وہ بات کرتا تو کوئی نہ کوئی اکھان ،تلمیح یا ضرب المثل ضروراستعمال کرتا تھا۔اُس پُر اسرار شخص کا اصل نام تو منشی کھان ایاز تھا مگر چونکہ اُسے پنجابی زبان کے سیکڑوں اکھا ن زبانی یاد تھے اس لیے شہر کا شہر اُسے اکھان گو منشی کہہ کر پکارتا تھا۔زند ہ تمناؤں اور بیدار اُمنگوںکے رخش پر سوار ہو کر تیزی سے منزل مقصود کی جانب بڑھنے والا یہ شخص آج بہت درماندہ نظر آ رہاتھا۔ سال 2023ء مئی کے مہینے کی پانچ تاریخ تھی، میں جھنگ میں اپنے اُس آبائی مکان میں بیٹھا تھا جسے اَب طوفانِ نوح ؑ کی باقیات قرار دیا جاتاہے ۔ میرے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے تھے مختصر ملاقات کے بعدوہ اس شہر ِ ناپرساں کو چھوڑ کر اپنے گھر لاہور روانہ ہونے سے پہلے نجی ملاقاتوں کے سلسلے میں قدیم جھنگ شہر روانہ ہو گئے ۔ سہ پہر کے وقت میں سبزی اور پھل خریدنے کے لیے جھنگ صدر کے مصروف ترین بازار کورٹ روڈ کے مشرقی کنارے اور اہم مقام ایوب چوک پہنچا۔ وہاں ایک مانوس اجنبی کو دیکھاجو انتہائی خستگی کے عالم میں کاسۂ گدائی تھامے کورٹ روڈ پر مغربی جانب ریل بازار کی طرف پیدل چل رہاتھا۔ آج سے ساٹھ سال قبل اس شخص کا شمار شہر کے اُن ممتاز ماہرین تعلیم میں ہوتاتھاجوپرائمری سطح کے طالب علموں کی خاک کواکسیربنانے اور غبارِ راہ سے نگاہوں کو خیرہ کرنے والے جلوے تعمیر کرنے میں اپنی مثال آپ تھے ۔بعض لوگوں کاخیال ہے کہ اپنی تباہیوں پر اصرار کرنا اور مکمل انہدام کی راہ ہموار کرنابھی ایک خاص نوعیت کی تخلیقی فعالیت ہے جس کے وسیلے سے احتساب ذات کی صورت تلاش کرنے کی سعی کیا جاتی ہے ۔زندگی بھر سایوں اور سرابوں سے بیزار ہو جانے والا یہ پُر اسرار شخص مصائب و آلام اور ابتلا اور آزمائش کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پر جھیلنے کے بعد اپنے خون سے ہولی کھیلنے پر تُل گیا تھا۔خستگی ،شکستگی اور بربادی کے اس حال میں بھی وہ بے حِس دنیا کا تماشا دیکھ کر بیتے لمحوں کی چاپ سُن کر تعمیر ِ نوکی موہوم منزلوں کی جستجو میں شہرکے بازاروں میں آگے بڑھ رہاتھا۔ شاید اُسے معلوم ہے کہ اس شہرِ نا پرساں کے بازار بھی مصر کے بازار کے مانند ہیں جہاں جنسِ گراں کے طلب گار معدوم ہیں۔آلام ِ روزگار کے مہیب بگولوں کی زدمیں آنے والے ماضی کے اس فلسفی کو دِ ل شکستگی ،خستگی اور درماندگی کی حالت میںکاسۂ گدائی تھامے دُکان داروں سے خیرات مانگتے دیکھاتو اُردو زبان کے ممتاز شاعرمنیرنیازی کا یہ شعر ذہن میںگردش کرنے لگا :
کل دیکھاایک آدمی اَٹا سفر کی دُھول میں
گُم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پُھول میں
زندگی کے معمولات پر نظر رکھنے والے ماہرین علم بشریات کاکہنا ہے کہ زندگی کا انداز ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ پیہم آٹھ عشروں تک خوابوں کی خیاباں سازیوں کے سِحر میں رہنے والا یہ شخص منشی کھان ایاز تھاجو فقیروں کا بھیس بنا کر دنیا کے آ ئینہ خانے میں بے حِس معاشرے کو تماشا بنا کر اپنی راہ پر چل رہاتھا۔ عالمی ادب کایہ نباض امیر خسرو کی عہد ِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی مثنویوںکا بہت بڑامد اح تھا ۔اُس نے امیر خسرو کی جن مثنویوں کا عمیق مطالعہ کیاتھا اُن میں مثنوی نہ سپہر ،تغلق نامہ ،مفتاح الفتوح ،دول رانی خضر جان اور قران السعدین شامل ہیں۔اُس نے بتایا کہ امیر خسرو کی مثنوی قران السعدین کے اشعار کی تعداد 3944ہے۔ وہ اپنے احباب کو امیر خسرو کا کلام سناتا توتو اُس کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہو جاتی ۔ امیر خسرو کا کلام اس ذہین تخلیق کار کے لا شعور اور وِجدان میں رچ بس گیاتھا۔ امیر خسرو کے فارسی کلام کو پنجابی زبان کے قالب میں ڈھال کر وہ بہت سکون محسوس کرتاتھا۔ اہلِ کرم کے ہر سوال کا جواب بھی اُس کی پریشاں حالی کے پس پردہ کارفرما سوالات میں پنہاں تھا۔منشی کھان ایاز کو اِس حال میں دیکھ کر میرا قلب ِحزیں زور سے دھڑکنے لگا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ بے حِس دنیانے اِس معلم کو اس قدر اذیت میں مبتلا رکھا کہ کا چہرہ اُس کے قلب و روح کی زبوں حالی کا مظہر بن گیا۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور سوچا کہ شایدمنشی کھان ایاز کے فکر و خیال اور ذہن و ذکاوت پر آلام ِ روزگار کی کالی گھٹا اس قدر ٹُوٹ کربرسی ہے کہ علمی سطحِ فائقہ سے وابستہ یادوں کے سب نقوش یاس و ہراس کی موسلادھار بارش کی بوچھاڑ میں دُھل گئے ہیں ۔جب اس دانش ور کا رباب فشارِ ضبط سے اضطراب اور بے چینی کی زد میں آتاتو اُس کی آ ہ و فغاں سرود تک محدود نہ رہتی بل کہ اُس کے مہیب و روح ستا ںخواب آنسوؤں کی صورت میں بہنے لگتے۔
ماہرین نفسیات کی رائے تھی کہ اپنی آٹھ عشروں پر محیط تدریسی خدمات اور انسانی ہمدردی کی مظہر نیکیوں کو دریامیں ڈالنے والا یہ شخص خوداپنی ہی تیغِ ادا سے گھائل ہوگیا اور علم و ادب کے اس ماہتاب نے جب سمے کے سم سے آ لودہ غموں کی بارش کے پانی میں اپناعکس دیکھا تو اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔واقفِ حال لوگوں کاکہناہے کہ گزشتہ کئی سال سے شہر کی سڑکوں پر ناشاد و ناکارہ گُھومنے والا یہ شخص دُور دراز بستیوں کے گلی کوچوں سے جہاں اعصاب شکن سناٹے اور گہری تاریکیاں پیہم گریہ و زاری میں مصروف رہتی تھیں وہاں سے اینٹیں ،روڑے اور پتھر چُن کر اپنے گھر کے سامنے ڈھیرلگا دیتاتھا۔ پتھروں، روڑوں اور اینٹوں کا یہ ڈھیر جب بہت بڑا ہو جاتا تو منشی کھان ایاز کے لواحقین ا ِس ڈھیر کوفروخت کر دیتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گردشِ ایام کی زدمیں آنے کے بعد اس فطین شخص اور ذہین معلم کے اچھے دِن ہوا ہوتے چلے گئے اوربے حِس معاشرے نے منشی کھان ایاز جیسے حساس تخلیق کار کے ساتھ وہی سلوک کیا جو وہ اطہر ناسک ،ساغر صدیقی،رام ریاض ،خادم مگھیانوی اور اماں فضلاں جیسے متعدد اہلِ درد کے ساتھ کر چکاہے ۔ سلسلۂ روز و شب پر گہری نظر رکھنے والے اہلِ نظر جانتے ہیں کہ کشکول کبھی بے مصرف نہیں رہتے ہر دور میں بے حِس معاشرہ ساغر صدیقی اورمنشی کھان ایاز جیسے افراد کو ڈھونڈ نکالتاہے جو کشکول ہاتھوں میں تھام کر گلیوں میں فقیرانہ آ تے ہیں ،صدا کر تے ہیں اور سب کودعا کر کے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب چلے جاتے ہیں ۔عہد شبا ب میں زندگی بھر کامیاب مہ و سال گزارنے والا منشی کھان ایاز عالمِ پیری میں غموںسے چُوراپنی زندگی کے خستہ و خراب دِن سانس گِن گِن کر گزارنے پر مجبور ہو گیا۔اپنے کرب کے نشے میں اپناجی بہلانے والے منشی کھان ایاز کی پُر نم آ نکھوں میں گہرے ملال ،اضمحلال اور رنج و یاس کاگلابی ساخمار دیکھ کرمیںاس نتیجے پر پہنچاکہ اس اَلم نصیب ،جگر فگار اور معاشرے سے بیزار شخص نے خارزار ِحیات سے خامشی سے گزرنے کاتہیہ کر لیاہے ۔ مجھے یہ خیال ستانے لگاکہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں جہاں سادیت پسندوں کی کثرت ہے وہاں ایسے مجبوروںکی داد رسی اُس وقت ہوگی یعنی جب یہ بے بس لوگ عدم کی جانب کُوچ کرجائیں گے تو اِن کی یادمیں چارہ گری سے گریز کو وتیرہ بنانے والے بروٹس قماش مسخرے اور بے حِس چارہ گر مگر مچھ کے آ نسو بہائیں گے ۔شہر کے لوگوں نے کئی بار منشی کھان ایاز کو حضرت بلالؓ چوک ،جھنگ کے شمال میں سرگودھا روڈ کے مشرقی کنارے پر رکھے عفونت زدہ کُوڑے دان میں بیٹھے ردی کاغذ اور پلاسٹک کی اشیاچُنتے دیکھا تھا۔سب لوگ اپنی دُھن میں مگن رہتے اور کسی نے اس اَ لم نصیب کے چاکِ دامن کو رفو کرنے پر توجہ نہ دی۔
سیلِ زماں کی روانیوں اور اِس کی مہیب موجوں کی طغیانیوں میں ٹھہراؤ کا تصور ہی بعید از قیاس ہے ۔سائیکلون بیپر جوائے (Cyclone Biparjoy) کے مانندسیلِ زماں کی قیامت خیز موجیں لمحہ لمحہ وقت کے قلزم میں جا گرتی ہیں ۔اپنے من کی غواصی کرنے کے بعد اِس وقت جھنگ کا یہ پُر اسرار شخص ماضی کے قلی فقیر،لُوہلے شاہ ،دُڑکی شاہ، میاں مودا ،کرموں موچی ،بابا آنے والا حجام،چونی والا حکیم ،محسن عطار، گھڑونچی والامصور اور میاں بکھاکے نقشِ قدم پر چل پڑاہے ۔اقلیم معرفت سے تعلق رکھنے والی یہ وہ پر اسرار ہستیاں ہیں جنھوں نے جب کارِ جہاں کے ہیچ ہونے اور مال و دولتِ دنیا کو فریبِ سُود و زیاں قرار دیا تو اقلیمِ معرفت میں ممتاز مقام حاصل کرلیا۔واقفِ حال لوگوں کا کہنا ہے کہ منشی کھان ایاز نے کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیر کو دیکھ کر دُم ہِلانے والے اور وہاں سے مفادات کے استخواںنو چنے اور بھنبھوڑنے والے بے بصر اور کور مغز خارش زدہ باؤلے سگان ِ راہ پر واضح کر دیا کہ دیو جانس کلبی کے مانند اپنی دنیاکے محرم اور دنیا کو ٹھکرانے والے فقیرکسی مہم جُوسکندر سے مرعوب نہیںہوتے ۔ ساٹھ سال پہلے کے حالات کے چشم دید گواہ اللہ دتہ چھاپہ گر گلو گیر لہجے میں بتایا کرتاتھاکہ آدھی وال چوک سے سرگودھا روڈ پر شمالی جانب جو کچی آبادی ہے اِسے جھنگ کے ایسے بزرگوں کا مسکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے جومعرفت و روحانیت کی متاعِ بے بہا سے متمتع تھے ۔ منشی کھان ایاز نے اس بستی میں مقیم اقلیم معرفت کی جن ہستیوں کے ساتھ زندگی بسر کی اُن میں ملک محمدشفیع،فیصل ،اللہ دتہ لنگاہ ، میاںاحمد دین ، چودھر ی عبداللہ ،ماسٹر خالد حسین ،محمد نواز ( حکیم ) ،عبدا لحئی ( کسان ) ،عبدالغفور( حکیم ) ،منیر حسین ( سینیٹری انسپکٹر )،ظفر احسن ( ویکسی نیٹر) ،اللہ دتہ ( چُنگی محرر) ، اللہ دتہ لنگاہ ،مہر خالد( بنکار ) ،رمضان پِتریر ( چائے والا ) ،جیون ( مالی) ، اقبال عاصی ،رانا سلطان ،سجادحسین ،منیر حسین معلم ،شیر خان ،عبدالستار ( فاریسٹ گارڈ)،مستری سلطان ،اللہ دتہ ( معمار ) ،بشیر احمد ( ٹیلی پرنٹر آ پریٹر )،رمضان ( ٹیلی فون آپریٹر ) ،بابا لال دین ،بشیر( کریانہ والا )،چاچا عاشق،فضل حسین (ویکسی نیٹر )،اللہ یار ( بڑھئی ) ،کرم دین ( ترکھان ) ،چودھری کرم حسین ،مپال ( موچی )،ٹلی جفت ساز،خالق شاہ،گامی جولاہا، ریاض گلشن،احمد یار ملک،رشید ،کالا خان ،مجید اورپانجا شامل ہیں ۔
منشی کھان ایاز نے عالمی کلاسیک اور پنجابی ادب کا وسیع مطالعہ کیا ہے ۔پنجاب کی رومانی داستانوں میں اُس کی دلچسپی کااندازہ اِس اَمر سے لگایا جاسکتاہے کہ اُسے اِن داستانوں کے کئی حصے زبانی یادہیں۔جن ادب شناس ہستیوں کا ابھی ذکر کیا گیا ہے زندگی بھر اُن کامعمول تھا کہ وہ منشی کھان ایاز سے پنجاب کی منظوم رومانی داستانیں سنتے تھے۔داستانیں سننے و الے خواب عدم میں ہیں اور ترنم سے داستانیں سنانے والا خودکسی بُھولی بسری داستان کا ایسا اجنبی کردا ربن چُکاہے جو اِس شہر ناپرساں کے نئے مکینوں کے لیے نامانوس ہے ۔سال 2021ء میں کرونا کی وبانے پوری دنیاکو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔اس عرصے میں منشی کھان ایاز نے کسی افعی بروٹس کی پروا نہ کی اور ایک شانِ استغناکے ساتھ یہ کٹھن وقت گزارا۔ وادیٔ خیال کی اجنبی منزلیں مستانہ طے کرنے کا عزم لیے یہ پر اسرار شخص صبح دَم گھر سے نکلتااور زندگی بے صرف گزارتا رہتا۔ ہر چند لوگ اس پر طنز کرتے اور کھودکھود کر اس کے مسائل کے راز جاننے کی سعی کرتے مگر یہ چپکے چپکے گزر جاتا اور کسی کو اس کے آنے اور جانے کی کانوں کان خبر نہ ہوتی۔وہ جانتا تھا کہ چاہے لوگ کچھ کر لیں اُسے ترکِ دنیا سے ہٹا نہیں سکتے ۔ ظاہر بین لوگ اس آزردہ مزاج فقیر کے ساتھ چندے تکلف سے رہتے مگر یہ پُر اسرا شخص سدا یہی کہتاہے کہ اُس نے زندگی کے باقی چند نفس اپنی مرضی کے مطابق فقیرانہ انداز میں بسر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
منشی کھان ایاز نے جھنگ میں مقیم پنجابی زبان کی اَن پڑھ اور ضعیف شاعرہ اماںفضلاں کی بہت خدمت کی ۔ اماں فضلاں کاکچھ پنجابی کلام آپا بشیراں اور اُس کے شوہر لالہ مرادکو بھی زبانی یاد تھا۔آپا بشیراں اور اُس کے شوہر لالہ مراد اولادِ نرینہ سے محروم تھے۔اُن کی تین بیٹیا ں رخسانہ ،شبانہ اور نجمہ تھیں ۔ رخسانہ کی شادی لاہور میں ہوئی ،شبانہ نے جھنگ میں اپنا گھر بسایا جب کہ نجمہ سرگودھا میں اپنے سسرال کی ہو گئی ۔ خوش حال گھرانوں میں بیاہی گئی ان بیٹیوں کو اللہ کریم نے اولاد کی نعمت سے نواز ا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ اس گھرانے کے بارے میں واقعات کو بھول گئے ۔بیٹیوں کی شادی کرنے کے بعددو برس قبل آپا بشیراں اور اُس کے شوہر لالہ مرادبھی ایک ماہ کے وقفے سے یکے بعد دیگرے راہی ٔ مُلک عدم ہو گئے اور کر بلا حیدری ( جھنگ ) کے شہر خموشاں میںاپنی بستی بسالی ۔ وہ مکان جو آپا بشیراں اور اُس کے شوہر لالہ مراد نے خون پسینہ ایک کر کے تعمیر کیا تھاصرف پندرہ لاکھ میں بِک گیا۔تینوں بہنوںنے یہ رقم آپس میں بانٹ لی ۔فروری 2022ء کے وسط میں رخسانہ نے لاہور میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔منشی کھان ایاز نے اماں فضلاں کے پنجابی کلام کو محفوظ کرنے کی خاطر بہت محنت کی ۔آپابشیراں کے خاندان کے اکثر افراد کو اماں فضلاں کاپنجابی کلام زبانی یاد تھا ۔ اضطرار،منشی کھان ایاز ،عبدالغنی ظروف سازاور یارا سازندہ نے یہ کلام محفوظ کرنے کے لیے بہت محنت کی ۔ شبانہ نے مجھے بتایاکہ اُس کی مرحومہ خالہ کا نوجوان بیٹا اضطرار ذہنی توازن کھو بیٹھاہے اور منشی کھان ایاز کے ساتھ مِل کر کوڑے دانوں سے کار آمد اشیاچُن کر کباڑیوں کو بیچ کر پیٹ کادوزخ بھرتاہے۔ منشی کھان ایازکو گمان تھا کہ عفونت زدہ کوڑے دانوں میں ایسی پاشکستہ اُمنگیں اور خواب بکھرے ہیں جن کی حقیقت سے سرِ راہ چلنے والے بے خبر لوگ آگاہ نہیں ۔اپنے قلب ِ حزیں کی بھٹی میں وہ اِن خوابوں ،تمناؤں اور خواہشوں کو گرم کر تا تھا تا کہ اِن پر جما زنگ اورغبار ختم ہو جائے اور ان کے نقوش پھر سے اُجا گر ہو جائیں ۔اضطراراور منشی کھان ایازاپنے بکھرے خواب تلاش کرنے نکلتے ہیں تو انھیں کُوڑے دان سے بے بس لوگوں کے منتشر خواب مِل جاتے ہیں۔ عجیب شعبدہ ہے کہ اِن دنوں ان کی گزر اوقات کاواحد آسرا یہی خواب ہیں ۔ کُوڑے دان سے مفت خواب اُٹھا کر دُھپ سڑی کے کباڑی کے پاس بیچنے کے بعداضطرار اماں فضلاں کے لکھے ہوئے گیت گاتاہے ۔
اساں بے درداں نال لائیاں اکھیاں جَل بھریاں
اساں لاکے توڑ نبھائیاں اکھیاں جَل بھریاں
پُھلاں بھری بہار وِچ سجن وِچھڑ گئے
او ہ رُتاں وَل نہ آ ئیاں اکھیاں جَل بھریاں
منشی کھان ایاز اس حقیقت سے آگاہ تھاکہ عہد ِطرب کی یاد میں گریہ و زاری کرنے والی ظلمت بہ دوش زندگی بسر کرنے والی اماں فضلاں نو آبادیاتی دور کے کئی رازوں کی امین تھی ۔اُس نے اپنے عہد کے جن ممتاز ادیبوں اور شاعرات کو دیکھااُن میں اقبال زخمی ،اُستاد دامن ،اشفاق احمد، ادا جعفری ، سارا شگفتہ ، منصورہ احمد،بانو قدسیہ ،پروین شاکر رضیہ بٹ ،فہمیدہ ریاض ،قرۃ العین حیدر ،شبنم شکیل،اور فہمیدہ ریاض شامل ہیں۔ ایک ملاقات میں اماں فضلاں نے شریف خان کو بتایا کہ مستریاں والی بستی میں شاکا نامی ایک مزدور اپنی بیوی تاشی کے ساتھ رہتا تھا۔اُن کی دو بیٹیاں اوردو بیٹے تھے ۔بچوں کاگھر بسانے کے بعدشاکا نے شہر خموشاں میں اپنا الگ گھر بسالیا ۔اس کے ایک برس بعدادھیڑ عمر تاشی نے گھریلو حالات سے تنگ آ کر بھیک مانگنا شروع کر دیا۔اماں فضلاں نے بتایاکہ وہ ایسے بہت سے بوڑھوں اور ضعیف عورتوں کو جانتی ہے جورازدارانہ انداز میں متمول گھرانوں سے بھیک مانگتے ہیں ۔اماں فضلاں نے سوداؔ کے انداز میں ہجویات بھی لکھیں جو لوگوں کو زبانی یاد ہیں ۔مرضی پورہ کی کچی بستی میںبہرام ٹھگ کے پڑپوتے اور تشفی مَل کنجڑے کے نواسے ’’ شینا ‘‘ کی لُوٹ مار سے لوگ تنگ آگئے ۔منشی کھان ایازکا نیامکان اسی بستی کے مشرق میںواقع ہے ۔ممتاز ماہر تعلیم محبوب علی خان جو سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور منتقل ہوگئے ہیں گزشتہ صدی کی ستر کی دہائی میں اسی بستی مرضی پورہ میں رہتے تھے ۔ جس مقام پر اس وقت جھنگ کا جنرل بس سٹیند ہے سال 1970ء سے پہلے یہاںگورنمنٹ ہائی سکول کے کھیل کے میدان ہوتے تھے ۔ جنرل بس سٹینڈسے ملحق کچی آبادیوں مرضی پورہ ،رشید چوک اور رسول پورہ کے علاقے میں ماضی کی جن اہم شخصیات نے قیام کیااِن میں چودھری ظہور احمد، امتیاز ( ماہر شماریات) ،ڈاکٹر اعجاز ( ماہر امراض گردہ ) ،زائر حسن ( ماہر جغرافیہ ) ،مشتاق بخاری( ماہر طبیعات) ،عبدالرشیدخان،نواز جناح( ماہر حیاتیات ) ،مظہر خان ،سیف اللہ ،لطیف سپرا،قاضی ذوالفقار،ممتاز بلوچ، اللہ داد،سرفراز سیال ،رفیق وِرک ،مٹھومغل ،لال خان ،غلام حُر ،بشارت وقار اور شبیر شاہ شامل ہیں ۔مشکوک نسب کا سفاک درندہ اور اُجرتی بد معاش ’ ’ شِینا ‘‘طویل عرصے سے مردودِ خلائق تھا۔ اس سفاک ڈاکو نے مجبوروں کو اس قدر نڈھال کردیا کہ شب کی بانوکی آمد کے بعد مسافروں اور مجبوروں کااپنے گھروں سے نکلنا محال ہو گیا۔ اماںفضلاں اور منشی کھان ایا ز کو اِس بات کا قلق تھا کہ چھوٹے جرائم کا ارتکاب کرنے والے کم زور اور چھوٹے چور تو دھر لیے جاتے ہیں مگر ’’ شینا‘‘ جیسے ڈاکو قتل و غارت گری میں ملوث ہونے کے باوجود دندناتے اور ہنہناتے پھرتے ہیں اور کوئی اُن کو لگام ڈالنے والا نہیں ۔
منشی کھان ایاز اِس بات پر خوش تھا کہ اماں فضلاں کے طنزیہ و مزاحیہ کلام میں جہاں زندگی کی نا ہمواریوں اور بے ہنگم تضادات کا ہمدردانہ شعور پایا جاتاہے وہاں حشو و زائد کا کہیںشائبہ نہیں ہوتا۔ مرضی پورہ میں مقیم عادی دروغ گواور پیشہ ور ٹھگ شینا کے قبیح کردارکے بارے میں اماں فضلاں کااندازِ تخاطب گہری معنویت کا حامل ہے۔ ایک رذیل شخص کے قبیح کردار کی بد اعمالیوں کے باوجود اُس ننگ انسانیت درندے سے نفرت کا انداز بے ساختہ اور فطری ہے ۔استعارات،تلمیحات اور تراکیب کے بر محل استعمال سے شاعرہ نے اس ہجو کو عبرت کا تازیانہ بنا دیاہے ۔آخری عہدِ مغلیہ سے تعلق رکھنے والی امتیاز محل لا ل کنور ( 1691- D:1759 B: )کا تعلق عیاش اور منشیات کے عادی مغل بادشاہ جہاں دار شاہ ( عہد حکومت: 1712-1713) سے تھا۔زہرہ کنجڑن نے لال کنور کی سہیلی ہونے کی وجہ سے قصر شاہی میں بہت عیاشی اور لُوٹ مارکی کی اور منتظر ملکۂ ہند بن بیٹھی ۔مملکت روس سے تعلق رکھنے والی ملکہ الیکزنڈرا( : 1872-1918 Alexandra Feodorovna) کا تعلق رسوائے زمانہ جنسی جنونی راسپوٹین ( 1869-1916 :Grigori Rasputin )سے تھا۔قدیم زمانے کی یونانی شاعرہ سیفو(Sappho : c 630-c570 BC) اور برطانوی ناول نگار،مضمون نگاراور ناشر ورجینا وولف ( 1882-1942 :Virginia Woolf ) کی جنسی بے راہ روی کا بڑے معنی خیز انداز میں ذکر کیا گیا ہے ۔ اصلاح اور مقصدیت کو پیشِ نظر ر کھتے ہوئے شاعرہ نے شِینا جیسے سفاک درندے کے جبر اور مکر کے کریہہ چہرے سے پردہ اُٹھایا ہے ۔ اہلِ نظر اِس حقیقت سے آ گاہ ہیں کہ سیفو اور ورجینا وولف کا انجام کیا ہوا۔ سیفو غروبِ آفتاب کے وقت جزیرہ لیو کاس کی سفید چٹان کی بلندی سے بحیرہ روم میں چھلانگ لگا کر یقینی موت کے منھ میں چلی گئی تھی اور اٹھائیس مارچ 1941ء کوورجینا وولف نے اپنے کوٹ کی جیب میں پتھر ڈال کر شمالی یارک شائر برطانیہ میں اپنے گھر کے نزدیک بہنے والے دریائے آؤز میںکُود کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔اماں فضلاں نے یہ باتیں پروفیسر ارشد چودھری ( متوفی : مارچ 2023ء ) اور پروفیسر فرخ زہرا گیلانی سے سنی تھیں ۔ بہرام ٹھگ ، رابی ،پونم ،رمجانی ٹھگ ،گنوا رانتھک ،زادو لُدھیک،ظلی ،صباحتی اور ناصف بقال قماش کے سفہا اور اجلاف و ارذال کے گروہ سے تعلق رکھنے والا شِینااپنی خست و خجالت کی وجہ سے معمر شاعرہ اماںفضلاں کی نفرت و حقار ت کا موضوع بن گیا۔ زندگی کا ساز بھی منفرد قسم کا ساز ہے جو پیہم بجتا رہتاہے مگر کوئی بھی اِس ساز کی آواز پر کان نہیںدھرتا۔ زندگی کے پُر اسرار ساز کی یہی آواز جب ایک لمحے کے لیے تھم جاتی ہے تو یوں محسوس ہوتاہے کہ انسان کے تجربات ، مشاہدات ، جذبات اوراحساسات اس قدر لا محدود ہیں کہ وہ حدِ ادراک سے بھی آ گے نکل گئے ہیں۔ لوگ کہتے تھے کہ انسانیت پر کوہ ِ ستم توڑنے والا ’’ شینا ‘‘ جیسا ضمیر فروش جو زمین کا بوجھ بن گیا تھا،اُس کو تو مرجانا چاہیے ۔ذیل میں شینا کے بارے میں اماں فضلاں کی لکھی ہوئی اِس ہجو کا وہ اقتباس پیش کیا جا رہاہے جو منشی کھان ایاز کو بہت پسند تھا :
