چند ماہ پہلے اماں جی سرگودھا شفٹ ہوئیں تو میں گھر کے علیحدہ پورشن میں اماں والے کمرے میں رہنے لگ گیا۔
دو جالی دار دروازوں والا تیس فٹ چوڑا کمرہ ہے۔ بیری کا ایک درخت دائیں دروازے ساتھ ، ایک بائیں دروازے ساتھ۔ دِن، رات ذرا بھی ہوا چلے تو پکے بیر نیچے گرنے لگ جاتے۔ دائیں والی بیری قریبا پندرہ فٹ اونچی ہے۔ اُس سے بیر گریں تو ہلکی سی آواز آتی،، ٹِپ،،۔ بائیں والی بیری تیس، چالیس فٹ بلند ہے، اُس سے بیر گریں تو آواز آتی ،، دَھپ ،، ۔ پچھلی رات تو بیر گرنے کی آواز یوں گُونجتی جیسے کوئی چھوٹا سا بم پھٹا ہو۔
دن رات یہ ٹِپ ٹِپ دَھپ دَھپ کی آوازیں سُنتے اور آتے جاتے پرندے دیکھتے گزر جاتے۔ بیر کھانے کا شوقین ہوں، کھاتے ہوئے بچوں کو آوازیں دیتا رہتا ہوں کہ بَچو آؤ ، مل کر کھائیں پر تینوں میں سے کوئی آتا ہی نہیں۔ اُن کی اپنی زندگی ، اپنی ترجیحات ۔؟
دور پرے شہتوت کا درخت ہے ۔ دیوار پر چڑھ کر شہتوت توڑتے بچوں کو بُلاتا ہوں ۔ لڑکو آؤ ۔ مل کر کھائیں ۔ دیکھو کتنے لمبے ، شہد جیسے میٹھے شہتوت ہیں پر جواب ملتا ۔ابو جی آپ کھائیں ۔ ہم نے بہت کھا لیئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی نے بھی نہیں کھائے ہوتے ۔ ابو چونکہ بے وجہ ہی بار بار بلاتے تو نا آنے کا بہانہ بنا لیا جاتا ۔
بزنس بند ہے ۔ مُکمل فراغت ۔ دن رات میں سینکڑوں بار تو ٹی وی ، یو ٹیوب کے چینل بدلتا ہوں ۔ حالانکہ دیکھنا سننا کچھ بھی نہیں ہوتا بس فضول کی مصروفیت بنی رہتی ہے ۔
سائیڈ والی دیوار پر ہینگر میں نو سال پُرانی تِلے دار کڑھائی والی ایک شال لٹکی ہوئی ۔ کَل والی ساری رات اِسے اُلٹ پَلٹ کر ہینگر میں بہتر سے لٹکانے کی کوشش کرتا رہا لیکن جیسے بھی لَٹکائی ، دِل مطمئن نہیں ہوا ۔ صرف اتنا چاہتا ہوں ۔ اِس شال کو لٹکے ہوئے خوب صورت دِکھنا چائیے ۔
بہت سال پہلے زندہ اور ہنستی کھیلتی ایک عورت ہوتی تھی ۔ اُس نے جاتے جاتے یہ شال اُتار کر گھر میں رکھی اور بدلے میں مُجھے اوڑھ کر اپنے ساتھ لے گئی ۔
رات بُہت ظالم تھی لیکن گُزر گئی ۔ ابھی سو کر اُٹھا ۔ دوڑ لگا کر تھوڑا سا وارم اپ ہوا ۔ دس بارہ ڈنڈ بیٹھکیں ماریں ۔ تین منٹ دیوار ساتھ اُلٹا کھڑا ہوا ۔ حویلی میں جھاڑو مارا ۔ پودے گوڈی کیئے ۔ پُورے جسم پر تیل مالش کی اور پمپ چلا کر تازہ پانی سے بچوں جیسے اُچھلتا کُودتا کُھلے صحن میں نہایا ۔
اچھی طرح سمجھ چُکا ہوں کہ اپنی تنہائی کو مُجھے اپنے آپ سے ہی سجانا ہو گا ۔