اس روز زمین لرزی تھی۔ ویسے جیسے پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ پہلے سمندر کا پانی اتنا نیچے چلا گیا تھا کہ حد نظر سے غائب ہو گیا تھا۔ پھر واپس پلٹا تھا۔ اس شدت سے کہ ہر طرف جھاگ ہی جھاگ تھی اور تباہی۔ لوگوں نے سب سے اونچی جگہ پر پناہ لی تھی۔ یہ جگہ سیرو لا موسا کی پہاڑی تھی۔ لیکن وہ سیلاب اور وہ پانی تھا کہ بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ دہشت زدہ لوگوں نے اپنے پیشوا، اپنے شمن، اپنے ساحر کی طرف دیکھا تھا۔ کچھ کرو، ہم مرنے والے ہیں۔ اس شمن نے بغیر ہچکچاہٹ کے ایک بچے کو پکڑ لیا۔ یہ اپنی پرانی روایات جانتا تھا۔ یہ بچہ ‘خاص’ تھا۔ یہ ان سب کو بچا سکتا تھا۔ سب کے سامنے اس کے بازو کاٹے گئے، پھر ٹانگیں، پھر چیختے بچے کے جسم کا ایک ایک حصہ۔ کچھ پڑھتا اور پانی میں پھینک دیتا۔ بڑھتا پانی رک گیا۔ سب بچ گئے تھے، سوائے ایک کے۔ یہ ۲۲ مئی ۱۹۶۰ کا دن تھا۔ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ جو ولڈیوین میں آیا۔ ساڑھے نو کے سکیل کا۔ پاکستان میں۲۰۰۵ میں آنے والے زلزلے سے اسی گنا زیادہ اور یہ تاریخ کی آخری انسانی قربانی تھی جو جنوبی چلی میں دی گئی۔
پچیس میٹر اونچی سونامی کی لہروں نے ہزاروں کلومیٹر تک تباہی مچائی اور ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں پر مقامی لوگوں نے یورپی قبضہ آوروں کیخلاف کامیاب بغاوت کی تھی۔ یہ آراکانیا کا علاقہ تھا اور یہاں پر رہنے والے ماپوچے تھے۔ ہسپانوی حملہ آور ان کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ چلی کا ملک بننے کے بعد یہ علاقہ اس کے پاس آیا تھا لیکن یہ دو تہذیبیں فاصلے پر رہی تھیں۔ ماپوچے آج بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ اپنی پرانی تاریخ میں انسانی خون بہانا ان کی روایت رہی تھی۔ یہ قدرتی آفات کی زمین تھی۔ آتش فشاں، زلزلے، سیلاب کی زمین۔ ان کی روایات میں زمین کو پرسکون رکھنے کے لئے اس کو خون چاہئے تھا۔ اس ہر وقت کے خوف کو قابو رکھنے کے لئے۔ آج کے آراکانیا میں بھی جھاڑ پھونک سے علاج کرنے والے مل جائیں گے، بھوت پریت کی شکایتیں بھی، جادو ٹونوں کے فسانے بھی۔ پرانے قصے نہیں مرتے۔
جب یہ زلزلہ آیا، اس وقت چلی کی ریاست کا یہاں پر کچھ خاص عمل دخل نہیں تھا۔ روایتی تہذیب و تمدن چلتا چلا آ رہا تھا۔ کبھی کوئی ماپوچے نوجوان سینٹیاگو کام کرنے چلا جاتا یا کبھی کوئی چلی کا عہدیدار یہاں نظر آ جاتا اور بس۔ جب زلزلہ آیا، ماپوچے کو علم تھا کہ کوئی ان کو بچانے نہیں آئے گا۔ چلی میں ہر کسی کو اپنی پڑی تھی۔ یہ آفات دیکھتے آئے تھے لیکن یہ آفت کچھ اور ہی تھی۔ یہاں پر کئی روایات ختم ہو چکی تھیں۔ انسانی قربانی بھی ان میں سے تھی۔ اپنے کام سے کام رکھنے والے بھی کچھ چیزوں کو برداشت نہیں کرتے۔ چلی کی ریاست نے ان کی کچھ تہذیبی روایات ختم کر دی تھیں۔ اب یہ آفت کے وقت کسی جانور کو اس طرح کاٹ کر پانی میں پھینک دیا کرتے جو سب کے لئے قابل قبول تھا لیکن ولڈاویا کا زلزلہ عام نہیں تھا۔ اس روز انہوں نے اپنی روایات کی گہرائی میں جا کر وہ علاج ڈھونڈا جو ان کے آباء کرتے آئے تھے۔ وہ رسم جسے بھلا دیا گیا تھا۔ کسی اور کے کہنے پر غلط سمجھ لیا گیا تھا۔ بن ماں کے پانچ سالہ بچے ہوزے لوئی کو پیشوا نے اس کے دادا سے مانگ لیا تھا۔ اپنی تہذیب کے، اپنی تاریخ کے، اپنے ساتھ رہنے والوں کے پریشر میں اسکا خوفزدہ دادا انکار نہیں کر سکا تھا۔ اپنی روایت کے مطابق اس بچے کے ہر عضو کو پورے گاؤں کے سامنے اس وقت کاٹا گیا تھا جب وہ زندہ تھا۔
پانی اتر گیا۔ چلی کی حکومت اس واقعے کے پیچھے آئی۔ ان لوگوں کی بات سنی اور پیچھے ہٹ گئی۔ اس لئے نہیں کہ اس بچے کو انصاف کا حق نہ تھا۔ اس لئے نہیں کہ وہ اس کو ٹھیک سمجھتے تھے بلکہ اس لئے کہ وہ ان لوگوں کی اس روز کی دہشت سے آگاہ تھے۔ ان کی تاریخ اور تمدن سے آگاہ تھے۔ وہ خود بھی اس میں سے گزرے تھے لیکن اس کا سامنا کسی اور طریقے سے کیا تھا۔ ماپوچے کے لئے شاید اپنے میں سے ہی ایک جیتے جاگتے بچے کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھنا اور اس منظر کو یادوں میں رکھ کر زندہ رہنا بھی سزا تھا۔
ایک وقت میں عام اس روایت کا یہ آخری شعلہ تھا۔