اولڈ ایج میں شادی کیوں ضروی ہے.
منور صاحب اُٹھ کر گھر گئے تو عابد کریانہ فروش نے جھاڑن سے گتّے کا وہ بورڈ صاف کیا جس پر جلی حروف میں ’’کشمیر کی آزادی تک اُدھار قطعاً بند ہے۔‘‘ لکھا ہوا تھا۔ پھر طارق ویڈیو والے سے مخاطب ہوا۔
’’یار اس بابے کو گھر میں کوئی کام نہیں ہوتا۔سارا دن ہماری دکان پر بیٹھا آتے جاتے لوگوں کا دماغ چاٹتا رہتا ہے؟‘‘
’’اکیلا، ریٹائرڈ آدمی ہے یار۔ بیچارے کی بیوی فوت ہو چکی ہے۔ بچے سب شادی شدہ اور گھر بار والے ہیں۔ چھوٹے ڈاکٹر بیٹے کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کی بھی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ اسے کلینک سے جو وقت ملتا ہو گا اپنی بیوی کے ساتھ گزارتا ہو گا۔ بابے کے پاس بیٹھ کر دکھ سکھ پھرولنے کا وقت کس کے پاس ہے؟ بیچارہ تنہائی کا مارا ادھر آ کر بیٹھ جاتا ہے۔ تم اسے کچھ نہ کہا کرو۔‘‘
’’میں نے اسے کیا کہنا ہے۔ ہمارا گاہک بھی تو ہے۔ لیکن یار بڑا ہی باتونی ہے۔ نان اسٹاپ بولتا ہے۔ دوسرے کی تو سنتا ہی نہیں۔۔۔‘‘
’’نالج ہے نا بابے کے پاس!‘‘ طارق نے شیشے کے مرتبان سے چیونگم نکال کر منہ میں رکھی اور ازراہ مذاق کہنے لگا۔
’’ویسے تو نے اسے کیا سنانا ہے؟ تو میٹرک فیل‘ وہ ریٹائرڈ پروفیسر!‘‘
’’بکواس نہ کر!‘‘ عابد نے مصنوعی خفگی سے کہا۔ ’’میں تو پھر دسویں تک جاپہنچا‘ تُو نے آٹھویں ہی میں سکول سے دُڑکی لگا دی تھی۔میرے پاس تو پھر بھی کچھ علم ہے۔ تیرے پاس نری فلم ہے!‘‘
طارق نے قہقہہ لگایا۔ ’’اوئے جھلیا۔ آج کل علم سے زیادہ فلم کی ویلیو ہے۔ بول بھلا سید نور زیادہ مشہور ہے یا انور شعور؟‘‘
’’یہ انور شعور کون ہے؟‘‘
’’دیکھا۔۔۔ تجھے بھی نہیں پتا! پتا کیسے ہو۔ تُو جنگ اخبار اناردانے کی پڑیاں باندھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسے پڑھتا تھوڑی ہے!‘‘
’’لو پھر آ گئی مصیبت!‘‘ عابد نے گلی کی جانب دیکھا‘ جہاں سے منور صاحب دوبارہ چلے آ رہے تھے۔
منور صاحب سے دکاندار ہی نہیں‘ پڑوسی‘ عزیز رشتہ دار حتیٰ کہ گھر والے بھی عاجز آ گئے تھے۔ دراصل وہ پرلے درجے کے چپکو اور مغز چاٹ آدمی تھے ۔ ہر ایک سے کج بحثی اور اپنے نکتہء نظر پر اصرار ان کا وتیرہ تھا۔ مذہب‘ فلسفہ‘ سائنس‘ تاریخ‘ سیاست غرضیکہ ہر موضوع پر بے تکان بولتے۔ اگر مدمقابل ان کی بات کاٹ کر کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتا تو اسے منہ کی کھانی پڑتی۔سوال کرنے کا بھی انہیں بہت شوق تھا مگر مقصد حصول علم نہیں محض گفتگو کو طول دینا ہوتا تھا۔ ان کی اس عادت سے اکثر لوگ چڑ جاتے اور بسا اوقات جواب میں ایسی بات کہہ دیتے کہ بقول شخصے منور صاحب کی ’’بے عزتی‘‘ خراب ہو جاتی۔