مرضی پورہ دی بستی وِچ ہِک ٹھگ وَسدا ہے شِینا
بھیڈ دے لِیڑے پا کے ایہہ بگھیاڑ بنیا بہوں کمینا
لُٹ ،مارتے ٹھگی نال بھریا ایس بہرام خزینہ
رابن ہُڈ دے چور محل وِچ ہے کالے دھن دا دفینہ
لوکائی کرے پَلُوتے ڈُبے ایس مُوذی دا سفینہ
شِینا بُھکھ دے کُڑاب لووے نہ لَبُھس نان شبینہ
نویں الیکزنڈرا ڈھونڈے ایہہ کڑما راسپوٹین
ایس بگھیاڑدی کنڈ تے اَوڑِک وَیلا پیسیں زِین
لا ل کنور تے زُہرہ کُنجڑن دا قصہ اے بہوں پارینہ
ایس اِندر دے اکھاڑے وِچ ہن سیفو تے ورجینا
سجاد حسین ،کوثر پروین ،محمد منیر،خالد،ظفر ،عبداللہ ،احمد دین، ریاض گلشن اور منشی کھان ایاز نے اسلوبی جمالیات کی مظہر اماں فضلاں کی لکھی ہوئی اس ہجو کو بہت پسندکیا۔ شہر کے لوگوں کی رائے سُن لینے کے بعد اس سفلہ درندے ’’ شینا ‘‘ کی سفاکی کے بارے میں نہ تو کچھ لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ اِس موضوع پر مزیدکچھ کہنے کی گنجائش ہے ۔ یہ ایک سیدھااور ساد ا سا مسئلہ ہے کہ اس قماش کے سفہااور اجلاف و ارذال اپنے ہی بد بختانہ طرز عمل کے طوفانوں کی زد میں ا ٓجاتے ہیں اور وقت کے سمندر میں غرقاب ہو جاتے ہیں ۔منشی کھان ایاز کا کہناتھاکہ ضعیف شاعرہ اماں فضلاں نے ’’ شینا ‘‘ جیسے خراب و خوار ابلیس نژادڈاکوکے مظالم اور اُس کے خط و خال کے بارے میں اُس کے حسبِ حال جو خیال باندھے ہیں وہ گزرے ہوئے ماہ وسال کے آ ئینے میں بالکل درست ثابت ہوئے ۔ اُردو اَدب میں طنز و مزاح کے ابتدائی نقوش جو جعفر زٹلی ( 1659-1713)کے اُردو کلام میںملتے ہیں پنجابی شاعری میں ایسی ہجویات اُسی کی بازگشت قرار دی جاسکتی ہے ۔اماں فضلاں کی ہجویات میں پائی جانے والا غیظ و غضب ، تیز دھار کاٹ اور ظلم سے نفرت اُن کے مزاج کاحصہ تھا۔معاشرتی زندگی میں افراد کے باہمی تعلقات کی تفہیم کے سلسلے میں یہ ہجو کئی حقائق کی گرہ کشائی کرتی ہے ۔
آخری عہد ِ مغلیہ، نو آبادیاتی دور اور پس نو آبادیاتی دور میںاماں فضلاں اور منشی کھان ایاز نے اس خطے میں سیاسی نشیب وفراز کو قریب سے دیکھا۔وہ قندھار سے تعلق رکھنے والی سندھ کی ملکہ ماہ بیگم ( پیدائش : 1495ء )،لکھنو کے نواب واجد علی شاہ کی بیگم حضرت محل (1820-1879) ،رضیہ سلطان( D: 1240) ، احمدخان کھرل (1776-1857)،رانی جھانسی( 1828-1858)، بھگت سنگھ ( 1907-1931) ،محرم لک ،دُلا بھٹی ( 1547-1599) اوربرطانوی سامراج کے مخالف مرہٹہ برہمن تانتیا ٹوپ ( 1813-1859 : Tantia Tope) کی بہت بڑے مداح تھے ۔ پس نوآبادیاتی دور میں جن ممتاز خواتین نے اس خطے میں تانیثیت کے حوالے سے اماں فضلاں جن خواتین کی تعریف کرتی تھی اُن میں محترمہ فاطمہ جناح ،بیگم رعنا لیاقت علی خان ،بے نظیربھٹو، بانو قدسیہ ،عصمت چغتائی ،صدیقہ بیگم ،پروین شاکر ،رضیہ بٹ،کوثر پروین ،زاہدہ پروین،ملکہ پُکھراج اور نور جہاں شامل ہیں ۔ اماں فضلاں کہاکرتی تھی کہ جھنگ شہر کے حفاظتی بند کے قریب واقع مستریاں والی بستی پر آ سیب کا سایہ ہے ۔بہرام ٹھگ کی باقیات نے اس منحوس اور ا ٓ سیب زدہ مقام پر اپنے غلیظ پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ یہاں کالی دیوی کے پرستاروں نے ز ندگی کے سب موسم بے ثمر کر دئیے ہیں۔ پس نو آبادیاتی دور میںقحبہ خانے ،چنڈو خانے اور عشرت کدے ممنوع قرار پائے تو اِن ٹھگوں نے گھوم پھر کر لُوٹ مار کا سلسلہ شروع کر دیا۔خرچی کی کمائی سے ان ٹھگوں نے چور محل تعمیر کر لیے ۔
اپنے معتمدساتھی اور پڑوسی شبیررانا کے مشورے پر منشی کھا ن ایاز نے پیشہ ور ٹھگوں اور عیار لٹیروں کے خلاف کُھل کر لکھا۔اتوار۔19۔مارچ 2023ء دو پہر کے وقت ضعیف معلم شبیر کے مہمان خانے کے دروازے پربہرام ٹھگ کے جرائم پیشہ خاندان سے تعلق رکھنے والی نائکہ خاتمہ اور طوائف شاتمہ نے دستک دی ۔اس موقع پر معلوم ہوا کہ خاتمہ کا باپ جو سیاحی وال کی تیامت تفسہہ کا ماموں تھا ایک ماہ قبل ساتوا ںدر کھول کر زینۂ ہستی سے اُتر کرعدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سُدھار گیا۔ نائکہ خاتمہ کی بیٹی کی شادی اُس کے دیور رازو کی اکلوتی اولاد اُمری سے ہو گئی ہے ۔ منشی کھان ایا ز کا کہنا ہے کہ سیاحی وال کا یہ خسیس خاندان ایسے پیشہ ور ٹھگوں پر مشتمل ہے جس نے ہر دور میں اس علاقے میں قتل وغارت اور لوٹ مار کا بازار گرم رکھاہے ۔رذیل طوائف شاتمہ کا بھڑوا شوہر اُف تابی خیاط فطرت کی تعزیروں کی زد میں آنے کے بعد فالج کے مر ض میں مبتلا ہو گیااوراپنے کمرے میں پڑی چارپائی تک محدود ہو چُکا ہے ۔ خاتمہ نے بتایا کہ سیاحی وال میں بیاہی گئی اُس کی بیٹی جو رفو بونگے کی بہو ہے اُس کے ہاں پانچ ماہ قبل دو جڑواں بچے پیدا ہوئے ہیں جن میں ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے ۔ سیاحی وال سے تعلق رکھنے والے آہمی رضو نے اپنے ماموں رمجانی ٹھگ کی بیٹی سمن کو طلا ق دے دی اور اپنی چار سال کی بیٹی سمک کو بھی گھرسے نکا ل دیا۔سمن نے سبزباغ کے ایک جاگیر دار نوجوان مُرتی سے شادی کر لی اور اپنے ماموں کے بیٹے آہمی رضوکی اولاد اور اپنی بیٹی سمک کو بھی اپنے ساتھ اپنے سسرالی گاؤں سبز باغ لے گئی ۔ سبز باغ میں سمن کی یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں پیدا ہوئیںجن میں سے ایک چل بسی ۔ رمجانی ٹھگ کی دو بیٹیاں سبز باغ میں خوش حال زندگی بسر کر ر ہی ہیں اور آہمی رضو کی بیٹی سمک انھیں بن مانگے مِل گئی ہے یوں جاگرداروں کو سمک کی صورت میں ایک نو خیز کلی دستیاب ہو گئی ۔ چھے ما ہ قبل بر یام ٹھگ کی بیٹی شہانہ کے بیٹے آہمی رضوکی دوسری بیوی نے ایک بچی کو جنم دیا ۔ آہمی رضو کی بہن ہمیری معلمہ جسے رمجانی ٹھگ کے کپوت گنوار انتھک نے طلاق دی تھی اُس نے بھی سرگودھا میں اپنی پسند کی شاد ی کر لی مگر تین سال گزرنے کے بعد بھی اُس کے آ نگن مین کوئی پھول یا کلی نہ کِھل سکی ۔ رمجانی ٹھگ کا بیٹاگنوار انتھک جس نے اپنے ماموں کی بیٹی ہُمیری معلمہ کو فارغ کر دیا تھا اور سمی لوہاری سے بیاہ رچا لیا تھا ابھی تک بے اولاد ہے اور ان پڑھ سمی کو ساتھ لے کر جاگیر داروں اور کالے دھن سے عشرت کدے تعمیر کرنے و الے نو دولتیے ٹھگوں کے گھر کے سامنے دُم ہلاتاپھرتا ہے ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ سمی لو ہاری کا باپ دِتو آہن گربھی ساتواں در کھول کر دشتِ عدم کوسُدھارا۔جھنگ شہر میں مقیم آہمی مُگھی رنگ ساز کا بیٹا جازو اپنی بیٹی کو فیصل آباد کے فیضوکے مر حوم بیٹے ریاضی کے بیٹے کی شریکہ حیات بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ شادی کی اِس تقریب میں محافظ اتائی کے خاندان نے آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی اور اُس ضعیف معلم کو فراموش کر دیا جس نے ہر روز شام کے وقت اس خاندان کے افراد کو اِن کے گھر پہنچ کرپرائمری سے ہائی کلاسز تک کسی فیس کے بغیر تعلیم دی ۔جازوکی بیٹی کا شوہر محافظ اتائی کا نواسا ہے یہ وہی جازو ہے جس کی ٹسوے بہانے والی بہن ٹسوں نے محافظ اتائی کی بیٹی تسنیم کو اپنے سسرال سے نکال کر فارغ کر دیا۔ دردمندوں اور ضعیفوںکی چارہ گری کے ذریعے اپنی روح اور قلب ِ حزیں کی تسکین کی سعی کرنا منشی کھان ایاز کا شیوہ ہے ۔منشی کھان ایاز نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا کہ پیمان شکنی ،آوارگی اور محسن کُشی سیاحی وال اور مستریاں والا کے ٹھگوں کی سرشت میںشامل ہے ۔ یہ بے ثبات سر خوشی کے متلاشی ہیں مگر مقدر کی تیرگی سدااِن کا تعاقب کرے گی۔اِن خود غرض اور طوطا چشم درندوں کی مے خانگی کے بارے میں کیا کہا جا سکتاہے کہ تلخ انجامی ٔ بہار سے بے خبر یہ بروٹس اپنے رہینِ ستم رہنے والے محسنوں کو ایک جرعہ تک پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
بیتے لمحات کی چاپ سُن کر عجز و انکسار کے پیکر جہاں دیدہ معلم منشی کھان ایاز نے اپنے دیرینہ ساتھی اور دِل فگار وضعیف معلم شبیر کی خوں فشانیوں کے بارے میں کہا:
’’ ضعیف معلم شبیر کو لوگ علم و ادب کا دائرۃ المعارف قرار دیتے ہیں مگر وہ ہمیشہ یہی کہتاہے کہ وہ تو علم و ادب کا ایک معمولی طالب علم ہے ۔میں نے جھنگ کے ضعیف معلم شبیر کے ہمراہ جب بھی اماں فضلاں سے ملاقات کی ہمارے دِل میںیہی تمنا ہوتی تھی کہ اِس بزرگ خاتون سے کوئی نئی بات معلوم ہو گی ۔ اماں فضلاں کو جب بھی مٹی کے پکے گھڑے ،صحنک ،پیالے ،پرٹوٹے ،کُنّی ،استاوے ،چٹوری یا صراحی کی ضرورت ہوتی تو وہ مستریاں والی بستی جسے لوگ پاپ کی بستی ،نفرت گہہ ِ عالم اور لعنت گہہِ ہستی بھی کہتے ہیں جھنگ شہر میں گھامی ظروف ساز کے پاس جاتی تھی۔وہ مستریاں والی بستی کے کمینے اور جفاکار مکینوں کے بارے میں سب حالات سے آ گاہ تھی ۔ یہاں کے جن بروٹس قماش مکینوں کو میں اچھی طرح جانتاہوں اُن میں بریام ٹھگ ،محافظ اتائی ،تشفی کنجڑا،گُلو ،ہَکُواور ناسُوشامِل ہیں۔ اِن جفا پیشہ سفاک درندوں نے یہاں کے کوچوں کو جذبات ،احساسات اور افکار کے مذبح میں بدل دیاہے ۔سال1971ء میں پور ے علاقے میںجس نوجوان نے اعلا تعلیم حاصل کر کے شعبہ تدریس کواپنایاوہ شبیر ہی تھا۔میں نے اور اماں فضلاں نے اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنا پر اِس نوجوان فطین معلم کو بہت سمجھایا کہ وہ مستریاں والی بستی کے کیکروں پر انگورکی بیل نہ چڑھائے اور محافظ اتائی کی اولاد کو پڑھانے شام کو اُس کے گھر نہ جائے مگر وہ پیہم دس برس تک ہر سہ پہر کواپنی بائیسیکل پر تین میل سفر کر کے مستریاں والی بستی جاتا اور محافظ اتائی کی اولاد کو کسی فیس اور معاوضے کے بغیر پڑھاتا ۔ یہاں وہ محافظ اتائی کی بیٹی کرخت خانم کو ریاضی اور انگریزی پڑھاتا تھا۔محافظ اتائی کی اولادکے بارے میں مشہور ہے کہ احسان فراموشی اور سادیت پسندی مشکوک نسب کے اِن درندوںکی گُھٹی میں پڑی ہے ۔اگر ایک خارش زدہ بُھوکے سگِ راہ کے سامنے ایک چھیچھڑا پھینک دیاجائے تو وہ بھی اس قدر ممنون ہو جاتاہے کہ دُم ہلاتا پیچھے پیچھے چلا آتاہے مگر محافظ اتائی کی اولاد بالخصوص کرخت خانم کی عفونت زدہ احسا ن فراموشی کا یہ حال ہے کہ یہ اپنے محسن کو کاٹنے کو دوڑتی ہے ۔ محافظ اتائی کی اولاد ایک ایسی چھلنی کی مانند ہے جس میں بے شمار چھیدہیں ۔محافظ اتائی او ربریو پنساری کی اولاد کی برائیوں کے سوتے اِن کی محسن کُشی ہی سے پُھوٹتے ہیں۔احسان فراموشی کا خطر ناک زہر محافظ اتائی او ربریو پنساری کی اولادکے ریشے ریشے میںسرایت کر چکاہے جس کے نتیجے میںیہ انسانیت سے محروم ہو چُکے ہیں۔ یہ بات کبھی فراموش نہ کریں کہ اگر بہرام ٹھگ کی اولاد نے ایک بے بس ضعیف معلم کو لُوٹ لیاہے تو سیلِ ماں کے تھپیڑے ان کا سب اسباب بہا لے گئے ہیں۔جب یہ مست فِیل پہاڑ کے نیچے آئے تو انھیں اپنی اوقات معلوم ہو گئی ۔ شبیر نے اپنا سار ا معاملہ زمانے کے حوالے کردیااور گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی ۔ شبیر کی رہ نمائی میںبروٹس قماش کرخت خانم کی تعلیم مکمل ہوئی تو وہ تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوگئی ۔لوگ کہتے ہیں کہ جب یہ چمن سومرتبہ لُوٹا گیاتوکرخت خانم نے اپنے ہی سکول کے ایک باغبان قاصر سے عقد کر لیا۔ان کے آ نگن میں پھول اور کلیاں کھلتے چلے گئے ۔کرخت خانم پیدائشی طور پر بصیرت سے تہی تھی فطرت کی تعزیروں نے بیس برس کے بعدبصارت سے بھی محروم کر دیا ۔ کرخت خانم کی بینائی رخصت ہوئی تو ملازمت بھی ختم ہوگئی ۔ ٹھگوں کے اس خاندان کی منافقت دیکھ کر سوچتا ہوں کہ کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہر گز نہیں ہوتے ۔بہرام ٹھگ کے خاندان نے بساطِ سیل پہ قصر ِحباب کی تعمیر میں جس انہماک کامظاہرہ کیاہے اُسے دیکھ کر محوِ حیرت ہوں کہ دریاکی متلاطم موجوں میں سراب ہے یا سراب نے دریا کی پُر شور موجوںکو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے۔گنجان آباد شہروں سے دشت کی جستجو کرنے والوں کو نور شاہ بازار جھنگ میں بریام پنساری کی دکان سے گوہر مرادمِل جاتا تھا ۔ بہرام ٹھگ کی اولادبریام پنساری اور محافظ اتائی کے بارے میں شہرکے لوگ کہتے ہیںکہ یہ درندے معاشرے کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ ‘‘
پس نو آبادیاتی دور میں جھنگ میںمستحکم زین کی اولاد نے مکر و فریب کی ایسی بساط بچھائی ہے کہ بڑے بڑے سگھڑ سیانے بھی اِن ٹھگوں کے فریب میں آ گئے ۔اِن عیاروںکی راتیںعجیب انداز سے کٹتی تھیںسر شام گھاتیں ،اس کے بعد مے نوشی اورنصف شب کے وقت بند قبا سے بے نیاز ہو کرساز کی لے پر ہم رقص کے ساتھ لپٹ جانا اور مداراتیں ان کامعمول تھا۔ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو اپنے مکر کی چالوں ،عشوہ ،ناز ،انداز اور غمزۂ غماز سے نوجوان لڑکوں کو فریب دینے میں اس لیے کامیاب ہو گئی کہ نو جوان لڑکے ظاہر ی چکا چونداور ملمع سازی سے آسانی سے مر عوب ہو جاتے ہیں۔ اپنی بوڑھی ماں نائکہ تفسہہ کی تربیت سے ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو نے ایک سو کے قریب نوجوان لڑکوں کی آبائی میراث پر ہاتھ صاف کیا۔ اپنے عشرت کدے وجد و رقص میں مستانہ وار اور بے باکانہ رہنے والی ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنواور اِس کی بہنو ں نے شرم و حیا کو بارہ پتھرکر دیاتھا۔ اس عالم ِ آب و گِل میںخالق ِکائنات نے انسانوں کے لیے بے شمار نعمتیں پیدا کی ہیںمگر محافظ اتائی ،بریو پنساری ،تشفی کنجڑا اور بہرام جیسے ٹھگ جنھیںخود غرضی اور حرص و ہوس نے کُچل ڈالا ہے اُن کی تسکین کبھی نہیں ہو سکتی ۔ اپنے گھٹیا مفادات کی خاطر گرگٹ کے مانند رنگ بدلنے والے بھیڑیے سب اخلاقی اقدار اور تہذیبی معائر کو دریا بُرد کر کے متحد ہو گئے ہیں۔ جھنگ کے ایک ضعیف معلم شبیر کے بیٹے سے منگنی کا ڈھونگ رچاکر پیہم چار برس ( 2017-2020) تک اُسے لُوٹنے کے بعد ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو نے اپنے آبائی قصبے سیاحی وال ہی میں ایک نیا شکار پھانس لیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تین سال قبل ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو نے سیاحی وال کے جس متمول شخص کے نوجوان بیٹے سے بیاہ کا ڈھونگ رچاکر لُوٹااُس کانام رمضوبھٹیاراہے جو سال 1981ء میں مگر مچھ نگر کے سرکاری وسطانی مدرسے میںفنی تعلیم پر مامور تھا۔ رمجانی ٹھگ اور نائکہ تفسہہ کی ٹرانس جنڈر انٹر سیکس بیٹی مصبہا بنو جھنگ کے ایک ضعیف معلم شبیراور سیکڑوں سادہ لوح لوگوں کو تو پلک جھپکتے میں چُونا لگانے اورفریب دینے میں کامیاب ہو گئی مگر اِس بار اُس کا کچا چٹھا سامنے آنے والا تھا۔ شادی کی اگلی صبح رمضو بھٹیارے کے نو جوان بیٹے نے ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کے منھ پر طلاق کا طمانچہ رسید کا اور دُھتکار کر اِس جعل ساز کو اپنے گھر سے نکال باہر کیا۔ بہرام ٹھگ کی نسل سے تعلق رکھنے والی ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کے خاندان کے بارے میں شہر بھر کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ صیّاد اور جلاد سبھی کا تعلق اسی خاندان سے ہے ۔ کاغذ پر لکھے ہوئے شجرہ ٔ نسب اور قریبی رشتہ داروں کی فہرست دیکھ کر کسی بھی شخص کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے ۔تکلم کے سلسلے،طرزِ عمل اور تہذیب ہی سے شخصیت کے اسرار و رموزسے آ گاہی ملتی ہے ۔
منشی کھان ایا ز اور اماں فضلاں نے سدا اِس بات پر اصرار کیا کہ کُوڑے کے عفونت زدہ ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نو چنے اور بھنبھو ڑنے والے خارش زدہ سگان کے غرانے سے گھبرانے کے بجائے خاموشی سے اپنا سفر جار ی رکھنا ہی مصلحت کا تقاضاہے ۔سہ پہر کے وقت خاتمہ اور شاتمہ کے ساتھ یہ نشست اختتام کو پہنچی ضعیف معلم شبیرکے گھر سے کھاناکھا کر نائکہ خاتمہ اور طوائف شاتمہ کسی نئے شکار کو پھانسنے کا منصوبہ بناتی ہوئی اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہوئیں ۔ وہ اِس حقیقت سے بے خبر تھیں کہ صابر و شاکر انسان کی مثال بھی سمندر کے سکون کی سی ہے جہاں کسی بھی وقت ایسا طوفان آ سکتاہے جس کی تلاطم خیز موجیں جو رو ستم کی سب چٹانوں کو غرقاب کر سکتی ہیں ۔ فطرت کی تعزیریں اگرچہ نہایت سخت ہیں مگر یہ تو نوشتۂ تقدیر ہے ۔بہرام ٹھگ کے رذیل خاندان سے تعلق رکھنے والی یہ بِن بُلائی طوائفیں چلی گئیں تو ضعیف معلم سوچنے لگاکہ اماں فضلاں اور منشی کھان ایاز نے سیاحی وال کی اِن رذیل طوائفوں کے بارے میں ہمیشہ صحیح مشورے دئیے ۔ وہ اس بات کی جانب متوجہ کرتے تھے کہ انسان ہر ستم سے بچ نکلتاہے مگر فریب کاری اور ٹھگی کی تیر اندازی روح اور قلب کو چھلنی کر دیتی ہے ۔
منشی کھان ایاز اور اماں فضلاں نے نورشاہ بازار جھنگ شہر میں بہرام ٹھگ کی اولاد کو دیکھاتھا جنھوں نے زندگی کے آخری ایام میں بھی مکر و فریب اور لُوٹ مار کابازارگرم رکھا۔شہر کے سب لوگ اِن ٹھگوں کے قبیح کردار سے آ گاہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ بہرام ٹھگ کے خاندان کے ہر فرد میں ایک خطرناک ڈاکو کی بد روح پنہاں ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ فطرت کی سخت تعزیریں ان کی نیّت کی تصویریں دیکھ کر انھیںخبر دار کر رہی تھیں ۔ اماں فضلاں اور منشی کھان ایاز کہا کرتے تھے کہ ہم اُن ابن الوقت درندوں پر اعتماد اور انحصار نہیں کرتے جو نمک حرام ڈیوڑھی میں چُھپے ہیں اس لیے ہم اُن کی غداری کے وار سے بچ نکلتے ہیں ۔منشی کھان ایاز نے یہ بات بر ملا کہی کہ بہرام ٹھگ کی بے غیرت اولاد جس بے دردی اور سفاکی سے سادہ لوح لوگوں کو لُو ٹنے میں مصروف ہے اُس سے بہتر ہے کہ وہ چوری چکاری کو وتیرہ بنالے ۔جھنگ کے ضعیف معلم شبیرنے بروٹس قماش کے درندوں کو اپنی نظروں سے گِرانے اور ایذا دینے والے سادیت پسندوں کے ساتھ نفرت اور حقارت بھرا سلوک کرنے کی جو روش اپنائی وہ اُس کے کردا ر کی عظمت کی دلیل ہے۔اُس صابر و شاکر انسان نے اشتعال انگیزی ،پچھتاوے ،کینہ پروری اور حسد سے اپنا دامن کبھی آلودہ نہ ہونے دیا۔اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی شقاوت آمیز ناانصافیوں کامعاملہ ضعیف معلم شبیر اپنے خالق کی عدالت میں پیش کر چکاہے اور وہ اسی انتظار میں ہے کہ ظلم کا پرچم کب سر نگوں ہو گااور سیاحی وال کے ٹھگوں کا سفینہ کب غرقاب ہو گا۔ضعیف معلم شبیرکے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ اِسی تکمیل ِتمنا کی خاطر سانس گِن گِن کر زندگی بسر کر رہاہے کہ کب سیاحی وال ،سبز باغ ،مگر مچھ نگر ،کہانیاں کاہ اور خشتاں والی کے گُرگ اپنے انجام کو پہنچتے ہیں ۔ بہرام ٹھگ کی اولاد بر یام پنساری اور محافظ اتائی کے ہاتھوںجھنگ شہر کے ضعیف معلم شبیر کے مکمل انہدام کی الم ناک کہانی کے بارے میں منشی کھان ایاز نے کہا:
