جہاز کی حالت یہ تھی کہ پُرسکون سمندر میں بھی ہچکولے کھا رہا تھا۔ خرابی تھی اور ایسی کہ جہاز کو کھائے جا رہی تھی۔ آہستہ آہستہ پانی اندر آنے لگا تھا‘ جیسے رِس رہا ہو۔ نکال دیا جاتا تو چند روز میں پھر وہی حالت ہو جاتی۔ ایسے میں فرسٹ کلاس کے مسافر خوابگاہوں (کیبنوں) کی تقسیم پر جھگڑ رہے تھے۔ تب کپتان نے انہیں شرم دلائی کہ اللہ کے بندو! جہاز کی خیر مانگو! خوابگاہوں کی عیاشیاں تو جہاز ہی کے ساتھ ہیں۔
ٹھیک یہی پوزیشن اس وقت پاکستان کی ہے۔ جو صوبہ رقبے میں سب سے بڑا ہے‘ اُس کی حالت یہ ہے کہ زلزلہ زدگان کی مدد کرنے والوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں پر ریاست کی عملداری کا دعویٰ کرنے والے خود ہی خاموش ہو گئے ہیں۔ وفاقی حکومت ایک صوبے کی نمائندہ ہو کر رہ گئی ہے۔ جیسے‘ میرے منہ میں خاک‘ وہ خود ہی عملی اعلان کر رہے ہوں کہ بھائی‘ اب پاکستان یہی صوبہ ہے‘ باقی کو بھول جائو۔ کراچی روانڈا بن کر رہ گیا ہے اور یوں لگتا ہے فریڈرک فورسائیتھ (Frederick Forsyth) کے شہرہ آفاق ناول Dogs of war کی فلم چل رہی ہے۔ ایسے میں نیب اور اس کے نو منتخب چیئرمین پر تبصرے!! تعجب ہوتا ہے کہ دانشور اور صحافی امڈتی گھٹائوں کو نہیں دیکھتے اور ڈول ڈول پانی نکالنے والے رہٹ پر توجہ دے رہے ہیں۔ چیئرمین فرشتہ بھی ہوا‘ جِن بھی ہوا تو کیا کر لے گا؟ کیا زرداری صاحب اور سلمان فاروقی جیسے لوگ واپس آ جائیں گے؟ میجر قمر الزمان چودھری کو یہ کالم نگار بھی ایک عشرے سے جانتا ہے لیکن تبصروں‘ اندازوں اور تخمینوں کا یہ وقت نہیں۔ اس پہلو سے لکھا تو معاصرت پر محمول کیا جائے گا اور اس پہلو سے کچھ کہا تو روغنِ قاز ملنے کا الزام لگے گا۔ نہیں! یہ وقت نہیں! وقت اُڑتا ہے‘ پھر ٹھہر جاتا ہے۔ ابھی تو اُڑا جا رہا ہے! اسے ٹھہرنے دیجیے! ؎
دربارِ وطن میں جب اک دن‘ سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے‘ کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
نیب؟ نہیں! ملک کی بات کرو ؎
پاپوش کی کیا فکر ہے‘ دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج‘ گزر جائے گی سر سے
