(قسط نمبر گیارہ)
دو ہفتے پہلے مسجد الحرام میں باغی قابض ہوئے تھے۔ 3 دسمبر 1979 کو پاکستانی اور ترک کام کرنے والوں نے مسجد کے موٹے فرش پر ڈرلنگ شروع کی۔ ایک دائرے کی شکل میں سوراخ بنانے لگے۔ اس میں سے سی بی گیس کے کنستر نیچے پھینکے جانے تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ نیچے اندھیرے میں باغی تاک میں تھے۔ جیسے ہی یہ سوراخ مکمل ہوئے، نیچے سے گولیاں برسنے لگیں۔ کام کرنے والے لوگوں کے لئے یہ غیرمتوقع بھی تھا اور مہلک بھی۔ انکے خون کے تالاب اوپر بننے لگے اور ان کے بنائے سوراخوں سے رِس کر نیچے گرنے لگا۔
فرانس سے آنے والے گیس ماسک اور کیمیائی سوٹ پہنے سعودی فوجیوں نے گیس کے کنستر دھماکہ خیز مواد کے ساتھ ان سوراخوں سے نیچے لڑھکا دئے۔ ان کے فیوز جلا دینے کے ساتھ ہی مسجد دھماکوں کی آواز سے بھر گئی۔ زہریلی گیس کے بادل چھا گئے۔
توقع کے مطابق اس حملے نے باغیوں کو مفلوج کر دیا۔ اس دوران جھیمان کی فورس کی لگائی ہوئی خاردار تاروں اور رکاوٹوں کو پار کرنے کا موقع سعودی فوج کو مل گیا۔ باب الصفا، باب السلام، بابِ زیاد اور باب عبدالعزیز سے فوجیوں نے نیچے پہنچنے کا راستہ ڈھونڈ لیا۔ گیس، مشین گن اور گرینیڈ سے مسلح فوجیوں کے کئی دستے الگ الگ اترے۔
یہ فوجی کوئی بھی چانس نہیں لینا چاہتے تھے۔ گولیاں اور بم برساتے انہوں نے ایک کے بعد دوسرا کمرے کمرے کی تلاشی شروع کی۔ کسی بھی زندہ شخص کو دھر لیا جاتا۔ باہر نکلنے کے ہر راستے پر ٹیمیں تعینات تھیں۔ کوئی فرار نہ ہونے پائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کیمیائی دھند میں جھیمان نے اپنے لوگوں کو یرغمالیوں سے الگ ہو جانے کو کہا۔ وہ اپنے آخری لڑائی قابو کی گہرائی میں لڑنا چاہتے تھے۔ یرغمالیوں کو مارنا ان کا مقصد نہیں تھا۔ ان کا نشانہ کوئی اور تھا۔ ان کے نزدیک آخری لڑائی گمراہ سعود حکومت کے وفاداروں سے ہونی تھی۔
سعودی فوجیوں کو یرغمالی ملنا شروع ہو گئے۔ لاغر اور گیس کی وجہ سے بے حال۔ کئی روز سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ زندہ بچ جانے والے خوش قسمت تھے۔ اس وقت فائرنگ بلادریغ کی جا رہی تھی۔ اندھیرے میں تمیز کرنا مشکل تھا کہ کون باغی ہے اور کون سویلین۔ ہر حرکت کرتی شے نشانہ بن جاتی تھی۔ ان آخری گھنٹوں میں سویلین کے غلطی سے مارے جانے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیمیکل کا اثر زائل ہو جانے کے بعد جھیمان کے جنگجو سنبھل رہے تھے۔ انہوں نے غیرمعمولی مزاحمت دکھائی۔ فرش کے تختوں میں خود کو چھپا لینے کی تکنیک اپنائی۔ قریب آنے والے فوجی کو گولیوں کا نشانہ بنا لیتے۔ ٓپریشن کے اس مرحلے پر بھی وہ کچھ دیر کے لئے کئی فوجیوں کو قیدی بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس تہہ خانے میں آخری وقت تک سعودی فوجی جاں بحق ہوتے رہے۔ فوجی بار بار اعلان کر رہے تھے کہ باغی ہتھیار ڈال دیں۔ کسی ایک نے بھی اس پورے وقت میں ایسا نہیں کیا۔ جنرل ظاہری نے بعد میں کہا”کسی نے بھی ہتھیار نہیں ڈالے، ان کو ایک ایک کر کے پکڑنا پڑا تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری حملہ شروع ہونے کے اٹھارہ گھنٹوں کے بعد 4 دسمبر 1979 کو صبح ڈیڑھ بجے شہزادہ نائف نے اعلان کر دیا۔ “باغی گینگ کے تمام لوگ پکڑے جا چکے ہیں۔ مسجد کا تہہ خانہ بھی اب خالی کروا لیا گیا ہے”۔