’’ گزشتہ پانچ عشروں سے جھنگ شہر کے ضعیف معلم شبیرکے ساتھ میرے گہرے مراسم رہے ہیں ۔ اُس درویش معلم کی عملی زندگی ایک منشور کے مانندہے جو متعدد ر نگ منعکس کرتاہے۔اِن رنگوں میں توحید و رسالت سے قلبی وابستگی خلوص ،مروّت ،وفا ،انسان دوستی ،ایثار اور علم دوستی کے رنگ نمایاں ہیں ۔ چھے جولائی 2017ء کو جب اُس کا نو جوان بیٹا سجاد دائمی مفارقت دے گیا تواُس نے اپنی روزمرہ زندگی کا ظاہری رُوپ بدلنے کی سعی کی ۔اُس کے تکلم کے سلسوں کی کہکشاں سامعین کو بصیرت عطا کرتی ہے ۔ اس جہاں دیدہ شخص نے زندگی بھر خارزارِ حیات کے آ بلہ پا مسافروں کو اُن کی اُمید سے کہیں بڑھ کر حیات و ممات کے اسرار و رموز سے آشنا کرانے کی سعی کی۔ حیف صد حیف کہ اُس نے سیاحی وال سے تعلق رکھنے والے درندوں اوربہرام ٹھگ کی اولاد کو پرکھنے میں جو مہلک غلطی کی اُس کاخمیازہ وہ اَب تک اُٹھا رہاہے ۔ جب وہ بروٹس قماش کے مسخروں کی چُنگل میں پھنس گیاتو میں نے اور میرے ساتھیوں نے اُسے بہت سمجھایاکہ وہ ہوش سے کام لے ،ہوا کا رُخ پہچانے اور بہرام ٹھگ کی نسل سے تعلق رکھنے والے اِن عادی دروغ گواور پیشہ ور ٹھگوں کی عیاری اور ٹھگی کی بساط سے بچنے کی کوشش کرے۔یہ بروٹس اپنے محسن کو اپنے حلقۂ احباب سے ایسے نکال باہر کرتے ہیںجیسے دُودھ سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے۔ مگر اُس نے ہماری بات سُنی اَن سُنی کردی ۔ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنو کے ساتھ اپنے چھوٹے بیٹے کی منگنی کے وقت بھی سارے شہر کے لوگوں نے اُس ضعیف معلم کو روکا۔جب اِن عیاروں کے سب راز کُھل گئے اور بہرام ٹھگ کی محسن کُش اولاد نے ضعیف معلم کوٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تو اُس وقت پُلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چُکا تھا۔اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے بعدمشکوک نسب کے ان سفہانے بے بس و لاچار ضعیف معلم شبیر کے ساتھ جواہانت آمیز سلوک کیا اُس نے بروٹس کوبھی مات دے دی ۔ اپنے معتمدساتھیوں، احباب اور شاگردوں کو نئی فکری جہتیں ،علم و عمل کی ندرتیں اورعجز و انکسار کی لائق تقلید روایتیں سمجھانے والا، خلوص ،وفا،مروّت ،وفااور ایثار کابیکرضعیف معلم شبیر جب دِل کے بازار میں خسارا کرکے اور منافقوں کے ستم گواراکرکے مایوسی کے عالم میں سر بہ زانو بیٹھا تھاتو میں نے کوشش کی کہ اپنی دانش و بینش کو مستحکم رکھتے ہوئے اُسے حقائق کا سامنا کرنے پر مائل کروں۔میں نے نفسیاتی سطح پر اس معلم کا جائزہ لیاتو اُس کی زندگی کے تلخ حقائق نے میرے لبِ اظہار پر تالے لگادئیے ۔ میں نے آلامِ روزگار میں گھرے اس شخص کو جھنجھوڑ کر کہا تھا’’ ہور چُوپو گنے ۔ ‘‘
منشی کھان ایاز کی گفتگو کی درو بست اور تجزیاتی سیلِ رواں پر مبنی یہ بات سُن کر اپنے عہد کے تہذیبی و ثقافتی بحران ،معاشرتی انتشار ،اخلاقی زوال اور آشوب زمانہ پر گہری نظر رکھنے و الے معلم مرزا یامین ساحر نے ایک بلند قہقہہ لگایا اور کہا:
’’ پنجابی کی یہ مشہور ضرب المثل تو دہانِ زخم پیدا کرنے والی اختراع ہے۔ جنگل بیلے ،سیاحی وال ،سبز باغ اور موچی وال کے علاقے میںیہ کثرت سے مستعمل ہے ۔اِس میں مرگِ نا گہانی اور کٹھن حالات کی جمالیات کی نہایت موثراور چونکا دینے والی نفسیاتی سوچ کورو بہ عمل لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہاں مناسب ہو گاکہ نئی نسل کو پنجابی زبان میں مستعمل اِس ضرب المثل کے بارے میں آ گہی فراہم کر دی جائے ۔ سیاحی وال سے تعلق رکھنے والے ایک نو دولتیے رمجانی نے اپنے عزیزوں جھابو،مُرتی ،شیدو،آتواور کھبیب سے مِل کر ٹھگی، منشیات،خرچی اور سمگلنگ سے بہت کالا دھن کمایا ۔بھون ،بھوانہ اور سبز باغ کے علاقوں میں شوگر مِلیں بنیں تو رمجانی نے اپنے سسر تشفی مِل کنجڑے اور اُس کی بیوی امیرن بائی سے مشورہ کیا کہ وہ سبز باغ کی نئی شوگر مِل کے سامنے چار مربع میل کے علاقے پر مشتمل زرعی زمین خریدنا چاہتاہے ۔میں اس سفاک ٹھگ ، طالع آزما لٹیرے ، آدم خورمہم جُو اور پیشہ ور ڈاکو رمجانی کے بارے میں کئی راز جانتا ہوں ۔ اُس نے اپنی نائکہ ساس امیرن بائی سے کہا:
’’تم سب لوگ جانتے ہو کہ کئی بڑے شہروں میں اپنے محلات تعمیر کر چُکا ہوں اور میرے فارم ہاؤس بھی کئی بڑے شہروں کے نواح میں موجود ہیں ۔قحبہ خانے ،چنڈو خانے اور عشرت کدوں سے حاصل ہونے والی کمائی سے میرے پاس اِس قدر دولت جمع ہو چُکی ہے کہ میں فی الفور لب ِ سڑک دو سو ایکڑ زرعی زمین خرید سکتاہوں ۔ میں چاہتا ہوں کی زرعی زمین میں نقد آور فصلوں کی کاشت کاری کے ذریعے دولت کماؤں ۔ جھنگ سے سرگودھا جانے والی سڑک پر گاؤں بھون میں شُوگر مل نے کام شرع کر دیا ہے ۔میں بھون کے علاقے میں شوکر مِل کے سامنے جو زمین خریدوں گا اِس میں گنے کی جدید قسمیں (CPF-250,CPF-251,CPF-253)جو ایوب ایگریکلچر ل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد نے سال 2019ء میں متعارف کرائی ہیں اُن کی کاشت کی جائے گی۔ اس علاقے کے جاہل کسانوں کو کیا معلوم کہ گنے کی اِن قسموںکوآب پاشی کے لیے تیس فی صد کم پانی درکار ہے جب کہ پیداوار مقامی طور پر مروّج قسموں سے چالیس فیصدزائدحاصل ہوتی ہے ۔ مِل کے نواحی علاقوں کے غریب کسان اور محنت کش لوگ میرے کھیتوںکے مزارع بن جائیں گے اور میں مِل کو گنافراہم کرنے والا سب سے بڑا کسان بن جاؤں گا۔مجھے یقین ہے کہ بہت جلد میں یہ مِل خرید لوں گااور اِس کے بعد میں دریائے جہلم اور دریائے چناب کے دو آبہ کے علاقے میں دس کے قریب شوگر مِلیں تعمیر کروں گا ۔اس طرح ملک بھر کی شوگر انڈسٹری پر میرا اجارہ ہوگا۔ ‘‘
معاشرتی زندگی کی اُلجھنوں اور محنتِ شاقہ کے شعور سے بے خبر ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنو نے اپنے بھڑوے باپ کے مستقبل کے منصوبوںکے بارے میں کہا:
’’ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ سو پشت سے قحبہ گری ہمارا آبائی پیشہ ہے اور حرص و ہوس اور فریب جیسے متعدی امراض ہماری گُھٹی میں پڑے ہیں ۔ ہمارا تعلق بہرام ٹھگ کے خاندان سے ہے اور ہمارے آبا عادی درو غ گو ،پیشہ ور ٹھگ اور سفاک قاتل تھے ۔سو پشت سے یہی قحبہ خانے ،چنڈو خانے اور عشرت کدے ہمارے لیے خرچی کا وسیلہ بنے رہے ہیں مگر صنعتی دور میں خرچی کی آمدنی کم ہونے لگی اور ہم کسی نئے جہان کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔سوچتی ہو ں کہ اَب طمع کی تسکین کا کوئی نیا طریقہ تلاش کروں۔لالچ اور گھمنڈنے ہمارے خاندان کے شکھنڈی لوگوں کو پکھنڈی ،بیکار اور عیار بنا دیا ہے ۔ قحبہ خانے اور چنڈو
خانے میں اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کی اذیت و عقوبت کا مجھے شدت سے احساس ہے ۔ میں نے اپنی شادیوں اور منگنیوںکی ڈبل سنچری مکمل کر لی ہے اور نودولتیے عیاشوں سے کروڑوں روپے بٹور لیے ہیں۔ گاجر ،شکر قندی ،مونگ پھلی ،چقندر اور شلجم کے کھیتوں میں گھو منے والے گدھے خوب جانتے ہیں ثمر ِنو رستہ کا لطف کیا ہے ۔ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ ہمارے جسم کا حُسن ڈھلنے لگاہے توہم اب ہم جاہ و جلال کے رعب و دبدبے اورزرومال کی چکا چوندسے دولت مندعیاشوں کو چُلّومیں اُلّو بنائیں گے۔ اگرچہ معاشرے نے ہمیں شجرِ ممنوعہ قرار دیاہے مگر ہم نے کبھی تنقید کی پروا نہ کی۔ ساری دنیاجانتی ہے کہ دولت ،عیش وعشرت ،عیاشی اور جنسی جنون باہم متصل ہیں۔میرے لیے یہ بات حیران کُن مسرت کا سبب ہے کہ اب ہم اپنا قحبہ خانہ بند کر دیں گے اور خرچی کی کمائی سے ہر شہر میں بڑے بڑے کارخانے لگائیںگے ۔ اس طرح جو منظر نامہ سامنے آ ئے گا اُسے دیکھ کر ہمارے حاسدوں کی آ نکھیں چُندھیاجائیں گی ۔ ‘‘
’’ اونہہ ! باگڑ بِلے کو سدا چھیچھڑوں ہی کے خواب آ تے ہیں۔یہ بھی اچھی رہی ،پِدی تو ابھی پکڑی نہیں مگر پِدی کا شوربہ غٹا غٹ پینے کامنصوبہ بنانا شروع کر دیاہے ۔ یوں ہی خیالی پلاؤ پکاتے رہو اور اپنے فاقہ کش عزیزوں کے بھی کِھلاتے رہو ۔‘‘ تشفی مَل کنجڑے نے اپنی گنجی کھوپڑی کوکھجلاتے ہوئے کہا:’’ سبز باغ ،بھون اور تھون کے قریب اکڑیاں والا ،بیر والا ،پبر والا، مکوڑیاں والا ،جنڈی والا،کری والا ،کیکر والا اور کھجی والا میں مفلس و قلاش خانہ بدوش جُھگی نشینوں کے ڈیرے ہیں ۔صدیوں سے یہی صحرا ملک بھر کے سیکڑوں چوروں، رہزنوں اوراُچکوں کی آماجگاہ رہا ہے ۔ کماد کی کٹائی اور صفائی کے بعد گنا کھیتوں سے شوگر مِل میں پہنچانے سے قبل تمھارے گنے کے کھیتوں کو یہ چور گنے چُو س کر اُجاڑ دیں گے ۔ گاؤں کا گاؤں یہ بات کہتاہے کہ جنڈ ی والا اور اُس کی نواحی جُھگیوں کے چور اِس قدر عیار ہیں کہ وہ محنت کشوں اور کسانوں کی کوئی فصل کھیت سے کھلیان تک پہنچنے ہی نہیںدیتے ۔ میں سمجھتا ہوں تمھارا منصوبہ اس لیے ناکام ہوگا کہ کماد کے کھیتوں کو جنڈی والا کے چوراور بد معاش بھیانک تاریک رات کے سناٹے میں گنے چُوس چُوس چُوس کراُجاڑ دیں گے ۔ جب کماد کے تمھارے موہوم کھیتوں میں گنے ہی نہ ہوں گے اور اِ ن خراباتوں میں خاک اُڑے گی تو شوگر مِل میں کیا لے کر جاؤ گے؟ تمھاری بے سروپا باتیں سُن کرشہر کے لوگ تمھیں شیخ چِلّی کہہ کرپکارتے ہیں۔ ‘ ‘
اپنے جعلی حُسن کی چکا چوند سے پتھر میں جونک لگانے کی ماہر ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنو نے کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے کہا:
’’ میں نے بیس سال کے عرصے میں خرچی کی کمائی سے جو زرومال کمایا وہ سب میں نے زرعی زمین کی خریداری ، زمین کی تیاری، ٹریکٹر اور ٹرالیوں کی خریداورفارم ہاؤس میں گنے کی کاشت پرخرچ کر ڈالی۔آہ! سیاحی وال کا ہماراآبائی قحبہ خانہ جس میں عیاش امرا کاتانتا بندھارہتاتھا میری نانی امیرن بائی،میری ماںنائکہ تفسہہ ،بہنوں شگن اور سمن کے بوڑھاہونے کے بعدوہاں اُلّوبولتا ہے ۔میری عمر بھی اب چالیس سال ہو چُکی ہے اور میں اپنے دیوانوں کوفریب دینے کے لیے کب تک مشاطہ کی لیپا پوتی پر انحصارکر سکتی ہوں۔ جنڈی والا کے خانہ بدوش فاقہ کشوں نے ہمارے گنے کے سر سبز و شاداب کھیتوں سے گنے چوری کیے اور سڑک کے کنارے بیٹھ کر گنے چُوستے رہے ۔ اِن موذی ،مکار اور چور خانہ بدوشوں نے ہمارے منصوبوںکو ناکام بنایا اور کمادکے ہر ے بھرے کھیتوں کو ویران کر کے اپنی موت کو دعوت دی ہے ۔میں لا ل کنور ،زہرہ کنجڑن ،تفسہہ اور امیرن بائی کے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں ۔میں تیامت اور کالی دیوی کی پجارن ہوں اور میں ایسی زہریلی ناگن ہوں جس کا کاٹا پانی تک نہیں مانگتا۔ہمارے کماد کے کھیتوں کو اُجاڑنے والے جنڈی والا کے خانہ بدوش چور اب ہمارے انتقام سے بچ نہیںسکتے ۔ ‘ ‘
دریائے جہلم اوردریائے چناب کے دوآبہ کے علاقے اور جنڈی والاکے گِرد و نواح میں مقیم پیشہ ور چوروںسفاک رہزنوں اور ٹھگوںکی ڈکیتی کے بارے میں تشفی مَل کُنجڑے اور ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنو کی باتیں سُن کر رمجانی ٹھگ کی گدلی آ نکھوں میں غلیظ خون اُتر آیا،وہ آ گ بگولا ہو گیا اور غرایا:
’’تمھاری جلی کٹی باتوں نے میری مخمور آ نکھیں کھول دی ہیں اور میں نے دس مربع کلو میٹر کے علاقے میں پھیلے اپنے کماد کے کھیتوں کو اُجڑتے دیکھ لیا ہے ۔میں نے دیکھا ہے کہ جنڈی والا کے کھلنڈرے لڑکے میرے کھیتوں سے گنے توڑ کر چُوس ر ہے ہیںاور اُنھوں نے گنے کے چھلکے میرے گھر کے سامنے بکھیر دئیے ہیں۔ رات کی تاریکی میںان چوروں نے گنے سے لدی ہوئی میری ٹرالیوں اور ٹرکوںسے سارے گنے کھینچ لیے اور سڑک کے کنارے بیٹھ کر گنے چُو ستے رہے۔ جُگت اور پھبتی میں مہارت رکھنے والے یہ عیار شب بھر میرا مذاق اُڑاتے ر ہے ۔ میںبھی کالی دیوی کا متوالا ہوں میری راہ میںجو دیوار بنے گا وہ نہیں رہے گا۔ میں اِن چوروں کے ساتھ ایساسلوک کروں گا کہ اُن کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ اس وقت دوپہر کا وقت ہے جن لوگوں نے میرے سر سبز وشاداب کھیتوں کے گنے چُرا کر چُوسے ہیں میں اُنھیںدِن میں تارے دکھا دوں گا۔‘‘
یہ کہہ کراُس نے اپنے شریک جُرم ساتھیوں جھابو،عتابی ،مرتی، نازی ،رضو ،فاذو، روفی اور کئی کرائے کے بد معاشوں اوراُجرتی ٹھگوں کو ساتھ لیا اور جنڈی والا کی جھگیوں پر دھاوا بو ل دیا ۔ پچاس کے قریب ٹھگوں کایہ مسلح جتھا مغلظات بکتا ہوا جنڈی والا پہنچا۔جنڈ ی والا پہنچ کر شکھنڈی رمجانی نے سب جُھگی نشین خانہ بدوشوں کو بُلایا ،جب جنڈی والاکے سب فاقہ کش ،لاغر اور خستہ حال مزدور ایک میدان میںاکٹھے ہو گئے تو شکھنڈی رمجانی کے حکم پر اُس کے ساتھ آئے اُجرتی بد معاشوںنے مزدوروں کو بے تحاشا مارنا شروع کر دیا۔بے بس خانہ بدوش ایک نودولتیے سے پِٹ رہے تھے اور چیخ پکار کر کے اپنا قصور پُوچھ رہے تھے ۔رمجانی کے منھ سے جھاگ بہہ رہا تھااور وہ غراتے ہوئے کہہ رہا تھا’’ ہو ر چُوپو گنے ۔‘‘
رمجانی جو ہر وقت نشے میں بدمست رہتاتھا اُسی وقت اپنی لے پالک بیٹی ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنو کو ساتھ لے کر سیاحی وال میں اپنے سسرا ل پہنچا۔ رمجانی نے رازدارانہ لہجے میں تشفی مَل کنجڑے سے کہاکہ انھوں نے اپنے اعدا کاخوب مکوٹھپ دیاہے ۔
قحبہ خانوں ،چنڈو خانوں اور عشرت کدوں میں اپنے زندگی بھر کی کمائی لُٹوادینے والے درماندہ ،پریشاں حال ،دِل شکستہ اور کِرچیوں میں بٹے لوگوں کے مطالعہ ٔ احوال میں گہری دلچسپی رکھنے والے ماہر علم ِ بشریات مرزایامین ساحر نے اس سارے معاملے کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا:
’’برصغیرمیں نوے سالہ غلامی نے اس خطے کے باشندوں کو ایک مستقل نوعیت کے احساس کم تری میں مبتلا کر دیا۔پس نوآبادیاتی دور میں بھی احساسِ کم تری اوربے حسی کاعفریت ہر سُومنڈلا رہاہے ۔تیسری دنیاکے باشندوں کی سادگی کا یہ حال ہے کہ مشکوک نسب کے پیدائشی بہرے شکھنڈی مُوذیوں سے یہ توقع وابستہ کر لی گئی ہے کہ وہ آلام ِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پِسنے والے قسمت سے محروم بے بس و مجبور انسانوں کی چیخ پکاراورآہ وفغاں سُن کر کے مرہم بہ دست اُن کے پاس پہنچیں گے ۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اورکیاہے کہ پس نو آبادیاتی دور میں لُولے لنگڑے اور اپاہج طفیلی مرغانِ باد نُمانے مفادات کے جواہر سمیٹنے کی خاطر لمبی دوڑ،چھلانگوں ،بھاری وزن اُٹھانے اور نیزہ بازی کے لیے کھیل کے میدانوں کواپنی جولاں گاہ بنانے کا تہیہ کر رکھاہے۔ چورمحل میں پروان چڑھنے والے چور دروازے سے گُھس کر گنجِ قارون پر ہاتھ صاف کرنے والے گنجے بروٹس اپنے عفونت زدہ ہاتھوں میں سادیت پسندی کی کنگھی لیے اپنی گنجی کھوپڑی پر مانگ نکالنے میں انہماک کامظاہرہ کر رہے ہیں۔وہ طوطا چشم سفہا اوراجلاف و ارذا ل جنھیں لُکنت کے عارضے میںمبتلا ہونے کے باعث بات کرنے کا ڈھب تک نہیں آتاوہ بھی سات سُروں میں اپنی بے وقت کی راگنی اَلاپ کر سادہ لوح لوگوں کوسبز باغ دکھاتے ہیں اور اُن کے کانوں میں خس ٹھونستے ہیں۔ بے فکری کے اُڑن کھٹولوں میں جُھولے لینے والے موسیقی کے کور مغز شائقین یہ کچے پکے راگ سُن کرسر دُھنتے ہیں اورخوشی سے پُھولے نہیں سماتے ۔جب وقت اِن مُورکھ شائقین کی دُھنائی کرتاہے تو اپنی جگ ہنسائی پر وہ بے سُرے بھانڈوں کی بھونڈی چال کے بارے میںسوچ کر کفِ افسوس مَلنے لگتے ہیں۔ اِس بے حِس معاشرے میںایسے ابلہ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیںجو زندگی کے سفر میں اُن ٹھگوں کوبدرقہ سمجھتے ہیںجو خود بصارت سے یکسر محروم ہیں۔ عالم ِ مدہوشی میں اپنے محبوب کو وڈیو کالز کرنے ، عریاں فلمیں دیکھنا اور گُھپ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مارنا بصار ت سے محروم اِن ٹھگوں کاوتیرہ ہے ۔یہ سب ایسے کواکب ہیں جن کی اصلیت کسی کو معلوم نہیں ۔ اِن عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگوں کی پوری زندگی پیمان شکنی،محسن کُشی اورفریب کاری کے واقعات سے لبریز ہے ۔ِ،،
منشی کھان ایاز نے یہ سب باتیں نہایت توجہ سے سنیںاور جواب میں آہ بھر کر کہا:
’’حجام جنگلہ ،چک مویشیاں والااور مستریاں والی بستی پرتو کسی آسیب یاعفریت کا سایہ ہے ۔سیاحی وال کی رذیل طوائف ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنواور اُس کی ہم مشرب و ہم راز سہیلی کرخت کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ سب بھی عریاں امریکی فلموں کی اداکارہ سٹورمی ڈینیلز ( Stormy Daniels) کی پیروکار ہیں ۔ جن کے مقدر میں ڈُوبنالکھا ہوتاہے وہ سفینوں میں بھی غرقاب ہو جاتے ہیں۔سال 2006ء میںساٹھ سالہ امریکی ڈونلڈ ٹرمپ ( B,14-06-1946:Donald John Trump ) کواس تین بار مطلقہ ستائیس سالہ سٹورمی ڈینیلز نے اپنی ناگن زلفوں کا اسیر بنالیا اور دونوں مست باہمی رضامندی سے بندِ قبا سے بے نیاز ہوکر جنس وجنوں کی دلدل میں دھنس گئے۔خودستائی کا عادی عیاش سابق امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ اس وقت تک تین شادیاں کر چکا تھا۔اپنی بے پناہ دولت پر گھمنڈ کرنے والے اِس گُرگ کاجنسی جنون تو مغل بادشاہ جہاں دار شاہ اور محمد شاہ رنگیلے سے بھی بڑھ گیاتھا۔ سال 2016ء کے امریکہ کے صدارتی انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے پینتالیسویںامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ( 20-01-2017 To 20-01-2021:Donald John Trump )نے اس رذیل امریکی طوائف کو اپنی زبان بند رکھنے کے لیے ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر( $130,000 )کی خطیر رقم ادا کی ۔ سال 2022ء میںسٹورمی ڈینیلز نے چوتھی شادی کر لی اور اپنی زبان بندی ختم کرکے سابق امریکی صدرٹرمپ کے خلاف مقدمہ کر دیا۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کوبہا لے گئے اورچار۔ اپریل 2023ء کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں ہٹن نیویارک کی ایک وفاقی عدالت نے فرد جُرم عائدکر دی ۔ ایک اور جنسی تعلق میں ڈونلڈٹرمپ کاخفیہ بچہ ہے جس کاعلم ٹرمپ ٹاورکے چوکیدار کو ہے ۔ ڈونلڈٹرمپ کی طرف سے رقم ملنے کے بعدٹرمپ ٹاور کے چوکیدارنے لبِ اظہارپر تا لے لگالیے ۔ ڈونلڈٹرمپ کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اُس نے پلے بوائے میگزین میں ماڈل کی حیثیت سے کام کرنے والی کیرن میکڈوگل (Karen McDougal) کو بھی ($280,000 ) بھاری رقم ادا کی تا کہ دس ماہ کے عرصے پر محیط اُس کا جنسی جنون ظاہر نہ ہو۔ امریکہ کی ریاست انڈیانہ سے تعلق رکھنے والی اِس باون سالہ ماڈل نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دو سال تک ( 2006-2007) کے عرصے میں اُس سے جنسی تعلق رکھا۔ بیس سال کی عمر میں ماڈلنگ کی دنیا میںقدم رکھنے والی اس امریکی حسینہ کو سال 1998 ء میں سال کی بہترین پلے میٹ کا ایوارڈ ملا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی جنسی ہوس کایہ عالم تھا کہ وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود ایک ماہ میں کم از کم پانچ بارکیرن میکڈوگل سے ملنے کے لیے اُس کے ہاں پہنچتا تھا۔ ہوس اور جنسی جنون کی مجبوریاں اِس قدر حیران کُن ہوتی ہیں کہ طوائفوںکے آشنا خوداُنھی سے راز چُھپانے اور اپنے سینے میںدفن کرنے کی خاطر بھاری رقوم خرچ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ طوائفوں کے تیر ستم سہنے والوں کی مثال اُس گٹھڑی کی ہے جس میں چوروں نے نقب زنی کے بعدگھر بھر کااثاثہ باندھ رکھاتھا۔ موقع واردات سے فرار کے وقت گٹھڑی کو چوروں سے بھی زیادہ جلدی تھی کہ وہ جلد از جلداپنی نئی منزل تک پہنچے ورنہ چوروں کے پکڑے جانے کی صورت میں گٹھڑی کا یہ زرو مال پھر سے اپنے سابق مالک کی کال کوٹھڑی میں بندہوجائے گا ۔اہلِ درد اِن عیاشوں کاالمیہ دیکھ کر یہی کہتے ہیںکہ سیکڑوں دورِفلک ابھی آنے والے ہیںاوراِنھیںاور بھی زیادہ خراب ہونا ہے ۔ سٹورمی ڈینیلز اور مصبہا بنو ایسی عیارطوائفیں ہیں کہ گرگٹ کے مانندرنگ بدلنااوراپنے شکار کواپنے جال میں پھانسنا اور اُن کی زندگیوں کے سب موسموں کو خزاں رُتوں میں بدلنااِن چڑیلوں کاحربہ ہے ۔ انسانی زندگی میں خلوص ،مروّت ،وفا،ایثار اور محبت کی افادیت، اہمیت اور قوت مسلمہ ہے ۔المیہ یہ ہے کہ مصبہا بنو جیسی طوائفیں محبت کا سوانگ رچا کر سادہ لوح لوگوں کولُوٹ لیتی ہیںاور اس کے بعد اُنھیں رُسوا کرتی ہیں۔یہ ہزار ہا افسو س کی بات ہے کہ کسی رذیل طوائف کے ساتھ ایک لمحہ کی نشاط کی خاطر کوئی مردزندگی بھر کی رسوائیاں سمیٹ لے ۔سابق امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کا کہنا ہے کہ سٹورمی ڈینیلز نے محض بھتہ خوری کے لیے اُس پر یہ جھوٹے اور بے سرو پاالزامات لگائے ہیں۔ راجہ اِندر ،محمدشاہ رنگیلا،جہاں دار شاہ ،راسپوٹین اور مارلن برانڈو بھی عیاش تھے مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو سب کو مات دے دی ۔ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر اورنار کلی کی داستان جو ولیم فنچ کی اختراع ہے اَب اُس پر کوئی شخص دھیان نہیں دیتا۔ ‘‘