عید الضحیٰ کی آمد آمد تھی۔ مارکیٹ کے قریب خالی پلاٹ میں قربانی کے جانوروں کا بیوپاری کئی روز سے ڈیرہ ڈالے بیٹھا تھا۔ ایک شام منور صاحب ازراہِ تفریح اس کے پاس جا کھڑے ہوئے۔
’’یہ بکرا کتنی عمر کا ہے؟‘‘ انہوں نے ایک دیسی بکرے پر ہاتھ رکھا۔
’’سال کا ہے جی۔‘‘
’’دوندا ہے؟‘‘
’’ہاں جی‘ دوندا ہے۔‘‘ اس نے بکرے کا منہ کھول کر باقاعدہ دانت چیک کرائے۔
’’قیمت کیا ہے؟‘‘ منور صاحب نے استفسار کیا۔
’’چار ہزار۔‘‘
’’چار ہزار ! یہ تو بہت زیادہ ہے۔ میرے خیال میں دو ہزار سے اوپر کا ہرگز نہیں۔ ویسے وزن کتنا ہے؟‘‘
’’جی سامنے ہے آپ کے۔‘‘
’’پھر بھی تمہیں اندازہ تو ہو گا۔‘‘
بیوپاری نے بھارو کو دونوں ہاتھوں میں اُٹھا کر زمین پر پٹخا اور بولا۔ ’’پکا من ہے جی۔‘‘
’’گوشت کتنا نکلے گا؟‘‘ انہوں نے اگلا سوال داغا۔
’’آپ نے لینا ہے؟‘‘
’’ظاہر ہے۔ شوق کے مارے تو نہیں پوچھ رہا۔‘‘
’’بیس پچیس سیر نکل آئے گا۔‘‘
’’صرف!‘‘ انہوں نے بھنویں اچکائیں۔ ’’ویسے جانور بیمار تو نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں جی۔۔۔‘‘
’’خصی لگتا ہے۔‘‘
’’خصی نہیں ہے۔‘‘ اس نے اُکتاہٹ سے کہا۔
’’صاف نظر آرہا ہے۔ خصی میرے کس کا م کا۔‘‘ انہوں نے چلتے چلتے کہا۔
بیوپاری تپ کر پیچھے سے بولا:
’’کوئی بندیاں والی گل کرو بزرگو۔تساں قربانی دیونی اے کہ ساک (رشتہ) دیونا اے !‘‘
گھر میں ان کی بہو عشرت اس لئے نالاں رہتی کہ وہ ہر وقت اپنے بیٹے سے چپکے رہتے تھے۔ دونوں میاں بیوی کی کوئی پرائیویسی ہی نہیں تھی۔ ایک شام عشرت کی فرمائش پر ظفر اسے سیر کروانے نکلا تو لاؤنج میں صوفے پر نیم دراز منور صاحب سے مڈبھیڑ ہو گئی۔
’’کہاں چلے؟‘‘ انہوں نے بیٹے سے سوال کیا۔
’’وہ۔۔۔ ابا جان۔ ذرا عشرت کو گھمانے باغ جناح لے جا رہا ہوں۔‘‘ ظفر نے سٹپٹا کر کہا۔
’’میں بھی چلتا ہوں۔ لائبریری سے مجھے چند کتابیں لینی ہیں۔‘‘ وہ اُٹھ بیٹھے۔
’’لیکن ابا جان ہمیں تو پہلے انارکلی بھی جانا ہے۔‘‘ عشرت نے بہانہ بنایا۔
’’یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔‘‘ انہوں نے چپل پہنتے ہوئے کہا۔ ’’جتنی دیر تم دونوں شاپنگ کرو گے‘ میں اپنے ٹیلر ماسٹر محمد حنیف سے مل لوں گا۔ اس کا بیٹا فوت ہو گیا تھا‘ میں نے ابھی تک اس سے تعزیت نہیں کی۔ فاتحہ پڑھنا تو ہم پر واجب ہیں نا بیٹا۔‘‘
’’لیکن ابا جان آپ کے کپڑے۔۔۔؟‘‘ ظفر نے ڈرتے ڈرتے ان کی میلی شلوار قمیص کی طرف اشارہ کیا جو انہوں نے حسبِ عادت کئی دنوں سے پہنی ہوئی تھی اور اس پر قلوں والی دری کی طرح سلوٹیں پڑی ہوئی تھیں۔
’’کپڑے میں ایک منٹ میں بدل لیتا ہوں۔‘‘ انہوں نے چٹکی بجائی۔ ’’چلو تم گاڑی سٹارٹ کرو‘ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
