اخلاق حیدرآبادی سے پہچان کرائی ۔۔اور حیدرآبادی تخلص ہی استعمال کرتے ہیں ۔۔ اخلاق حیدر آبادی کے آباؤ اجداد کا تعلق ہندوستان کے شہر ہوشیارپور سے ہے اور تقسیم ہند کے وقت ان کا خاندان شیخوپورہ آ کر آباد ہو گیا ۔۔ان کا خاندانی نسب شیروانی ہے ..جس کا سلسلہ شیروانی قبیلہ سے جا ملتا ہے ۔۔ان کے دادا امام الدین خان جو پیشے کے لحاظ سے زراعت سے منسلک تھے ۔.ان کے والد پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے جن کی پہلی ملازمت ریڈ کراس میں ہوئی ۔جس کے باعث شیخوپورہ سے پٹھان دی کوٹھی تحصیل ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ میں ان کے والد منتقل ہوگئے ۔موجودہ ننکانہ صاحب جو کہ اب ضلع کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ان کا خاندان یہاں آکر رہائش پذیر ہو گیا اور بعد ازاں ڈاکٹر عبدالحمید خان اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں فیصل آباد شہر میں منتقل ہوگئے ۔۔
اخلاق حیدرآبادی نے ابتدائی تعلیم پٹھان دی کوٹھی ضلع ننکانہ صاحب سے حاصل کی اور وہیں پٹھان دی کوٹھی کے پرائمری سکول سے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔۔اس کے بعد چونکہ ان کا خاندان فیصل آباد میں منتقل ہو گیا تھا ۔جہاں آ کر انھوں نے اپنی تعلیم جاری کی اور گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول سمن آباد سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔۔گورنمنٹ کالج لائلپور ( فیصل آباد)سےبتدریج 1973 میں انٹرمیڈیٹ اور 1975 میں گریجویشن تک تعلیم حاصل کی ۔۔۔1978 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے نفسیات کا امتحان پاس کیا ۔۔ہندی زبان میں باقاعدہ طور پر کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ پہلے پہل گھر میں اپنی دادی سے ہندی میں خط لکھنا سیکھا ۔۔پھر ان کو ملازمت کے سلسلے میں کویت جانا پڑ گیا ، وہاں رہتے ہوئے انہوں نے اپنی ذاتی دلچسپی کوشش اور محنت سے ہندی زبان کو خوب سیکھا ۔۔دوست احباب اور اہلخانہ اور بیرون ممالک کے سفر سے ہندی زبان میں مہارت حاصل ہوئی ۔۔مزید برآں اس سلسلے کو آگے بھی جاری و ساری رکھا ۔۔ انھوں نے اس علم کو محض ذاتی دلچسپی تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ بہت سے لوگ اس زبان و علم سے مستفید ہوئے اور باقاعدہ ہندی کی تعلیم دینے کا سلسلہ اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔
اخلاق حیدر آبادی نے رسمی تعلیم باقاعدہ طور پر اپنی والدہ محترمہ رحمت جان سے حاصل کی جو کہ ایک دیندار خاتون تھیں ۔اخلاق حیدر آبادی اور ان کے والد عبد الحمید خان نے اکٹھے ان سے تعلیم حاصل کی ۔۔اس کی بنیادی وجہ ہندوستان میں اسلام کی تعلیم کی طرف کم رجحان تھا جو کہ تقسیم ہند کے بعد پھر سے مذہب کی طرف رہنمائی کی ایک روشن مثال ہے ۔۔ان کی والدہ کی وجہ سے ان کے گھر کے افراد کا رجحان دین کی طرف زیادہ راغب رہا ،۔اخلاق اپنے بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہیں ۔۔ان کی بڑی بہن شمیم اختر جو کہ قرآن پاک کی حافظہ ہیں اور ان کا زیادہ وقت مدینہ منورہ میں گزرا کیونکہ ان کے خاوند حافظ شبیر احمد مدنی مدینہ منورہ کی مدینہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے اور وہیں درس و تدریس سے وابستہ رہے ۔اسی وجہ سے یہ بھی وہی قیام پذیر رہیں ۔ان کے منجھلے بھائی محمد شفیق خان ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہیں اور ساتھ زراعت کا پیشہ اپنائے ہوئے ہیں ۔۔ان کے سب سے چھوٹے بھائی محمد جاوید اقبال خان حافظ قرآن ہیں اور اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے والد کے پیشے ڈاکٹری کو اپنائے ہوئے ہیں اور اپنے آبائی گاؤں میں اپنا مطب چلا رہے ہیں۔
اخلاق حیدرآبادی کو شاعری کا شغف تو بچپن سے ہی تھا لیکن باقاعدہ طور پر شعر گوئی کی طرف میلان گورنمنٹ کالج فیصل آباد کی ادبی فضا میں پیدا ہوا اور پھر مشاعروں کی طرف رغبت بڑھنے لگی۔۔ادبی دوستوں اور معروف ادیبوں سے راہ و رسم پیدا ہوئی ۔۔جس نے اس ذوق کو مزید جلا بخشی ۔۔کیوں کہ شعر گوئی اور ادب کی طرف رجحان کی بنیادی وجہ ادبی سنگت ہی ہوتی ہے ۔۔۔انھوں نے ابتدا میں نثری نظم کی طرف توجہ دی کہ جس میں مدعا بیان کرنے میں دقت درپیش نہ ہو پھر آہستہ آہستہ دیگر اصناف سخن پر بھی توجہ مرکوز کی ۔۔ان کی سب سے پہلی نظم" زندگی" تھی جو کہ انھوں نے کالج کے ایک مشاعرے میں پڑھی تھی ۔۔اس وقت یہ گورنمنٹ کالج لائلپور میں سالہ دوم کے طالب علم تھے ۔۔اس مشاعرے میں ان کی اس نظم کو کافی سراہا گیا اور پھر مزید مشاعروں میں بھی اپنی حاضری کو یقینی بنانا شروع کر دیا جس سے ان کے فن کو مزید جلا ملی ۔۔