منشی کھان ایاز نے زندگی بھر پنجابی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھانے کی سعی کی ۔مقامی جولاہے کے بنائے ہوئے کھدر،کھیس اور چادریں اُسے بہت پسند تھیں ۔پنڈی بھٹیاں( پنجاب )کے بہادرسپوت دُلا بھٹی ( 23 July 1547,D: 26 March 1599 B:)کی شخصیت کوقدر کی نگاہ سے دیکھتااوراُسے حریتِ فکر کاایسا مجاہد قرار دیتاہے جس نے مغلیہ دور میں مطلق العنان مغل بادشاہ جلال الدین اکبر( 1542-1605) کے جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔مغل بادشاہ اکبر نے موچی گیٹ ،لاہور کے سامنے بیالیس سال کے نو جوان دُلابھٹی کو سر ِ عام دار پر کھنچوا دیا ۔میانی صاحب لاہور کے شہر خموشاں میں دُلا بھٹی آسودۂ خاک ہے ۔اس سے پہلے دُلا بھٹی کا باپ اور دادا بھی مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے انتقام کی بھینٹ چڑھ گئے مگر انھوں نے حریت ِضمیر کا پرچم بلند رکھا ۔مغلیہ حکومت کے دوران میںنو آبادیاتی دور میں دُلا بھٹی کی یاد میں ’’ لو ہڑی ‘‘ کا تہوار پورے پنجاب میں منایا جاتاتھا۔مٹی کی محبت میں پنجاب کے آشفتہ سر سپوت ہر عہدمیں ایسے قرض بھی ادا کر تے رہے ہیں جو واجب بھی نہیں ہوتے تھے۔منشی کھان ایاز کو قدرتِ کاملہ کی طرف سے دِلِ بیناسے نوازا گیاتھا۔ وہ کہا کرتاتھاکہ دُلا بھٹی نے اپنی جان دے کر یہی پیغام دیاکہ ارضِ وطن کا ہر ذرہ دیوتا ہوتاہے ۔اپنی جنم بھومی کی عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے اپنی جان کی بازی لگانا ہر باضمیر شخص کی ذمہ داری ہے ۔اماں فضلاں نے پنجاب کے بہادر سپوت دُلابھٹی کے بارے میں بتایا :
’’ مغل بادشاہ اکبر کی اہلیہ جُودھابائی کو معلوم ہوا کہ پنڈی بھٹیاں کے علاقے میں دونوجوان کنواری ہندوبہنوں سُندری اور مُندری کے حُسن و جمال کے ہنداور سندھ میں چرچے ہیں۔ سُندری اور مُندر ی عشوہ و غمزہ و ادا سے اپنے مداحوں کوبہت متاثرکرتی تھیں۔حسدکی آ گ نے جُودھا بائی کو جلا دیا اور اُس نے سُندری اور مُندری کو انار کلی کے انجام سے دو چار کرنے کا تہیہ کر لیا۔دلآرام کے ساتھ مِل کر ملکہ نے سُندری اور مُندری کو لاہور میں قصر شاہی میں بادشاہ کی کنیز بنانے کا فیصلہ کیا ۔ مقامی مغل منصب دار کی سازش کے مطابق اُجرتی بدمعاش اور پیشہ ور ڈاکو لاہور سے سُندری اور مُندری کو اغوا کرنے کے لیے پِنڈی بھٹیاں پہنچے ۔دُلا بھٹی اور اُس کے وفادار ساتھیوں نے بہرام ٹھگ کی نسل سے تعلق رکھنے والے اغواکاروں ، چوروں،ٹھگوں اور بدمعاشوں کو للکاراتوسب بد معاش دُم دبا کر بھاگ نکلے ۔ دُلا بھٹی نے جرأ ت سے کام لیتے ہوئے جابر مغل بادشاہ کی لوہڑی ( آفت ِ نا گہانی )کو ناکا م بنا دیا ۔ دُلا بھٹی نے فی الفور اِن ہندو لڑکیوںکے لیے اُن کے خاندان سے دو ہندو نوجوان بھائی منتخب کیے اوردونوں خاندانوں کی رضا مندی سے اُن کو اِس اندازمیں سسرال رخصت کیا جیسے خاندان کا بزرگ اپنی نوجوان بیٹیوں کو اپنے گھر سے رخصت کرتاہے ۔ دونوں بہنیں ایک ہی گھر میں بیاہی گئیں اور یوں دیورانیاں بھی بن گئیں ۔شادی کے موقع پر مہمانوں میں شکر تقسیم کی گئی اورشادیانے بجائے گئے ۔ مغلیہ دور میں اور نو آبادیاتی دور میں ہر سال تیرہ جنوری کو اسی شادی کی یاد میں لوہڑی کا تہوار منایا جاتا رہاہے ۔ اِن کے بارے میںباذوق لوگ یہ کہتے تھیـ کہ حُسن سیرت اورحُسن صورت کایہ امتزاج بہت خوب ہے ۔ شادی کے بعدجب یہ دونوں لڑکیاں اپنے سسرال پہنچیں توگھر کے سر براہ نے بر ملاکہا:
بہکی بہکی نشۂ حُسن میں کھوئی کھوئی
جیسے خیام کی رنگین رباعی کوئی
دِل کے شیشے میں پری بَن کے اُتر آئی ہے
آج گلشن میں نہیں گھر میں بہار آئی ہے
پس نوآبادیاتی دور میںلوہڑی اور دُلابھٹی کے بارے میںسب واقعات ابلق ِایام کے سُموں کی گرد میںاوجھل ہوتے چلے گئے ۔لاہور میں چودہ سال قیام کرنے کے باوجودبادشاہ اکبر پنجاب کے لوگوں کے دِلوں میں جگہ نہ بنا سکااور اُسے دہلی روانہ ہونا پڑا۔پنڈی بھٹیاں شہرکے مرکزی چوک پر آج بھی جلی حروف میں ’’دُلا بھٹی ‘‘ چوک کے الفاظ درج ہیں ۔ تاریخ کے پیہم رواں عمل کے نتیجے میں سر زمین پنجاب کے بہادر وں کی کہانی اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے ۔میں اس کے بارے میں یہی کہوںگی :
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے ‘‘
منشی کھان ایاز توحید و رسالت کے ساتھ روحانی عقیدت اور قلبی وابستگی اور جذبۂ عشق سے ہر پست کو بالا کرنے کا آرزو مند تھا۔زندگی بھر قلزم ِ علم وادب کے ساحل سے صدف چننے والے منشی کھان ایاز نے یہ شعر سُن کر آ ہ بھر کر کہا:
’’ اپنی جنم بھومی اور اہلِ وطن سے قلبی وابستگی رکھنے والے دُلا بھٹی جیسے عظیم لوگ دنیا سے رُخصت ہوجاتے ہیں مگر اُن کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں ۔حریت فکر و عمل کے مجاہد دُلا بھٹی کا نام تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ حیف صدحیف کہ ہوائے جورو ستم کے بگولوں نے اس جری نو جوان کی زندگی کی شمع بجھادی۔جابر مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے دُلا بھٹی پر بے بنیاد الزامات عائدکیے مگر یاد رکھناچاہیے کہ اگرکوئی متعصب مورخ عمر خیام کی رباعی کوطلائی اوراق پررقم کرنے کے بجائے سنگلاخ چٹان پر تحریر کرکے اپنے جی کازیاں کرے توکیاایسے ادبی مورخ کی کور مغزی اوربے بصری کے نتیجے میںعمر خیام کی رباعی میں پنہاں گنجینۂ معانی کا طلسم کافور ہو جائے گا۔ میں جب بہت سوچ بچار کرتاہوں تو اپنی کہکشاں سے غروب ہونے والے نجوم کی یاد مجھے بہت ستاتی ہے ۔ رفتگاں کی یادوں سے کچھ حاصل نہیںہوتایہ تو قلب و روح کو شکستگی اور خستگی سے بچانے کا ایک وسیلہ ہے ۔اپنی زندگی کی شام ہونے سے پہلے ہر شخص یہی چاہتاہے کہ اپنی محفل کے نجوم کی یادوں کی ضیا ساتھ رکھے ۔ایک زمانے کی سعی کے بعد بھی جنھیں بُھلایا نہ جا سکا وہ رفتگاں ہر وقت یاد آنے لگتے ہیں ۔ جس علاقے میں میری قیام گاہ ہے ساٹھ سال پہلے یہاں ہر سُو رعنائیاں اور رنگینیاں بِکھری ہوئی ہوتی تھیں۔ حضرت بلال حبشی ؓ چوک (کالج چوک) سے شمال کی جانب ہر گام پر راحتیں ، عشرتیں اورمسرتیں انگڑائیاں لیتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں کھیتوں اور کھلیانوں کی جگہ کچی آبادیاں بن گئی ہیں جہاں تباہیاں اور رسوائیاں گود پھیلائے کالے دھن کے پجاریوں کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ اس طوفانِ بلا میں مفلسی کے اعصاب شکن مظاہر دیکھ کر اِن دِنوں فقیروں کا بھیس بناکر یادوں کے بوسیدہ کھنڈرات سے میں اپنے بکھرے ہوئے خواب چُنتا پھرتاہوں۔ ‘‘
صحراؤں ،ریگستانوں ،ویرانوں اور شہر ِ خموشاں کے آئینِ آرائش کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے کہ فطرت نے تنہا اس کی ذمہ دار ی سنبھال رکھی ہے ۔میں دِن بھرسوچتا رہتا ہو ں اور رات گئے تک گردشِ ایام کے نشیب و فراز کے مسائل و مضمرات پر غور کرتا ہوں۔اُمیدوں کی فصل کو تاراج کرنے والے سفاک درندوں نے الم نصیبوں کی محنت پر پانی پھیر دیا ۔شہرِ خموشاں کے ارد گرد کھیتوں کے کنارے کھڑے درختوں اورسائیں سائیں کرتے جنگل کو دیکھ کردِل میں کرب کی ایک لہر سی اُٹھی اور ایسا محسوس ہوا کہ یہاں کے نیستاں میں کسی پر اسرار قوت نے شبِ تاریک کے دام میں گھات لگا رکھی ہے ۔ اس جہاں میںمتلاطم دریا تو سدا اپنی طغیانیوں سے کام رکھتے ہیں اُن کی طوفانی لہروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ گرداب میں گھری کشتی کے اجل گرفتہ مسافروں کی آہ و فغاں کا انجام کیا ہو گا۔ شام دھواں دھواں ہو رہی تھی اور دو پہر کے مہرباںسائے ڈھل رہے تھے ۔ ڈھلتے ہوئے سائے دیکھ کر یہ گماں گزرا کہ تیر کماں سے نکل چکا ہے ۔ مکاں کے پاس سے گزرا تو رفتگاں کی یادکے نشاں اور بیتے لمحات کی داستاں نے نہاں خانۂ دِل پر دستک دی ۔ شہر خموشاں کے مستقل ساکنان جنھیں اس علاقے میں مہیب سناٹوں کی فضا راس آ گئی ہے اُن کے لیے دعا کرنے کے بعد سب سوگواراپنے رنج و الم کے کرب کی گہرائی اور تنہائیوں کے صحرا کی وسعت کا اندازہ کرتے ہوئے واپس اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو گئے ۔ سوگواروں کے چہرے فق تھے اُنھوںنے آسیب ِ گماں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھا کہ شامِ الم میں ڈھلنے والی تنہائی کالرزہ خیزمنظر شہرِ خموشاں کے باہر کھڑاہاتھ ہلاکر اُنھیں سلامِ آخر کہہ ر ہا تھا۔کھیتوں کے سے کچھ دُور ایک نہر میں پانی روا ں تھا کچھ لوگوں کا گماں تھاکہ اس نہر کے کنارے بیٹھ کر کوئی الم نصیب دیر تک روتا رہاہے ۔ستارۂ سحر طلوع ہوا تو صبح سویرے میں نے دیکھا کہ طائرانِ خوش نوا نے اُمید ِ فردا کی اطلاع دی ۔خشتاں والی ،مگر مچھ نگر ،سیاحی وال اور سبز باغ میں لٹنے والے گلا پھاڑ کر یہ کہتے تھے کہ جعل سازوں کے فریب کھا کر جینے سے بہترہے انسان فاقوں سے مر جائے ۔ اہلِ درد جانتے ہیں کہ یہ بستیاں بہت عجیب ہیں جو کوفے کے قریب ہیں اس کے درو بام کو کرگسوں نے گھیرا ہے اور یہاں کی ہر کٹیا میںکسی نہ کسی لومڑی یا گرگ کا بسیراہے ۔ یہاں کے زاغ ہاتھوں میں ایاغ کے بجائے چھیچھڑے تھام کر گھات میں بیٹھے رہتے ہیں۔اُمنگوں کی کشتی غرقاب ہونے کے بعد منجدھار میں ڈُوبنے والے ساحل پر کھڑے ہوس ِ زر کی خاطر کوچہ کوچہ ،قریہ قریہ جھانکنے والے اور مستانہ وار پھرنے والے جعلی چارہ گروں سے کہتے ہیں کہ تم جیسے بروٹس کیا خاک رفوگری کریں گے۔
منشی کھان ایازنے پیہم نوے برس تک جھنگ کی کچی آبادیوں، دُھپ سڑی، گھڑے بھن،گھوگھے والا، اَوڈاں والی، مرضی پورہ اور نواحی بستیوں میں نئی نسل کوزیورِتعلیم سے آ راستہ کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔بعض لوگوں کاخیال ہے کہ منشی کھان ایاز کی مثال ایک فریب خوردہ شاہین کی سی ہے جو ہوائے جو رو ستم میںدخمہ کے گِرد و نواح میںمنڈلانے والے کرگسوں میں گِھر گیاتھا۔اِس کے نتیجے میں وہ اپنی عقابی روح سے محروم ہو گیا اور زاغ و زغن نے اُسے اپنے بد وضع رنگ میں رنگ لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُسے اپنی کوتاہیوںکا شدت سے احساس ہوامگر وہ جِن سفہا اور بروٹس قماش مسخروں کی خود غرضی کی بھینٹ چڑھ گیااب اُس کامداوا ممکن ہی نہ تھا۔ آج ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے وہ سوچتا ہے کہ کاش اُس نے چالیس برس قبل بروٹس قماش مسخروں کو گھونسہ مار کر اپنی بزمِ وفاسے نکال باہر کیا ہوتا۔مگر اب کفِ افسوس مَلنے سے کیا ہوتاہے اَب اُسے چاہیے کہ وہ گھونسہ جو چالیس برس قبل اُن بروٹس قماش مسخروں کو نہ ما رسکا جنھوں نے اُسے مکمل انہدام کے قریب پہنچانے میں قبیح کردار ادا کیا اَب وہی گھونسہ اپنے جبڑے پر مارے۔ اللہ دتہ چھاپے گر نے منشی کھان ایاز کے بارے میں کہا:
’’ زمانہ طالب علمی ہی سے منشی کھان ایاز نے عالمی کلاسیک کا عمیق مطا لعہ کیا ۔اردو ،پنجابی ، دکنی ،ہندکو ،سندھی ،پشتو ،فارسی ،عربی اور انگریزی ادب پر اُس کی دسترس کا ایک عالم معترف تھا۔ منشی کھان ایاز نے ارسطو، دیو جانس کلبی ،امراؤالقیس ،البیرونی،فرید الدین عطار اور جابر بن حیان کا وسیع مطالعہ کیا ۔ آفتاب ِاسلام کے طلوع ہونے سے پہلے سولھویں صدی میں کندائٹ ( Kindite) کے آخری بادشاہ اورشاعر امرا ؤ القیس( B: 501 Ad ,D: 544 AD: Imru’ al-Qais ) جس کا شمار عربی ادب میں صنف قصیدہ کے کا بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے ۔ امراؤالقیس نے صنف قصیدہ میں مرزا محمد رفیع سودا ؔ کی طرح اپنی مہارت کا لو ہا منوایا۔ امرا و ٔ القیس،رومی ، فرید الدین عطار ،سعدی اور پنجابی زبان کے کلاسیکی شعرا کا منتخب کلام اُسے زبانی یاد تھا۔ اِن مشاہیر پر اس درویش کی باتین سُن کرسامعین اَش اَش کر اُٹھتے۔ چالیس سال پہلے کی بات ہے ملازمت سے فارغ ہونے کے بعدمنشی کھان ایازنے اقلیم معرفت سے اپنا تعلق مستحکم کر لیا ۔وہ ایک ایسے اصطبل میں پھنس گیا تھا جہاں وہ دُم کٹے گدھوں اور خچروں کی پیٹھ پر سیاہ لکیریں کھینچ کر اُنھیں زیبرا بنانے میں انہماک کامظاہرکرتا تھا۔گدھے ،خچر اور استر جب اصطبل سے باہر نکلتے تو ہوائے جورو ستم کی گھنگھور گھٹا کے بعد ہونے والی موسلادھار بارش میںسیاہ لکیریں دُھل جاتی تھیں ۔اپنی فطرت کے مطابق سب گدھے ،خچر اور استر ہنہناتے ہوئے اُس کی طرف بڑھتے اور اُسے دو لتیاں مارتے ہوئے کسی نئی چراگاہ کی تلاش میں سر پٹ دوڑنے لگتے ۔ واقفِ حال لوگوں کا کہنا ہے کہ گردشِ ایام کے جھمیلوں اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زدمیں آنے کے بعد منشی کھان ایاز نے دردمندو ںاور ضعیفوں سے جو عہدِ وفا استوارکیا تھا اُسی کو گردشِ لیل و نہار کا علاج قراردیا ۔ وہ منھ اندھیرے اپنے گھر سے نکلتا ،رستوں سڑکوں اور پارکوں میں بکھرے ردی کاغذ،گتے اور پلاسٹک کی اشیا چُنتا اور انھیں مقامی کباڑئیے کی دکان پر فروخت کردیتا۔کچھ عرصے بعد اُس نے پینترا بدلا اور ایک تھیلا تھام کر گھر سے نکلتا۔راستوں میں پڑے روڑے ، پتھر ،اینٹیں اورسنگ ریزے اُٹھاتا اور انھیں اپنے تھیلے میںبھر کر اپنے گھر کے سامنے سرگودھا روڈکے سامنے پھینک دیتا۔جب یہ ڈھیربہت بڑا ہو جاتا تو ایک ٹرالی کی قیمت پر فروخت کر دیتا تھا۔اِن کاموں سے حاصل ہونے والی رقم وہ فاقہ کش ضعیفوں ،مفلس وقلاش بیماروں اور یتیموں میں تقسیم کر دیتاتھا۔وہ میاں مودا ،قلی فقیر ،کرموں موچی ،رُلدو موہانہ ،جھاڑو جھاڑ کھنڈوی کی طرح شہر کی گلیوں میں نا شادوناکارہ پھرتا مگر کسی کو اپنے دِل کا حال کبھی نہ بتاتا۔ وہ اکثریہ کہتاکہ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اورکیا ہے کہ مجبورانسانیت پر کوہِ ستم توڑنے کے لیے ہر موڑ پر کوئی فرینکسٹائن مانسٹر موجود ہوتاہے ۔ اس کا واسطہ بھی فرنکسٹائن مانسٹر سے پڑامگر وہ ثابت قدم رہا۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ناول نگارمیری شیلے ( 1797-1851:Mary Shelley)نے اپنے ناول میں جس عجیب الخلقت راکشس فرینکسٹائن مانسٹر ( Frankenstein’s monster) ‘‘ کاذکر کیاہے منشی کھان ایاز کبھی اُس سے مرعوب نہ ہوا۔ وہ جری انسان جس نے زندگی بھر حریتِ ضمیر کا علم بلند رکھا اور وقت کے ہر نمرود اورفرعون کی آ نکھوں میں آ نکھیںڈال کر بات کی ۔ آج کے بے حِس معاشرے نے اُسے دیکھ کر حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنا لیاہے ۔ایک علمی وادبی دائرۃ المعارف کا یوں اچانک فقیروں کا بھیس بنالینا واقفِ حال لوگوںکوشدید ذہنی اذیت میںمبتلا کر دیتاہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ منشی کھان ایاز دریائے جہلم اور چناب کے سنگم پر تریموں ہیڈ ورکس پہنچتااور دریا ئے چناب کی لہروں کو دیکھ کر سوہنی کے ڈوبنے پر آ نسوبہاتا۔ منشی کھان ایاز کے دیرینہ رفیق خالد بنکار نے بتایا:
’’ مجھے یہ باتیں منشی کھان ایاز نے اُس زمانے میں بتائی تھیںجب وہ علم و ادب کا دائرۃ المعارفت تھا۔ اب تو وہ کسی اور جہاں میں کھو گیاہے مگر ایک زمانہ تھا جب وہ قدیم کھنڈرات پر تحقیق کرنے کے لیے ویرانو ں،ریگستانوں ،جنگلوں ،بیابانوں اور صحراؤں کی خاک چھانتا پھرتاتھا۔ سوچتاہوں رودکی اور فردوسی کی شاعری کا مداح منشی کھان ایاز نہ جانے کن راہوں کی جانب چل پڑا ہے ؟ مجھے تو یوں لگتاہے کہ مانی و بہزادکے کارناموں کا رمز آشنا ریگِ صحراپر لکھی آڑی ترچھی لکیرو ں میں اُلجھ کر رہ گیا ہے ۔اس جنگل بیلے میں محسن کُش غداروں ، گرگ آ شتی کو وتیرہ بنانے والے سازشی بھیڑیوں اور مکار لُومڑیوں کی فراوانی ہے ۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سُنا ہے کہ دریائے جہلم اور دریائے چناب کے سنگم پر جو ہلکی پھاٹ ہے وہاں380ملین سال قبل ایسی مچھلیاں پائی جاتی تھیں جنھیں مقامی باشندے ’’ گو گو ’’ کے نام سے پکارتے تھے ۔ علم حیوانات میں دلچسپی رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ ’’ گو گو ‘‘ مچھلی کا وجود ڈائنو سار سے بھی سو ملین سال پہلے کی بات ہے ۔ ان مچھلیوں کے فوسلز جنگل بیلے کے صحرا کی تہہ میں موجود تھے مگر دریائے جہلم اور چناب کی طوفانی لہروں کے کٹاؤ کے نتیجے میںحیاتیاتی ارتقا سے تعلق رکھنے والے کروڑوں سال پرانے یہ سب فوسلز سیلِ زماں کے تھپیڑے کھاتے ہوئے بحیرہ عرب کی بھینٹ چڑھ گئے اورڈیلٹا کے قریب تمر کے جنگلوں میں کھو گئے ۔ اس سے بڑھ کر لرزہ خیز المیہ کیا ہو گا کہ ریگستان اور صحرا میں پائے جانے والے کائناتی تغیر و تبدل کے مظہر کھنڈرات میں ایام گزشتہ کی تاریخ سے وابستہ متعدد حقائق پنہاں ہیں مگر لوگ ان سے بے خبر ہیں ۔ سبز باغ ،جنگل بیلے ،ماچھیوال ،سیاحی وال اور اُٹھان کوٹ کے باشندے ریگستان کے کھنڈرات کی حفاظت سے قاصر رہے اور سیلِ حوادث کے مہیب تھپیڑے اس تھل کی لاکھوں سال کی قدیم اور بیش بہا وراثت کو اُڑا لے گئے او ر ماضی میں تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے آج فطرت کے حصے کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ جنگل بیلے کے صحرا میں واقع ریت کے ان بلند ٹیلوں کے نیچے زمانہ قدیم سے وابستہ جو متاعِ بے بہا دفن ہے اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔ وہ محو حیرت ہیں کہ لاکھوں برس میں بسنے والے اس علاقے پر کیا اُفتاد پڑی کہ یہ پلک جھپکتے میں ریگِ صحرا میں بدل گیا۔ ایسے داستان گو جن کی پتھرائی ہوئی آ نکھوں میں کھنڈرات جیسی ویرانی جھلکتی ہے اورجو صدیوں کے واقعات کے نسل در نسل راوی ہیں وہ ان کھنڈرات سے اخلاقیات کے گنج گراں مایہ کی تلاش پر اصرار کرتے ہیں ۔ بعض جہاں دیدہ تاریخ دان یہ بتاتے ہیں کہ جنگل بیلے کا یہ صحرا کروڑوں سال پہلے سر سبز و شادب نخلستانوں اور باغات کی وجہ سے مشہور تھا مگر فطرت کی تعزیروں کے باعث اس پر اسرار قدیم علاقے پر نا معلوم کیا افتاد پڑی کہ اب یہ نیوزی لینڈ کے اٹھارہ کروڑ سال قدیم جنگل رورنگ فورٹیز ( Roaring Forties)کے مشابہ ہے۔ نیوزی لینڈ کے گلستان میں تو وہ درخت جو علاقے کے بانکے پہرے دار تھے درختوں سے پتھر اور فوسلز بن گئے مگر جنگل بیلے کے نخلستان ریت کے ٹیلوں میں بدل گئے۔ جنگل بیلے کے بُور لدے چھتنار کے کچھ آثار پتھروں اور فوسلز کی صورت میں شور کوٹ کے کھنڈرات سے بر آمد ہوئے ہیں۔ ماضی کے واقعات سے وابستہ یہ کھنڈرات در اصل حیات و کائنات کے متعدد رازوں کی گرہ کشائی کرتے ہیں اور یہ بات واضح کر دیتے ہیں یہاں ہر شے مسافر ہے اور ہر چیز راہی ہے جب کہ بقا تو صرف خالقِ کائنات ہی کو حاصل ہے ۔ دریائے جہلم اور دریائے چناب کے سنگم کے نزدیک جو ہلکی پھاٹ( دریا کی باؤلی شاخ ) کے نام سے مشہور ہے یہاں سندھ کے راجا داہر کی بیٹیا ں سوریا اور پریمل اکثر سیر اور کشتی رانی کے لیے آتی تھیں۔ ملتان اورشور کوٹ کاراجہ اس زمانے میں راجہ داہرکا مطیع تھا۔ ایک مرتبہ کشتی دریا کی منجدھار میں اُلٹی اور شہزادیوں کی پچا س سہیلیاں دریا کی طوفانی لہروں میں بہہ گئیں ۔اُس وقت سے مقامی باشندے اس جگہ کو ہلکی پھاٹ کہتے ہیں اور یہاں جانے سے گریز کرتے ہیں ۔ بعض توہم پرست لوگ کہتے ہیں یہاں کسی آسیب یا پار وتی دیوی کا سایہ ہے اس لیے ہر سال یہ ہلکی پھاٹ ایک انسان کو نگل لیتی ہے ۔یہاں کے باشندے جو بروٹس سے بھی کہیں بڑھ کر کینہ پرور ،عادی دروغ گو اور محسن کُش ہیںراجہ داہر کی بیٹیاں ان سے بہت متاثر ہوئیں ۔ سندھ میں محمد بن قاسم کے بہادر سپاہیوں نے جب سندھ کے راجہ داہر کو عبرت ناک شکست دی تو دوسرے جنگی قیدیوں کے ساتھ راجا داہر کی دونوں بیٹیوں کو خلیفہ ولید بن عبدالملک کے پاس بغداد روانہ کر دیا گیا ۔جنگل بیلے سے سازش کی ہوا میں سانس لینے اور ہلکی پھاٹ کا پانی پینے والی ان حسیناؤ ں نے محمد بن قاسم پر زیادتی کا الزام لگا دیا ۔ساتویں صدی عیسو ی سے تعلق رکھنے والے سندھ کے واقعات کو مترجم علی کوفی نے تیرہویں صدی عیسوی میں اپنی فارسی کتاب چچ نامہ میں عربی سے فارسی کے قالب میں ڈھالا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ کینہ پرور اور منتقم مزاج حسیناؤں کی سازش کی تحقیق کیے بغیر خلیفہ ولید نے محمد بن قاسم کی زندگی کی مشعل گل کر دی ۔ انسان اپنے حاسدوں، دشمنوں اور حریفوں سے بچنے کی تدبیر تو سوچ سکتاہے مگر غداروں اور سازشی درندوں کی عیاری سے بچنے کی تیاری نا ممکن ہے ۔ حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب صدیوں سے یہاں کے طوطا چشم لوگوں کا وتیرہ رہاہے۔ احمق مفسد ،طالع آزما مہم جُواور ہوس پرست اعدا اتنا نقصان نہیں پہنچاسکتے جتناسازشی عناصر کی ریشہ دوانیوں سے پہنچتاہے۔ یہاں سے کچھ دُور ہزارو ںسال پرانا ایک شہر ِ خموشاں ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اپنے عہد کے متعدد ناگزیر لوگوں سے بھرا ہے ۔ یہا ں سے نجات حاصل کرنے کے اِن لمحات کو معمولی خیال نہ کروایسے لمحات انسانی زندگی میں شاذ و نادر نصیب ہوتے ہیں۔ یہاں کی چڑیلیں اپنے جال میں پھنسنے والوں سے جامد و ساکت تعلق اور میل ملاپ کے بجائے شدیدنوعیت کی خنجر آزمائی پر اصرار کرتی ہیں۔ اس جنگل بیلے کی خاردار جھاڑیوں کے گڑھوں ، کھروبنوں،غاروں کے سوراخوں،دیمک خوردہ درختوں کی کھوہ اورجھیہڑوںکے پنہا ںسوراخوں اور کھنڈرات کی دیواروں کی پوشیدہ دراڑوں اور کھپوں میں کھجور کے ڈپھے، تھوہر کے ڈنٹھل ، پوہلی اور پُٹھ کنڈے کے سُڈھے ،کیکر کے مُڈھے ، خارِ مغیلا ں والے کُھگے، جفا کے نیزے ،دغا کے تیر ، منافقت کی ڈانگ ،شقاوت کی سانگ ،حسد کے گُرز،کینہ پروری کے بھالے،محسن کُشی کی تلواریں ،بے ضمیری کے خنجر ،بے غیرتی کے بھای بھرکم لٹھ ، بے وفائی کے ہتھوڑے ،ہرجائی پن کے اُسترے ،بد زبانی کی قینچیاں ،سفلگی کے چُھرے،موقع پرستی کی درانتی ،سازشوں کے کلھاڑے،پیمان شکنی کی سناں،اخلاق باختگی کی مُنگلی اور بددیانتی کے کِرپان دھنسے ہیں ۔ یہاں کے شکھنڈی اور پکھنڈی اپنی چکنی چُپڑی باتوں سے بھیشم پتامہ کو بھی زیر ِ دام لانے کی کوششوں میں خجل ہوتے رہتے ہیں ۔ انسانیت اور تصور ِحیات کو خبط کرنے والے کچھ لوگ بلاشبہ سسلین مافیا سے تعلق رکھتے ہیں اور اجل کے فرمان کو ریشم و کمخواب کے پردوں میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں۔ افسوس منشی کھان ایا زکا واسطہ کسی ارجن کے بجائے ایسے بدبخت شکھنڈی سفہا سے پڑا ہے جو حریتِ ضمیر سے جینے والے و ضع دار انسانوں کے خون کا پیاسے ہیں اور چاند چہرے شبِ فرقت پہ وارنے اور انھیں در بہ در اور خاک بہ سر کرنے پرتُل جاتے ہیں ۔ بھیڑ کو بھیڑیے ،ہرنی کو چیتے اور فاختہ کو عقاب سے دُور رہنا چاہیے ۔ خلوص و مروّت اور رشتہ و پیوند کی پُر فریب بساط پر یہ عیار لوگ تم جیسے مخلص اور سادہ لوح لوگوں کو لُوٹ لیتے ہیں۔ اپنے مہمانوں کے لیے یہاں کے ناگ اس جگہ کو دشتِ عنقا بنادیتے ہیں۔ گردِ ش ِ ایام اور نوشتۂ تقدیرکے نتیجے میںاس قدر الم ناک انجام تک پہنچنے کے بعدنئے سرے سے اپنی تعمیر کے کام کا آغا زوقت کااہم ترین تقاضا ہے ۔ ‘‘
شہر تحیر کے حلقۂ بے دِلاں کو اس بات کا قلق تھاکہ اس رذیل طوائف نے پاسِ مہ و سال بھی نہ رکھا ۔ شبیر نامی ایک ضعیف معلم جو محافظہ ٔ رومان مصبہابنو کے ہاتھوں لُٹ چکا تھا کہنے لگا:
’’نائکہ تفسہہ اور رذیل طوائف مصبہا بنو کے ساتھ گزرنے والے چار برسوں( 20017-2020) میں لمحے لمحے کی اپنی اِک اعصاب شکن اذیت تھی ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ میں ان سفہا اور اجلاف و ارذال کی تلخ یادوں کے حصار میں ہوں اور سوچتا ہوں کہ اُن کو کس کی گرفت میں رکھوں ؟میں نے سوچاتھا کہ محافظۂ رومان مصبہا بنو میری بہو کی صورت میں صبا صبا آئے گی اور ہمارے گھر کے دکھوں کا مداوا کرے گی مگر اُس نے شفقِ شام ِ غم کے ہاتھوںاپنی بے حِسی،بے ضمیری،بے غیرتی اور بے وفائی کی ایسی منحوس ردا بھیج دی ہے جس سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں ۔ میں نے تو مصبہا بنو کو آس کا محور سمجھا مگر وہ سرا ب نکلی اور میرے قلبِ حزیں کی تعمیر کی آڑ توقعات کا قصر منہدم کر دیا ۔اپنی پیمان شکنی سے مصبہا بنو نے ہم الم نصیبوں اور جگر فگاروں کو جس اذیت میں مبتلا کر دیا ہے کوئی تدبیر اُس کی تلافی ،ازالہ یا مداوا نہیں کر سکتی ۔فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہیں اُس نے جو کچھ کیا ہے اُس کا خمیازہ اُسے ہر حال میں اُٹھاناپڑے گا۔ یہ گھر اپنے ہی چراغ کے شعلوں کی زد میں آئے گااور مصبہا بنو مر کر رسوا ہونے کے بجائے غرقِ دریا ہو گی ۔ یہ چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد لڑکی ادب میں جعل سازی کے ذریعے شہرت حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ مرگِ نا گہانی اس کے تعاقب میں ہے اور یہ بہت جلداسی انجام کو پہنچے گی جس سے امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے ( :1899-1961 Ernest Hemingway )، امریکی شاعرہ سیلویا پلاتھ ( :1932-1963 Sylvia Plath ) ، اپنے عہد کی مقبول امریکی شاعرہ این سیکسٹن ( Anne Sexton : 1923-1974 )، امریکی ادیب ایڈگر ایلن پو ( : 1809-1849 Edgar Allan Poe ، مستقبل کے امکانات پر کام کرنے والے روسی ادیب ولادی میر مایا کوسکی ( : 1893-1930 Vladimir Mayakovsky )، جاپانی ادیب یو کیو مشیما ( : 1925-1970 Yukio Mishima) ، بیسویں صدی کی ممتاز برطانوی ادیبہ ورجینا وولف ( :1882-1941 Virginia Woolf )، قدیم اور مقبول یونانی شاعرہ سیفو ( : c.630 BCE-c.570 BCE Sappho )اور شمالی ایران سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار و محقق صادیغ ہدایت ( : 1903-1951 Sadegh Hedayat )کو دوچار ہونا پڑا۔قزاق ِ اجل کے حکم سے جب کُوچ کا نقارہ بجے گا تو سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا ۔‘‘
منشی کھان ایاز نے بتایا کہ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنوکی شادی سیاحی وال کے ایک امیر خاندان میں کر دی گئی ۔اُس کا شوہر ابزو اس کی جنس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ جب ابزو کے والدین کو مصبہا بنو کی اصلیت معلوم ہو گئی تو انھوں نے ا ِس ٹرانس جنڈرانٹر سیکس سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔سال 2021ء کے وسط میں ابزو نے مصبہا بنو پر تین حرف بھیجے اور طلاق اس کے منھ پر مار کر اسے اپنے گھر سے نکا ل دیا۔ ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنو کے لیے یہ فیصلہ اس کے لیے غیر متوقع نہ تھا وہ پہلے ہی اس خطرے کو بھانپ چکی تھی ۔ ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہابنوکواپنے چھوٹے بھائی اذکار سے اس لیے چِڑتھی کہ وہ اس کی بڑھتی ہوئی اخلاقی پستی اور جنسی جنون پر گرفت کرتاتھا۔ وہ جب عالمِ غیظ و غضب میں انتقام کے بارے میں سوچتی تو واقعتاً وہ دو قبور کی کھدائی کا فیصلہ کر لیتی تھی جن میں سے ایک میں بالاخر اُسے خود سپردِ خاک ہونا تھا۔ دریائے جہلم کے مشرقی کنارے ساجھووال، مکروال،سبز باغ اورسیاحی وال کے گھنے جنگل کی خاردارجھاڑیوں اور بلندٹیلوں کے غاروں میں رہنے والی لومڑیوں کویہ خبط تھا کہ کو یہ زعم تھا کہ وہ یونانی دیو مالا کے مطابق سیاحی وال کی ایمازون (Amazon )ہیں۔ ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنوبھی اِن گھنے جنگلوں کی لومڑیوں کی ہم نوابن جاتی اوریہ بات اکثر دہراتی تھی :
’’ میری چربہ سازی ،جسارت سارقانہ اور حرص و ہوس کسی سے مخفی نہیں ۔ اردو اور دکنی زبان کے افعال کا تقابلی جائزہ کے ایم فل اُردو کے مقالے کے سرقہ کے بعد اب میں نے برودھا جامعہ میں پی ایچ۔ڈی میں داخلہ لے لیاہے اور حسین سحر پر ایک مقالہ چُرالیا ہے ۔ جامعہ برودھا میں نیلام اُداس بھوندل اور چوب دار تغاری میرے سہولت کارہیں۔ انجام سے بے خبر نام نہاد دانش وروں کو میں نے اپنے دام ِالفت میں اسیر کر رکھاہے اس لیے میرے پاس زرومال ،فارم ہاؤس ،کار اور کالے دھن کا دیا ہوا جلال موجود ہے ۔ جمالیات میں دلچسپی رکھنے والوں کی جامعہ برودھا میں کثرت ہے جنھوں نے مجھے ملازمت اور تعلیم کے مواقع دئیے ہیں۔میں اپنے تیشۂ حُسن،عشوہ و غمزہ و ادا کے وار سے ہر چٹان میں شگاف ڈالنے کی طاقت رکھتی ہوں ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ میری راہ میں جو دیوار بنے گا وہ نہیں رہے گا ۔میں کالی دیوی کی پرستار ہوں اور تباہیوں سے میں قلبی وابستگی رکھتی ہوں۔ میری طاقت سے ہونے والی بربادیوں میں سرگودھا میں عزیز اور اُس کی نوجوان بیٹی کا آگ میں جل جانا ، شاہ جیونہ میں وسوں کی بیٹی کی زچگی کے دوران میں رحلت،پشاور میں مشتاق کے نواسوں کو زہر دے کر مارنے کا المیہ ،دو اپریل 2022ء کو ایک ٹریفک حادثے میں جھامرہ کے قریب جیجاں کی رحلت ، سیاحی وال میںدتو آہن گرکی ہلاکت ، بھاگٹاں والا میںخاتمہ کے باپ کی موت ،گیارہ اپریل 2022ء کو سلانوالی ( سرگودھا ) میں سفینہ کی موت ،اپریل 2022ء میں جہانیاں شاہ میں بلقو کے کم سِن نواسے کی اچانک وفات ،بیس اپریل 2022ء کو سفینہ اور ندا صحرائی کے بیٹے بر سیم کا نوری گیٹ سرگودھا میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں لُٹ جانا، سال 2021 ء کے وسط میں جھنگ کے ریگستانی علاقے میںدریائے جہلم کے کنارے واقع جنگل بیلہ میں نوجوان طالب علم توقیر عباس کا دریائے جہلم میں ڈُوب جانا ۔ اور اکیس اگست 2022ء کو نہنگ میں ستاں بی بی کی دائمی مفارقت اور چندماہ قبل شفیع،ناصر اور مظہر کی رحلت شامل ہیں۔ ‘‘
منشی کھان ایاز نے بتایا کہ خوشامدیوں کے نرغے میں گِھری ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنوسادیت پسندی اور خود ستائی کے مر ض میں مبتلا ایک آدم خور چڑیل ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے منشی کھان ایاز نے دِل پر ہاتھ رکھ کر کہا:
’’میں مستریا ںوالی بستی،سبز باغ اور سیاحی وال سے تعلق رکھنے والے اس وضیع خاندان کے بارے میں بہت سے حقائق جانتاہوں۔ اپنے منھ میاں مٹھوبننے والی یہ چڑیل نجی محفلوں اور اپنے شیدائیوں کے جُھرمٹ میں اپنے تئیں یونانی حسینہ قلو پطرہ (Cleopatra)،سوہنی ، صاحباں،سسی ،الزبتھ ٹائلراور جونا لولو بریجیڈا قرار دیتی مگر عارضی حُسن کے انجام پر اُس کی توجہ نہیں تھی ۔وہ یہ بات بُھول جاتی کہ فطرت کی سخت تعزیروں نے اطالوی اداکارہ اور جنسی جنون کی علامت پر کشش حسینہ جینالو بریجیڈا (B: 4th July 1927,D: 16 January 2023 : Gina Lollobrigida ) اور برطانوی ادکارہ الزبتھ ٹائلر ( 1932-2011: Elizabeth Taylor) کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ حرص و ہوس کی کُچلی ہوئی لالچی،بے حِس اور سفاک ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنونے سادہ لوح لوگوں کے خلوص کا اُسی طرح تمسخر اُڑایا جس طرح جینا لولو بریجیڈا نے عیاری اور مکاری سے کام لیتے ہوئے ایک ایسے شخص کو عشوہ و غمزہ واداکے تیروں سے گھائل کر کے لُوٹ لیا جو اِس پینترے باز حسینہ کے مکر کی چالوں کو نہ سمجھ سکا۔فانی حُسن کو دائمی سمجھنے والی حسینہ جینا لولو بریجیڈا زندگی کے آخری ایام میں بے بسی کے عالم میں چل بسی ۔ اس کے ساتھ ہی حُسن کی فریب کاری کاایک بھیانک تاریک باب بھی ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا۔ مشاطہ کی مہارت سے اپنے خد و خال کے جعلی نکھار پر گھمنڈ کرنے والی مکار ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی کشش کھونے لگی اور ایک وقت ایسا بھی آ گیا کہ کوئی بھی با شعور شخص اِس کی طرف آ نکھ اُٹھاکر بھی نہ دیکھتا۔ ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنو نے بالعموم ایسے ریٹائرڈسرکاری ملازموں اور متمول بوڑھوں کولُوٹا جو اپنے نوجوان بیٹوں کے سر پر سہرا دیکھنے کے آ رزو مند تھے ۔اِن میںسے کچھ تو فہم و فراست سے عاری ،بے بصر ،کور مغز اور نااہل شخص تھے مگر شبیررانا ،معالج جلال،حکیم کمال اورکیمیا دان اظہرجیسے کچھ سُگھڑ سیانے بھی ان انسان دشمن عیاروں کی بساط ٹھگی کو نہ سمجھ سکے اور اپنی زندگی بھی کی کمائی سے محروم ہو گئے ۔رذیل ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنو اُن ضعیفوںکی بہو بننے کا سوانگ رچاتی وہ بوڑھے جو چراغ ِسحری ہوتے تھے ۔ وہ فرضی منگنی کی آ ڑ میں اور جلدشادی کا فریب دے کر اُن کی زندگی بھر کی کمائی لُوٹ لیتی تھی۔ ماچھی وال،سیاہی وال ،مکر وال ،کانڈی وال اور بھلووال میں مقیم سسلین مافیا کے اس گروہ کے سرغنہ نے بتایا کہ قحبہ خانے ،چنڈو خانے اور منشیات فروشی کی آمدنی کی تقسیم کے معاملے پر ٹرانس جنڈرانٹر سیکس مصبہا بنو ،گنوار اور اذکار میں اختلافات پیہم بڑھنے لگے۔ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کو یہ زعم تھا کہ وہ جنگ و جدال کی پُر اسرار یونانی دیوی ایتھینا ( Athena)کی طرح طلسمی چھڑی سے حیران کن کام انجام دے سکتی ہے ۔وہ اپنے ابرو اور چشم کی جنبش سے طلسمی چھڑی کا حیران کن کام لیتی تھی لیکن وہ اس تلخ حقیقت سے بے خبرتھی کہ حقیقی حُسن کے سوتے تو دیکھنے والے کے جذبات و احساسات سے پُھوٹتے ہیں ۔ ‘‘
منشی کھا ن ایاز کے پڑوسی اور رفیق کار میاں مہر بان نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں بتایا :
’’سالہا سال کی لُوٹ مار کے بعدٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کی روح اور قلب میں تو سکوتِ مرگ طاری تھا جس کے نتیجے میں حُسن ،صداقت اوروفانے دم توڑ دیاتھا۔۔ وہ اپنے لبوں ،چشم اور ابرو کی حرکت سے عیاری سے کام لیتے ہوئے اپنے ایسے شکار کو بھی اپنی گرفت میں لاسکتی تھی خواہ اُسے یونانی فاتح اور مہم جُوہر میس (Hermes) کی عطا کردہ قوت بھی حاصل ہو ۔ سیاہی وال ،سبز باغ اور اُٹھان کوٹ میں امیرن بائی اورتفسہہ کے قحبہ خانے کے راز جاننے والے بھڑوے کہا کرتے تھے کہ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنوعشوہ و غمزہ و ادا کی چھڑی سے نہ صرف پتھر میں جونک لگا سکتی ہے بل کہ نو دولتیے جوانوں کو اُلّو،گدھا اور اُلّو کا پٹھا بھی بنا لیتی ہے ۔ متعدد ہیری پوٹر ( Harry Potter ) اپنے پُر اسرار طلسمی عمل سے بہرام ٹھگ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ان درندوں کوطلسم ِ ہوش رُبا کے بارے میں جنتر منتر سکھاتے رہتے تھے ۔ یہ خونخوار چڑیل اپنے اجل گرفتہ شکار کو اپنے جعلی حسن سے خواب غفلت میں مبتلا کر کے لُوٹ کر اُس کا خون پی جاتی تھی ۔ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کو یہ بھی زعم تھا کہ وہ یونانی دیو مالا کے مطابق دریاؤں میں بسیرا کرنے والی حسین دیوی تھیٹس ( Thetis) ہے ۔ شہر کے لوگوں کو یقین ہے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آنے کے بعد اِسے متعدد آشوب دیکھنے پڑیں گے۔ نائکہ خاتمہ نے بتایا کہ جھنگ شہر کے جس ضعیف معلم کوٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنونے جعلی بہو کی منگنی کا رُوپ دھارکر لُوٹاوہ دُکھی انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا متمنی تھا۔ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کے بھاڑ جیسے منھ سے جب اپنے محسن شبیر کے خلاف زہر افشانی کے سلسلے کا آغاز ہوتاہے تولوگ کہتے ہیںشکل کی چھپکلی اورشہتیروں پر چڑھائی ،نسل کی پدی اورشاہین سے پرواز کامقابلہ ۔اس چیونٹی کے پَرنکل آئے ہیں اب یہ اپنے انجام کو پہنچے گی اور تکبر کی دیمک اِسے کھاجائے گی۔ ‘‘
مرزا یا مین ساحر کے منشی کھا ن ایاز سے قریبی تعلقات تھے۔منشی کھان ایاز کے بڑے بیٹے کی شادی کے سلسلے میں مرز یامین ساحر نے اُس کی رہنمائی کی تھی ۔منشی کھان ایاز کی طرح مرزا یامین ساحر بھی ضعیف معلم کے ساتھ روا رکھی جانے والی شقاوت آمیز ناانصافیوں پر دِل گرفتہ رہتا تھا۔مرزایامین ساحر نے ضعیف معلم شبیر کے بارے میں بتایا:
’’ منشی کھان ایاز نے دنیا دیکھی ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیاہے۔مجھے اِس جہاں دیدہ معلم نے جو باتیں بتائی ہیں وہ میں من و عن بتا رہاہوں۔منشی کھان ایاز نے ایک بار مجھے بتایاکہ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ جھنگ شہر کا ضعیف معلم شبیر رانا فکر و خیال کے اعتبار سے برطانوی شاعر پی بی شیلے (1792-1822 :Percy Bysshe Shelley) کے مہم جُو کردار پرومی تھیس سے گہری مماثلت رکھتاہے ۔اس کردارکا ذکر پرومی تھیس اَن باؤنڈ( Prometheus Unbound) میں کیا گیاہے ۔ پی بی شیلے کی یہ کتاب جو پہلی بارسال 1820ء میں منظر عام پر آ ئی اِس میں یونانی دیومالاکا ذکر موجود ہے ۔ضعیف معلم شبیر رانا کے والد رانا سلطان نو آبادیاتی دورمیں برطانوی فوج میں ٹینک ڈرائیور سپاہی تھے اور سپارٹا سے تعلق رکھنے والے برطانوی جنرل فیلڈ مارشل منٹگمری کی کمان میں برما ،جاپان ، شمالی افریقہ ،مصراور عراق کے محاذوں پر دوسری عالمی جنگ میں شامل رہے۔ 6۔ستمبر 1965ء کو سیال کوٹ کے محاذ پر دفاع وطن کی جنگ میںحصہ لیا۔بھارتی فوج کی گولہ باری کی زدمیں آخر شدید زخمی ہوئے۔اس معلم کا بڑا بھائی حوالدار شیر محمدپاکستان بری فوج میں ملازم تھا اوراُس نے سابقہ مشرقی پاکستان میں خدمات انجام دیں ۔اس غازی نے1965 ء اور 1971ء میں دفاع وطن کی جنگوں میں بھارتی جارحیت کا مقابلہ کیا۔ فضائیہ میں ملازم اس کا چچا زادبھائی شبیر ملک شورکوٹ میں بھانجا غضنفر( آرمی)وزیرستان میں شہیدہوا ۔رذیل ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنونے محسن کُشی اور پیمان شکنی کے اذیت ناک سلسلے سے ضعیف معلم شبیر کی اُمیدوںکے قصر کو منہدم کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔ اس ضعیف معلم کو سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے وقت جی پی فنڈ کی جورقم مِلی تھی وہ تمام رقم نائکہ تفسہہ ،رمجانی ٹھگ اور ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو عرف کالی دیوی نے مکر کی چالوں سے اینٹھ لی۔ نائکہ تفسہہ نے ایک قبیح منصوبے کے تحت ضعیف معلم کے گھر میںآنا اور وہاں مہمان بن کر راتوں کوقیام کرنامعمول بنالیا۔اس قسم کی ملاقاتوں اور بیتی راتوں میں تشفی مَل کنجڑے کی بیٹی اور بہرام ٹھگ کی بہو نے ضعیف معلم کے گھر سے اُس کی بیٹیوں،والدہ اور بیوی کی بیس تولے کے طلائی زیورات، دولیپ ٹاپ،ایپل کے د وموبائل فون ،دو قیمتی گھڑیاں،انعامی بانڈ اور نقد رقوم چرا لیں ۔وہ کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرے جرائم پیشہ ٹھگوں کے اِس ٹولے نے رشتوں کی ردا میں اپنا کریہہ چہرہ چُھپا رکھا ہے ۔‘‘
