خوب صورت لب و لہجہے کے شاعر اخلاد الحسن اخلاد صاحب کا تعلق لازوال لوک داستان کی حامل ہیر رانجھا کی سرزمین ضلع جھنگ سے ہے ۔ ان کی الفاظ کے استعمال اور ادائیگی کا انداز روایتی شاعری سے بہت مختلف ہے ۔ اپنے منفرد خیالات کے باعث ان کا شمار عصر حاضر کے ایسے مقبول شعراء میں ہوتا ہے جن کا " راستہ کوئی اور ہے ۔" جس شاہراہ پر اکثر شعراء اور شاعرات گامزن ہیں یہ ان کی بھیڑ سے الگ اور منفرد نظر آتے ہیں ۔ ان کی شاعری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ہر ایک شعر نہ صرف اپنی طرف متوجہ کرتا ہے بلکہ متاثر بھی کرتا ہے اور آہ اور واہ واہ کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے ۔ اخلاد مزدور اور محروم طبقے کی بھی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں ۔ وہ خودی اور خودداری کا دامن کسی بھی صورت نہیں چھوڑتے ۔ اردو ہو یا پنجابی دونوں زبانوں میں کمال کی شاعری کرتے ہیں ۔ ان کے الفاظ کے استعمال کا انداز بھی منفرد اور جداگانہ ہے جن سے لوگ چونک پڑتے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کیا کوئی شاعر اس طرح سے بھی سوچتا ہے ۔ رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ان کی عقیدت کا اظہار یکسر مختلف اور بہت متاثر کن ہے جن کے متعلق ان کے کلام اور اشعار پڑھنے اور سننے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں ۔
اخلاد الحسن اخلاد صاحب یکم جنوری 1971 کو کوٹ ارائیاں تحصیل 18 ہزاری ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے 1973 کے سیلاب میں نقل مکانی کرکے محلہ چنداوالہ جھنگ سکونت اختیار کی اور ابتدائی تعلیم ایم سی پرائمری سکول برانچ 4 میٹرک گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول جھنگ اور ایف اے پرائیوٹ طور پر کی۔ بچپن سے ہی ادب اور کھیلوں سے بے حد لگاوْ تھا اپنے والد محترم صوفی نذر حسین جو کہ معروف نعت خوان تھے کے ساتھ محافل میں شرکت کرتے تھے جس سے ان کی ادبی ترجیحات کو جلا ملی کھیلوں میں بھی کرکٹ کے بہترین کھلاڑیوں میں شمار ہوتے ہیں اور ڈسٹرکٹ کرکٹ کے ایمپائر بھی ہیں ۔ نجی ملازمت ان کا ذریعہ معاش ہے شعر کہنے کی ترغیب اپنے ہم جماعت توقیر عباس تقی صاحب سے حاصل کی اور بعد میں اس وقت کے شعرا جناب رفعت سلطان ، مرزا معین تابش، شیر افضل جعفری ، فرحت عباس شاہ، ظفر سعید صاحب کو قریب سے سنا ۔ بچپن سے شعر گوئی کا شوق تھا لیکن 1999 میں والد صاحب کی وفات کے بعد یہ چنگاری فکر معاش اور مجبوریوں کی راکھ میں دب گئی اور 2015 میں ایک حادثہ نے ان کے اندر کے شاعر کو پھر سے جگا دیا اور شعر و ادب کے ساتھ رابطے پھر بحال ہوگئے ۔
پنجابی میں استاد محترم قاضی غلام عباس کے علاوہ جناب ناصر علی تائب، جعفر انجم جٹیانہ مرحوم ، مجاہد عباس خاور صاحب اور اردو میں محترم سر پارس مزاری صاحب آف بہاول پور اور محترم اقبال رمیض حیدری صاحب نے دست شفقت سے نوازا اور شعر وسخن کے رموز سے آشنا کیا یہ اساتذہ کی محنت اور محبت ہے کہ اب اخلادالحسن اخلاد کی صلاحیتیں نکھر کے سامنے آ رہی ہیں ۔ جو شخص ایک بار ان کی شاعری سنتا یا پڑھتا ہے تو وہ ان کو دوبارہ سننے اور ان کی شاعری پڑھنے کا خواہشمند ضرور ہوتا ہے ۔ ان کے اردو اور پنجابی کلام سے چند اشعار آپ کی خوب صورت سماعتوں کی نذر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت کا فیض ہے کردار سے خوشبو آئی