’’وہ اندر گئے تو عشرت جھلا کر بولی۔ ’’میرا خیال ہے تم اپنے اباجان ہی کو لے جاؤ۔ میں گھر پر رہتی ہوں۔ اب خاک سیر ہو گی۔‘‘
’’ عشی میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘ وہ بے بسی سے بولا۔
’’آپ ان سے کہہ نہیں سکتے کہ ہم میاں بیوی کچھ وقت محض ایک دوسرے کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’بزرگ ہیں۔۔۔ بزرگوں سے ایسی بات کہنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘
’’اچھے بزرگ ہیں۔۔۔!‘‘ وہ روہانسی ہو گئی۔ ’’کیا ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ کیا انہیں نہیں پتا کہ نیولی ویڈ کپلز کو تھوڑی پرائیویسی بھی درکار ہوتی ہے۔ جب بھی ہم باہر جانے لگتے ہیں وہ ہمارے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ آج تک کون سا کھانا ہم نے باہر اکیلے کھایا ہے۔ گھر میں کون سی مووی ہم نے اکیلے بیٹھ کر دیکھی ہے۔ ان کا بس چلے تو شاید اپنا بستر بھی ہمارے کمرے میں لگوا لیں۔‘‘
’’کم آن عشی!‘‘ ظفر خفا ہو گیا۔ پھر اسے سمجھانے لگا۔
’’دیکھو وہ سارا دن گھر پر اکیلے ہوتے ہیں۔ تم سکول پڑھانے چلی جاتی ہو اور میں کلینک چلا جاتا ہوں۔ گھر میں ان سے بات کرنے کے لئے بھی کوئی نہیں ہوتا۔ وہ اِدھر اُدھر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ جب ہم لوگ واپس آتے ہیں تو فطری طور پر ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ہم ان کے پاس بیٹھیں‘ ان سے باتیں کریں۔ اگر ہم خود انہیں وقت نہیں دیں گے تو وہ اسی طرح کریں گے نا۔‘‘
’’یہ عجیب زبردستی ہے۔ وہ اپنے لئے کوئی پازیٹو مصروفیت کیوں نہیں تلاش کر لیتے۔ ان کی عمر کے بہت سے لوگ وقت گزاری کے لئے کوئی ہلکا پھلکا جاب کرتے ہیں۔ یہ جاب نہیں کر سکتے تو مسجد جائیں‘ نماز پڑھیں۔ اللہ اللہ کریں۔ میرے خیال میں تو یہ جمعہ بھی شاذ و نادر ہی پڑھتے ہیں۔‘‘
’’اچھا چپ کرو‘ آ رہے ہیں۔‘‘ آہٹ سن کر ظفر نے گاڑی سٹارٹ کی۔
’’میں آگے نہ بیٹھ جاؤں؟‘‘ منور صاحب نے آتے ہی کہا۔ عشرت جو اپنے میاں کے پہلو میں بیٹھنا چاہتی تھی‘ خون کے گھونٹ پی کر پچھلی نشست پر جا بیٹھی اور ظفر نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
عشرت ایک حساس لڑکی تھی۔ وہ اپنے سسر کی عادتوں کے باعث حددرجہ چڑچڑی ہو گئی تھی۔ اس کی سہیلی استانی فرح نے کریدا تو پھٹ پڑی۔
’’تم تو ویسے ہی پریشان ہو۔‘‘ فرح نے دل آویز مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتے ہوئے کہا۔ ’’اس مصیبت سے چھٹکارا پانا نہایت آسان ہے۔ تم اپنے شوہر سے کہہ کر اپنے سسر صاحب کا دوبارہ نکاح کروا دو۔ وہ اپنی دنیا میں مگن ہو جائیں گے اور تم دونوں کی پرائیویسی بحال ہو جائے گی۔‘‘
