ہم میں سے بہت سے لوگ ایک غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں جسے “اینڈ آف ٹائم الیوژن” کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ کہ وہ یہ سوچ لیتے ہیں کہ جو ہو سکتا تھا، وہ ہو چکا ہے۔ تاریخ ہمیں مختلف کہانی سناتی ہے۔ انسانی کلچر ایک بدلتی ہوئی چیز ہے۔
چاقو کی مثال لے لیں۔ قدیم ترین چاقو پتھر کے تھے جن کے پھل کو تیز کیا جاتا تھا۔ اس کی تاریخ لاکھوں سال پرانی ہے۔
پھر ہمارے آباء نے اس کو لمبا کیا، اس میں ہینڈل کا اضافہ ہوا تا کہ زیادہ قوت لگائی جا سکے۔ اس نے بے تحاشا شکلیں بدلیں۔ صرف ایک کلچر اور ایک جگہ کے چاقووں کی کلکشن دیکھ لیں تو اس میں بہت سے ویری ایشن ملے گی۔
چھتری قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ قدیم مصر میں یہ کھجور کے درخت کے پتے یا پروں سے بنتی تھی۔ قدیم روم میں چمڑے سے۔ ایزٹک اسے پروں اور سونے سے بناتے تھے۔ روم میں چھتری بند ہو سکتی تھی۔ قدیم چین میں بھی بند ہونے والی تھیں۔ اس کے مقابلے میں قدیم انڈیا اور سیام میں یہ اتنی بھاری ہوتی تھیں کہ ان کو اٹھانا ایک اور شخص کا کام ہوتا تھا۔
بریڈفورڈ فلپس میں 1969 میں جدید فولڈنگ چھتری کا ڈیزائن دیا جو اب زیادہ مقبول ہے۔ کیا آخری چھتری یا آخری چاقو ایجاد ہو چکا ہے؟ اس وقت امریکی پیٹنٹ آفس میں ہر سال درجنوں چھتریوں کے پیٹنٹ ہر سال آتے ہیں۔ مثال کے طور پر سینز کی چھتری کی شکل سمٹریکل نہیں، تا کہ اس کو ہوا سے بہتر ریززٹنس مل سکے۔ انبریلا الٹی فولڈ ہونے والی چھتری ہے اور اس کا دھات والا حصہ باہر کی طرف ہے۔ نبریلا کو بستے کی طرح کمر پر پہنا جا سکتا ہے تا کہ ہاتھوں کی ضرورت نہ پڑے۔
جس طرح آخری چھتری یا آخری چاقو نہیں بنا، اسی طرح کوئی آخری سیاسی یا معاشی نظام نہیں آیا۔ آخری آرٹ ورک نہیں بنا۔ کلاسیکل آرٹ کو بھی مسلسل بدلا جاتا رہتا ہے۔ شکسپئیر کے رومیو اور جولیٹ کے کام سے بالے، اوپرا، میوزیکل بن چکے ہیں۔ چالیس الگ فلمیں بن چکی ہیں۔ کارٹون فلم بن چکی ہے (نومیو اینڈ جولیٹ)۔ یہ ایک ہی بنیاد کو لے کر بنائے گئے مختلف روپ ہیں۔
جیز کے مشہور آرٹسٹ بوبی شارٹ نے نیویارک سٹی میں کیفے کارلائل میں پینتیس برس پیانو بجایا۔ ایک ہی نغمے پر ان کی کوئی بھی دو دھنیں ایک جیسی نہیں۔ زبانوں میں لفظ معنی بدلتے رہتے ہیں۔ 5 نومبر 1605 کو گائے فاکس نے برطانوی پارلیمنٹ کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی۔ گائے فاکس کو پکڑ لیا گیا اور سزائے موت دے دی گئی۔ گائے فاکس کے پتلے نظرِ آتش کئے گئے۔ ان پتلوں کو Guy کا نام دیا گیا اور یہ لفظ انگریزی زبان کا حصہ بنا۔ صدیوں بعد آج یہ لفظ معنی بدل چکا ہے۔ انگریزی زبان میں hot یا cool یا wicked جیسے الفاظ بھی اپنے معنی کچھ اور بنا چکے ہیں۔
ماضی کے ساتھ ہم رومانس بھی رکھتے ہیں، تبدیلی سے گھبراتے بھی ہیں، لیکن جو چیز آج اچھی بھی ہے، ہم اس پر بھی مطمئن نہیں رہتے اور کچھ اور کی تمنا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ ہماری زبان کسی آخری شکل تک پہنچی ہے اور نہ ہی کوئی آخری آرٹ بنا ہے۔ ابھی تک کوئی آخری ٹیکنالوجی بھی ایجاد نہیں ہوئی، نہ چاقو، نہ چھتری اور نہ آخری جوتا۔