لفظ تو لفظ ہیں پندار سے خوشبو آئی
نام ِ احمد جو لیا آج سویرے میں نے
سارا دن پھر مری گفتار سے خوشبو آئی
زہرہ کا لال علی کا دلارا حسین ہے
رب کو نبی نبی کو بھی پیارا حسین ہے
اخلاد ڈھونڈوں کیسے میں قاتل امام کے
سب لوگ کہہ رہے ہیں ہمارا حسین ہے
دریا کی بے رخی سے کنارے پہ کود کے
اخلاد آج مچھلی نے کرلی ہے خود کشی
زندگی سے گلہ نہیں مجھکو
اب کسی سے گلہ نہیں مجھکو
خود بگاڑی ہے جب چراغوں سے
تیرگی سے گلہ نہیں مجھکو
کیوں مفت میں دستار کا اب بوجھ اٹھاوْں
حق بات پہ جب ساتھ مرا سر نہیں دیتا
کرلیتی ہے قبضہ میں جہاں جاوْں اداسی
اب کوئی کرائے پہ مجھے گھر نہیں دیتا
درد اتنا تو کٹانے سے نہ ہوگا شاید
جتنی تکلیف مجھے سر کو جھکا کر ہوگی
میری بینائی بھی جاتی ہے تو بے شک جائے
بات سورج سے مگر آنکھ ملا کر ہوگی
تصویر خستہ حال کا کچھ تو خیال کر
ایسے تو یار اسکو نہ دیوار سے لگا
انا کا نہیں ہے پاس تو سر سے اتار دے
کالک نہ شاہ کے جوتے کی دستار سے لگا
جان سے پیارا کچھ نہیں ہوتا
تم مگر جان سے بھی پیارے ہو
ہے زمانہ تو بے وفائی کا
عشق پھر کیا توکل پر
تذلیل کیوں جہاں میں وفاوْں کی ہم کریں
مجبوریاں ہیں اپنی محبت کا کیا قصور
اک پل میں کئے سارے ہی پیمان فراموش
جا تجھ سے خدا پوچھے گا احسان فراموش
غم کا پہلے علاج تھا ہنسنا
اب تو ہنسنے سے جان جاتی ہے
پہلی فرصت میں چلو چاند منا کے لائیں
اب چراغوں سے اندھیرا نہیں جانے والا
کاغذی ملتی ہے دستار ِ فضیلت ورنہ
یوم ِ مزدور پہ مزدور کو کیا ملتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد رکھ شمس کی فطرت میں تغیر ہے
موم کا جسم لئے دھوپ میں بیٹھا نہ کرو
روز جناون پیڑاں اکھاں
ہن نہ سہن جھپیڑاں اکھاں
پپنڑی وی نہ ولی ہووے
جنیاں یار نپیڑاں اکھاں
داروں کی اس دکھ دا کریئے
سینے دی کی دھکھ دا کریئے
زہر وی ہن نہیں مفتی لبھدی
دسوں ہن کی بکھ دا کریئے
مینوں تے جگ راتے کھا گئے
موسم گونگے باتے کھا گئے
کھاتے دار منافعے میرے
کھاتے پاکے کھاتے کھا گئے
دھپ جے ساڑے چھاں نوں دسنا پیندا نہیں
دل دا روگ زباں نوں دسنا پیندا نہیں
خبر اخلاد ہو جاندی اہنوں آپے ای
اندر دا دکھ ماں نوں دسنا پیندا نہیں
بھلا ویلہ گول کے کی کرنائیں
رس کن وچ گھول کے کی کرنائیں
جد ماں نوں میں کجھ جاندا نہیں
ماں بولی بول کے کی کرنائیں
جہڑے فن وچ مخلص ہوندے ہن فنکار امر ہو ویندن
جہڑے رعیت نوں آپ تو ودھ جانن سردار امر ہو ویندن
تے ہووے مت دی گل بے شعراں وچ اشعار امر ہوویندن
بھاویں فرضی ہوندے فلماں وچ کردار امر ہو ویندن
میرا دعوی سچا ہووے تے او پیار کدی وی مردا نئیں
چنگیائی فن تے بندے دا کردار کدی وی مردا نئیں
اخلاد جو دل وچ وسدا اے او یار کدی وی مردا نئیں
بس پردہ کردائے دنیا توں فنکار کدی وی مردا نئیں
اخلاد الحسن اخلاد