اخلاق حیدرآبادی نے بسلسلہ روزگار مختلف ممالک کے سفر کیے ۔جن میں کویت ، عراق ،سعودی عرب اور مصر شامل ہیں ۔۔انھوں نے وہاں نجار ،حداد اور معلم
ایلومونیم کے طور پر کام کیا ۔۔تقریبا عرصہ دس سال سے سلسلہ روزگار یہ ان ممالک میں مقیم رہے ۔۔وہاں رہتے ہوئے انہوں نے مختلف ممالک کی تہذیبی ،سماجی ،ثقافتی اور معاشی زندگی کا بھرپور مشاہدہ کیا جس سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔۔ مختلف ممالک کے تہذیبی و ثقافتی ورثے کے ساتھ ساتھ معاشی و سماجی حالات کا بھی بغور مشاہدہ کیا ۔۔
1985 کو پاکستان واپس آکر انھوں نے بنیان کی اپنی "مسلم ھوزری فیکٹری " قائم کر لی ۔۔اور ساتھ ہی درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو گئے ۔۔اگرچہ وہ درس و تدریس کو پیشہ کہنے کے سخت خلاف ہیں اور اسے نیکی اور صدقہ جاریہ سمجھ کے کرنے کے قائل ہیں اور اکثر اوقات اپنے شاگردوں کو اسی بات کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں ۔۔۔1989 میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں تدریس کا موقع میسر آیا۔جس میں ہندی اور گرمکھی کی اسٹاف کلاسز DRL( Department of Region Languages)
کے تحت پڑھائی ۔۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں DRL کے تحت اسٹاف کلاسز 1998 سے 2002 تک پڑھاتے رہے اور باقاعدہ طور پر پہلی کلاس 2001 میں پڑھائی ۔۔1982 میں انھوں نے ادبی ، علمی دستاویز پر مشتمل ایک پنجابی رسالہ "سنگت" کا اجرا کیا جن کے متعدد شمارے اب تک شائع ہو چکے ہیں ۔۔جن میں سے 18 شماروں کی ببلیوگرافی پنجاب یونیورسٹی لاہور کے تحقیقی مجلہ "کھوج "میں چھپ چکی ہے ۔۔جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں شعبہ اردو میں بطور وزٹنگ پروفیسر ایم – اے اور ایم فل میں گورمکھی اور ہندی کلاسز 2008 سے 2016 تک پڑھاتے رہے ،۔اور آج کل رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس میں بطور وزٹنگ پروفیسر کلاسز لے رہے ہیں۔۔۔
انسان کی شخصیت اس کے اعمال و افعال کی آئینہ دار ہوتی ہے جیسا کہ ایک مشہور انگریزی مقولہ ہے ۔
" Personality is a welcome guest"
اخلاق حیدرآبادی جو کہ پٹھان قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا پٹھانوں جیسا کھلتا ہوا چہرہ ،سرخ و سپید رنگت کی وجہ سے جاذب نظر شخصیت کے حامل ہیں ۔۔خوش اخلاق، خوش اخلاص، خوش شکل، خوش مزاج انسان ہیں ۔۔انتہائی سادہ مزاج اور شگفتہ طبیعت کے مالک ہونے کی وجہ سے شگفتگی اور مسکراہٹ ان کا خاصہ ہے ۔۔۔۔۔
اخلاق حیدرآبادی کے خاندان میں باقاعدہ طور پر کوئی لکھاری یا ادیب نہیں ملتا،جس کا قاعدہ طور پر مطبوعہ کلام موجود ہو لیکن ان کے نانا حکیم محمّد اسحاق جالندھری شعر وادب سے شغف رکھتے تھے۔۔اس طرح یہ کہنا بجا ہوگا کہ شعر و سخن کا شوق انہیں اپنے نانا ہی سے حاصل ہوا ۔۔ان کے شوق کا یہ عالم تھا کہ اپنے نانا کے کلام میں ہی ترمیم و اضافہ کرکے انہیں سنا دیتے تھے اور بعض اوقات تو وہ خوش ہو کر شاباش دے دیتے اور کبھی کبھار ڈانٹ بھی پڑ جاتی تھی ۔۔اس طرح شعر و ادب کا شوق انھیں بچپن ہی سے تھا ۔۔جس نے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے فن میں پختگی پیدا کر دی ۔۔اخلاق حیدرآبادی خوش پوش، خوش اخلاق اور خوش مزاج انسان ہیں اور دوسروں کو خوش رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں محنت اور جدوجہد کی ایک درخشندہ مثال ہیں ۔۔پروفیسر انوار الحق (ڈائریکٹر اکیڈمکس رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس )لکھتے ہیں۔
"باکردار اور متوازن مزاج شخصیت کے حامل اور اپنے نام کی طرح با اخلاق انسان ہیں "۔۔ اخلاق حیدرآبادی کے مطابق سماج سے تعلق کے بغیر زندگی مکمل نہیں ہوسکتی انسان معاشرتی حیوان ہے اور سماج زندگی کے ساتھ ایسے ہی لازم و ملزوم ہے جیسے سانس کا رشتہ زندگی کے ساتھ ہے ۔۔زیادہ روابط بڑھانے کے قائل نہیں ہیں۔ مخلص دوستی کے قائل ہیں ۔۔ان کا کہنا ہے کہ دوست تھوڑے ہوں اور اچھے ہوں ۔۔۔طوطا چشم دوستوں کی فوج ظفر موج سے چند مخلص اور بے لوث دوست کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہیں۔۔
اخلاق حیدرآبادی پاکستان رائٹرز گلڈ کے ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب کے ایگزیکٹو ممبر بھی ہیں۔۔اس کے علاوہ پاکستان رائٹرز گلڈ فیصل آباد کے سیکریٹری بھی ہیں جس کے تحت وہ مختلف مشاعرے اور تقریبات بھی منعقد کرواتے رہتے ہیں ۔۔