لیکن ابھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ ابھی باغی موجود تھے۔ جھیمان لاپتہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام ہو چکی تھی۔ مسجدالحرام کے سابق چیف پولیس گارڈ کے پوتے کیپٹن ابوسلطان ایک دھاتی دروازے کے قریب پہنچے جو اندر سے بند تھا۔ اس پر دھماکہ خیز مواد لگا کر اس دروازے کو اڑا دیا گیا۔ فوجی اندر پہنچے تو ان کو بارہ افراد نظر آئے۔ چہرے پر کیموفلاج کیلئے کالک ملی ہوئی۔ کپڑے خون اور الٹیوں سے لتھڑے ہوئے۔ کچھ پر تشنج کی سی کیفیت طاری تھی لیکن ان میں سے ایک۔ تھکا ہوا لیکن تندخو اور غصیلا چہرہ۔ لمبی گھنی داڑھی اور الجھے بال۔ دوسروں سے عمر میں کچھ بڑا۔ قریب ہتھیاروں کے کریٹ۔ پنیر، کھجوروں کے پیالے اور پمفلٹ کا ڈھیر۔
ابو سلطان نے پوچھا، “تمارا نام کیا ہے؟” جواب آیا، “جھیمان”۔
ابو سلطان باقی قیدیوں کی تفتیش سے ملنے والی معلومات کی وجہ سے اس نام کو جانتے تھے۔ بڑی مچھلی ان کے ہاتھ آ گئی تھی۔ ان کو پتا تھا کہ اس قیدی کو بحفاطت نکالنا ضروری ہے۔ اگر دوسرے فوجیوں کو پتا چل جاتا تو اس کو زندہ نہ چھوڑتے۔ اس سے پہلے بھی پکڑے جانے والوں کی تواضع ٹھڈوں اور گھونسوں سے کی گئی تھی۔ اتنے بھاری نقصان اور ساتھیوں کی موت کا غصہ تھا۔ اگر انہیں جھیمان کا پتا لگ جاتا تو زندہ باہر نہ پہنچ پاتے۔ ابو سلطان نے ان کو خود باہر لے جانے کا فیصلہ کیا۔ دو افسروں کو ساتھ لے کر خود باہر لا کر ایمبولنس میں بٹھایا۔ ایمبولینس نے مکہ ہوٹل کا رخ کیا جہاں پر سینئیر شہزادے موجود تھے۔
راستے میں ابو سلطان نے جھیمان سے پوچھا، “تم نے یہ کیا کیا؟ کوئی بھی یہ کیسے کر سکتا ہے؟ آخر کیوں؟”۔ جھیمان کو اس پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔ کوئی جذبات دکھائے بغیر جواب دیا، “یہ میرے رب کی منشاء تھی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی ٹی وی کا عملہ اور سرکاری فوٹوگرافروں کو ان باغیوں کی تصویریں اتارنے کے لئے بلایا گیا۔ کچھ نے اپنے ذہن میں ابھی بھی ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔ ایک نے کیمرہ دیکھ کر منہ چڑایا، ایک نے زبان نکالی۔ لیکن کئی اس شکست کا مطلب سمجھنا شروع ہو گئے تھے۔ اہم باغی لیڈر فیصل محمد فیصل پھوٹ پھوٹ کر رونے والے پہلے شخص تھے۔
ایک قیدی کو داڑھی سے پکڑ کر گھسیٹ کر لایا گیا۔ عرب معاشرے میں یہ کسی کی سب سے بڑی بے عزتی سمجھی جاتی ہے۔ شہزادہ نائف نے پوچھا، “یہ کون ہے؟”۔ قیدی نے کہا، “دوسروں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ میں جھیمان ہوں”۔ اس دفعہ جب ایک افسر نے چیخ کر پوچھا، “تم نے حرم شریف کے بے حرمتی کیوں کی؟” تو جھیمان کا اس بار جواب تھا، “اگر مجھے پتا ہوتا کہ نتیجہ یہ نکلے گا، تو نہ کرتا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد آنے والی تبدیلیوں کے جھکڑ کے بعد دنیا پہلے جیسی نہیں رہی۔ جب اس کے کچھ روز بعد جھیمان کی گردن اتاری گئی تو وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا مشن کس قدر کامیاب رہا تھا۔ وہ دنیا بدلنے نکلے تھے۔ انہوں نے دنیا بدل دی تھی۔
حرم شریف کے محاصرے کا یہ باب تو بند ہو گیا تھا لیکن اس کے نتیجے میں دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کا باب تو ابھی کھلا تھا۔ اول تو سعودی عرب میں اس معاملے کو نمٹائے جانا تھا۔ دوسری طرف، یہاں سے ہزاروں میل دور برف سے ڈھکے ایک شہر میں کوئی اسلام آباد سے مکہ، القطیف سے واشنگٹن میں ان دو ہفتوں میں بیتے واقعات کا بڑی دلچسپی سے مشاہدہ اور تجزیہ کر رہا تھا۔ ان کی بنیاد پر ایک بڑا فیصلہ لیا جانے والا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