کمرے میں سگریٹ کے دھوئیں کے بادل سے اڑ رہے تھے… سارے میں رنگوں اور سگریٹوں کی بو پھیلی تھی… داہنی دیوار پہ لگے ہیٹر کی مہربانی سے درجہ حرارت مناسب تھا.. کھڑکی پہ ہوا کے زور سے برف کے تھپیڑے پڑ رہے تھے…. گلی میں لگا لیمپ جیسے کمرے میں ہی جھانک رہا تھا… کمرہ کیا تھا، کسی گناہ گار کی اجڑی قبر لگ رہا تھا… ایک کونے میں کچھ کتابیں اپنی بوسیدگی پہ ماتم کناں تھیں… رنگوں سے بھرے پرانے برش جا بجا اپنا خون تھوک چکے تھے، لکڑی کا فرش جیسے زخموں سے بھرا پڑا ہو… کچھ پرانے پیلے کاغذوں پہ برہنہ تصویریں کسی شوقین کی قبر کا کتبہ معلوم پڑتی تھیں..
سفید بالوں میں کہیں کہیں کالے بال بھی جھلک رہے تھے، وہ داہنے ہاتھ سے سر کھجاتا، باہنے ہاتھ میں پکڑے گلاس سے دو گھونٹ پینے کے بعد کبھی کینوس اور پھر چھت کو گھورنے لگتا…. کھانسی اس کے گلے کی مقیم تھی، ہر چند سانسوں کے بعد کھڑکی کھولتی، محلے والوں کو صلواتیں سناتی اور زور سے کھڑکی بند کر دیتی…
کینوس پہ کچھ رنگ الجھے ہوئے تھے… وہ مصوری میں شاہکار تخلیق کرنے کی خواہش میں ساری زندگی گزار چکا تھا… اب کے گلے کی کھڑکی کھلی تو کھانسی نے آنتیں گلے تک کھینچ لیں… ہاتھ سے گلاس گرا اور بچے ہوئے دو گھونٹ بھی فرش کا نصیب ہوئے… وہ دیوار سے ٹیک لگا کے فرش پہ بیٹھ رہا… سانسیں بھاری ہو رہی تھیں… وہ آنکھوں تک آئے بال جھٹک کے بہتی آنکھوں کو میچ کے بیٹھ رہا… سب یادوں کے صندوق الٹ گئے…
ہوش سنبھالنے کی پہلی یاد کہ اس نے ماں کو ننگا دیکھا تھا جب وہ ابا کے کمرے سے نکل کے باتھ روم کے آئینے کے سامنے الجھے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی… وہ یاد اس کے ہاتھوں سے نکلتے رنگوں کی بنیاد تھی…
اس کے بوڑھے ماتھے پہ پسینہ تیر رہا تھا، دل کہیں گہرے سمندر میں ڈوب رہا تھا…
نئی نئی جوانی کے تمام تجربات سامنے ناچنے لگے،جب جسموں میں ہوتی تبدیلیاں، سوچنے سمجھنے کی راہیں بدلنے لگی تھیں.. جب ہر خوبصورت شہر فتح کرنے کی ناآسودہ خواہشات آنکھوں سے نیندیں لے گئی تھیں اور بجھتے چراغ کے کالے دھواں جیسے حلقے آنکھوں کے گرد پھیلنے لگے تھے…
ناآسودہ اور نامکمل خواہشات عمر کا آدھا حصہ ڈکار چکیں تو ایک شام ساحل سمندر پہ، ڈوبتے سورج کی خودکشی نے روٹھے ہوئے رنگوں سے، پھر سے متعارف کروا دیا.. بچپن کی پہلی یاد سے زندگی کے تمام کالے سرخ تجربے کینوس پہ رنگ برسانے لگے…. انھیں رنگوں میں بھیگتے بھیگتے کب بال اپنا رنگ بھول گئے، یاد نہیں…
کھانسی گلا چھیل رہی تھی، گلے میں خون کا ذائقہ گھل رہا تھا… زور زور سے چھاتی پیٹتے وہ دوہرا ہو گیا… اس نے پیروں میں پڑے رنگ پکڑے اور کینوس پہ دے مارے… رنگ کینوس پہ اچھلے اور کھانسی کے ساتھ اس کے گلے سے خون کا فوارہ سا نکلا… اس کا سر فرش پہ ڈھلک گیا، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں سامنے باتھ روم کے کھلے دروازے سے آئینہ دکھائی دے رہا تھا….
"پانچ ملین ایک….. پانچ ملین دو…… پانچ ملین تین" ڈائس پہ کھڑا شخص مائیک پہ چیخ رہا تھا….
"تو صاحبان ،آج شام مصوری میں نئی جہت کے بانی، رنگوں کے خدا جناب الپ ارسلان کا آخری شاہکار، ملک کے مشہور بزنس ٹائیکون، رئیل اسٹیٹ کے بادشاہ امن اخلاق کے نام ہو گیا"…
ہال میں تالیاں گونجیں تو اگلی کرسیوں سے امن اخلاق ساتھ بیٹھے بیٹے کا ہاتھ تھام کے کھڑے ہوئے اور پلٹ کے فاتحانہ مسکراہٹ ہال میں اچھال دی.. بیٹے کا ہاتھ پکڑے اور ایک ہاتھ میں عصا پکڑے وہ سٹیج کی طرف بڑھے…آنکھوں پہ لگی کالی عینک کے پیچھے بھی کالا گھپ اندھیرا تھا….