اخلاق حیدرآبادی کے شعری موضوعات انسانی زندگی کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔۔ ان کی شاعری میں کرپ ، درد مندی ، شہر ہوس ،فراق و ہجر اور زندگی سے بھر پور موضوعات ملتے ہیں ۔۔اس ترقی یافتہ دور میں لوگوں کے بدلتے ہوئے رویے کی عکاسی بھی ملتی ہے ۔۔ان کے اردو میں دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔۔جس میں پہلا شعری مجموعہ "ان کہی باتیں"1984 میں سنگت پبلی کیشنز فیصل آباد سے شائع ہوا اور دوسرا شعری مجموعہ " اکھ دے حاشیے"1988 میں شائع ہوا دو غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے یہ بھی سنگت پبلیکیشنز فیصل آباد کے زیر اہتمام اشاعت کے مراحل تک پہنچا ۔۔
" ان کہی باتیں "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخلاق حیدرآبادی کا پہلا شعری مجموعہ " ان کہی باتیں " میں 41 نظمیں ،11 قطعات اور 33 غزلیات شامل ہیں ۔۔۔اخلاق حیدر آبادی کے شعری مجموعہ" ان کہی باتیں" میں غزلوں کے موضوعات ہلکے پھلکے اور سماجی ہیں ۔معاشرتی سماجی اور عالمی مسائل کے موضوعات کو برتا گیا ہے جیسا کہ نادر جاجوی لکھتے ہیں ۔۔
"غزلیں جو اس مجموعہ میں شامل ہیں ہلکے پھلکے رخ کی غزلیں ہیں جس میں کوئی علامت نہیں ہے سیدھے سادھے مضامین کو معاشرتی ،سماجی اور عالمی مسائل کے ہجوم کا ترجمان ٹھہرایا گیا ہے "
جب کہ اخلاق کی نظموں میں جا بجا شہر ہوس کا ذکر ملتا ہے ۔معاشرتی قدروں کی پامالی کرب و درد کی ٹیس اور زندگی کے تلخ واقعات کا ذکر نمایاں ہے۔۔اس کی بنیادی وجہ بیرون ممالک روزگار کے سلسلے میں ان کا عرصہ دراز تک قیام ہے ۔۔جس میں انھوں نے زندگی کے واقعات اور تلخیوں کو قریب سے دیکھا اور محسوس کیا اور انھیں محسوسات کو اپنے شعری اسلوب میں ڈال لیا ۔رتجگوں کا منظر ، وفا کا دامن ، جاگتے خواب اور واپس آ جا ، جیسی نظمیں خوبصورت تراکیب اور موضوع کی عمدگی کی خوبصورت مثال ہے ۔۔
اسی سلسلے میں نادر جاجوی مزید لکھتے ہیں ۔
"اخلاق حیدرآبادی گزشتہ کئی برسوں سے شعر کے تخلیق عمل میں مصروف ہیں اور ان کا کلام اخبارات و رسائل میں چھپتا آ رہا ہے۔ان کا مطالعہ فطرت کافی گہرا ہے۔ وہ اپنے ماحول کی کمال آگاہی رکھتے ہیں ان کی وسعت نگاہ ہمیشہ ان کے احساس کو اجلے اجلے شعر عطا کرتی رہی ہے ۔۔وہ آزاد اور نثری نظموں میں کہیں کہیں تکنیک کے تجربے کرتے نظر آتے ہیں ۔غزل کا اآہنگ بھی کھٹکا ہوا محسوس ہوتا ہے اور یہ کیفیت روانی غزل سے بھی اپنی وابستگی منقطع نہیں کرتی"۔۔
شاعری شعور ذات ہے اور اس کے ساتھ متصادم ہونے والے لاتعداد عناصر جو ذہن کو دعوت اکتساب دیتے ہیں جس سے خوبصورت تصورات اشعار کی صورت میں جنم لیتے ہیں۔۔ اعلی درجہ کا فن کار اور شاعر اپنے وجدان سے کام لیتا ہے جو شاعری میں نئی روح پھونک دیتا ہے ۔۔
1984 کے بعد آنے والے ان ادباء اور شعراء میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے بہ یک وقت غزل ، نظم اور کہانی کے ساتھ ساتھ تحقیقی و تنقیدی مضامین بھی لکھے ۔۔
نادر جاجوی' اخلاق حیدر آبادی کی شاعری کے متعلق" ان کہی باتیں" کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ۔
" اخلاق حیدرآبادی 1977 سے شعر کے تخلیقی عمل میں مصروف ہیں اور ان کا مطالعہ فطرت کافی گہرا ہے۔۔ وہ اپنے ماحول کی کمال آگاہی رکھتے ہیں۔ ان کی وسعت نگاہ ہمیشہ ان کے احساس کو اجلے اجلے شعر عطا کرتی رہتی ہے۔وہ آزاد اور نثری نظموں میں کہیں کہیں تکنیک کے تجربے کرتے نظر آتے ہیں۔ غزل کا آہنگ کھٹکتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور یہ کیفیت روایتی غزل سے بھی اپنی وابستگی منقطع نہیں کرتی۔۔
اخلاق حیدر آبادی کی نظموں میں فنی و معنوی اور صوری خوبیوں کے ساتھ ساتھ خیال و فکر کی روایات بھی موجود ہیں۔ شاعر نے جو کچھ سوچا ہے ، اسے بیان کرنے میں وہ کامیاب رہا ہے اور کسی مقام پر ابہام نے اس کا راستہ نہیں روکا ۔۔۔۔۔۔" عرب ٹائمز کویت " میں اپنے ایک مضمون میں نادر جاجوی " اخلاق حیدر آبادی کی ان کہی باتیں " کے بارے میں لکھتے ہیں ۔۔۔
بغل میں کتاب رکھنے والے قلم کاروں کی صف میں ایک اور سنجیدہ قلمکار کے اضافے کی وجہ سے میں بہت مسرور و شاداں ہوں ۔۔۔اس لیے بھی ادبی برادری میں شامل ہوتے ہوئے بھی اسے کسی خاص وجہ سے تیاگ دینا اور پھر اپنے رشحاتِ قلم سے ہی اپنے وجود کا احساس دلانا یقینا قابل قدر امر ہے ۔۔اخلاق حیدرآبادی ہم میں سے نہیں' پر ہماری برادری میں آکر شامل ہوئے ہیں اس لئے جتنی بھی خوشی کا اظہار کیا جائے' کم ہے۔۔
اخلاق حیدرآبادی کی کتاب کا یہ نام "ان کہی باتیں" نثری ادب پاروں کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں غزلیں ، نظمیں شامل ہیں ۔۔اپنی نظموں میں جس فنی مہارت کو انہوں نے واضح کیا ہے اس سے صاف عیاں ہے کہ بین السطور کی نشاندہی میں ان کا لا شعور الفاظ کی انگلی تھامے ترقی کی شاہراہ کی نشاندہی کر رہا ہے۔۔
