اکبر کا بیربل
قوموں کے اجتماعی تاثر میں انفرادیت کی جھلک ضرور چھلکتی ہے ۔عظیم قوموں میں یقینا عظیم افراد جبکہ غلام قوموں میں انفرادیت بھی غلامی میں ملبوس ہوتی ہے ۔ہمارا بحیثیت قوم اجتماعی تشخص کیا ہے، دنیا کی نظروں سے دیکھنا تو کجا ، اگر تعصب کی عینک اتار کے اپنے ہی گریبانوں میں جھانکیں تو جواب مل ہی جائے گا۔لیکن تنقیدی نظر سے اپنا احتساب کرنے کیلئے بھی زندہ ضمیر اور عظیم سوچ بے حد ضروری ہے ۔
سمندر، شبنمی قطروں کے سوا کچھ بھی نہیں ۔صحرا ،ریت کے ذروں کے بغیر بے وجود ہے ۔ بلند و بالا عمارتیں،اسی طرح اینٹ کی محتاج ہیں جیسے بڑی بڑی لائبریریاں کتاب کی۔انفرادی عمل ہی اجتماعی تشخص بناتا ہے ۔ہمارے معاشرے کے اجتماعی تاثر میں بھی انفرادی عنصر شامل ہیں ۔اعتماد کا فقدان، حق تلفی، جھوٹ کی حکمرانی، عدم برداشت، ملاوٹ، ناجائز منافع خوری ،بحیثیت قوم ہماری شناخت ہے تو ضرور اس میں ہمارا انفرادی کردار بھی تخریبی ہے ۔اپنے کردار کا منفی یا مثبت جو پہلو بھی ڈالیں گے دیر یا جلد ضرور واپس لوٹ کے ائے گا۔یہ سوچ کر مجھے دربار اکبری کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔جس کا ذکر اکبرکی سوانح حیات "اکبر نامہ " بھی ملتا ہے۔
اکبر کے گرد اکثر دانشمند، ذہین اور انتہائی تخلیقی لوگ موجود ہوتے تھے ۔جن سے اکبر سلطنتی امور پہ گپ شپ کرتا تھا ۔جب ماحول انتہائی سنجیدہ ہو جاتا تو ایک مسخرہ ضرور ہوتا جو اپنی صلاحیتوں سے ماحول کو خوشگوار بناتا اور سب ہنسنے لگ جاتے ۔بیربل دربار اکبری کا ایک ایسا ہی مسخرہ تھا۔ایک بار دربار میں بحث و مباحثہ جاری تھا کہ اکبر نے پاس کھڑے بیربل کو طمانچہ دے مارا ۔بیربل کو طمانچہ کی کوئی معقول وجہ سمجھ نہ آئی ۔واپس بادشاہ کو تو طمانچہ مارنے سے رہا لہذا بیربل نے اپنے ساتھ کھڑے شخص کے منہ پر طمانچہ دے مارا ۔سب اس عجیب و غریب حرکت پر پریشان و حیران تھے ۔بیربل کے ساتھ کھڑا شخص سوچنے لگ گیا شاید یہ دربار کا قانون ہے لہزا اس نے بجائے بیربل کے اپنے ساتھ کھڑے شخص کے منہ پر طمانچہ دے مارا ۔اسی طرح طمانچہ گشت رہا اور آخر میں ملکہ نے اکبر کے منہ پر طمانچہ دے مارا ۔
یاد رکھو آپ کا تخریبی عمل معاشرے میں اسی طمانچے کی طرح گھومتا رہتا ہے اور ایک نہ ایک دن دوبارہ آپ تک واپس آجاتا ہے ۔اپنے معاشرے کو اپنے کردار کے تعمیری اور مثبت عمل سے خوبصورت بنائیں تاکہ بحیثیت قوم ہمارا اجتماعی تشخص عظیم اور با کردار قوموں جیسا بنے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“