منشی کھان ایاز اور چائے کے کھوکھے والے رمضان پتریرمیں گاڑھی چھنتی تھی ۔ دونوں عبرت سرائے دہر کے مختلف مظاہر کے عینی شاہد تھے ۔وہ جانتے تھے کہ قدیم عمارات کی ٹُوٹ پُھوٹ ذہن کی لُوٹ پر منتج ہوتی ہے ۔ ضعیف معلم شبیر کے حالات سُن کر سب لوگ گہری تشویش میں مبتلا تھے۔ دس برس پہلے ایک مرتبہ چائے کے اسی کھوکھے کے سامنے لکڑی کے ایک شکستہ سے بنچ پر بیٹھے احباب سے مخاطب ہو کر منشی کھا ن ایاز نے کہا:
’’ گزشتہ آٹھ عشروں سے میں ماضی کے کھنڈرات کا اسیر رہنے کے بجائے جہانِِ تازہ کی تعمیر کا آرزو مند رہا ہوں۔موج ِ خیال سے بہتی ہوئی ندی کی روانی دیکھ کر آ ج یہ سوچتاہوںکہ ساری دنیا بدلتی جاتی ہے اب اس شہر ِ سدا رنگ کابھی نیا رنگ و آ ہنگ ہوگا۔ جس علاقے میںمیری زندگی گزر گئی ہے وہاں کا سارا منظر نامہ یکسر بدل گیاہے ۔دُکانوں ،مکانوں ،مچانوں اور مہمانوں کی پہچان بدل گئی ہے ۔اجمل بُک ڈپوجس کے سامنے پیپل کاایک درخت راہ گیروں کو گھنی چھاؤں فراہم کرتاتھا۔ اِس کی وجہ سے لوگ کہتے تھے کہ پیپل والی دُکان سے کتابیں خریدنے جانا ہے۔ شہر کے بہت کم لوگ اس کتب خانے کے مہتمم انور او رفاروق کو جانتے ہیں مگر پیپل والی دکان کوسب پہچانتے ہیں۔ سال 2023ء کے وسط میں سڑک کی توسیع کے باعث جب سے قاتل تیشوں نے ساونت پیپل کا جسم چِیردیا ہے پہچان کا قدیم اور مسحور کُن طلسم ٹُوٹ گیاہے ۔ اب خواندہ لوگ تو پَل دو پَل میں کلاہ کج کر کے ایک سو فٹ بلندی پر لگا ا جمل بک ڈپو کا بورڈ پڑھ لیتے ہیں مگر رہ نوردِ شوق ناخواندہ لوگ آج بھی پَل پَل جُھومتے اور گُھومتے اُسی قدیم پیپل کی تلاش میں رہتے ہیں جو اپنی داستان سمیت ایندھن بن چکا ہے۔ چوک پر ایک کھوکھے میں بیٹھا مستری غلام حسین جو گزشتہ چار عشروں سے بائیسیکلوں کو پنکچر لگاتا تھااب نہ جانے کس جہاں میں کھو گیا۔مستری علی محمدجس نے شہر خموشاں کے ساتھ ملحق اپنے ایک کچے مکان میںسائیکل سٹینڈ بنارکھا تھااب کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ چائے کے کھوکھے والا رمضان پتریر راہیٔ مُلک ِعدم ہوچکاہے ۔سچ تو یہ ہے کہ کارِ جہاں کے مانند اس علاقے میں بھی صرف تغیر ہی کو ثبات حاصل ہے ۔ سرگودھا روڈ پر واقع سہیل عباس کے ایک مکان پر سُناہے گرگٹ کا سایہ ہے جس کی بنا پر یہ مکان پیہم اپنا رنگ ،ڈھنگ اور آہنگ بدلتا رہتاہے ۔ کبھی یہاں بنک بن جاتاہے تو کبھی اس مکان میں یو ٹیلٹی سٹور کا بورڈلگ جاتاہے۔ غیر مختتم تبدیلی کا کنواں پیہم چل رہاہے اور اب اِس گرگٹ زدہ مکان میںدوائے قلب وجگر کی فراہمی کی ذمہ داری کا قرعہ سہیل عباس کے نام نکلاہے جو دیو جانس کلبی کی طرح انسانیت کی تلاش میں انہماک کامظاہرہ کر رہا ہے ۔ اِن دِنوں یہاں سہیل عباس کی نگرانی میں کمپیوٹر سنٹر چل رہاہے ۔وہ سب قدیم لوگ جو یہاںبے لوث محبت ،بے باک صداقت ، ایثار، خلوص ،مروّت اور قلبِ حزیں کا تریاق بانٹتے تھے وہ اپنی دکان بڑھا جائیںگے اور ایسے نئے مکین یہاں آ بسیں گے جو نجاتِ دیدہ و دِل کی ساعتوں کو یقینی بنائیں گے ۔ پس نوآبادیاتی دور میںقدیم جھنگ شہر سے نیا شہر تک سرکاری شعبے کی ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں جن کایک طرف کرایہ دس پیسے تھا۔ اس کے باوجودیہاں کے مسافر پیدل ہی پانچ میل کی یہ مسافت طے کرتے تھے ۔ قدیم جھنگ شہر اور نئے جھنگ صدر کے وسط میں کئی دکانیں ہیںجن میں کرایہ دار اور کاروبار تیزی سے بدلتے رہتے ہیں۔نو آبادیاتی دور میں اِس علاقے میں مغربی ہند کی ریاست مہاراشٹر کے شہر پُونا اوردکن سے تعلق رکھنے والے ہندو تاجریہاں کاروبار کے سلسلے میں آتے تھے۔وہ یہ بات زور دے کر کہا کرتے تھے کہ اس علاقے کی دکانوں میں پنسار،برقیات، ریت ،مٹی ،بجری ،نمک ،چُونا،سیمنٹ ،رنگ ،روغن ،پتھر،فیشن ،گوشت اورمنیاری کا سامان فروخت ہوتاہے ۔ بڑے شہر کے ذخیرہ اندوز تاجر دُونا منافع لے کر سادہ لوح لوگوں کوچُونا لگاتے ہیں مگر چونکہ آدھی وال کی دکانوں کے حال مست دکان دار اپنے غریب گاہکوں کا بہت خیال رکھتے ہیں اِس لیے رات گئے تک یہاں چہل پہل رہتی ہے اور یہ چوک کبھی سُونا نہیں ہوتا۔ سرگودھا روڈکے اکثر مکین اپنے مکان فروخت کر کے نئی بستیوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ اس وقت حضرت بلال ؓ چوک کے شمال میں سرگودھا روڈ کی تیزی سے بدلتی صورت ِ حال دیکھ کرمجھے احمد مشتاق کا یہ شعر حسبِ حال معلوم ہوتاہے :
وہی گلشن ہے لیکن وقت کی پرواز تو دیکھو
کوئی طائر نہیں پچھلے برس کے آشیانوں میں
مجھے یقین ہے مستقبل قریب میں یہاں نئے جلووں کی تعمیر ہو گی اور یہاں کی خاک بہت جلد اکسیر ہوگی ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ نئے زمانے اور نئے صبح و شام اس علاقے کے منتظر ہیں ۔سال 1926ء میں گورنمنٹ کالج اور گورنمنٹ ہائی سکول سے ملحق وہ قدیم چوک جو کالج چوک آدھی وال کہلاتا تھاصد شکر کہ سال 2023ء میں حضرت بلالؓ چوک قرارپائے گا ۔عشقِ رسول ﷺکے فیضِ عام کے اعجاز سے سیدنا حضرت بلال ؓ حبشی کودوام حاصل ہو گا مگر رومی بادشاہ سکندر کا جاہ وجلال تاریخ کے طوماروں میں دَب جائے گا۔ حضرت بلالؓ چوک سے ایوب چوک تک گڑھوں سے اٹی ہوئی اور گرد سے پٹی ہوئی سڑک جو شیر شاہ سوری فریدخان (B: 1486- D: 1545)کے زمانے سے جوں کی توں تھی اب اُس کی قسمت بدلنے والی ہے اور اُسے یک طرفہ(Oneway ) کر کے درمیان میں سبزہ زار بنا دیا جائے گا۔اس جگہ کھجور کے پودے گاڑے جائیں گے اس قدیم سڑک کی مغربی جانب جس خام فٹ پاتھ پر اناڑی حجام شہر بھر کے گدھوںکے بال کاٹتے رہے ہیں وہاں بہت جلد چُونے والی بھٹیوں کے شعبدہ باز کنجڑے موسم کے پھل ڈھیریوں کے حساب سے فروخت کرکے راہ گیروں کو چُونا لگا کر اُن کی جیبیں کاٹیںگے۔چوک کی مغربی جانب تاریخی گورنمنٹ کالج کی شمالی دیورار سے ملحق فیصل مسجد سڑک کی توسیع کی زدمیں آ جائے گی ۔ایام گزشتہ کی کتاب کے مختلف ابواب و مدارج ہر طرف بکھر جائیں گییوں سڑک کی توسیع پر مامور محکمہ شا ہرات کا عملہ نصف صدی کے عرصے پر محیط حاجی حافظ محمد حیات ، نور احمدثاقب ،شفیع ہمدم ،عمر حیات بالی ،احمد حیات ،عباس ہادی ،شیخ ظہیر الدین ،احمدطاہر ملک ، عبدالستار ،عامر شاہ ،حافظ ارشاد،نور خان ،رب نواز،سید عالم ،عبد المجید،ظہور احمد کی یادوں کے خزینے کو فریادوں کے دفینے میں بدل دے گا ۔ ملبے کا ڈھیر یہ بتا رہاہے کہ ماضی کی یادوںکی اساس پر اُمیدوں کا قصرِ عالی شان تعمیر کرنا نہایت سہل ہے۔جب کہ سنگلاخ زمین میں نئے سرے سے اُمیدوں کی فصل کاشت کرناایک کٹھن مر حلہ ہے ۔ توقع ہے کہ نوجوان سہیل عباس جلد ہی اپنے آباکی نشانی کی شکستہ دیواروں،اُکھڑے بام و دَر اور بِکھری اینٹوں کی دِل دہلا دینے والی اور کارِ جہاں کے ہیچ ہونے کا یقین دِلانے والی یہ سرگوشی سُن لے گاصرف دو مرلے کی فیصل مسجداپنی ذاتی جا ئیداد کی لبِ سڑک واقع دکانیں گرا کر وہاں مسجد تعمیر کرائے گا۔،،
اس علاقے کی صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت کے چشم دید گواہوں میں منشی کھان ایاز بھی شامل ہے ۔ چار ہزار سال قبل مسیح میںیونانیوں کا تعمیر کردہ حُسن کی دیوی ( ہیرا) کا مندر،مغلوں کا فِیل خانہ ،پنج پپیر کا شہر خموشاں ، لُوہلے شاہ کے خفتگانِ خاک اورتیرہ سو سال قدیم شورکوٹ کے کھنڈرکی منفرد طلسمی کشش کے بارے میں وہ متعدد رازوں کا امین تھا۔ اُس نے دس برس قبل جو پیشی گوئی کی تھی کی تھی وہ درست ثابت ہوئی ۔وہ قدیم شکستہ سڑک جس کے گردو نواح کے خراباتوں میںخاک اُڑتی تھی آج وہاں چہل پہل ہے اور ٹریفک کا ازدحام ہے ۔چند روز قبل منشی کھان ایاز نے اپنے دیرینہ ساتھیوں قاسم خان ،یامین اور غفاری کو اپنی تسبیح روز و شب کے بارے میں بتایا :
’ ’گزشتہ دو عشروں سے میرے قلب ِحزیں کی محفل میں فیصل کھو کھر ،سجاد رانا ، حاجی حافظ حیات اور نور احمدثاقب کی یادوں کا ایسا اُجالاہے جن کے نتیجے میں ہر جگہ میرا بول بالا رہاہے۔ جب سے میں نے ضعیف معلم شبیرکے ساتھ ہونے والی ٹھگی کے بارے میں سُناہے مجھے سیاحی وال ،سبزباغ،مگر مچھ نگر ،خشتاں والی کھوٹ بھرج کھال، اور کہانیاں کاہ جیسے شہر ِسنگ دِل کے سب مکینوں سے اس لیے شدید نفرت ہو گئی ہے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیںکہ اِن بستیوں میں مقیم بہرام ٹھگ کی اولادسفلگی کی سب حدیں عبور کر چکی ہے ۔ راحت اورکرب کو جب تک دوسروں کے علم میں نہ لایا جائے اُس کا حقیقی احسا س بعید ا زقیاس ہے ۔ مشہور ادیب پی بی شیلے کی معرکہ آرا کتاب کا پہلے ذکر کیا جا چکاہے ضعیف معلم شبیررانانے یونانی دیو مالا کے کردارپرومی تھیس کے مانند جہلم اور چناب جیسے بڑے دریاؤں کی متلاطم موجوں ، کو ہستانوں ، جنگل بیلے کے ریگستانوں اور چٹانوں کی پوشیدہ پناہ گاہوں میں مورچہ زن ڈائنوں ،چڑیلوں اور آدم خور بُھوتوں سے فکری تصادم کی راہ اختیار کی۔وہ سمجھتا ہے کہ جہدِ مسلسل سے حریت ِ فکر و عمل کی جو ضیا حاصل کی اُس کے اعجاز سے سفاک ظلمتیں کافور ہو جائیں گی اور اِس سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر اہتمام ہو گا۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ بے حسی اور سرد مہری کا مظاہرہ کرنے والے غاصب درندوںکووہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتاتھا۔وہ الم نصیبوں اور جگر فگاروں کے پاس مرہم بہ دست پہنچ کر اُنھیں زندگی کی تاب و تواںسے متمتع کرنے کا آرزومند ہے۔ دُکھی انسانیت سے قلبی وابستگی ضعیف معلم شبیرکا سب سے بڑا اعزاز و امتیازسمجھا جاتا ہے ۔اُس کی خواہش ہے کہ آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے مجبور ،مظلوم اور مفلوک الحال انسانوں کی تاریک کٹیا میں اسلامی تعلیمات کے مطابق صبر و تحمل اور حوصلے و اُمیدکی ضیا سے اُجالاکیا جائے ۔اس کے معجز نما اثر سے دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے اور حریم کبریا سے آ شنا کرنے کے حیات آفریں سلسلے کا آغاز ہوگا۔ قلعۂ فراموشی کے اِن سب اسیروں کو وہ اچھی طرح جانتاہے۔سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد یہ بونے جو باون گزے بن کر اپنے تئیں عوج بن عنق خیال کرتے ہیں اپنی اوقات سمجھ لیں گے ۔یہ سب فراعنہ اور دریاؤں کی دیوی تھیٹس دریائے جہلم اور دریائے چناب کی طوفانی لہروں میں خس وخاشاک کے مانند بہہ جائیں گے ۔ ‘‘
مرزایامین ساحر جو تیل کے ساتھ ساتھ تیل کی دھاردیکھنے پر بھی اصرار کرتاہے بہت سوچ سمجھ کر بات کرتاہے ۔ عملی زندگی میں وہ سخت قواعد و ضوابط کے بجائے مشاورت کوزادِ راہ بنانے پر اصرارکرتاہے۔ بہرام ٹھگ کے خاندان سے اُس کے خاندان کی جان پہچان کا عرصہ ایک صدی پر محیط ہے۔ اپنے ذاتی تجربات کی بناپر وہ کہا کرتاہے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے احتیاط،فہم و فراست اور ہوشیاری نا گزیر ہے ۔اُس نے اس معاملے کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا:
’’سسلین مافیا کا خیا ل تھا کہ خاندان کے لیے اذکار کی مثال محض ایک شکستہ مہر کی سی ہے جسے حرف مکرر کے مانند لوحِ جہاں سے مٹانا ضروری ہے ۔ اس لیے ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو ،نائکہ تفسہہ ،گنوار ،تیامت،سمن ،شگن ،آہن گروں اور تسرینہ کے بارے میں وہ سچ بات بر ملا کہہ دیتاتھا اس لیے وہ ان سب کے دِل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا ۔زندگی کا بے آواز ساز مسلسل بجتا رہا مگر بے حِس معاشرے نے اپنی سادیت پسندی کے باعث اس پر دھیان نہ دیا۔ آشوب ِ زمانہ سے غافل رہنے والوں کے لیے فطرت نے تازیانہ تھام لیا تھا ۔کوئی شخص اس حقیقت سے آ گاہ نہ تھا کہ روز و شب کے مظالم کا سلسلہ کہاں جا کر تھمے گا۔ صباحت ، ظلی،سمن ،شگن ،رابی، مصبہا بنو ،تفسہہ ،گنوار ، تیامت اور تسرینہ کی بد نیتی اور قبیح کردار کے سانچے میں ڈھل کر آدم خور چڑیلیں بن گئی تھیں ۔ اُن کی سادیت پسندی کے ہزاروں رُوپ تھے جن میں خون آشامی سر فہرست ہے ۔ٹھگی ،فریب کاری ،جعلی چاہت ،حقارت اور ہوس کی آگ سے بچنے کی تمنا کرنے والے اذکار کی مشعلِ زیست اچانک لنکا ڈھانے والے گھر کے کسی بھیدی کے فریب کی آندھی کے بگولوں کی زدمیں آ گئی۔ اکتیس اگست 2021ء کی شام اذکار کو لاہور میں نامعلوم افرادنے ہلاک کر دیااور اُس سے نقد رقم ، بیش قیمت موبائل فون ، دوقیمتی گھڑیاں ،قیمتی ملبوسات سے بھرے دو تھیلے جن میں دسویں جنریشن کے دولیپ ٹاپ اور دس بڑے یو ایس بی(USB) بھی موجود تھے چھین لیے۔چیرہ دستوں کو فطرت کی سخت تعزیروں کا سب احوال معلوم ہو گیا۔ ‘ ‘
منشی کھان ایاز نے جب اس سانحہ کے بارے میں سُنا تو وہ توبہ استغفار پڑھنے لگا ۔ وہ یہ بات اکثر دہراتاکہ ناانصافی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو صبر و تحمل ختم ہو جاتاہے اور جب مضطرب دِلوں کی دھڑکن انسان کو بُجھتے جُگوں میں پہنچادیتی ہے تو انسان سوئے افلاک دیکھنے لگتاہے ۔آفاق سے اِن درد انگیز نالوں کا جواب ضرور مِلتاہے ۔فرازِ دِل سے اُترتی ہوئی ماضی کی یادوں کی ندی کی روانی کو دیکھ کر منشی کھان ایاز اپنے پڑوسی شبیررانا کے بارے میں خواجہ میر درد کا یہ شعر اکثر پڑھتا تھا۔
خلق میںہیں پر جُدا سب خلق سے رہتے ہیں ہم
تال کی گنتی سے باہر جس طرح رُوپک میں سَم
بر صغیر کی کلاسیکی موسیقی میںسم کا تال یعنی موسیقی کے وزن کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔تال کے بجتے ہی خالی پر موسیقارکی گردن کا اونچا ہونا اور سم پر دفعتاً نیچا ہوجانا یہ ظاہر کرتاہے کہ موسیقار انتظار ِ کھینچ رہاہے ۔ علم عرض میں دلچسپی رکھنے والے اورذوقِ سلیم سے متتمع قارئین جانتے ہیں کہ تال کا آٹھ ماتراؤں پر انحصار ہے مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ منشی کھان ایاز کاسینہ حیات و کائنات کے گہر ہائے راز کا ایسا دفینہ ہے جواپنی مثال آپ ہے ۔ اُردو زبان کے متعدد ممتاز شعرا نے سم کے حوالے سے جو شعر کہے ہیں وہ گہری معنویت کے حامل ہیں:
مطرب سے پوچھ مسئلہ ٔ جبر و اختیار
کیا تال سَم پہ اُٹھتے ہیں بے ختیار ہاتھ ( شفیق سوپوری)
تھا سَم پہ یہ اُس پری کا نقشہ
سب آ نکھ مِلا کہتے تھے آ (پنڈت دیا شنکر نسیم )
منشی کھان ایاز اپنے درد آشنا احباب کواس شعر کا مفہوم جن حوالوں سے سمجھا نے کی سعی کرتاتھااُن کی تفصیل درج ذیل ہے :
جھنگ کے صدیوں پرانے گندا ٹوڑا کے کنارے مقیم نعمت خان کلانونت کے پوتے اور باہلو کھان کے بیٹے گھاسف بقال کھان نے سارنگی کی دُھن پر سمجھایا کہ سَم وہ مقام ہے جہاں سے تال شروع ہوتاہے۔ بھاٹی کے قحبہ خانوں کی رقاصہ اور نائکہ شباہت کمر نے بتایا کہ سَم سے مرادتال کی اولین ماترا ہے ۔تال کی ہر گردش میں سَم صرف ایک مرتبہ آتاہے۔ تشفی مَل کنجڑا اور لا ل کنور کا کہنا ہے کہ ترنم کے سلسلوں سَم کے اظہار پر توجہ مرکوز رہتی ہے اور سَم پر نغمے کی تکمیل ہوتی ہے۔ رُوپک کا ذکر سُن کرگھاسف بقال کھان نے مگر مچھ کے آ نسوبہاتے ہوئے اپنے آباکے حوالے سے بتایا کہ یہ ایک قدیم، مقبول و مشہور تال ہے جس کی سات ماترائیں ہوتی ہیں ۔ ماہر موسیقار رُوپک تال کے بارے میں اِس بات پر متفق ہیں کہ اِِس میں پانچواںماترا جو اِس کا سَم ہے اگرچہ تال کا حصہ تو ہے مگراِسے بالعموم خالی قرادیا جاتاہے ۔یگانۂ روزگار شخصیات کے بارے میں بھی یہی تاثر پایا جاتاہے کہ انھیں سہل نہیں سمجھنا چاہیے وہ اہلِ جہاں میں موجود ہونے کے باوجود اپنا ایک الگ رنگ اور منفر د آ ہنگ رکھتے ہیں ۔منشی کھان ایاز کاکہنا تھاکہ فلمی موسیقی کے شائقین کا خیال ہے کہ بر صغیر کی متعدد فلموں کے نغمے تال کے پانچویں ماترا رُوپک میں لکھے گئے جو بہت مقبول ہوئے۔ منشی کھان ایاز جب یہ فلمی نغمے گنگناتا تو اُس کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتیں :
آپ کی نظروں نے سمجھاپیار کے قابل مجھے
دِل کی اے دھڑکن ٹھہر جامِل گئی منزل مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے میرے مِلن کی یہ رینا
نیا کوئی گُل کِھلائے گی
تبھی تو چنچل ہیں تیرے نینا دیکھو نا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری بِندیا رے
سجن بندیا لے لے گی
تیری نِندیا رے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا جیون کورا کاغذ کورا ہی رہ گیا
جو لکھا تھا آنسوؤں کے سنگ بہہ گیا
منشی کھان ایاز کامطالعہ بہت وسیع تھااور نو آبادیاتی دوراورپس نوآبادیاتی دور کے واقعات پر اُس کی گہری نظر تھی۔ٹیلی ویژن کی نشریات دیکھنے کے لیے وہ اوجڑی ،پھیپھڑایا کُھراوڑہ ہوٹل پہنچ جاتا اور وہاں ایک کرسی پر بیٹھ کر کئی سال سے جاری حالاتِ حاضرہ پرتبصرے غور سے سنتااورسردُھنتا تھا۔ہفتہ ،6۔مئی2023ء کی سہ پہریہ مضمون مکمل کیا تو ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے یہ خبر نشر ہوئی کہ آج برطانیہ کے شاہی چرچ ویسٹ منسٹر ایبی میں شہنشاہ چارلس سوم ( B: 14-11-1948 )کی حلف برداری اور تاج پوشی ایک ہزار سالہ رسوم و رواج کے مطابق بہت دھوم دھام سے ہورہی ہے ۔چار لس کی ماں ملکہ الزبتھ دوم( B: 21-04-1926 D:08-09-2022)کی وفات کے بعد یہ تقریب منعقدہوئی ۔تاج پوشی کی اس تقریب کا موقع ستر برس کے بعد آیا ہے ۔آرچ بشپ نے چالیسویں شاہی مطلق العنان شہنشاہ چارلس کو 360 سال پرانا ٹھو س سونے سے تیار کیا ہوا دو کلو سے زیادہ وزنی کنگ ایڈورڈ کا تاج پہنایا اور حلف لیا اور شہنشاہ کو سات سوسال قدیم کرسی پیش کی گئی۔جب کہ چارلس کی اہلیہ کوئین آف کانسورٹ کمیلا پارکر(B: 17-07-1947)نے کوئین میری کا تاج پہنا۔ لاہور میں کنگ ایڈورڈ کے نام پر ایک میڈیکل یونیورسٹی ہے اور کوئین میری کے نام پر لاہور میں خواتین کا ایک کالج ہے جو نو آبادیاتی دور کی یاد ہیں۔ دو قصر بکھنگم لندن( برطانیہ )میں جشن کا سماں ہے جس میں دنیا بھر سے دو ہزار مقتدر شخصیات نے شرکت کی ہے ۔اس تقریب کے رنگ ہی نرالے تھے کمیلاپارکر جورازدارانہ طور پر منتظر ملکہ بر طانیہ تھی پرنسس آف ویلز لیڈی ڈیانا( 01-07-1961-31-08-1997)کو ٹھکانے لگانے کے بعدچارلس کواپنی زلفوںکااسیر بنا چکی تھی ۔ٹیلی ویژن پر اس تقریب کے مناظر دیکھے تو حیرت ہوئی کہ آسمان کیسے کیسے رنگ بدلتا رہتاہے اور زمانہ کس قیامت کی چال چلتا ہے ۔ منشی کھا ن ایاز نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اس کائنات میں مختلف ممالک کی حکومتیں اور سر براہ پیہم بدلتے رہتے ہیں ۔اِن مہروں کوسچ مُچ کا بادشاہ ،وزیر یا داروغہ سمجھنا خود فریبی ہے ۔ اقتدار کی کرسی کے لیے موسیقی کے کھیل کایہ چکر یوں ہی جاوداں چل رہاہے یوں سمجھ لیں کہ کنواں چل رہاہے ۔ اس دستور پرغورکرنا ضروری ہے کہ وقت کا بادشاہ تو کوئی اور ہے باقی ہر مہرہ جو اپنی مجبوری اور بے ثباتی کوجانتے ہوئے بھی مغرور ہے اُس کی سوچ میں یقیناً کوئی فتور ہے۔ دارا،سکندر ،جمشید، بابر ،شاہ جہاں ،ایڈورڈ اورچارلس کے فرقِ ناز پر ہیرے جواہرات اور سونے سے تیار کیا ہوا تاج موجود ہے مگرمنشی کھان ایاز ،ساغر صدیقی ،رام ریاض اور خادم مگھیانوی کے دوشِ غم پر بوسیدہ گلیم ہے ۔ تاریخ ہی اِس بات کا فیصلہ کرے گی کہ ان میں سے کِس شخصیت کی داستانِ حیات عظیم ہے ۔ منشی کھان ایاز آب و گِل کے کھیل کو ایک ایسی پہیلی سے تعبیر کرتاتھاجس کی گتھی سُلجھانا بعید از قیاس ہے۔ طوفانِ حوادث کے گرد آوربگولوں سے بچنے کی خاطراس دنیاکے باشندے بے بسی کی بوسیدہ چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ اپنے غموں کو دھوئیں میں اُڑانے کے لیے حقے کے کش لگانے کی غرض سے چلموں کی راکھ صاف کر کے اُس میں تمباکو بھرتے ہیں اور اُس پر انگارے رکھ کر کڑوی کسیلی سانسیں لیتے ہیں۔اِن رفتگاں کے نہ ہونے کی ہونی کے بعد دیکھنے والے چارہ گروں کی آ نکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جاتی ہیں۔ دست ِ اجل کے اٹل اشارے پرایک پتنگا دیپک پر جل جاتاہے تو دوسر اُس کی جگہ لیتاہے ۔منشی کھان ایازایک ایسی دنیاکابادشاہ ہے جسے ہوسِ اقتدار اور دہشت گردی کاکوئی اندیشہ نہیں ۔اس فقیر کی دنیا میں اقتدار کی رسہ کشی نہیں اور نہ ہی یہاں حرص و ہوس کی مسموم فضا اور سازشوں کا کوئی دخل ہے ۔ اِس سوال کا جواب کون دے گاکہ دِل گِیر منشی کھان ایاز جو اپنی دنیا کا بادشاہ تھا فقیرکیسے ہوگیا۔جاہ و منصب کو للچائی نگاہ سے دیکھنے والوں نے قصر و ایوان میں تو نجومِ فلک سجادئیے مگر اس بات کی طرف کسی کی توجہ نہ تھی کہ ماہتاب زمین سے دُور ہوتاچلا جا رہا تھا۔