الفاظ نہ دیکھو معانی دیکھو
کٹ رہی ہیں راتیں کس اضطراب میں
بدن کے سراب میں کس کس عذاب میں
تیرا نام لکھا ہے
میرے دل کی کتاب میں
اپنی متاع حیات سے جب وہ درد کی زنبیل کھنگالتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے ۔۔
میرے خورشید
نہ کفن ہے نہ روتا ہے کوئی
ہر قدم پر وہی یاد کا طاق نسیاں
بہار وصل کا یہ ٹوٹا ہوا پتا
مثل صدا اڑتا ہے اور بہ زعم صد شوق
جسم کی دیوار سے لپٹتا ہے
اظہار کو خوبصورت بنانے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ الفاظ کو ایسی جگہوں پر جڑا جائے جو کہ ان کی اپنی پہچان ہوں ۔۔ اس طرح نہ صرف الفاظ خوبصورت بن کر اپنی چمک چھوڑ جاتے ہیں بلکہ سننے والا بھی اس کو صوتی اور معنوی دونوں لحاظ سے ہم آہنگ پا کر کہنے والے کو داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور وہی الفاظ ذہن سے چپک کر ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔۔کہے ہوئے الفاظ چاہے موتیوں کی طرح ایک لڑی میں پرو کر پابند کر دیے گئے ہو یا پھر اپنے ہی جذبوں کی طرح انہیں آزاد کر کے نثر کی صورت میں قرطاس کے سینے پر سجا دیا جائے ۔۔۔۔
جذبوں کا یہی اظہار' اخلاق حیدرآبادی کی کتاب "سائے کی دھوپ" میں کھلے موضوع کی طرح جابجا ملتا ہے ان کی شاعری میں چاشنی اور نغمگی کا احساس موجود ہے اور یہی بات طمانیت بخشتی ہے کہ انھیں بات کرنے کا ڈھنگ بھی آتا ہے وہ ہماری دنیا ہی میں رہتے ہیں اور وہ ہمارے درد پر بھی اسی طرح چیخ اٹھتے ہیں جیسے یہ ان کا اپنا درد ہو۔۔ انہیں جہاں بھی انسانی مسائل کی چبھن محسوس ہوئی ہے، انہوں نے اپنے اسلوب کا حصہ بنا دیا ۔۔
دانوں کا ربط رشتہ تسبیح سے رہا
اخلاق یوں حقوق محبّت ادا ہوۓ
اخلاق حیدرآبادی نوجوان نسل کا ایک ایسا شاعر ہے جس کے متعلق بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ انسانی جذبوں اور مثبت انسانی قدروں کی تعمیر میں بھرپور کام کرنے کا جذبہ رکھتا ہے وہ محبت بھی کرتا ہے تو اس کے لہجے میں یاس کی کسک باقی رہتی ہے
تہی جب اضطراب غم سے ہوں اخلاق سب لہجے
تو پھر یہ مختصر سی زندگی کیسے بسر ہو گی
وہ انسانی مسائل کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے تو احساس کی شدت تلخی اظہار کے روپ میں شعروں کا پیرہن لے کر قرطاس پر قطار اندر قطار اترتی چلی آتی ہے۔۔وہ چاہے غزل کی صورت میں ہو یا نظم کے پیرہن میں ہوں چند قطرے ، پروائی ،لوح عالم میں ہوں یا شہر ہوس کے روپ میں دکھ کرب اور احساس کی چبھن پڑھنے والا ہر جگہ محسوس کیے بنا نہیں رہ سکے گا ۔۔۔۔۔۔اخلاق حیدرآبادی کی "ان کہی باتیں" اور "سائے کی دھوپ" جدت طرازی اور نفاست کے حامل شعری مجموعے ہیں۔۔اس میں تیکھے لہجے کی گھمبیرتا اور توانائی بدرجہ اتم موجود ہے۔۔ اس میں فکری قوت اور پیرایہ اظہار کی جداگانہ حیثیت کی نشاندہی کرتا ہے۔۔ یہ شعری مجموعہ بصیرت افروز ہے ۔۔معاشرتی زندگی کے تضادات ،بے اعتدالیوں،طبقاتی کشمکش،استحصالی عناصر کی مناقشت پر مبنی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور قسمت سے محروم مظلوم انسانیت کی زندگی کے جُملہ نشیب و فراز پر کڑی نظر رکھنے والے، انسانی ہمدردی کے جذبات سے سرشار اس فطین ،فعال ،مستعد اور مخلص تخلیق کار کی علمی ،ادبی اورقومی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔اخلاق حیدر آبادی کی شاعری فکر و نظر کو مہمیز کر کے قلب ،روح اور وجدان پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے ۔۔ منفر د اسلوب کی مظہر اس شاعری کی اثر آفرینی کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے اور قاری اس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔جس انداز میں یہ شاعری جامد و ساکت پتھروں ،سنگلاخ چٹانوں اور بے حِس مجسموں پر اثر انداز ہوتی ہے اس سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ تخلیقِ فن کے لمحوں میں اس زیرک ،حساس اور دردِ دِل رکھنے والے تخلیق کار نے خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کی ہے ،وہ ثمر بار ہو رہی ہے۔اپنے شعری تجربوں کو رو بہ عمل لاتے ہوئے اخلاق حیدر آبادی نے زندگی کے نئے امکانات تک رسائی کی جو سعی کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائقِ تحسین ہے۔۔