جناب پرویز رشید کی قربانیاں بے پناہ ہوں گی لیکن اُن کے بیانات سُن کر اور پڑھ کر یہ حقیقت سر چڑھ کر بولتی ہے کہ قربانیوں کا صلہ منصب کی صورت میں عطا کیا جائے تو منصب پر کیا گزرتی ہے! منصب کے لیے اہلیت جانچنے کا یہ کون سا طریقہ ہے کہ فلاں کی وفاداریاں اور قربانیاں بے پناہ ہیں! یہی کچھ تو زرداری صاحب کرتے رہے‘ جیل کے ہمراہیوں کو سب کچھ سونپ دیا۔ ڈاکٹروں کو پٹرولیم کے قلم دان عنایت کر دیے۔ اس سے ہزار گنا زیادہ عقل مند تو ہمایوں تھا‘ جس نے نظام سقہ کو صاف صاف کہا ہوگا کہ قربانی تمہاری بے مثال! جان تم نے میری بچائی‘ لیکن ایک دن سے زیادہ اختیار نہیں دوں گا کیونکہ تم Statesman نہیں! جہاں بانی تمہارا کام نہیں! تم سقّے ہو‘ سقّے ہی رہو گے! بجلی کے بڑھے ہوئے نرخ قوم کے لیے عفریت بن گئے۔ اس عفریت کا پرویز رشید دفاع کر رہے تھے تو ان پر رحم آ رہا تھا اور ہنسی بھی! ہو سکتا ہے‘ دل زبان کا ساتھ نہ دے رہا ہو لیکن طالبان کے حوالے سے تازہ ترین دانش پارہ جو انہوں نے ہوا میں چھوڑا ہے‘ اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ رہا ہے: ’’آج یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آئین کو نہ ماننے والوں سے گفتگو کرنی چاہیے یا نہیں‘ تو جن لوگوں نے چار بار آئین توڑا‘ اُن سے کیا سلوک ہونا چاہیے‘‘۔ اسے کہتے ہیں ایک ہی جست میں مدار سے باہر نکل جانا!! جن لوگوں نے چار بار کیا‘ بار بار آئین کو توڑا‘ وہ آپ ہی کے تو لوگ تھے! جس آمر نے فخر سے کہا تھا کہ ’’آئین کیا ہے؟ دس بارہ صفحات کا پمفلٹ! میں اسے پھاڑ کر پرے پھینک سکتا ہوں‘‘ وہی تو تھا جس نے خواہش کی تھی کہ اس کی زندگی میاں نوازشریف کو لگ جائے۔ قوم آج تک یہ سننے کی منتظر ہے کہ پرویز مشرف کو نیچے سے‘ بہت نیچے سے‘ اوپر لا کر عالمِ اسلام کی سب سے بڑی فوج کا سالار بنانے کا معیار کیا تھا۔ جن شرفا نے اس ناانصافی سے منع کیا تھا ان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی تھے!
بہت معذرت! کہ جو بیانات مرفوع القلم ہوں‘ اُن پر اتنا کچھ کہہ دینا کارِ لاحاصل ہے! پاکستان ایک گروہ کا تو نہیں کہ ہم اس گروہ کے زعما کے بیانات کو لے کر بیٹھ جائیں۔ پاکستان ان کے ادراک اور وژن سے بہت بڑھ کر ہے اور بہت کچھ ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ اس ملک میں اے کے بروہی جیسے لوگ موجود تھے۔ روایت ہے کہ آئین کی تنسیخ پر اُس نے کہا تھا کہ میں ایک بیوہ کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رویا اور ایک وقت یہ ہے کہ آئین کو نہ ماننے والوں کا دفاع کیا جا رہا ہے!
