آخری پوسٹ۔ چی گویرا کی شہادت
امریکی مشیر 29 اپریل کو بولیویا پہنچے اور بولیویائی فوج کے سیکنڈ رینجر بٹالین کیلئے 19روزہ ’’گوریلا کش‘‘ تربیتی کیمپ لگایا۔ یہ ایک ہنگامی شدید نوعیت کا تربیتی پروگرام تھا، جس میں فوجیوں کو اسلحہ استعمال کرنے، انفرادی مقابلہ کرنے، سکواڈاور پلاٹون ٹریننگ، پٹرولنگ اور دشمن کو مارمکانے کی خصوصی تربیت دی گئی۔ ان میں اعلی ٰ قسم کی رینجرز بٹالین تشکیل دی گئی جس کو جنگلوں میں اپنے جوہر دکھانے کی خصوصی تربیت دی گئی۔
بیرنتوس نے اپنی فوج کو گویرا کو ہلاک کرنے کا حکم دیا۔ یہ احکامات اس کے نہیں بلکہ درحقیقت اس کے امریکی آقاؤں کے تھے۔ جنہوں نے بہت عرصہ پہلے اپنے اس سب سے بڑے دشمن کے سر کی قیمت بھی مقرر کر دی تھی۔ جونہی چی کی ’’لوکیشن‘‘ کی ان کو خبر ہوئی، سی آئی اے اور دیگر سپیشل فورسز بولیویا پہنچ گئیں اور انہوں نے آپریشن کی نگرانی کی۔ ستمبر کے آخر سے ہی گوریلوں کے قدموں کے نشانات کا سراغ لگانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ بولیویا کی سپیشل فورسز کو ایک مخبر کی اطلاع پر چی کی جائے موجودگی کی خبر ملی۔ انہوں نے 8 اکتوبر کو اس علاقے کا محاصرہ کرلیا اور پھر ایک معمولی جھڑپ کے بعد چی گویرا کو گرفتار کر لیا گیا۔ جونہی فوج اس کو اپنے گھیرے میں لیتی ہے، کہا جاتا ہے کہ چی نے ان سے کہا کہ ’’مجھے مت مارنا، میں تمہارے لئے مردہ سے زیادہ زندہ وارے کھاتاہوں‘‘۔ ان الفاظ سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ ایک کم ہمت اور بزدل انسان تھا۔ یہ درحقیقت انقلاب کے دشمنوں کی اسی بدنیت مہم کا ہی ایک حصہ ہے جس کے ذریعے چی جیسے عظیم آدرش وادی کے تاثر پر بدنامی کی کالک ملنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس کے اثرات کو زائل اور اس کے تشخص کو گھائل کردیا جائے۔ وہ ایک ایسا انسان تھا جس نے ہمیشہ جی داری اور جراتمندی سے زندگی بسر کی اور جو کبھی بھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کیا کرتا تھا۔
چی کے پکڑے جانے کی خبر ملتے ہی صدر برنتوس نے اس کو قتل کردینے کا حکم جاری کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی۔ اس نے عدل وانصاف کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کی تہذیب کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اس نے اپنا حکم واشنگٹن کے مکمل علم اور آشیرباد سے ہی جاری کیا تھا۔ یہ سب لوگ کسی طور بھی چی گویرا پر مقدمہ چلا کر اس کا بیان سننے کا رسک لینے کو تیار نہیں تھے۔ کہ جس میں وہ اپنا دفاع کرتا، اپنی سرکشی کو برحق اور جائز قرار دیتا، اور اس ناانصافی اور نابرابری کو ننگا کرتا جس نے اسے سرکش بننے پر مائل کردیا تھا۔ اس قسم کی آواز کو سننے کی بجائے اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قتل کر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
جنوری1919 میں برلن، جرمنی میں روزا لگزمبرگ اور کارل لیبخنت کو گرفتار کرنے والے جنکرز نے بھی ان کو عدالت میں پیش کرنے کی مہلت نہیں دی تھی۔ ان ظالموں نے بھی ان کی جان لینے سے قبل قانون کی کسی کتاب کی ورق گردانی اور عدل وانصاف کے عظیم تقاضوں کو ملحوظ خاطر لانے کا کشٹ کرنا گوارا نہیں کیا۔ چی گویرا کو گرفتاری کے بعد قریبی گاؤںLa Higuera کے ایک سنسان سکول کی عمارت میں لے جایا گیا۔ جہاں اسے رات بھر رکھا گیا۔ اس کے ذہن میں اس کی آخری رات کیا کیا اور کیسے کیسے تصورات ابھرے ہوں گے؟ بھیڑیوں کے غول میں پھنسا ہوا بھیڑ کا ایک بچہ! تنہا، دنیا سے بالکل الگ اور جدا، اپنے خاندان اپنے دوستوں اپنے کامریڈز سے کٹا ہوا، ایک نئے دن اور اس نئے دن اپنی ناگزیر موت کا انتظار!