" سائے کی دھوپ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخلاق حیدر آبادی کا دوسرا شعری مجموعہ "سائے کی دھوپ "2010 میں شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے زیر اہتمام منصہ شہود پر آیا ۔۔اس میں نعت کے بعد 69 غزلیات اور 15 آزاد نظمیں ہیں ۔۔۔ان کا دوسرا شعری مجموعہ "سائے کی دھوپ" پہلے مجموعہ کی نسبت عمیق معنی رکھتا ہے۔۔اس مجموعہ میں انھوں نے اپنی غزلوں میں محبت دوستی اور تعلق کے دکھ کو بیان کیا ہے ۔ان کی غزلوں میں داخلی کیفیات کی ترجمانی نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔۔ان کی غزلوں میں نسائیت نمایاں ہے ۔عورت سے منسلک حنا ، کاجل اور پائل کا ذکر ملتا ہے۔۔انھوں نے نازک احساسات اور جذبات کو الفاظ کے روپ میں عمدگی سے پیش کیا ہے۔۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ارشد کمال" سائے کی دھوپ" کے بارے میں لکھتے ہیں۔
" اخلاق حیدرآبادی محبت کا ایک معتبر حوالہ ہے ۔وہ محبت کرنا ہی نہیں جانتے بلکہ محبت کا بھرم رکھنے کے فن سے بھی بخوبی آگاہ ہیں ۔۔ان کی شخصیت اور شاعری میں محبت اور رفاقتوں کے معتبر موسموں کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے ۔ان کی شاعری محبت کے چراغوں سے روشنی کشید کر کے دل و نظر کے دیاروں کو منور کرتی چلی جاتی ہے ان کے نزدیک خیال کی آغوش سے شعر کا نکلنا ایک ایسا ہی تجربہ ہے جیسا کہ زمین کی کوکھ سے پھول کا پھوٹنا اور آتش فشاں پہاڑوں کے سینوں سے لاوے کا نکلنا ۔۔۔ان کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں چھوٹی چھوٹی رنجشوں، یاروں سے ملنا روٹھنا اور ماننا ، بچپن کے یادگار لمحوں اور نشاط و غم شگفتہ چہروں کے پیچھے چھپی ہوئی مایوسییوں ، بے نورکھڑکیوں کی طرف بڑھی ہوئی ضیاءوں ،خوبصورت اور لذت آفرین سپنوں کی عکاسی ملتی ہے ۔""
اخلاق حیدر آبادی کے شعری مجموعے" سائے کی دھوپ" کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اردو کے ساتھ ساتھ دیو ناگری میں بھی شائع ہوا ہے ۔۔
اس بارے میں ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں ۔
" اس مجموعے کی خصوصیت یہ ہے کہ اردو کے ساتھ دیوناگری میں بھی شائع ہوتا رہا ہے جو ان کے اس اختصاص کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہندی زبان کے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے استاد ہیں اور ان کی محنت اور محبت کی بدولت نوجوان طالب علموں میں ہندی زبان اور دیوناگری رسم الخط بہت مقبول ہوا ""۔
اس مجموعے میں پانچ آزاد نظمیں بھی شامل ہیں جو آزاد ہونے کے باوجود وزن ،معنی اور مفہوم رکھتی ہیں ۔۔ان کی شاعری میں معاشرے کا کردار نمایاں ہے ۔۔ان کی شاعری زندہ معاشرے کی عکاس ہے جیسا کے اخلاق حیدرآبادی اپنی شاعری کے متعلق خود لکھتے ہیں ۔۔
""میری شاعری میرے ذہن اور جذبات کی عکاسی کرتی ہے یہ میری آپ بیتی ہے اور جگ بیتی بھی اس میں در آئی ہے ۔۔میں ایک معاشرے میں زندہ ہوں اور معاشرہ خود بھی مجھ میں سانسیں لے رہا ہے میری شاعری میری زندگی کا منظر نامہ ہے اور میری شعری کائنات میری زندگی سے عبارت ہے ۔""
اخلاق حیدر آبادی کی زبان و بیان صاف و دلنشیں اور دلآویز ہے تخلیق میں لزت اور دل میں سوز و گداز کی نعمت بھی ہے ان کی شاعری قلبی احساس اور خیالات کی جدت و سلاست سے مالا مال ہے ۔۔یہ آزاد نظم میں بھی احد اور موسیقیت ہے ۔۔جس میں خوبصورت الفاظ و تشبیہات کی مدد سے مدعا کو بیان کیا گیا ہے ۔شاعری وہی کام رہے جس میں پڑھنے والے کو یوں معلوم ہو کے یہ اس کی ذات پر لکھا گیا ہے ۔۔
بقول سرور بجنوری کے ۔۔
"" جو شاعر اپنے دل کی واردات اور احساسات بیان کرتا ہے اور اپنے کلام میں اپنے ماحول کی عکاسی کرتا ہے وہ شاعری کے میدان میں کامیاب رہتا ہے اور اس کی بات سننے والے کو متاثر کرتی ہے۔یہ صفات و کمالات جناب اخلاق حیدر آبادی کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہیں اور ان کی ادبی خدمت اور ادب پروری کا بین ثبوت ہیں ۔""
ان کے اشعار میں محبت اور رسم دنیا کے ہشت پہلو اور جذبوں کے اکثر ملتے ہیں جو شاعری کی روایت کا حصہ ہے ان کی شاعری میں درد ،کرب ،ہجر و فراق ،سماج وغیرہ کا ذکر خصوصاً ملتا ہے ۔۔اپنے تیز مشاہدات اور حسیات کی بدولت ان موضوعات کو شاعری کے خوبصورت سانچے میں ڈھال دیا ہے ۔۔
اسی سلسلے میں ڈاکٹر انوار احمد اپنے دیباچے میں اخلاق حیدر آبادی کی شخصیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
""حالاں کہ اخلاق کے تخلص کے ساتھ غزل کہنا اور اچھی غزل کہنا بہت مشکل کام ہے مگر اخلاق حیدر آبادی کو بہت مشکل کام کرنے اور انہیں آسان کرنے کا شوق سا ہے۔۔زندگی انہوں نے اس طرح بسر کی کہ سائے نے بھی انہیں عزت عطا کی ۔مگر ان کی ریاضت اور تحمل نے ان کی شخصیت میں توازن اور کشش پیدا کردی ہے ۔""
اور اخلاق حیدر آبادی کا ہی اس ضمن میں ایک شعر ہے ۔
مجھے سائے کی کڑی دھوپ بھلی لگتی ہے
تو نہ ہو ساتھ تو یہ دھوپ جلاتی ہے بہت
