اکبر بگٹی اور دہی مرچ
معروف صحافی سلیمان کھوکھر ایک کالم میں لکھتے ہیں
ہلٹن ہوٹل کی لابی ایک طرح سے ہمارا سیاسی ڈیرہ تھی خوب گپ شپ ہوتی۔ لابی میں بڑی چہل پہل رہتی اس میلے میں نواب اکبر بگٹی بالکل مختلف نظر آتے پتہ چلتا تھا کہ واقعی کسی قبیلے کا سردار بیٹھا ہوا ہے۔ دراز قامت، تیرکی مانند سیدھا جسم کچھ سیاہ اور زیادہ سفید داڑھی، سرخ قندھاری انار سا رنگ انتہائی موزونیت سے ترشا ہوا جسم سفید کھدر کی کلف لگی شلوار قمیض اور پاﺅں میں ایک انوکھے انداز کی بگٹی چپل جی ہاں بلوچستان کے بڑے قبائل کی چپلوں کا انداز اور ساخت بھی مختلف ہے جن میں بگٹی طرز کی چپل سب سے مقبول ہے۔ ہوٹل میں ان کی محفل کا ایک ہی اصول ہوتا تھا کہ یا تو کچھ کھاﺅ پیو اور گفتگو میں حصہ لو یا پھر چلے جاﺅ۔
جب ہم گوالمنڈی پہنچتے تو نواب صاحب کے کہنے کےمطابق گاڑی سڑک کے ایک طرف کھڑی کرلیتے صاف ستھرا دکاندار صاف شفاف برتنوں میں ہمارے لئے سری پائے اور گرم گرم نان لا کر گاڑی کے بونٹ پر رکھ دیتا۔ بگٹی صاحب نان توڑ کر شوربے میں ڈبوتے جب ٹکڑے خوب تر ہو جاتے تو چمچ کے ساتھ تناول کرتے۔ پائے کے گوشت سے کوئی زیادہ رغبت نہیں تھی۔ تاہم بہت سی پسی کالی مرچ کا دکاندار کو الگ سے انتظام کرنا پڑتا۔ نواب صاحب سرخ مرچ بہت زیادہ استعمال کرتے تھے اتنی کہ ہم میں سے کوئی بھی اتنی مرچ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ ہر لقمے کے ساتھ ایک پوری سبز مرچ بھی چبا جاتے۔ ایک بار میں نے پوچھا نواب صاحب اتنی مرچ آپ کا معدہ کیسے برداشت کر لیتا ہے تو جھٹ انہوں نے اپنا نسخہ بیان کردیا کہ ” میں کھانے سے پہلے دہی کھا لیتا ہوں“ اس سے معدے کو کچھ نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی یہ بتانا نہ بھولے کہ میں نے میر صاحب (غوث بخش بزنجو) کو کہا ہے کہ آپ مجھ سے پہلے مر جائیں گے کیونکہ آپ کھانے کے بعد دہی کھاتے ہیں۔ آپ پہلے دہی کھایا کریں۔ پھر وہ روس سے لے کر عربستان تک ان بڑے لوگوں کے نام بتاتے جن کی انہوں نے سوانح عمریاں پڑھ رکھی تھیں کہ ہر بڑے آدمی کی خوراک میں دہی ضرور شامل ہوتا تھا۔
اکبر بگٹی صاحب بکرے کے شانے کی دم پخت دستی بڑے شوق سے کھاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ بکرے کی دستی میرے لئے بلوچی اخبار جیسی ہے جسے دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ بلوچستان کے معاشی حالات کیسے ہیں۔
کھانے سے پہلے آدھا کلو دہی میں پائو بھر سبز مرچیں کتروا کر کھاتے تھے۔
ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ مشرف نے خواہ مخواہ بگٹی کے قتل کا الزام اپنے سر لیا کیونکہ ان پر دوائوں نے اثر کرنا چھوڑ دیا تھا اور وہ زیادہ دن زندہ نہ رہتے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