ٹیلی ویژن دیکھ کر وہ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہتاتھااور جانتا تھاکہ گزشتہ چار برسوں میں وطن کے سادہ لوح لوگ گجر بجنے سے دھوکا کھاگئے اور بھیانک تیرگی نے دفعتاً اُن کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ منگل، 9۔مئی2023ء کی سہ پہرمنشی کھان ایازنے مجید امجدپارک جھنگ کے شمال میں واقع ایک سر سبز وشاداب پارک میں نصب پاک فضائیہ کے ایک محفوظ سیبر جیٹ فائٹر بمبار طیارے کے پاس بیٹھا تھااور وطن و اہلِ وطن کی سلامتی کی دعا مانگ رہاتھا۔منشی کھان ایاز کا کہنا تھاکہ پاک فضائیہ کا یہ تاریخی طیارہ دیکھ کر مجھے بہادر جنگجو فلائیٹ لیفٹنٹ یونس حسن شہید (ستارۂ جرأت )، گروپ کیپٹن سیسل چودھری( ستارۂ جرأت،ستارۂ بسالت،پرائڈ آف پرفارمنس) اور سکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی( ستارۂ جرأت ،ہلالِ جرأت) یادآجاتے ہیں جنھوں نے سا ل 1965ء کی سترہ روزہ پاک بھارت جنگ میںبھارتی فضائیہ کے اُن ہنٹر طیاروں کو جو بِھڑوںکی طرح اِن عقابوں کی طرف بڑھ رہے تھے پلک جھپکتے میں گولیوں سے چھلنی کردیا اور انھیںجلا کر ر اکھ کر دیا۔اِن شاہینوںنے جالندھر سے چالیس کلو میٹرکے فاصلے پر واقع بھارتی فضائیہ کے اڈے ہلواڑہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔مجید امجد پارک کے سامنے ایک ہوٹل میں ٹیلی ویژن کی بڑی سکرین پر وطن عزیز کے مختلف شہروں میں جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے لرزہ خیز مناظر دیکھ کرمنشی کھان ایاز کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برس رہی تھیں۔وہ بہت کم گو تھا اور ضرورت سے زیادہ ایک لفظ بھی اُس کے ہونٹوں سے نہیں نکلتاتھا مگر 9 ۔مئی2023ء کوملک میں رونما ہونے والے پُر تشدد واقعات پربہت دِل گرفتہ تھا اور اِسے قومی تاریخ کا یومِ سیاہ قرار دے کر اِس المیہ کی بھرپور مذمت کرتاتھا۔سانحہ 9۔مئی2023ء کو یومِ سیاہ قرا ردیتے ہوئے اپنے دیرینہ رفیق منشی کھان ایاز سے مخاطب ہوکروُول ٹیکنالوجی کے ماہرچودھری عمر حیات نے کہا:
’’ سانحہ 9۔مئی2023ء میںملوث طالع آزما ،مہم جُو شرپسند عناصرنے اُسی شجر سایہ دار کو نقصان پہنچایا ہے جواُن کوخنک چھاؤں فراہم کرتاہے اور آلامِ روزگارکی تمازت سے محفوظ رکھتاہے ۔ تاریخ کے طوماروں میں دبے ہوئے جرمنی کی نازی پارٹی کے عہد کے واقعات پر گہری نظر رکھنے والے مورخ جانتے ہیں کہ تاریخ ایک پیہم رواں عمل کانام ہے ۔ پہلی عالمی جنگ میںآٹھ اور نو نومبر 1923ء کو میونخ پستخ یا بئیر ہال یا ( Beer Hall Putsch )کی ناکامی کے بعد ہٹلر اور گو ئبلز نے اپنی قوم کی تخریب میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔اپنی قوم کو فریب دینے والے یہ سفاک درندے اور بے حِس دہشت گرد اور عادی دروغ گو جرمن آمر ایڈولف ہٹلر (1889-1945 : Adolf Hitler )اور جوزف گوئبلز ( 1897-1945 : Joseph Goebbels )کے عبرت ناک انجام کویادرکھیںجب ان موذی و مکار آمروں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی زندگی کی مشعل بجھا دی۔ تاریخ کی کتب کے یہ اوراق بیتے لمحات اور اُن سے وابستہ شخصیات کی روح اور قلب کی عکاسی کرتے ہیں ۔کسی بھی قوم کی زندگی میںوہ لمحات بہت کٹھن ثابت ہوتے ہیں جب حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب کرنے والے کور مغز ،ذہنی قلاش اور بے بصر مرغانِ بادنما اپنی قومی تاریخ کی قابلِ فخر یادگاروں اور اہم نشانیوں کو مٹانے پر تُل جاتے ہیں۔ اگر ہم لوحِ دِل پر تاریخی واقعات کومحفوظ کرنے کا حوصلہ پیدا کر لیںتوتاریخ کو ہماری چاہ گری اور ہمارے چاک گریباں کی رفوگری میں کوئی تامل نہ ہو گا۔ اپنے اسلاف کی میراث کے تحفظ اورماضی کے واقعات کو زادِ راہ بنانے سے ہی ہماپنے روشن مستقبل کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ میں سانحہ 9۔مئی2023ء کو ایک بھیانک خواب سے تعبیر کرتا ہوں جس کے اثرات محض لمحات تک نہیںبل کہ آنے والی نسلیں صدیوں تک محسوس کرتی رہیںگی ۔ ہماری فرو گذاشتوں اور یادداشتوں کامکمل احوال جب تاریخ کے اوراق میں لکھاجائے گا تو آئینہ ٔ ایام میں ہماری بدقسمتی کے نقوش واضح ہوتے چلے جائیںگے جنھیں دیکھ کر مستقبل کے قارئین نہ صرف اس سانحہ پر اپنے رنج و کرب کا اظہار کریں گے بل کہ تجاہل ِ عارفانہ کی مظہر ہماری ہماری فکری بے بضاعتی پر طنز بھی کریںگے ۔ ‘ ‘
منشی کھان ایاز اور اُس کے دیرینہ رفیق ذہن وذکاوت ،روح اور دِل و جگر کی جملہ کیفیات اور اسرار و رموز کا رمز آشنا تھے۔وہ اکثر یہ بات دہراتا کہ آدھی وال کو تو طویل عرصہ تک کوچۂ صد دانش وراں کی حیثیت حاصل رہی۔اِ ن زعما کے جاتے ہی اِس بستی کے درودیوار پر اُداسی اور رنج ملال کے سائے گہرے ہو تے چلے جا رہے ہیں اور دیوار و در کی شکل و صورت یکسر بدل گئی ہے ۔ جھنگ سے تیس کلو میٹر مغرب کی جانب تریموں ہیڈ ورکس کے قریب دریائے جہلم او ردریائے چناب کے سنگم کے نزدیک جو ہلکی پھاٹ ہے اُسے صدیوں سے مقامی بَلی مار ، موہانے اورمحکمہ انہار کے ملازم’’ برمودا تکون یا شیطان کی مثلث ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس مقام پر اپنے نقوش ِ ریا کو نکھارے اخلاقی پستی اور ذہنی افلاس کا سبک رو دیو مجبور انسانیت کی بے بسی کو دیکھ کر ہنستاہے۔اس پُر اسرار تکون سے طلسم ِ ہوش رُبا کا جوافسوں منسلک ہے اُس نے ہر عہد میں ماہی گیروںکاسکون غارت کیے رکھاہے ۔سیکڑوں کشتیاں اور تیراک اس تکون کی زدمیں آ کرز ندگی کی بازی ہارگئے ۔حیف صدحیف کہ پس نو آبادیاتی دور میں طالع آزما،مہم جُو، موقع پرست اور کینہ پرور سیاست دانوں نے سادہ لوح عوام کو فریب دے کر اِسی منحوس آسیب زدہ برمودا تکون کی بھینٹ چڑھادیا۔حالات نے ایسا رُخ اختیار کر لیا سلطانی ٔجمہور کا خواب دیکھنے والے جبر و استبداد کے چُنگل میں پھنس گئے۔ اپنی غم گاہوں سے دُزدانہ نکل جانے کی تمنا خیال و خواب ہو جاتی ہے۔ مرزا یامین ساحر نے وطن عزیزکی سیاست کے نشیب و فراز کے بارے میں کہا:
’’ابھی میرے محترم بھائی منشی کھان ایاز نے شمالی بحر اوقیا نوس کے مغربی حصے کے گہرے پانیوں میں واقع جس خوف ناک برمودا تکون (Bermuda Triangle) کا ذکر کیاہے ،ہواؤں کے مسافر اور سمندروں کے راہی اِس آسیب زدہ شیطانی تکون کا نام سنتے ہیں تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔اِس شیطانی تکون کا رقبہ انتالیس لاکھ ( 3,900,000 )مربع کلو میٹر ہے اور اِس کی ہر موج میں مافوق الفطرت بلاؤں اور خون آشام بُھوتوں اور چڑیلوں کا راج ہے ۔ امریکی مصنف لیری کوشے ( Larry Kusche)نے اس محیر العقول تکون کے بارے میںسال 1970ء میں تحقیق کاآغاز کیا۔ اپنے سروے ،مشاہدے اور تجربے کی بنا پراُس مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ معما حل ہو گیاہے اور یہ سب پُر اسرار کہانیاں وادی ٔ خیال میں مستانہ وار گھومنے والے توہم پرست لوگوں کے من گھڑت مفروضے ہیں۔ باطنِ ایام پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس قسم کے محیر العقول مقامات کے بارے میںتجسس کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔زندگی کی تمام رعنائیوں کے سوتے راز ہائے پنہاں اور تجسس ہی سے پھوٹتے ہیں۔مگر آخری تجزیہ میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکی مصنف نے کون سے اُلجھن کو سُلجھایا ہے ۔رانا سلطان کہا کرتے تھے کہ اس کائنات میں کئی مقامات پر برمودہ جیسی پُر اسرارتکونیں موجود ہیں جن کے سرابوں اور عذابوں سے اَلم نصیب انسانوں کی زندگی کی مشعل گُل ہو جاتی ہے ۔راناسجاد اکا خیال تھا کہ مہیب سناٹوں اور سفاک ظلمتوں کے فرغلوں میں لپٹے پر اسرار واقعات کی مثال ایسے عقدے کی سی ہے جس کی گرہ کشائی کرتے وقت راحتوں اور مسرتوں کی ایسی ضیا نصیب ہوتی ہے جس کے معجز نمااثر سے اذہان کی تطہیر و تنویر کو یقینی بنایا جاسکتاہے ۔ پنہاں اشیا کی نسبت عیاں اشیا کی ماہیت ہی گنجینۂ معانی کا طلسم ہے کاش لوگ نہاں گنج کے بجائے عیاں ویرانوں پر توجہ دیں۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں حسد ،حرص اور ہوس نے پورے معاشرے کو بے حسی کی بھینٹ چڑھا دیاہے ۔ کبھی کبھی میرے قلب ِ حزیں میں یہ خیال آتاہے کہ پس نو آبادیاتی دور میں سیلِ زماں کے تھپیڑوں نے اس خطے کے مجبور عوام کو برمودا تکون میں پہنچا دیاہے ۔المیہ یہ ہے کہ یہاں کے باشندوں کے قلوب کے درمیان سنگین فاصے حائل ہو چُکے ہیںجو قومی ترقی و خوش حالی کی راہ میں سدِ سکندری بن گئے ہیںا ب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں کی تلاطم خیز موجیںگرداب میں گھری عوام کی کشتی کو کہاں پہنچاتی ہیں۔ ‘‘
ہجومِ غم میں گھرا خیال صبحوں میں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے نشیبِ زینہ ٔ ایام پر عصارکھتے منشی کھان ایازدِل تھام کر اپنی کٹیا کی جانب روانہ ہوا۔
جمعرات،25۔مئی2023ء کوملک بھرمیں یومِ تکریم شہدائے پاکستان منایا گیا اور قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ تزئین گلستان میں مٹی کا قرض چُکانے والے ہمارے شہدا کا خون شامل ہے ۔سوہنی دھرتی کو قدم قدم آباد رکھنے کی تمنا میں ان شہدا نے اپنی جان کی قربانی دی اور آنے والی نسلوںپر واضح کر دیا کہ سرمایۂ تن ٹھکانے لگانے کا یہی بہترین طریقہ ہے ۔ منشی کھان ایاز اس بار مِلاتو اُس کا رنگ عجب تھا اُس کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجہ بتا رہا تھاکہ وطن محض چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں بل کہ یہ اہلِ وطن کی روح اور جسم سے عبارت ہے ۔ اُس نے بتایا کہ ہمارے شہید زندہ ہیں وہ اپنے آبائی گھروں میں نہیںبل کہ جنت میں پہنچ جاتے ہیں۔وہ مائیںجن کے لختِ جگر لہومیں نہاگئے آنے والی نسلیں اُن کے آ نسوؤں کو عزت دیں گے ۔ ہمارے وطن کی آزادی ،استحکام اور سلامتی خونِ شہیدانِ وطن کا ثمر ہے ۔فرازِدِل اور فکر وخیال کی حسین وادیوں سے اُترتی ہوئی ممنونیت کے احساس سے سر شا ہوکرمنشی کھان ایاز نے سیبر جیٹ فائٹر بمبار طیارے پرپھول نچھاور کیے اورپاک سر زمین کے دفاع کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ دینے والے شہداکے حضور اپنے آ نسوؤں کا نذرانہ پیش کیا۔ اُس نے بر ملاکہاکہ یاس وہراس کے اِن لرز ہ خیز جُگوں میں شہدائے وطن کے ساتھ عقیدت دِلوں کودِلوں سے جوڑنے کا انتہائی موثر وسیلہ ثابت ہوگی۔قرنوں کے جُھلسے ہوئے رُخ میں اُمید کی کرن وفا ،ایثار اور سپاس گزاری ہی سے پھوٹتی ہے ۔ارضِ پاکستان میں ہمارے ہر بیش بہا اثاثے کی قدر و منزلت شہدائے وطن کی قربانیوں کی مرہونِ منت ہے ۔وطن کی مٹی میںشہدائے وطن کا خون شامل ہے اس لیے اس مٹی کا ہر ایک ذرہ ہمیں اپنی جان سے بھی پیارا ہے ۔
جمعرات، اٹھائیس مئی 1998ء پاکستان کی تاریخ کاایک بابِ منور ہے جب پاکستان نے چاغی میں ایٹمی دھماکے کیے تو وطن ِ عزیزعالم ِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت اوردنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا تومنشی کھان ایاز نے اپنے معتمد ساتھیوں ریاض گلشن،بشیراحمد،منیر ،سجاد،رمضان،احمدیار ،ماہتاب ، رب نواز،خان پوسٹ میں،رفیق،عامر ،حیات اور لال دین کے ساتھ مِل کر کالج چوک کی مسجد کے سامنے کھڑا ہو کر جب نعرۂ تکبیر کہا تو سب حاضرین نے ’’ اللہ اکبر ِ،، کا نعرہ بلندکیا،مٹھائی تقسیم کی اور نوافل ادا کیے ۔ ممتاز ماہر نفسیات پروفیسرحاجی حافظ محمدحیات نے حاضرین کو بتایا کہ پاکستان کے ایٹمی سائنس دانوں نے دنیا پر واضح کر دیا کہ پاکستان کے بہادر لوگ سامراجی جارحیت کے سامنے نہ ماضی میں جُھکے تھے نہ مستقبل میں جُھکیںگے۔ اتوار۔ اٹھائیس مئی 2023ء کو منشی کھان ایاز کو دیکھا وہ اُس مقام پر تنہا کھڑا نعرۂ تکبیر لگا رہا تھاجہاں چھے ماہ پہلے ایک چھوٹی سی مسجد تھی مگر اب سڑک میں توسیع کے نتیجے میں وہاں کچھ بھی باقی نہیں۔وہ گزشتہ چوبیس سال سے یومِ تکبیر کے موقع پر اس جگہ پہنچتا اور نعرۂ تکبیر لگا کر اپنے خالق،مادرِ وطن اوراہلِ وطن کے حضور ہدیۂ سپاس پیش کرتا تھا۔ اِس کے مداحوںکی ٹولی کا اتا پتا کسی کو معلوم نہیں البتہ کینہ پرور حاسدوں اور سادیت پسند منافقوںکے نام سب جانتے ہیں ۔بروٹس قماش مسخرے اپنے انجام اور فطرت کی سخت تعزیروں سے ڈرنے لگے ہیں۔آلامِ روزگار کے بگولوں نے اُس کی محفل کے سب چراغ بجھادئیے اور اس سال وہ اکیلا ہی کھڑا تھا۔
پطرس بخاری نے مرید پور کے ایک پیر کا واقعہ بیان کیاہے جواپنے آبائی گاؤں کے مکینوںکے ہاتھوں ذلیل و خوار ہونے کے باعث اپنے طور پر گاؤں بدر ہوگیاتھا۔منشی کھان ایاز زندگی بھر لوگوں کے گھر جا کر بچوں کو پڑھانے سے گریزاں رہا۔منشی کھان ایازکی زندگی کے اِس پُر اسرار واقعہ کی گرہ کشائی کرتے ہوئے چودھری عمرحیات نے بتایا:
’’ سال 1973ء کے اگست کے مہینے کے وسط میں دریائے چناب میں جوقیامت خیزسیلاب آیا وہ جھنگ کے حفاظتی بند کوبہا لے گیااور پورے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔منشی کھان ایاز کا مکان بھی ملبے کا ڈھیر بن گیا۔سیلاب کی تباہ کاریوں کے ساتھ ہی منشی کھان ایاز آلامِ روزگارکے مہیب بگولوں کی زدمیں آ گیا۔اُس کی اہلیہ شدید بیمار ہوگئی اور ساری جمع پونجی اُس کے علاج کی بھینٹ چڑ ھ گئی۔ستم کشِ سفر رہنے والے اس معلم نے اپنے دِل پہ جبر کرکے یہ فیصلہ کیا کہ وہ سہ پہر کے وقت شہرکے متمول لوگوں کے گھروں میں جاکر اُن کے بچوں کو پڑھائے گا۔اُس زمانے میں خانو لکڑہارے کی دولت کی بہت دھوم تھی۔خانو لکڑہارے کو جب منشی کھان ایاز کی پریشاں حالی و درماندگی کا علم ہوا تو اُس نے خود ہی منشی کھان ایاز کے گھر پہنچ کر اُسے کہا:
’’میرے چار بیٹے پرائمری کی جماعتوں میں پڑھتے ہیں اگر تم میرے گھر آکر انھیں روزانہ دو گھنٹے پڑھادو تومیں مہینے کے آخرمیں تمھیں ماہانہ دوسوروپے فیس دوں گا۔‘‘
حالات کاجبر سہنے والے منشی کھان ایاز نے اس پر آمادگی ظاہر کر دی اور ہر روز سہ پہر کو نو دولتیے خانولکڑہارے کے گھر جاکر اُس کے چار بچوں کوپڑھانا شروع کر دیا۔ایک مہینا گزرگیامگر کوئی فیس ادا نہ کی گئی۔ایک دِن منشی کھان ایاز نے گھٹیاعیاش اور ابلیس نژاد نو دولتیے خانولکڑہارے سے ماہانہ فیس کا تقاضا کیاتووہ غرایا:
’’اس شہر میں میرافرنیچر کاکروڑوں روپے کا بزنس ہے ۔ تمھارے دو سو روپے لے کرمیںکہیں بھاگ نہیں جاؤں گا۔تمھیں تو یہاںآتے صرف ڈیڑھ مہینا گزراہے جب کہ میں نے جن لوگوں سے قرض لیناہے وہ تین سال سے مجھے ٹھینگا دکھارہے ہیں مگر میں نے کبھی پروا نہیں کی۔ صبر سے کام لومیں تمھاری دوماہ کی فیس اکٹھی ادا کر دوں گا۔‘‘
منشی کھان ایاز نے لب اظہار پر تالے لگالیے اور اپنے غم کابھید کبھی نہ کھولا، خانولکڑہارے کے غبی بچوںکوپڑھاتے اڑھائی ماہ گزرگئے مگر خانولکڑہارے نے محنتی معلم کو کوئی فیس ادا نہ کی ۔سہ پہ کاوقت تھاایک خستہ حال گدا نے خانولکڑہارے کے گھر کے سامنے صدا کی :
’ ’ کر بھلا ہو بھلا !میرے گھر میں کل صبح سے فاقہ ہے ،مجھے دوروٹیوں کاآٹا دے دو۔‘‘
گدا کی آواز سُن کر خانولکڑہارے نے اپنے بیٹے سے کہا:
’’ جاؤ آٹے کے بھڑولے سے ایک پلیٹ میں ایک پاؤ کے قریب آٹا نکا ل کر لے آؤ تا کہ یہ فاقہ کش بھکاری دو روٹیاں پکا کر کھا سکے۔‘‘
لڑکا گھر سے آدھی پلیٹ آٹا لایا اور خستہ حال بھکاری کے بوسیدہ کے تھیلے میں اُنڈیل دیا۔اسی اثنا میں منشی کھان ایاز نے کہا:
’’ میں اپنے گھر کے خرابے کی کیفیت کیا بتاؤںمیں تو اِس خرابے میںمضمحل ہو چُکا ہوں ۔میں وقار سے جینے کی تمنا کرتا ہوں مگر حالات کٹھن حالات نے مجھے اس قدر پاما ل کر دیاہے کہ میرا حال بھی اس گدا گر جیسا ہے جہاں فاقہ کشی کونوبت آگئی ہے ۔‘‘
یہ سنتے ہی خانولکڑہارے کے منھ سے جھاگ بہنے لگا اور وہ اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
’’ اونہہ ! خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتاہے ،اب اس لالچی منشی کے گھر میں بھی فاقہ کشی کی نوبت آ گئی ہے۔ ٹُلے ! گھر جاؤ اور ایک پلیٹ آٹے کی اور لاؤ۔‘‘
منشی کھان ایاز نے جب مشکوک نسب کے فرعون خانولکڑہارے کی ہرزہ سرائی سُنی تو اُس کے صبر کاپیمانہ لریز ہوگیااور دامن جھاڑ کا اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا:
’’ حضرت بلال ؓ حبشی چوک گرد ونواح اور مضافاتی علاقوں کے سادہ لوح لوگ توتمھیں ابر کرم سمجھتے ہیں مگر تمھارے دامنِ خیال کے تپتے صحر ا کی ریت اِس کی تردید کر رہی ہے۔ذہنی اعتبار سے تم بھی اُس گدا کی طرح مفلس و قلاش ہوجو ابھی تمھارے گھرسے آٹے کی آدھی پلیٹ لے کر گیا ہے ۔ میری دوہ ماہ کی فیس گئی مگر ایک فاتر العقل ابلہ اورخسیس کی شناخت ہو گئی ۔ تمھاری سادیت پسندی نے تمھیں نحوست اور بد ؓختی کے ایسے صحرا میں پہنچا دیا ہے جہاں سب درختوںکو ہوس کی دیمک لگی ہے اور بے حسی کی باد سموم نے ہمدردی کے تمام پتوں کو جُھلسا دیاہے۔ ہم جیسے فقیروں کے گھروں میں غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال رلھے ہیں مگر تم جیسے فراعنہ کے عشرت کدوں میں ذلت ،تخریب ،نحوست ،بد بختی اور بے حسی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ تمھارا المیہ یہ ہے کہ کالے دھن کی فراوانی نے تمھیں بے ہودگی ،بد معاشی اور بد اخلاقی کی بھینٹ چڑھا دیاہے ۔ میں جا رہا ہوں مگر میرے بعد کوئی آبلہ پا تمھارے عقوبت خانے کارُخ نہ کرے گا۔ ‘‘
بد عہدی ،محسن کُشی اور سفلگی نے قماری عیاش خانو لکڑ ہارے کو مار رکھا تھااور اُس کی آ نکھوں پر ایسا غبارآگیاتھاکہ اُسے کچھ دکھائی نہیں دیتاتھا۔ دشتِ مصیبت میںپت جھڑ کے موسم میں منشی کھان ایاز نے اپنے احباب کو مدد کے لیے بہت پُکارامگر وہاں کے سب طیوردانہ چُگنے کے بعدلمبی اُڑان بھر چُکے تھے ۔غم جہاںکو گلے کا ہار بنانے والا یہ فقیر تھک ہار کر خانو لکڑ ہارے کے گھر سے نظر بچا کے ایسے اُٹھاجیسے کوئی جہاںسے اُٹھتا ہے ،گلشنِ ہستی منشی کھان ایاز کے بے نیلِ مرام جانے کے بعد سفلگی کے لا محدود صحرا میں پھرنے والے خانولکڑہارے کے گھرکوئی معلم نہ آیا ۔ مسرتوں کو حسرتوں اور محرومیوں بدلنے والی بہرام ٹھگ کی اولاد نے خانولکڑہارے کے بیٹوں کو بُری صحبت میں پھنسا دیااور وہ سب منشیات کے عادی ہوگئے۔