افسانوی مجموعہ (ادھوری رات)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ادھوری تحریر" اخلاق حیدر آبادی کا افسانوی مجموعہ ہے۔جس کی اشاعت جنوری 2010 میں عابد پرنٹنگ پریس سمن آباد فیصل آباد کے تحت ہوئی ۔۔اس مجموعے میں اٹھارہ افسانے شامل ہیں اور ان افسانوں کے اور ان کی شخصیت کے بارے میں ان کے ہم عصر ادیبوں کے خیالات یوں ہیں ۔۔
ڈاکٹر انوار احمد "ادھوری تحریر " کے دیباچہ میں لکھتے ہیں ۔۔
""خانقاہوں کے للٹھوں کو دیکھ کر جس پاکیزگی اور معصومیت کا تاثر ابھرتا ہے وہ اخلاق حیدرآبادی کی شخصیت کی دلپذیری کا بنیادی سبب ہے ،وہ تخلیق کار ہے، ایک محنتی کارکن ہے، مخلص دوست ہے اور ایثار پیشہ استاد ہے ،۔۔اس گونجتے اور چند اڑتے ہجوم میں اس کا انتظار اور اخلاق سچ مچ دل موہ لیتا ہے ۔۔اخلاق حیدر آبادی کی معصومیت ،انسان دوستی اور بخیہ گری کا میں دل سے قائل ہوں ۔۔اس لیے انہیں بہت اچھے انسانوں میں شمار کرتا ہوں ،بلکہ وہ کسی خانقاہ کے کبوتر کی طرح پاکیزہ اور جان لیوا شکل کے روبرو خود سپردگی کے عالم میں دکھائی دیتے ہیں ،مگر ایسا معصوم اور اجلا رہنے پر مصر شخص افسانہ بھی لکھ سکتا ہے،چاہے اس نے پردیس کا کشٹ کاٹا ہو ،مختلف مزاج کے لوگ دیکھے ہیں اور اپنے تخیل کے روزن کو مشاہدہ خیال کیا ہو ،یہ میرے لئے کس قدر تعجب آمیز تھا ،جب تک میں نے ان کے یہ افسانے پڑھے اور ان میں سے زیادہ تر تخلیقات کے تجربے اور تاثیر نے اس کتاب کو غیر معمولی بنا دیا ہے ۔۔فیصل آباد میں کے عمل کے دوران ایک اور "ہوشیار پوری" کی خوبیاں دیکھ کرذات پات کے اعتبار سے میری وہابیت لرز اٹھی کہ آخر میرے دادا اپنے وطن پر کیوں گھمنڈ کرتے تھے ان کا ظاہر و باطن جتنا اجلا ہے اتنی ہی انہیں گردو پیش کے ساتھیوں، شاگردوں اور اولاد کی فکر رہتی ہے کہ وہ بھی تکبر ،حسد اور کینہ سے پاک ہوجائیں۔""
ہر افسانہ موضوع میں انفرادیت اور جامعیت و اختصار کی بنا پر معنوی گہرائی رکھتا ہے ۔اخلاق حیدرآبادی نے اپنے افسانوں میں قاری کو مرکزی حیثیت دی ہے اور اسی کو افسانے کا سب سے بڑا جزو خیال کیا ہے ۔کردار کی نفسیات اور ذہنی کشمکش اور تجسس بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔
اخلاق حیدرآبادی "ادھوری تحریر "کے اختتامیہ میں لکھتے ہیں ۔
""میں نے اپنے کرداروں کو اجنبی بن کر دور سے نہیں دیکھا ان کے غموں اور خوشیوں میں برابر کا شریک رہا ہوں میرے نزدیک اس انداز تخاطب سے تحریر میں تاثیر اور افادیت زیادہ پیدا ہوئی ہے ۔"""
ان کی ہر افسانے میں تکنیک کی تازگی اور جدت کا احساس نمایاں ہے ۔
اسی سلسلے میں ڈاکٹر انوار احمد ادوری تحریر کے دیباچہ میں لکھتے ہیں ۔
""جب تک میں نے ان کے یہ افسانے پڑھے اور ان میں سے زیادہ تر تخلیقات کے تجربے اور تاثیر نے اس کتاب کو غیر معمولی بنا دیا ہے۔"
انہوں نے اخلاق کے معیار و معاشرتی الجھنوں ،اقتصادی ناہمواری و نفسیاتی کیفیتوں اور تہذیبی اقدار کو بہت قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کو کہیں بھی اپنی خود احتسابی کی نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا اور یعنی جنس زندگی اور بے جا لذت اندوزی سے بڑی کاوش سے دامن کو بچایا ہے ۔۔یہاں تک کہ ترفیع جنس کے حربے کو بھی استعمال نہیں کیا گیا لیکن باوجود اس کے افسانے کی دلکشی میں ذرا فرق نہیں آیا ۔۔۔
اخلاق حیدرآبادی نے اپنے افسانوں میں اکیسویں صدی کے سیاسی، تہذیبی اور سماجی رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے لکھے ہیں۔ کیوں کہ اکیسویں صدی کا آغاز ہی دہشت ، بربریت اور جنگ و جدل سے ہوا ہے۔ تاہم اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاتا کہ افراد کی طرح ادوار یا زمانے بھی Isolationمیں ظہور نہیں کرتے اور نہ ہی ان میں رونما ہونے والی تبدیلیاں آناً فاناً یا شب آفریدہ ہوتی ہیں۔ افراد کے رویّوں کی طرح زمانے کا مزاج بھی مختلف عوامل کے زیرِ اثر تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ اخلاق حیدرآبادی نے ان تمام صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے افسانوں میں زندگی کی بھرپور عکاسی دکھائی ہے۔ ان کے افسانوی مجموعہ کا نام ’’ادھوری تحریر‘‘ ہے۔ان کے بیشترافسانوں کا موضوع ’’عورت‘‘ ہے۔ عورت اور اس سے جڑے معاشی مسائل اور ضروریات اس کی کمزوریاں اور ہمت بھی اُن کے افسانوں کا موضوع ہے۔
اخلاق حیدرآبادی نے اپنے افسانوں میں کرداروں کی نفسیات اور واقعات کے معاشرتی پس منظر کو ایک لمحے کے لیے نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ ایک پرمقصد سوچ کے ساتھ زندگی کو بامعنی بنانے اور اُسے سہل بنانے کی خواہش بھی رکھی۔ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے افسانوں میں معاشرتی اُلجھن، تضاد اور معاشرتی مسائل نمایاں ہیں۔ اُن کو زندگی کا افسانہ نگار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ان کے افسانے زندگی کے ترجمان ہیں ۔ ان تمام افسانوں میں معاشرتی مسائل اور معاشرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔
اخلاق حیدرآبادی نے اخلاق کے معیاروں ، معاشرتی اُلجھنوں ، اقتصادی ناہمواریوں، نفسیاتی کیفیتوں اور تہذیبی اقدار کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور اس نظریے کو کہیں بھی خود احتسابی کی نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ ان کے تمام افسانوں میں معاشرہ اپنے مختلف پس منظر کے ساتھ جلوہ افروزہے ۔ ان افسانوں میں’’ سوسائٹی گرل‘‘ اور’’ دس کا نوٹ‘‘ اپنے اسلوب اور ہیئت کے لحاظ سے ایک ہی پس منظر میں مختلف واقعات کی ترتیب کے ساتھ لکھے گئے افسانے ہیں بلکہ’’ سوسائٹی گرل‘‘ جو کہ ان کے افسانے کا نام ہے۔یہ تو نام ہی معاشرے کو ظاہر کرتا ہے اور معاشرے کی لذت پرستی کا شکار ایک لڑکی کو جو محض خاندان کی کفالت کے لیے اپنی زندگی اس گندے اور غلیظ پیشے کی نذر کر دیتی ہے جیسے کہ افسانے میں معاشرتی پس منظر کی عکاسی کی گئی ہے:
’’جس دفتر میں کام ہوں اس میں کرشن بھی کام کرتا ہے کیا وہ لوگوں کو بتائے گا نہیں، کہ ایک عزت دار کہلانے والے بہن بھائی کیسے ہیں۔‘"
درج ذیل لائنر میں معاشرہ اور معاشرتی مسائل نمایاں ہیں۔ ایک اور جگہ یوں لکھتے ہیں:
’’شاید اس دُنیا کی ریت ہے کہ اس دُنیا میں جو دوسروں کو زندگی دینے کا ادھیکار دیتے ہیں، لوگ اُن سے زندہ رہنے کا ادھیکار چھین لیتے ہیں۔‘‘
ایک قلم کار کا ذہن عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتا ہے ۔ وہ سماج میں پیش آنے والے واقعات کو اپنے قلم سے نہ صرف تاریخ کا حصہ بناتا ہے بلکہ اس کو نئے اسلوب میں پیش کر کے عام انسانوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اخلاق حیدرآبادی کا افسانہ ’’دس کا نوٹ‘‘ کا مرکزی خیال بھی سوسائٹی گرل سے ملتا جلتا ہے۔ بس نوعیت کا فرق ہے ۔ افسانے کا مرکزی موضوع زندگی کی بنیادی ضروریات کا حصول ہے ۔ جس میں انسان کی سب سے بڑی ضرورت پیٹ کے ایندھن کا بندوبست کرنا ہے ۔ انسان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن بھوک نہیں۔ بھوک ہی تو ہے جو انسان سے غلط صحیح ہر طرح کے کام کرواتی ہے۔اُسے اس ان دیکھی منزل کی طرف بھی چلنے پر مجبور کر دیتی ہے جہاں سے لوٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو ۔
اخلاق حیدرآبادی کے افسانوں کی یہی خاص خوبی ہے کہ انھوں نے عورت کے المیے کو اُبھارنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اردو افسانوں میں عورت کا کردار خصوصاً تقسیمِ ہند کے بعد خاص اہمیت کا حامل رہا ہے کیونکہ عورت ہر جگہ اور ہر دور میں مرد کی ہوس پرستی کا شکار ہوتی ہے۔اخلاق حیدرآبادی کا افسانہ ’’سوسائٹی گرل‘‘ اس کی زندہ مثال ہے۔ اُن کے افسانوں میں حقیقت کا رنگ نمایاں ہے۔ ان کے افسانوں میں اظہار، اسلوب، تکنیک کے تجربات نمایاں ہیں۔یہ افسانہ زندگی کی تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسی طوائف کی کہانی ہے جو ایک غریب مگر شریف گھرانے سے تھی لیکن غربت اور تنگ دستی نے اُسے یہ پیشہ اپنانے پر مجبور کر دیا اور اُس کا خاوند مجبوری اور بے بسی کی تصویر بنے گھرکی عزت نیلام ہوتے دیکھتا رہا۔ایک حساس اور باعزت دل رکھنے کے باوجود وہ کچھ نہیں کر پایا ۔ کیونکہ مزدوری اور محنت کرنے کے لیے بھی جسم و جان کا ہونا ضروری ہے جس کے باعث کوئی اُسے کام تک نہیں دیتا۔ وہ زندگی کے مفہوم کو سمجھتا ہے جیسے وہ خود کہتا ہے:
’’مگر موت اتنی سستی نہیں ہوتی‘‘
’’زندگی تو ہوتی ہے‘‘
’’میں زندگی کو موت میں بدل سکتا ہوں‘‘
’’تم زندگی کے معنی بھول گئے ہو یا سمجھ نہیں رہے‘‘
’’میں صرف رشتوں کے معنی سمجھتا ہوں‘‘
کہانی میں اخلاق حیدرآبادی کا اختصاص ، جزئیات نگاری اور کرداروں کے نویکلے پن کا بیان اکیسویں صدی کے تناظر میں کیا ہے۔ اس پر زبان و بیان کا کمال ایک رنگ جماتا ہے ۔ موضوعات کی وسعت کہانیوں کے پلاٹ سے پھیل کر بعض صورتوں میں عالمگیریت کو چھو لیتی ہے، کردار بعض ایسے تخلیق کیے ، جو سراسر حقیقی ہونے کے باوجود نہایت انوکھے ، دل چسپ اور یاد رہ جانے کے لائق ہیں اور بلاشبہ اردو ادب میں بھی یہ یادگار کرداروں کی صف میں جگہ پاتے ہیں۔زندگی کا تعلق معاشرے سے ہے اور معاشرتی بے حسی کی چکی میں پسنے والا یہ غریب شخص جب زندگی سے تنگ آ جاتا ہے ۔مایوسی اور بیزاری حاوی ہو جاتی ہے تو خودکو موت کے حوالے کر دیتا ہے لیکن مرنے سے زندگی کی تلخی ختم تو نہیں ہوتی، وہ تو اپنی جگہ موجود ہے ۔ نجانے کتنی جمیلہ غربت کی چکی میں پستے پستے خود کو فنا کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں۔ یہ صرف معاشرے کے صاحبِ اختیار لوگوں کی بے حسی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد غریب، ضرورت مند اور محتاجوں کا خیال رکھنے کے بجائے محض اپنی زندگی میں مصروف ہیں۔
