(ایک نثری نظم (
ہم وہ آخری خوش نصیب لوگ ہیں
جنہوں نے گارے سےچُنے ، چونے سے لِپے گھروں میں آباء سے پریوں کی کہانیاں سنیں
جنہوں نے آنگنوں میں کیکلی ڈالی ، سٹاپو کھیلا اور ٹاہلیوں پر پینگیں ڈالیں
جنہوں نے باندر کِلا ، پِٹھو گرم کھیلا اور چیچوں چیچ گنڈیریوں سے کونے کدرے کالے کئے
جنہوں نے راتوں میں چالیس واٹ کے قمقموں تلے نصاب اور قصے کہانیاں پڑھیں
ہم وہ آخری خوش نصیب لوگ ہیں
جنہوں نے بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا
جنہوں نے کھلیانوں کی سرسبز رونق دیکھی
جنہوں نے مٹی کے کورے گھڑوں کا ٹھنڈا پانی پیا
جنہوں نے اپنے احساسات خَطوں میں سموئے اور اپنے بے وطنے پیاروں کو بھیجا
ہم وہ آخری خوش نصیب لوگ ہیں
جنہوں نے عید کا چاند دیکھ کر تالیاں بجائیں اور اسے اپنے ہاتھوں پر سجایا
جنہوں نے دیوالی کے دئیوں سے گھروں کے ماتھے روشن کیے
لوڑی کے بھانبڑ کے گرد بیٹھ کر چیوڑے ، ریوڑیاں اور چلغوزے کھائے
جنہوں نے بسنت میں دوپٹے رنگے ، گجریلے پکائے اور پتنگیں اڑائیں
ہم وہ آخری خوش نصیب لوگ ہیں
جنہوں نے سرسوں کا تیل چُپڑا ، ترچھی مانگ نکالی ، آنکھوں میں سرمہ ڈالا ، لبوں پر دنداسے کا رنگ جمایا اور شادی ہیاہوں میں گئے
جنہوں نے گلیوں میں گِلی ڈنڈا کھیلا اور گلے میں مفلر لٹکائے خود کو دیوآنند جانا
جنہوں نے المیہ فلمیں دیکھ کر آنسو بہائے اور کٹھ پتلیوں کے تماشے دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسے
جنہوں نے ' بارہ من کی دھوبن ' بھی دیکھی اور ٹپکے کے آم بھی چوسے
ہم وہ آخری خوش نصیب لوگ ہیں
جنہوں نے اپنی تختیوں کو گاچنی سے لیپا اور اس کے لئے سیاہی گاڑھی کی
جنہوں نے سکول کی گھنٹی بجانے کو اِک اعزاز جانا اور اس کے لئے دوڑ لگائی
جنہوں نے میلوں ٹھیلوں پر جلیب و قتلمے کھائے اور پیڑھیوں و کاٹھ کے گھوڑوں والے جھولے جھولے
جنہوں نے پوتر رشتوں کا شہد چاٹا ؛ بڑوں کا ، چھوٹوں کا اور سنگی ساتھیوں کا
اِک زمانہ تھا کہ ہم
گرمیوں میں چھتوں پر سوتے
جس کی اینٹوں پر پہلے پانی کا چھڑکائو کرتے
گھر کا واحد پیڈسٹل پنکھا بھی اِک کونے میں دھرتے
سب لڑتے کہ اس کے سامنے پہلی چارپائی کس کی ہو گی
اور چھٹی کے روز سورج چڑھنے پر بھی ہم ڈھیٹ بنے سوئے رہتے
اور ۔ ۔ اور
جب کبھی رات میں کسی سمے بارش آ لیتی
تو بھلے ہم چارپائیاں سمیٹ لیتے اور حبس زدہ کمروں میں جا سوتے
پر اگلی کچھ راتیں چھت پر گیلی چارپائیوں پر ہی سونا ہمیں اچھا لگتا
یہ سارے زمانے لَد گئے
ہل چلانے والے بیل مر گئے
چھتوں پہ سونا تَرک ہوا
کیلکی ، سٹاپو ، پِھٹو گرم ، باندر کِلا سب خواب ہوئے
مفلر والا دیوآنند بھی نہ رہا
دھان کے بان کی چارپائیاں بھی ٹوٹ گئیں
عید ، دیوالی ، لوڑی اور بسنت سب ہوا ہوئیں
بٹوارہ کیا ہوا ، سنگی ساتھی سب بچھڑ گئے
بہن بھائی بھی وقت میں کہیں کھو گئے
رشتوں کے شہد کی مٹھاس پھیکی پڑی اور مذہبی جنون عام ہوا
ہم وہ آخری خوش نصیب لوگ ہیں
ہم کم پڑھے لکھے پر انسان دوست ہیں اور جذبوں ، محبت و خلوص میں اب بھی یکتا ہیں
اب زمانہ ہے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کا
بے مروت و خودغرض مذہبی جنونیوں کا
پر اِن پڑھے لکھے لوگوں اور مذہبی جنونیوں میں یہ کیسی جہالت ہے
جس نے ہم آخری خوش نصیب لوگوں کو تو کیا خود کو بھی بُھلا دیا ہے