بُدھ۔اکتیس مئی 2023ء کی سہ پہر قدیم جھنگ شہر کو جانے والی سڑک کی مغربی جانب واقع امام بارگاہ آلِ عمران کی شمالی جانب باب ِ علی ؑ جھنگ کے جنوب مغرب میں واقع بستی شادی والا جھنگ سٹی روڈ میں مقیم منشی کھان ایاز کے دیرینہ رفیق اورمعتمد ساتھی چودھری عمر حیات نے عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔مقامی مسجد سے جب وُول ٹیکنالوجی اور اُونی پارچہ بافی کے عالمی شہرت یافتہ ماہر چودھری عمر حیات کی رحلت کااعلان ہوا توشہر کا شہر سوگوار ہوگیا۔ سورج ڈُوب رہا تھا،شام دھواں دھواں تھی اور سوگوار خاندان کے سب افراد اُداس اُداس تھے۔ غم گساروں کو ماضی کے کئی واقعات یاد آنے لگے ۔دو برس قبل جب چودھری عمر حیات کا بڑا بھائی چودھری حبیب سکندر فوت ہو ا تو اُسے بھائی کی دائمی مفارقت کابڑا صدمہ ہو ا۔وہ کہا کرتاتھا کہ جب سے اجل کے بے رحم ہاتھوں نے میرے قلب ِحزیںسے میرے بڑے بھائی کی منور تصویر ہٹائی ہے دِل ویران ہوگیاہے ۔بھائی کے بغیر بھری دنیامیں جی نہیں لگتا سوچتا ہوں اَب زندگی بسر کرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے ۔ جب دریائے چناب کی طوفانی لہروں نے سوہنی کمہاری کو غرقاب کردیاتو اُس کا باپ ’’ تُلا ‘‘ جھنگ پہنچا۔ اٹھارہویں صد ی عیسوی جس جگہ اُس نے قیام کیاوہ علاقہ ’’ تُلے والا ‘‘ کہلاتاہے ۔تُلے والا کی ایک نوجوان حسینہ اجارو کمہاری جب الہڑ جوانی میں اپنی چاندی کی گردن میںسونے کی گانی پہن کر نکلتی تو شہر کے جو نو جوان دِل تھام لیتے تھے اُن میں زادو لُدھڑ،ناصف بقال،کرموں بھٹیارا،مُکھو، یارا سازندہ ،مُرلی قصاب ،دِتُو،شبراتی ،گامی،شیدا،نتھو،فضلااور عمر حیا ت شامل ہیں۔ اجارو کمہاری اپنے ایک سوکے قریب عشاق کی آ نکھوں میں دُھول جھونکنے کے بعدکُوفہ چلی گئی اور ایک امیر صنعت کارسے بیاہ کر لیا۔اجارو کمہاری کا چچا گامی کوزہ گر اپنی بیٹی رابی کی طلاق کے بعدکبوتری عامل کی کالونی میں رہتاتھا۔ رابی چڑیل نے اپنے شوہر ماکھو سنتری کی زندگی کی شمع گُل کردی اور اپنے مشکوک نسب کے بیٹے کولے کر اپنے میکے چلی آئی ۔یہاں خرچی کی کمائی سے رابی نیء ایک بہت بڑا عشرت کدہ تعمیر کیا اور اِس میں شہر کے سب مست بند قبا سے بے نیاز ہوکر عاشی کرتے تھے۔ایک عیار شاطراور سفاک چڑیل کی حیثیت سے اجارو کمہاری نے اپنے شوہر کی پر اسرار ہلاکت کواپنی فاتحانہ مہم جوئی پر محمول کیا۔ چودھری عمر حیات کے نہ ہونے کی ہونی دیکھنے کے لیے جو غم گسار پہنچے اُن میں اجارو کمہاری بھی شامل تھی جو مرحوم کاآخری دیدار کرنے کے بعدایک الگ گوشے میں کھڑی مگر مچھ کے آ نسوبہارہی تھی ۔ اجارو کمہاری کو ٹسوے بہاتے دیکھ کر شہر کی رزیل نائکہ تفسہہ نے اپنی دیرینہ سہیلی رابی کا کندھا پکڑ کرکہا:
’ ’ سال1966 ء میں اپنے ایک آشنا کے ساتھ پسند کی شادی کے دس سال بعد گردشِ ایام نے اجارو کمہاری کو بیوگی کی عفونت زدہ رِدا اوڑھادی۔اس کے بعد اجارو کمہاری اپنی پانچ بیٹیوں سمیت میرے آبائی قحبہ خانے میں پہنچی ۔حُسن و رومان کی شطرنج کی بساط پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے بعداجارو کمہاری نے اپنے بھڑوے خصم کھوشیا کو زہر دے کر ہلاک کر دیا۔سیاحی وال میں اجارو کمہاری کا جنس و جنوں پر اجارہ تھااس لیے اُس نے منشیات اور خرچی کی کمائی سے بہت کالا دھن کمایا۔ اجارو کمہاری نے اپنی ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز بوڑھی نائکہ طوائف تفسہہ اور اپنے قحبہ خانے میں جنسی دھندہ کرنے والی نوجوان طوائفوں مصبہابنو،شگن،سمن، صباحتی، ظلی ،رابی اور کنزی سے مِل کر ایسی چال چلی کہ پیادہ نہایت ڈھٹائی سے فرزیں کی پٹائی کرنے لگا۔اپنے اعدا کو بھی پیار کی نگاہ سے دیکھنے والے منشی کھان ایاز کو متمول طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کوآبائی دولت سے محروم کر نے والی اِس رذیل طوائف سے شدید نفرت تھی ۔وہ اِس المیے پرششدر رہ جاتے کہ اجارو کمہاری پر نوجوانوں کا دَم نکلتا تھااور وہ اسی کو دیکھ دیکھ کر زندگی گزارتے تھے۔ بیس برس کے بعداجارو کمہاری نے اُٹھان کوٹ میں اپنا نیا آشیاں بنا لیا۔ شہر کے کئی نو جوان توایسے تھے جوقحبہ خانے کی دیوار سے لپٹ کر گریہ و زاری کرتے رہتے تھے۔اس کے جانے کے بعد عجیب کاروبار ہوئے کہ رنگ سے رنگ اور خواب سے خواب کیا بچھڑے کہ ذلت و رسوائی کا خمیازہ اُٹھانے والے نو جوانوں کوسب نقش ادھورے محسوس ہونے لگے ۔‘‘
ضعیف محنت کش خانو بڑھئی کے بیٹوں کی تعلیم و تربیت میں منشی کھان ایاز نے بہت خدمات انجام دیں۔ آٹھ عشروںکی رفاقت کے ٹوٹنے پر خانو بڑھئی اور منشی کھان ایاز فرطِ غم سے نڈھال اور غرقابِ غم تھے ۔منشی کھان ایازکہنے لگاکہ نصف صدی قبل یاری کی یہ گُڈی شہر کی فضا میںاِتنی اُونچی چڑھی کہ مضافاتی علاقوں کے سب لوگ دنگ رہ گئے ۔آہ ! اجل کے بے رحم ہاتھوں نے طویل سنگت کی یہ ڈورتوڑ دی اور طوفانِ حوادث کے تلاطم خیز بگولے سنگت کی گُڈی کو اُڑا لے گئے ۔ چودھری عمر حیات نے چالیس برس تک جھنگ شہر کے قدیم کمبلوں کے بہت بڑے کارخانے کے سربراہ کی حیثیت سے تدریسی اور اہم انتظامی خدمات انجام دیں۔ ملک کے طول و عرض میںاُس کے ہزاروں شاگرد وُول ٹیکنالوجی کے شعبہ سے وابستہ کارخانوں میں خدمات پر مامور ہیں۔منشی کھان ایاز نے اپنے دیرینہ ساتھی چودھری عمر حیات کی دائمی مفارقت کو اپنی زندگی کالرزہ خیز،اعصاب شکن اور جان لیوا سانحہ قرار دیا۔ چودھری عمر حیات کی اچانک وفات کے صدمے نے منشی کھان ایازکو تنہائیوںکی بھینٹ چڑھا دیا۔وہ یہ بات زور دے کر کہتا تھاکہ دِل کو دردآشنا بنانے میںعمریںبِیت جاتی ہیں ۔چودھری عمر حیات کی چشم کے مُرجھاجانے کے سانحہ کے بارے میں منشی کھان ایاز نے گلو گیر لہجے میںبتایا کہ منگل ۔ 9 ۔مئی 2023ء کی شام میں نے دیکھا کہچودھری عمر حیات بہت پریشان تھا۔اس یومِ سیاہ کی تباہ کاریوں کودیکھ کر اس کے حلقۂ احباب کے سب لوگ غرقابِ غم ،حواس باختہ ،نڈھال اور مضمحل تھے ۔ وہ بار بار یہ بات دہراتا کہ وہ کون بے حِس غار ت گر ہیں جنھوں اُمیدوں کی فصل کو اس سفاکی سے پامال کیاہے کہ جس پر سوہنی دھرتی کاذرہ ذرہ نوحہ خواں ہے۔ عصبیت اورجبر کازہرپھیلانے والوں سے اُسے سخت نفرت تھی ۔ طائرِ حیات کی نقاہت پر نظررکھتے ہوئے چودھری عمر حیات نے اُکھڑے دَموں میں آہ بھر کر کہا:
’منشی کھان ایاز کے ملک محمد شفیع کے سا تھ معتبرربط تھا۔18۔اگست 1922ء کو ملک محمد شفیع عازم اقلیم عدم ہو گئے تو منشی کھان ایاز نے اپنے محب وطن پڑوسی کے حضور آنسوؤں اور آہوں کا نذرانہ پیش کیا۔ جو کہا کرتے تھے وطن سے محبت کے سوتے ہمارے دِل و جگر سے پھوٹتے ہیں۔وطن کی مانگ کو روشن رکھنے والے تِیرگی کا طلسم توڑنے کے لیے خونِ دِل سے مشعلِ وفافروزاں کرتے ہیں۔حب الوطنی کی وہی حیثیت ہے جوجسم میں لہوکی ہوتی ہے ۔ریگِ صحرا پر یا سرِ دشت کِھلنے والے پر بھول کو دیکھ کروطن کی خاطر اپنی جان کی قربانی دینے والے شہدا کی یادذہن میں گردش کرنے لگتی ہے ۔ارض ِ وطن کی مِلّی، نظریاتی، تہذیبی اورثقافتی اساس پر وار کرنے کی اِس سازش نے میری روح کوزخم زخم اور دِلِ حزیں کوکِرچی کِرچی کردیاہے ۔صحنِ چمن میں چلنے والی بادِ سموم کے بگولوں نے کلیوں او ر غنچوں کو جُھلسادیاہے اور آج ارباب ِوفاکی چشم لہو روتی ہے ۔ میری آ نکھیں اشک بار ہیں اور خاک ِ وطن پر متاعِ وفا و خلوص نثار ہے۔ گردشِ افلاک نے مجھے جو جان لیوا سانحہ دکھایا اس کے بعد میرا جانا ٹھہر گیاہے میں صبح گیاکہ شام گیا۔ حیف صد حیف اَب تو طاؤس ورُباب کے گرویدہ وہ منحوس کرگس اورزاغ و زغن جو دخمہ کے گِردمُنڈلاتے تھے عقابوں کے نشیمن کو پُھونک ڈالنے کی فکر میں مبتلا ہیں ۔وطن کے محافظوںکی بے باک جرأتوں کے نشاں سلامت رہنے چاہئیں ۔ گرداب کو کنارہ سمجھ کر طوفانوں سے ٹکرانے والے بلند ہمت مجاہد سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر بن کر طلوع ہوتے ہیں۔چھپن سال پہلے کی بات ہے ہم التجا کر کے جھنگ میں مقیم اُردو کے ممتاز شاعر کیپٹن سیدجعفر طاہر (1917-1977) کوایک ادبی نشست میں لائے تھے۔ وہاں کئی رشکِ حُور شخصیات موجود تھیںسب نے ایک ہی فرمائش کی کہ نظم ’’ ایک سوسپاہی ‘‘ سنائی جائے ۔ چھپن سال قبل میں نے سیّدجعفر طاہرکی نظم ’’ ایک سو سپاہی ‘‘ سُنی تو میںسمجھ گیا کہ یہ قوم زندہ ہے ۔سال 1965ء میں پاک بھارت جنگ کے تناظر میں لکھی گئی یہ نظر ہر عہدمیں دِلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتی رہے گی ۔اپنے ہاتھوں پر تقدیر کی تحریر پڑھ کر دل تھام لیتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ ہوائے فسوں نے سیرطلسمات کے نام پر جینے کے حق سے بھی محروم کر دیا ہے ۔حب الوطنی ،وفا اور ایثار کے جوہری اس یادگار نظم کوپڑھ کردِلوں کو مرکزِ مہر و وفاکرتے رہیںگے ۔
لاہور کی حفاظت مولا علی ؑ کرے گا
دُشمن کرے بُرائی داتا بھلی کرے گا
یہ صر صرِ اَجل ہے یہ گردِ خانقاہی
یہ ایک سوسپاہی ، یہ شہر دِل الٰہی ‘‘
منشی کھان ایاز نے اپنے وفا شعار ساتھی چودھری عمر حیات کی باتیں سُن کرآہ بھری اورجواب میں کچھ نہ کہااور سر جھکا کر باہر نکل گیا۔
ہفتہ ،17 ۔جون 2023ء کو کلر کہارسالٹ رینج میں راول پنڈی سے جھنگ آنے والی شالیمار ٹرانسورٹ کمپنی کی بس نمبرBSG-055 تیز رفتاری اور بریک فیل ہوجانے کے باعث بوتھ نمبر224 کے سامنے دوپہر بارہ بجے کے قریب وفاقی دار ا لحکومت سے دُوراسلام آباد لاہور موٹر وے پر اُلٹ گئی جس کے نتیجے میں18مسافر جاں بحق اور پندرہ مسافر زخمی ہوگئے ۔ملک بھر کے ذرائع ابلاغ سے یہ اندوہ ناک خبر سہ پہر ایک بجے نشر ہوئی مگر خبرمنشی کھان ایازجوعلم نجوم ،پیراسائیکالوجی اور ما بعد الطبیعات پر کامل دسترس حاصل ہے حادثے کے صرف پندرہ منٹ بعد دِل پر ہاتھ رکھ کراپنے احباب کو بتایا :
’’ شالیمار ٹرانسورٹ کمپنی،جھنگ کی اس بدقسمت بس میں میرے پڑوسی شبیر رانا کے بھتیجے رضا کی بیوی دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی شامل تھے ۔ اس خاندان کا تعلق نہنگ( سرگودھا ) سے تھا ۔پاک فضائیہ میں ملازمت کے سلسلے میںرضا اور اس کے اہلِ خانہ گزشتہ چند ماہ سے راول پنڈی چھاونی کے علاقے میںمقیم تھے ۔رضا کے تین بچوں اور اہلیہ کی رحلت کے بعد سارا گھر بے چراغ ہوگیاہے ۔ اس خاندان سے میرا جو درد مندی اور خلوص کارشتہ ہے وہ نصف صدی سے زائدعرصے پرمحیط ہے ۔رضا ( عمر 36سال )نے اپنی بیوی فاطمہ( عمر35سال) بیٹے روحان رضا( عمر 14 سال)،شایان رضا ( عمر 12 سال (اور بیٹی ہادیہ فاطمہ ( عمر10سال) کو بس میں بٹھایا تاکہ وہ 29۔جون 2023ء کو ہونے والی عیدالاضحٰی سے قبل اپنے آبائی گھر ( نہنگ) پہنچ جائیںاور وعدہ کیا کہ وہ خود بھی عیدِ قربان سے ایک روز قبل نہنگ پہنچ جائے گا۔ دائمی مفارقت دینے والے کچھ کہے سُنے بغیر ہی عازم اقلیم ِ عدم ہو گئے ۔ جانے والوں کی آ نکھیں مُند گئی تھیں ،دلوں کی دھڑکن تھم گئی تھی مگر اُن کی یادوں کا سلسلہ اندیشۂ زوال سے نا آشنا ہے ۔ چاند چہرے شبِ فرقت پہ وارے گئے اور رضا کی کہکشاں کے آفتاب و ماہتاب کنج لحدمیں اُتارے گئے ۔چاندنی راتیں،خوش حالی کے خواب اور روشن مستقبل کی سب باتیں اِن چاند ستاروں کے ساتھ پیوندِ خاک ہوگئیں۔یہ سانحہ ایسا گھاؤ لگا گیا جس کا کوئی تریاق یا مرہم موجود نہیں رفتگاں کی یادیں پس ماندگان کی فریادیں بن گئی ہیں ۔یہی تو تقدیر ہے جوہر لمحہ ہر گام انسانی تدابیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے ۔محمدعلی جب اپنی بہن فاطمہ کے گھر پہنچا تو حادثے میںاپنی بہن اور اُس کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی آنکھیں دم توڑنے کے بعد یہ گھر ویرانے کا منظر پیش کر رہا تھا۔بادِ فنا کے مسموم بگولوں کے باعث پوری گلی سنسان پڑی تھی ۔ روزہ قضا ہوسکتاہے مگر روزی کا قضا ہونا بعید از قیاس ہے ،انسان کی زندگی کاسفر تو افتاں و خیزا ں کٹ جاتاہے مگر اس نوعیت کے صدمات کے بعد الم نصیب جگر فگار پس ماندگان کا پُورا وجودکِرچیوں میں بٹ جاتاہے ۔جان لیوانے صدمات نے خواب خواب اور گماں گماں کے بارے میںسوچنے والوں کوروح کو زخم زخم اور دِل کوکِرچی کِرچی کر دیا۔ شام دھواں دھواں تھی اور ہر شخص اُداس اُداس تھاسب لوگ اپنے دِل پہ ہاتھ رکھ کر بیتے لمحات کی چاپ سنتے وہاں سے باہر نکلے۔‘‘
کچھ مافوق الفطرت عناصر ایسے بھی ہوتے ہیں جو فطرت کے مقاصد کی نگہبانی تو کرتے ہیں مگر اُن کی اصلیت کو سمجھناایک جان جوکھوں کا مرحلہ ہے ۔سفر کی دُھول منشی کھان ایاز کاپیرہن بن گیااور اُس کا چہرہ اِس شہر نا پرساں کی گَردَ ملا ل سے اَٹ گیاتھا۔ بروٹس قماش مسخروں کے فریب کھاتے کھاتے وہ سرابوں میں بھٹکنے لگا۔ اُس کا قلب ِ حزیں ایک ایسے خرابے میں بدل گیا جیسا کہ قدیم دِلی شہر تھا جو بھی یہاں پہنچا اُس نے لُوٹ مار اور قتل و غارت کو وتیرہ بنائے رکھا۔ منشی کھان ایازکی زندگی کے بارے میں کی جانے والی ہر بات دِل سے نکلتی ہے اور فی الفورسننے والے کے دِل میں اُتر جاتی ہے ۔اُس نے 80 سال قبل دُکھی انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کی جس صبرآزما مسافت کا آغازکیاوہ آج بھی جاری ہے ۔منشی کھان ایاز کی نواہائے راز کے محرم اُس کی زندگی کے ساز کے پس پردہ حجاب کے سب ابواب سمجھتے ہیں۔ یہ فقیرصبر و تحمل کو شعار بنا کر ضبطِ آہ کواپنا صرفہ قرار دینے کے بعداپنے ہی نفس ِ جاں گداز کا طعمہ بن گیا۔ یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ اُس نے تعمیر کی جو بھی تدبیر کی تقدیر اور گردشِ ایام نے اُسے تخریب کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اُس کے چہرے کی سدا بہار مسکراہٹ کے پس پردہ مہیب سناٹوں اور سفاک ظلمتوں کے فرغلوں میں لِپٹی پر اسرار کہانی ناگفتہ ہی رہ گئی ہے ۔ اُس کی زندگی کے بارے میں کہا جا سکتاہے کہ یہ ہمیشہ گردش ِایام اور سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوںکی زد میں رہی اور بدقسمتی کی تیر اندازی نے اُسے چھلنی کر دیا۔بادی النظر میں کاسۂ گدائی تھامے ایک مفلوک الحال راہ گیر دکھائی دینے والا خستہ حال فقیر دراصل ایک انتہائی پُر اسرار شخص ہے جو باطنِ ایام پر گہری نظر رکھتا ہے ۔ وہ جری مصلح جو زندگی بھر بے باکی سے بہرام ٹھگ کی اولاد کا مَکُوٹھپنے میںمصروف رہا گردِ شِ ایام نے خود اُس کا مَکُو اس طرح ٹھپ دیا کہ وہ دنیا کے آ ئینہ خانے میںایک تماشا بن کر رہ گیاہے او ر اذیت ،کرب و رنج کو گلے کا ہار بنا کرزندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبورہے۔ ایسے لوگ یادگارِ زمانہ ہوتے ہیں جن کی روزمرہ زندگی کے معمولات فسانہ بن جاتے ہیں ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ منشی کھان ایاز کی زندگی کی گتھیاں صرف سیلِ زماں کے تھپیڑے ہی سُلجھاسکتے ہیں۔ فلسفی کی سوچ ،صوفی کے تصورات اور عشاق کے خیالات کی گہرائی تک کس کی رسائی ہو سکتی ہے ۔ مادی دور کے مسائل میں اُلجھے آج کے قارئین اقلیم معرفت ،پیراسائیکالوجی اور ما بعد الطبیعات کے رمز آشنا اس پُر اسرار شخص کی زندگی کے معمولات جو پورے معاشرے کے نشیب وفراز پر محیط ہے کواحاطہ ٔ تحریر میں لانے سے قاصر ہیں ۔ قفس کے حبس سے بیزار یہ فقیر اپنے گھونسلے سے باہر نکل کر اِشاراتِ نہاں سے بو الہوس درندوں کواپنی اوقات میںرہنے کامشورہ دیتاہے ۔ شمع کے مانند جلنے والے اِ س پر اسرار شخص کی کٹھن زندگی کے متعدد راز تو شایداس شمع کے بجھنے کے بعد ہی سامنے آسکیں۔ کسی خاص مقصد کی خاطر فقیر کا بھیس بنانے والے ،قدیم صداقتوں کے نباض اور پرانے آشنا چہروں سے وابستہ تلخ وشیریں یادوں کے محرم اس شخص کی زندگی کے نا قابلِ فہم اور نا قابل تسخیراسرار کوقابل فہم بنانے کے لیے انتظار کرنا ہوگا۔یہ بات تو روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ منشی کھان ایاز جیسے لوگوں کی شخصیت کے دَر کھولنے اور اِس کی حیات کی وسیع داستاں کی تفہیم کے لیے انسان شناسی کے نئے انداز تلاش کرناوقت کااہم ترین تقاضاہے ۔منشی کھان ایاز کے بارے میں یہ باتیں لکھ چکاتو مجھے ندائے غیب سنائی دی کہ ابھی مزیدکاوش کی احتیاج ہے ۔میں نے دِل تھام لیا اور مرزا اسداللہ خان غالبؔ کا یہ شعرمیرے ذہن میں گردش کرنے لگا:
کاوش کا دِل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اِس گرہ نیم باز کا
سیلِ زماں کے تھپیڑوںکے اثرات اور بساطِ کرب کے سم سے آگاہ فرزیں بھی اُس آزمودہ کار شاطر کی نیّت کے بارے کسی پیشین گوئی سے قاصر ہیں جس نے اِس دنیا کے آ ئینہ خانے میں منشی کھان ایاز کے کئی احباب کو تماشا بنا دیا ہے ۔ زندگی بھر تدریس کے صحرائے نجد کی خاک چھاننے اور تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے میں خون پسینہ ایک کرنے والا یہ صابر و شاکر فقیر اپنے مَن کی غواصی کر کے زندگی
کے سر بستہ رازوں کی گرہ کشائی کی تمنا دِل میں لیے وادیٔ خیال میں مستانہ وار گھومتا پھرتا تھا۔ یاس و ہراس کے ازدحام میں پرانے آشناچہروں کو یاد کر کے اپنے دِلِ حزیں کو سنبھالنا اور حوصے و اُمید کی مشعل فروزاں رکھنا منشی کھان ایاز کا شیوہ تھا۔ سوچتا ہوں خرد اور جنوںایسے دِل زدوں کے مسائل کی گرہ کشائی سے کیوں قاصر ر ہے ۔
تیشۂ عجز وانکسارسے نارسیسی انہماک کوکِرچی کِرچی کرنے کے بعداقلیم معرفت سے تعلق رکھنے والے اِس پُراسرار فقیر نے کچھ عرصہ سے لبِ اظہار پر تالے لگا رکھے تھے اورلوگوں سے کم کم مِلتا تھا۔19۔جون 2023ء کو دو پہر کے وقت منشی کھان ایاز ایوب چوک کے سامنے کھڑ ا تھا او ر اس نو تعمیر شدہ چوک کے انہدام کے لرزہ خیز مناظر دیکھ رہاتھا ۔ اُسے یقین تھا کہ اس کائنات میں صرف تغیر ہی کو ثبات حاصل ہے ۔ منگل۔20 ۔جون2023ء کی شام میںنے دیکھا کہ دنیا وما فیہا سے بے خبر کسی خیال یا خلامیں کھو کر اپنی دُھن میں مگن بے خبری کے عالم میں منشی کھان ایاز اپنے نئے تعمیر کیے گئے گھر کی شمالی جانب سرگودھا روڈ جھنگ کی ایک نئی بستی عامر ٹاؤن کی جانب پیادہ جا رہاتھا۔دھیمے لہجے میں عرضِ نوائے حیات کرنا اور سینے پر صبر کی سِل رکھ کر بات کا رنا اُس کا شیوہ تھا۔اُس نے آسمان کی طرف دکھا ،فضا میں طیور محوپرواز تھے ۔اِن طیور کو دیکھ کر اُس نے گلو گیر لہجے میں کہا:
’’اے دشتِ عنقا کے پُر اسرار طائر ہُما میرے سر کو اِب تمھارے سائے کی احتیاج نہیں۔سب طیور جانتے ہیںکہ مجھے جیسے فقیروں کی نظروں مین خلعت ِ سلطانی ہیچ ہے ۔تم اچھی طرح جانتے ہو شہنشاہوںکی پسندیدہ قبا میرے ناتواں جسم پر تنگ اور باعث ننگ ہے ۔قحط الرجال کی مسلط کردہ اخلاقی پستی کو دیکھ کر میری آ نکھیں خونچکاں ہیں اور میرا دِل ایسا خرابہ بن گیا ہے جیسا یہ شہر نا پرساں ہے ۔‘‘
اپنے دوش پر رنج و کرب اور ابتلا وآزمائش کا گلیم اوڑھے منشی کھان ایاز دو ہزار سال قدیم شہر خموشاں ’’ کر بلاحیدری ‘‘ کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اِس قدیم شہر خموشاں کی زمین کیسے کیسے آسمان کھا چُکی ہے۔یہ قدیم شہر خموشاں اسی نئی اور پُر اسرار بستی کے شمال مشرق میں واقع ہے جہاں منشی کھان ایاز نے نیا مکان تعمیر کیا ہے ۔رنجِ فراواں کے اعصاب شکن لمحات میں کھو جانے والے اس شخص کے انتظار میں زمانے مرجھانے لگے تھے۔ گردشِ آسمان کی تفہیم کسی کے بس میں نہیں،کون جانے کہ ہونی کون سا کھیل کھیلنے جا رہی ہے ۔زندگی کی شبِ تاریک ہنس ہنس کے اُسے کہتی ہے کہ یہ دنیا ایک آئینہ خانہ جسے کم فہم لوگوں نے اِندر سبھا ، مے خانہ یا نسیم سحر کا کاشانہ سمجھ رکھا ہے ۔ کرب کی کالی گھٹا کاسامنا کرنے والے اس شخص کے بارے میں کسی کو یہ معلوم نہیں کہ خار زارِ حیات میں لالۂ صحرائی کی اگلی منزل کون سی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr.Ghulam Shabbir Rana ( Mustafa Abad ,Jhang City )