’’کیسی بات کر رہی ہو۔ وہ ساٹھ سال کی عمر میں نکاح کریں گے؟‘‘
’’کیوں ساٹھ سال کی عمر میں کیا ہوتا ہے؟ تم ان بابوں کو نہیں جانتیں یہ بڑی شے ہوتے ہیں۔۔۔!‘‘
’’ہوتے ہوں گے۔ لیکن میرے سسر بہت شریف آدمی ہیں۔‘‘
’’شریف ہیں اسی لیے تو کہہ رہی ہوں ان کا نکاح کروا دو۔ شریف نہ ہوتے تو مرجھائی ہوئی لوکی کی طرح گھر میں کیوں پڑے رہتے۔ مردوں کی فطرت کے عین مطابق باہر کہیں منہ ماری کر رہے ہوتے۔‘‘
’’لیکن یار میں یہ بات اپنے شوہر سے کیسے کہوں۔ کہیں مائنڈ ہی نہ کر جائیں۔‘‘
’’تو پھرایک اورآئیڈیا دیتی ہوں۔‘‘فرح نے چٹکی بجائی۔’’ہم تمہارے سسر صاحب کی ملاقات کسی مناسب سی خاتون سے کرواتے ہیں۔ ایسی خاتون جو خود بھی ان کی طرح تنہائی کا شکار ہو۔ دونوں خود ہی سارے مراحل طے کر لیں گے۔ تمہیں بیچ میں پڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔‘‘
’’تم تو بڑی چھپی رستم ہو!‘‘ عشرت نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
’’ذرہ نوازی ہے آپ کی ورنہ بندی کس قابل ہے؟‘‘ وہ شوخی سے بولی۔
’’لیکن یار ایسی خاتون آئے گی کہاں سے؟‘‘
’’وہ تو اسی سکول میں موجود ہے۔‘‘ فرح نے دیدے گھمائے۔
’’کون؟‘‘
’’مسز بیگ!‘‘
’’وہ موٹو؟ نہ نہ مجھے نہیں پسند۔‘‘
’’یہ تمہاری نہیں‘ تمہارے سسر صاحب کی پسند کا معاملہ ہے۔ ہو سکتا ہے وہ انہیں بھا جائے۔ گوری چٹی ہے۔ شکل بھی ٹھیک ہے‘ تھوڑی موٹی ہے تو کیا ہے؟‘‘
’’عقل کی بھی موٹی ہے۔‘‘
’’وہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔ تمہارے سسر صاحب خود کو عقل کل سمجھتے ہیں۔ کم عقل بیوی انہیں زیادہ سوٹ کرے گی۔‘‘
’’بولتی بہت ہے۔‘‘
’’اس کی بولتی خود ہی بند ہو جائے گی۔‘‘
’’یہ بیوہ ہے نا؟‘‘
’’ہاں۔ اس کے شوہر‘ شادی کے کچھ ہی عرصے بعد ایک حادثے میں چل بسے تھے۔ اس کے بعد اس نے شادی نہیں کی۔ اکلوتا بیٹا آرمی میں لیفٹیننٹ تھا۔ وہ کارگل کی لڑائی میں شہید ہوگیا۔‘‘
’’رہتی کس کے پاس ہے؟‘‘
’’ہیڈ مسٹریس کے گھر کے اوپر والا پورشن کرائے پر لیا ہوا ہے۔ وہاں اکیلی ہی رہتی ہے۔‘‘
’’اچھا۔ اب مطلب کی بات کی طرف آؤ۔ ہم ان دونوں کی ملاقات کروائیں گے کیسے؟‘‘
’’ویری سمپل!! گھر میں کوئی چھوٹا سا فنکشن ارینج کر لو اور مہمانوں میں مسز بیگ کو بھی شامل کر لو۔۔۔‘‘
