اکبر کے نو رتن
اکبر ان پڑھ تھا بعض لوگوں کو گمان ہے کہ ان پڑھ ہونے کی وجہ سے ہی اتنی عمدہ حکومت کر گیا، اس کے دربار میں پڑھے لکھے نوکر تھے جو نو رتن کہلاتے تھے یہ روایت اس زمانے سے آج تک چلی آتی ہے کہ ان پڑھ لوگ پڑھے لکھوں کو نوکر رکھتے ہیں اور پڑھے لکھے اس پر فخر کرتے ہیں۔
اکبر کے ان نو رتنوں کا حال ہم نیچے لکھتے ہیں ۔
راجا ٹوڈرمل
موتمن الدولہ عمدہ الملک راجہ ٹوڈرمل اپنے زمانے کا بڑا لائق آدمی گنا جاتا ہے اکبر کا دیوان ہونے سے پہلے یہ راجائے راجگان مہاراجہ سام گڑھ کی سرکار میں رہ چکا تھا اور اپنی وفاداری میں اب بھی ایسا راسخ تھا کہ جب تک علی الصبح اشنان کر کے مہا راجہ موصوف کی مورتی کو ڈنڈرت نہ کر لیتا کھانے کو ہاتھ نہ لگاتا تھا اس کی کوشش تھی کہ اکبر صرف اسی سے دلی دوستی رکھے کسی اور سے نہ رکھے لیکن بعض لوگ ٹوڈرمل کو اچھا نہ سمجھتے تھے مثلا ذوالفقار الدولہ خانخاناں، راجا ٹوڈرمل نے بادشاہ کے مزاج میں دخیل ہو کر خانخاناں کو معزول کرا دیا بعض کہتے ہیں کہ بد دل ہو کر خود ہی چھوڑ گیا چند امراء کو تو راجہ ٹوڈرمل نے ملک بدر بھی کرا دیا راجا ٹوڈرمل حساب کتاب اور جوڑ توڑ کا ماہر تھا اس کے عہد میں ملک نے اقتصادی طور پر بڑی ترقی کی بادشاہ کے عزیز اس کے سایئہ عاطفت میں دیکھتے دیکھتے مالامال ہو گئے جو چیز قبل ازاں ایک روپیہ ملتی تھی راجہ ٹوڈرمل کی خوش تدبیری کے باعث بازار میں چار روپیہ میں ہر جگہ آسانی سے دستیاب ہونے لگی نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کا میعار زندگی بڑھتا چلا گیا کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا ۔
اکبر نے ٹوڈرمل کو منصب پنج ہزاری دے رکھا تھا لیکن وہ موقع مناسب دیکھ کر دوبارہ سام گڑھ چلا گیا راجگان نے اس کی خدمت کے اعتراف میں اسے عہدہ بیست ہزاری سے سرفراز کیا ۔
خانخاناں
خانخاناں کو خطاب ذوالفقار الدولہ کا رکھتا تھا اکبر کا سب سے کم عمر وزیر تھا ذہین اور خوش تقریر اکبر اسے بہت عزیز رکھنے لگا اور باہر کی ولایتوں سے ہر طرح کی معاملت اس کے سپرد کر رکھی تھی ٹوڈرمل کو یہ بات پسند نہ آئی کیونکہ خانخاناں کا میلان مہا راجہ سام گڑھ کی بجائے فغفور چین کی طرف زیادہ تھا آخر نورتنوں کے حلقے سے نکلوا کر دم لیا کہتے ہیں کہ پانی پت کی دوسری لڑائی کے سلسلے میں بھی بادشاہ سے خانخاناں کے اختلافات ہو گئے تھے اکبر ہیموں بقال سے صلح پر آمادہ تھا خانخاناں اس کا مخالف تھا خانخاناں کو یہ بھی پسند نہ تھا کہ امراء بڑی بڑی جاگیروں پر قابض ہوں یا علماء جائدادیں بنائیں اس لئے دربار کے علماء بھی اس سے ناراض ہو گئے تھے اور اس کے عقائد میں نقص نکالنے لگے تھے۔
خانخاناں نی بد دل ہو کر پرچم بغاوت بلند کیا تو لاکھوں لوگ اس سے آ ملے لیکن ان میں روساء اور خاندانی امیر بہت کم تھے زیادہ تر عام طبقے کے آدمی تھے خانخاناں اپنا دربار پیپل کے ایک درخت کے نیچے لگاتا تھا اس لئے اس کے حامی بھی پیپل والے مشہور ہوئے ۔
ابو الفضل
اکبر کا یہ مشیر باتدبیر صحیح معنوں میں رتن تھا بحر علم کا گوہر یکتا رموز مملکت کے علاوہ ادب و انشا میں بھی دستگاہ کامل رکھتا تھا کہتے ہیں بادشاہ کو دین الہی کے راستے پر یہی لایا پرچہ نویسوں کو یہ ہدایت تھی کہ کوئی بات بادشاہ کے خلاف نہ لکھیں ہاں تعریف کرنے پر کوئی پاپندی نہیں دسویں سن جلوس کے دھوم دھامی جشن مہتابی کا سہرا بھی مورخین ابوالفضل ہی کے سر باندھتے ہیں اسی نے بادشاہ سے اس کی تزک لکھوائی جس کی دھوم فزگستان سے جاپان تک ہوئی ملا عبدالقادر اور بدایونی کا کہنا ہے کہ ابو الفضل نے خود لکھ کر دی بادشاہ کو کہاں لکھنا آتا تھا واللہ اعلم۔
فیضی، بیربل اور مخدوم الملک وغیرہ
نورتنوں میں اور بھی کئی با کمال تھے مثلا فیضی کہ دربار میں ملک الشعراء تھا اگر کوئی بادشاہ سے ذرا سی بھی سر تابی کرتا تھا تو یہ اس کو بے نقط سناتا تھا بہت سے لوگ اس کے بے نقط کلام کی وجہ سے بادشاہ کے اور خلاف ہو گئے ۔
بیان الدولہ لطائیف الملک راجہ بیربل کا ذکر بھی ضرور ہے یہ بھاٹوں کے چودھری تھے ایک بیان دے دیتے تھے لوگ بہت دن اس پر ہنستے رہتے تھے اکبر کے ایک نو رتن مخدوم المہلک عبداللہ سلچان پوری تھے مخدوم الملک اچھے اچھے خواب دیکھ کر بادشاہ کو بشارتیں دیا کرتے تھے مشائخ کا ایک حلقہ بھی بنا رکھا تھا جو چلے کاٹ کاٹ بادشاہ کی درازی حکومت کے لئے دعائیں کرتے تھے افسوس موسم کی خرابی کی وجہ سے اکثر دعائیں اوپر باب قبول تک نہ پہنچ پاتی تھیں راستے ہی سے لوٹ آتی تھیں ۔
اسے اکبر کا کمال جاننا چاہیئے کہ ایسے نو رتنوں اور با کمالوں کے وصف پچاس برس حکومت کر گیا آج کل تو لوگ دس برس مشکل سے نکالتے ہیں ۔
سوالات
۱۔ سام گڑھ کیاں واقع ہے اس کے راجہ کا نام ، پتہ،ولدیت، سکونت وغیرہ لکھو ؟
گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔
۲۔ وفاداری بشرط استواری کے موضوع پر جواب مضمون لکھو اور ٹوڈرمل کی زندگی سے مثالیں دو؟