اگلے دن دوپہر کے بعد چی کو سکول کی عمارت سے باہر لایا گیا۔ یہ 9 اکتوبر 1967 کا دن تھا جب چی کو 1.10 پربولیویا فوج کے ایک سارجنٹ ماریوٹیران نے گولی کا نشانہ بنایا۔ اس کی موت کو یقینی بنانے اور اس کے مرجانے کا یقین کرنے کیلئے اس کی ٹانگوں میں بے شمار گولیاں ماری گئیں تاکہ وہ زخموں کی تاب نہ لاکر مر جائے۔ اس نے مرنے سے قبل اپنے قاتلوں سے کہا ’’میں جانتا ہوں تم مجھے مارنے کیلئے آئے ہوئے ہو۔ مارو مجھے بزدلو! تم ایک انسان ہی کو تو مار رہے ہو ‘‘یہی الفاظ ہیں جو ایک سچے چی گویرا کے الفاظ ہو سکتے ہیں۔ نہ کہ وہ جو پہلے بیان کئے گئے اور جو اس کی طرف منسوب کیے جارہے ہیں۔ وہ الفاظ ایک پست ہمت اور اپنی زندگی کی بھیک مانگتے شخص کے تو ہو سکتے ہیں لیکن چی گویرا کے نہیں۔
اس کی لاش کو ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے قریبی علاقے Vallegrande لے جا کر ایک ہسپتال کے ایک لانڈری ٹب میں سجا دیا گیا تاکہ پریس فوٹوگرافر اس کی تصاویر اتار سکیں۔ شیکسپئیر کے مکابرے کے ایک ایکٹ میں ایک آرمی ڈاکٹر جراحی کے عمل کے دوران اپنا ہی ہاتھ کاٹ دیتا ہے، اسی طرح سے ہی بولیویا کے فوجی افسروں نے بھی چی گویرا کی لاش کو کسی نامعلوم مقام پر پہنچا دیا۔ چی گویرا کے سر کو اڑانے کے مشن کی سربراہی جس شخص کو سونپی گئی تھی وہ فیلکس ریڈرے گوئز Felix Rodriguez تھا جو کہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا۔ وہ کیوبا میں کاسترو کی سرکشی کو کچلنے کیلئے Bay of Pigs پر ہونے والی سامراجی حملے کی سازش میں بھرپور شریک رہا تھا۔ اسی نے ہی ورجینیا اور واشنگٹن میں بیٹھے اپنے آقاؤں کو چی گویرا کے مارے جانے کی خوشخبری سنانے کا فریضہ سرانجام دیا تھا۔ جیسا کہ کئی گھٹیا قسم کے چور اکثر کرتے ہیں، فیلکس نے چی گویرا کی پہنی ہوئی رولیکس گھڑی اتار لی تھی اور اس کی دوسری ذاتی اشیا بھی اپنے قبضے میں لے لی تھیں اور بعد میں وہ یہ سب اشیا فوٹو گرافروں کو دکھاتا رہا۔ فوٹو کھنچوا کر تاریخ میں کسی طرح اپنا نام درج کرانے کی بیہودہ نفسیات کے مارے ہر شخص کی طرح فیلکس نے بھی یہ موقع اپنی ناموری کیلئے غنیمت جانا۔ لیکن جس انسان کو ان لوگوں نے قتل کرکے ختم کرنے کی کوشش کی، اس سے اس کی موت تو کیا ہونا تھی، وہ آج بھی اور رہتی دنیا تک غریبوں مظلوموں کے حقوق کیلئے جان دینے والے ایک امر کردار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ وہ جنگجو تھا، ایک انقلابی ہیرو تھا، اور عالمی سوشلزم کی جدوجہد کیلئے جان کی بازی لگا دینے والا شہید تھا۔
"چی گویرا کون تھا اور کس مقصد کے لئے لڑا"
ایلن ووڈز
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“