اگلے چند روز دونوں سہیلیوں نے بتدریج مسز بیگ سے میل جول بڑھایا تا کہ جب مدعو کیا جائے تو انہیں عجیب نہ لگے۔ فرح کی ہدایت کے مطابق عشرت نے مسز بیگ کی جا بے جا تعریف بھی شروع کر دی جس سے وہ پھول کر مزید کپا ہو گئیں۔ اس نے انہیں باور کروایا کہ اس نے آج تک ان جیسی ذہین‘ خوش اخلاق اور باوقار خاتون نہیں دیکھی۔ اس نے یہ بات اتنی دفعہ دہرائی کہ انہیں یقین سا ہو گیا کہ ان میں وہ تمام صفات واقعی موجود ہیں۔ مگر افسوس کسی نے آج تک ان کی شخصیت کا ’’امریکہ‘‘ دریافت ہی نہیں کیا۔ یہ عشرت تھی جو کولمبس بن کر پہلی مرتبہ ان کی شخصیت کے ساحل پر اُتری تھی۔
’’بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن میں اس قدر خوبیاں یک جا ہوں۔‘‘ ایک ری سیس میں اس نے مسز بیگ سے کہا۔ ’’عورتوں میں‘ میں نے آپ کی شخصیت دیکھی ہے اور مردوں میں میرے سسر صاحب ہیں۔‘‘
’’تمہارے سسر؟‘‘ مسز بیگ نے بظاہر سادگی سے پوچھا۔
’’جی۔ میرے سسر منور صاحب۔ وہ بھی آپ کی طرح بہت ذہین‘ خوش اخلاق اور باوقار آدمی ہیں۔ یونی ورسٹی میں عمرانیات کے پروفیسر تھے‘ آج کل ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں‘ مگر ایک تنہا زندگی۔۔۔‘‘
مسز بیگ خاموش رہیں۔ ان کی آنکھوں میں کئی سوال تھے مگر ان کے آگے وقار کا پردہ لٹکنے لگا تھا۔
’’مسز بیگ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ آخر خدا اچھے لوگوں ہی کو کیوں آزمائشوں میں ڈالتا ہے؟‘‘
’’کیسی آزمائشیں؟‘‘ مسز بیگ کے سرخی سے لتھڑے ہونٹوں پر سوال اُبھرا۔
’’تنہائی کی۔۔۔ وہ بھی تنہا ہیں اور آپ نے بھی یہ زہر قطرہ قطرہ پیا ہے۔ بلکہ آپ نے تو ایک طویل کشٹ کاٹا ہے۔‘‘
’’میری بات چھوڑو۔ ان کے متعلق بتاؤ۔‘‘ مسز بیگ نے اپنی پھولدار ساڑھی کا پلو سنبھالا۔ ’’ان کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘
’’ان کی بیوی بھی انہیں داغ مفارقت دے گئی۔ پانچ برس سے وہ بالکل اکیلے ہیں۔‘‘
’’میں نے بچوں کی خاطر قربانی دی‘ ورنہ رشتے تو بہت آتے تھے۔‘‘
’’ظاہر ہے۔ آپ تو اب بھی اتنی پیاری اور سُرخ و سپید ہیں۔ جوانی میں کیا عالم ہو گا میں اندازہ لگا سکتی ہوں۔۔۔‘‘
’’بناؤ مت۔‘‘ انہوں نے مصنوعی خفگی سے کہا۔
ری سیس کے اختتام کی گھنٹی انہیں چونکا نہ دیتی تو نہ جانے کب تک وہ خوشامد کی بین پر جھومتی رہتیں۔
ڈاکٹر ظفرکی وسیع و عریض کوٹھی بقعہء نور بنی ہوئی تھی ۔ چھت‘ در و دیوار اور پام کے درختوں پر رنگ برنگے قمقموں کی لڑیاں جگمگا رہی تھیں۔ موسم کی مناسبت سے شادی کی سالگرہ کی پارٹی کا اہتمام سر سبزلان میں کیا گیا تھا۔ ایک طرف مہمانوں کی نشست تھی، دوسری جانب ریشمی جھالروں سے مزین میزوں پر کھانے کا بندوبست۔ باربی کیو کے لئے ’’بندوخان‘‘ کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ پارٹی میں لگ بھگ چالیس مہمان مدعو تھے۔ کارڈ پر شام آٹھ بجے کا وقت درج تھا مگر صرف ایک مہمان کی آمد بروقت ہوئی اور وہ مسز بیگ تھیں۔ ان کا استقبال اتفاق سے منور صاحب ہی نے کیا۔