لیکن کیا طالبان آسمان سے اُترے ہیں؟ جو باتیں وہ کر رہے ہیں کیا اُن کے اپنے دماغوں کی پیداوار ہیں؟ یہ ہے وہ سوال جو جواب مانگتا ہے اور اس جواب کا ادراک حکمرانوں کے بس میں نہیں! پیپلز پارٹی ہو یا نون لیگ‘ تاریخ کا فلسفہ اور حالات جس نہج پر ہیں‘ اُس کے اسباب کا تعین ان کے بس کی بات نہیں! محلات خریدنا‘ کارخانے لگانا‘ پہاڑوں میں سرنگیں بنا کر زمین کی قیمتیں بڑھانا… جن کے یہ کام ہوں‘ وہ اسباب کا تعین نہیں کر سکتے۔ لیڈر کی ذہنی ساخت ہی دوسری قبیل کی ہوتی ہے۔ ابراہام لنکن‘ اس سے بھی پہلے جارج واشنگٹن‘ چرچل‘ ڈیگال‘ اتاترک‘ قائداعظم… کیا انہوں نے اختیارات اولاد کو سونپ دیے تھے؟ کیا وہ ہر کام کو بزنس کے نقطۂ نظر سے دیکھتے تھے؟ کیا ان لیڈروں نے اقتدار کو اپنی دولت دو چند‘ سہ چند کرنے کے لیے استعمال کیا تھا؟ آخر سلطان ٹیپو اور نظام حیدرآباد میں کیا فرق تھا؟ یہی کہ ایک لیڈر تھا‘ دوسرا حکمران۔ جب ٹیپو آزادی کی آخری جنگ لڑ رہا تھا‘ نظام دکن‘ ٹیپو پر حملہ کرنے والی انگریزی فوج کے لیے کمک روانہ کر رہا تھا (ولیم ڈال رِمپل وائٹ مغلز (White Mughals) میں لکھتا ہے کہ نظام نے جو فوجی لشکر انگریزوں کی کمک کے لیے بھیجا تھا اس کی قیادت کرنے والا کمانڈر ایرانی تھا!) ٹیپو چاہتا تو وہ بھی اقتدار کو آنے والی نسلوں کے لیے وراثت بنانے کی خاطر انگریزوں کے سایۂ عاطفت میں آ جاتا!
اسباب کا تعین ان سے نہیں ہوگا! بخدا نہیں ہوگا۔ 66 سال کیا ہوتا رہا؟ اس کا تجزیہ یہ نہیں کر سکتے۔ ان میں کوئی رجلِ رشید نہیں! اگر غلطی سے سرتاج عزیز جیسا دماغ جتھے میں شامل ہو بھی جائے تو اسے اپنی اوقات میں رکھنے کا ہنر یہ خوب جانتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ جو باتیں طالبان کر رہے ہیں‘ کیا ان کے اپنے دماغوں کی پیداوار ہیں؟ یا انہوں نے کہیں سے اخذ کی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کہاں سے اخذ کی ہیں؟ یہ آئین کی تنقیص… یہ جمہوریت کی تکفیر… آخر منبع کہاں ہے؟ آخر سرچشمہ کہاں ہے؟ اس کا جواب ہم اگلی نشست میں دینے کی کوشش کریں گے۔
پس نوشت: روزنامہ دنیا کی خبر کے مطابق صدر مملکت ممنون حسین 34 رکنی وفد کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کرنے پی آئی اے کی وی وی آئی پی پرواز سے حجاز مقدس چلے گئے۔ وفد میں ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ‘ بیٹے عدنان‘ ان کی اہلیہ عظمیٰ‘ پوتے ریان‘ ماسٹر حسن‘ پوتیاں ہدیٰ‘ عائشہ‘ دوسرے بیٹے ارسلان‘ ان کی اہلیہ حنا ارسلان‘ پوتے شہریار‘ پوتیاں صبا‘ نیہا‘ صدر کی ہمشیرہ زبیدہ خاتون‘ سالی مسز شاہد لئیق الدین‘ اُن کے شوہر شیخ محمد شاہد‘ صدر ممنون حسین کے خاندانی دوست ظفر ٹپال‘ صابرہ ٹپال‘ طاہر خالق‘ فوزیہ طاہر‘ خواجہ قطب الدین‘ فضیلہ فاطمہ بھی اس قافلے میں صدر کے ہمراہ روانہ ہوئے۔
خبر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صدر کا یہ انتہائی نجی قافلہ سرکاری خرچ پر گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حسنِ ظن سے کام لینا چاہیے۔ آخر صدر ممنون حسین جانتے ہی ہوں گے کہ حج کی فرضیت کا تعلق فرد کی مالی استطاعت سے ہے اور ٹیکس دہندگان کی خون پسینے کی کمائی سے حج کرنا جائز نہیں۔ ہم صدر کی خدمت میں عرض گزاری کرتے ہیں کہ وہ ایوانِ صدر کے ترجمان کو اس سلسلے میں وضاحت کرنے کا حکم دیں۔
http://columns.izharulhaq.net/2013_10_01_archive.html
“