افسانہ ’’ڈھلتا سایہ‘‘ اخلاق حیدرآبادی کے اسلوب کی ایک خاص بات ان کی اختصار پسندی ہے ۔ وہ نہ صرف اختصار پسند ہیں بلکہ وہ اپنے مختصر الفاظ میں اپنی بات کے ابلاغ پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوی موضوعات میں اکیسویں صدی کے معاشرے کا کردار نمایاں نظر آتا ہے ۔ ان افسانوں میں ناہموار معاشرے کے نظام اقدار کی تصویریں کھینچی ہوئی ہیں جو معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے مختلف طبقات کے افراد کی حرکات و سکنات کو بے نقاب کرتے ہیں۔
افسانے میں جنریشن گیپ کی خوب صورت اور سچی تصویر پیش کی گئی ہے۔ بزرگوں کے خیالات نئی نسل کے خیالات سے بہت مختلف ہیں۔ وہ اپنی روایات اور اقدار کو ہی بقا سمجھتے ہیں۔اکیسویں صدی میں یہاں انسان نے ترقی کے بہت سے مدارج طے کر لیے ہیں ۔وہاں روایات اور اقدار دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ اخلاق حیدرآبادی اپنی روایات اور اقدار کو ہی بقا سمجھتے ہیں۔ اس سے جُدا ہونا ہی ان کے فنا ہونے کا باعث بن جاتا ہے ۔ یہ ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ ہے جس سے اکیسویں صدی کا انسان دوچار ہے۔ نئے انسان کے لیے پرانے روایات سے سمجھوتا ممکن نہیں اور یہی رویہ روایات اور اقدار کے امین کو ابدی نیند سُلا دیتا ہے۔ اکیسویں صدی کا جدید انسان اپنے بزرگوں اور اُن کے اسلاف کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے ان کے جذبات کو مجروح کرتا چلا جاتا ہے اور نتیجتاً اُن سے چھٹکارہ پانے پر اطمینان محسوس کرتا ہے۔افسانے کی یہ سطریں اس معاشرتی مسئلے کی نمایاں عکاسی کرتی ہیں :
’’نئے پرانے کا جو جھگڑا صدیوں سے چلا آ رہا ہے اُسے کیسے سلجھایا جاسکتا ہے ، سوائے اس کے کہ ابا جی حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیں۔‘‘
یہ ایک متوسط طبقے کی کہانی ہے جب کہ امیر لوگ تو بزرگوں اور اُن کے خیالات کو برداشت کرنے کی نوبت نہیں نہیں آنے دیتے اور والدین کو اولڈ ہاؤس چھوڑ آتے ہیں۔ نئی اقدار نے بنی نوعِ انسان کو تہذیب تو سکھا دی لیکن احساسات و جذبات کا گلا گھونٹ دیا اور ہر وہ چیز جو نئے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال نہ سکے فنا ہو جاتی ہے۔
افسانہ ’’دو نمبر‘‘ اخلاق حیدرآبادی کے افسانوں کا واضح مقصد زندگی کی حقیقتوں کو تلاش کرنا ہے ۔ وہ زندگی کے حُسن اور اُس کے حسین پہلوؤں پر کم ہی نظر رکھتے ہیں۔ بلکہ اُن کی نظر تو حقائق کے حُسن پر رہتی ہے اور وہ زندگی کے ان پہلوؤں میں بھی حُسن دیکھتے ہیں جو بظاہر حسین نہیں ہوتے لیکن اپنے فن اور اسلوب کی بدولت اس کو حسین بنا دیتے ہیں ۔ اُن کے افسانوں کا نمایاں وصف فقروں کا برجستہ اور مختصر ہونا ہے۔ تمام کہانی کرداروں کے ذریعے آگے بڑھتی ہے ۔ افسانہ ’’دونمبر‘‘ ایک ایسے شخص کے گرد گھومتا ہے جو کہ معاشرتی طفیلیہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں مطلبی اور خود غرض لوگوں کی کمی نہیں ہے اور ایسے لوگ جو خود غرضی اور مطلب سے پاک ہیں اگرچہ تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہیں لیکن یہی معاشرے کا حُسن ہیں جو ایسے لوگوں سے دھوکہ کھانے کے باوجود اپنی نیک نیتی اور اچھائی نہیں چھوڑتے۔ ’’دونمبر‘‘ ایک ایسی کہانی کا موضوع ہے ۔افسانے کی درج ذیل سطور کہانی کے موضوع کو نہ صرف واضح کرتی ہیں بلکہ سماج میں ایک تاریک پہلو کی طرف اشارہ بھی کرتی ہے:
’’اس کی پے سلپ کی فکر چالیس ہزار سے زیادہ ہی تھی۔ مجھے اپنی دس ہزار کی سیلری یاد آ گئی ۔ ہماری سیلری میں ہی فرق نہیں تھا بلکہ نیتوں میں بھی فرق تھا ۔مجھے وہ پورا نیت کا ’’ولی‘‘ لگا تھا۔‘‘
اخلاق حیدرآبادی کو سماجی ادیب کہا جائے تو یقیناً بے جا نہ ہو گا کیونکہ ان کی تحریر سماج سے جڑی ہے۔ ایک حساس افسانہ نگار کا دل سب کے ساتھ دھڑکتا ہے اور دوسروں کے دکھ پر کڑھتا ہے ۔ ان کو عذاب میں مبتلا دیکھ کر کرب محسوس کرتا ہے۔ وہ سماجی ناانصافی کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ۔ اسی طرح ان کے افسانوں کے موضوعات بھی زندگی کے دوزخ کے بیان سے باہر نہیں بلکہ اندر سے ہیں۔ ان کے افسانوں میں داخلیت کا رجحان ہے اور ہر افسانہ میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے ذاتی طور پر اس کا ادراک کیا اور بہت قریب سے اسے محس