’’میں مسز بیگ ہوں۔ عشرت کے سکول میں سینئر ٹیچر ہوں۔‘‘وہ مسکرائیں
’’اچھا! تو آپ ہیں مسز بیگ! عشرت آپ کی بڑی تعریف کرتی ہے۔ بڑا اشتیاق تھا آپ سے ملنے کا۔‘‘ منصور صاحب نے سر سے پاؤں تک ان کا جائزہ لیا۔ ستاروں سے مزین جارجٹ کے نیلے سوٹ میں گوری چٹی مسز بیگ انہیں بے حد پسند آئیں۔ سلیٹی سفاری سوٹ میں ملبوس فربہی مائل قد آور منور صاحب بھی مسز بیگ کو پہلی نظر ہی میں بھاگئے ۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ منور صاحب ساٹھ برس کے تو ہوں گے مگر بمشکل پچاس کے لگتے ہیں۔ ان کی صحت قابلِ رشک تھی۔ (وہ نہیں جانتی تھیں کہ منور صاحب نے بال ایک دن پہلے ڈائی کروائے تھے اور چہرے پر تازہ شیو کے بعد کئی کریموں سے مساج کیا تھا۔ علاوہ ازیں بتیسی بھی اسی ماہ لگوائی تھی‘ جس سے ان کے چہرے کے ڈینٹ دُور ہو گئے تھے۔)
’’عشرت نظر نہیں آ رہی؟‘‘ انہوں نے متلاشی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا۔
’’وہ پارلر گئی ہوئی ہے‘ آتی ہی ہوگی۔‘‘
’’اچھا اچھا۔۔۔‘‘
ملازم کو کولڈ ڈرنکس لانے کا اشارہ کر کے منور صاحب نے ان کی نشست گاہ تک رہنمائی کی۔
کولڈ ڈرنکس پیتے ہوئے وہ آپس میں موسم کی نیرنگی پر تبادلہء خیال کرنے لگے۔ کچھ دیر تہذیبی اقدار کے زوال اور شعبہء تعلیم کی زبوں حالی پر گفتگو ہوئی اور پھربڑے غیرمحسوس انداز میں مسز بیگ انہیں اصل موضوع کی جانب لے آئیں۔۔ دونوں میں اس بات پر کلی اتفاق پایا گیا کہ تنہائی کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ یہ وہ اذیت ہے جسے انسان محض زمانے کے ڈر سے چپ چاپ سہتا رہتا ہے۔ کسی کو تنہائی کی آگ میں جھلستی روح کے گھاؤ دکھائی نہیں دیتے۔ سچ ہے جس تن لاگے وہی تن جانے۔
دیگر مہمانوں کی آمد تک ہم خیالی کی ناویں کھیتے وہ ذہنی طور پر ایک دوسرے کے اتنے قریب چلے آئے‘ جیسے صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔۔۔
عشرت آئی تو مسز بیگ خواتین میں جا بیٹھیں جبکہ منور صاحب مردوں کے حلقے میں چلے گئے مگرانہوں نے دانستہ ایسی نشست کا انتخاب کیا جہاں سے مسنر بیگ ان کی نگاہوں کے حصار میں رہیں۔ دونوں کی نگاہیں بارہا چار ہوئیں اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ جاسوسی پر مامور فرح اور عشرت آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کر کے کامیاب پیش رفت پراظہار مسرت کرتی رہیں۔
پارٹی کے اختتام پر جب مہمانوں کی رخصتی کا وقت آیا تو عشرت نے ان دونوں کے درمیان یہ گفتگو سنی۔
’’مسز بیگ! مجھے آپ سے مل کر بے پناہ مسرت ہوئی۔‘‘
’’مجھے بھی! یہ واقعی ایک خوبصورت اور یادگار شام تھی۔‘‘
’’مجھے آپ کی ذہانت ‘خوش مزاجی اورخوبصورت شخصیت نے بے حد متا ثر کیا ‘‘
’’ میں خود آپ کے حسن اخلاق کی گرویدہ ہوگئی ہوں۔ مغرور اور لیے دیے رہنے والے مرد تومجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔‘‘
’’آپ آتی رہا کریں‘ اسے اپنا ہی گھر سمجھیں۔‘‘
’’شکریہ !آپ کا موبائل نمبر کیا ہے۔ میں آپ کو فون کر لیا کروں؟‘‘
’’اینی ٹائم!‘‘
سیل نمبروں کا تبادلہ ہوچکا تو مسز بیگ نے اجازت طلب کی۔
’’جیسے آپ کی خوشی‘ ‘ منور صاحب نے گویادل پر پتھر رکھ کر کہا ’’آپ کیسے تشریف لائی تھیں؟‘‘
’’رکشے پر۔‘‘
’’رکشے پر جانا مناسب نہیں۔ ٹھہریں۔ میں ڈرائیور سے کہتا ہوں آپ کو ڈراپ کر آئے گا۔‘‘
’’آپ کو زحمت ہو گی۔‘‘
’’نو نو اٹس مائی پلیژر‘‘
فرح نے عشرت کی چٹکی لیتے ہوئے سرگوشی کی۔
’’بس اب ہمارا کام ختم۔ دونوں ٹریک پر چڑھ گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے جلد ہی ہم ان کے نکاح کے چھوہارے کھا رہے ہوں گے۔‘‘
ٹھیک ایک ماہ بعد جب منور صاحب نے مسز بیگ سے نکاح کا ارادہ ظاہر کیا تو ظفر حیرت اور صدمے سے ان کا منہ دیکھنے لگا۔
’’آ۔۔۔ آپ اس عمر میں شادی کریں گے؟‘‘
’’اسے شادی نہ کہو بیٹے۔ مجھے کمپنی درکار ہے ۔میں اپنے لیے ایک ساتھی کا انتظام کر رہا ہوں۔ کیونکہ تم دونوں کے پاس میرے لیے وقت نہیں۔‘‘
’’لیکن ابا جان! لوگ کیا کہیں گے؟ آپ کو اس کا بھی کوئی احساس ہے؟ اس جگ ہنسائی کا خیال کیجئے جو میرے اور آپ کے حصے میں آئے گی۔‘‘
’’کسی کو ہماری ذاتی زندگی سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
’’میں‘ میں آپ کو امی کی روح کو تڑپانے کی اجازت ہرگز نہیں دوں گا۔‘‘ وہ جذباتی ہو گیا۔
’’میرے بیٹے! جس کی روح عالم بالا میں پہنچ جائے‘ اس کا اس دنیا کے معاملات سے کوئی واسطہ نہیں رہتا۔ فکر نہ کرو تمہاری امی کی روح انشاء اللہ شانت رہے گی۔‘‘
’’گویا آپ کا فیصلہ اَٹل ہے۔‘‘ وہ مٹھیاں بھینچتے ہوئے بولا۔ ’’ٹھیک ہے۔ اگر آپ کو میرے جذبات و احساسات کا خیال نہیں تو میں عشرت کو لے کر اس گھر سے چلا جاتا ہوں۔‘‘
’’ہم کہیں نہیں جائیں گے۔‘‘ عشرت جو چھپ کر باپ بیٹے کی گفتگو سن رہی تھی اچانک سامنے آ گئی۔ ’’میں اباجان کے فیصلے کی مکمل حمایت کرتی ہوں جس سے دو انسانوں کا بھلا ہوگا۔ مسز بیگ بہت اچھی خاتون ہیں۔ وہ بھی ان کی طرح تنہائی کا شکار ہیں۔ سیانوں نے سچ کہا ہے کہ اکیلا تو رُکھ بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ انسان تو پھر انسان ہے‘ جسے سوشل اینمل کہا گیا ہے۔‘‘
’’عشرت۔۔۔!‘‘ عالم استعجاب میں ظفر کے منہ سے محض اس کا نام ہی نکلا۔ وہ اور کچھ نہ کہہ سکا۔اولڈ ایج میں شادی کیوں ضروی ہے.