”پیلوں پَکّیاں نی، پَکّیاں نی، وے، آ چُنڑوُں رَل یار“ وہ گا رہا تھا بابا فرید کی زمین میں لکھے یہ بول اجنبی تو نہ تھے۔ میں نے گانے والے کو غور سے دیکھا تالیوں کی گونج میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ میرے ارد گرد موتیئے کی خُوشبو پھیلی تھی۔ ”پیلو پپیاں نی، پپیاں نی، وے“ یادوں کی رحل میں رکھا سُنہری غلاف میں لپٹا اِک توتلا لمحہ گنگنایا۔
موتیئے کی خُوشبو سے بھری ایک خُوبصورت شام تھی۔ یہ میری اس سے پہلی ملاقات تھی۔ نرم و ملائم مکھن کے پیڑے جیسی ہتھیلی میں میرا ہاتھ تھامے دھیرے سے میرے ساتھ سیڑھیاں چڑھتے وہ مُجھے گرنے سے بچاتا اوپر کی منزل پر بنی سنہرے صوفوں والی بیٹھک میں لے آیا۔ اُس بچے میں کوئی انوکھی بات ضرور تھی، وہ دِکھنے میں عام بچوں سے مختلف تھا۔ اپنی عمر سے شاید کچھ پیچھے بھی مگر محبت کی عمر۔۔۔؟ پوچھو تو سو سال۔ بوڑھا بابا جسے محبت پرعبور حاصل تھا۔ ”پیلو پَپیاں“ کے بولوں نے میرا ہاتھ تھام رکھا تھا۔
”کچے گھڑے تے آئی آں تر کے، سِر موڈھے مہینوال دے دھر کے
کوئی جگاۓ نہ یار اکھیاں لگیاں نی، لگیاں نی وے
آ چُنڑوُں رَل یا ر“
گاؤ تکیۓ سے ٹیک لگاۓ شہنشاہ عالم اکبر بادشاہ مسکراۓ۔ وہ سلطان تھا اپنے ابّا کا سلطان خود کو اکبر کہتا اور ابّا کو بیربل۔ ننھے کے ابّا شعر کہا کرتے، ننھے کے دِل پر ابّا کی محبت آیت بن کر اُتری تھی۔ ننھے کا دیوان مکمل تھا۔ ابّا پگڑی پہنتے اور وہ ابّا کا مٹھا بابا بھی پگڑی پہنتا ابّا لال رنگ کا کُرتا پہنیں گے توا ابّا کا مٹھا بابا بھی لال کُرتا ہی پہنے گا۔ میں نے رنگوں کو اُس کے ساتھ ابّا پر نثار ہوتے، دھمالی رقص کرتے دیکھا۔ رنگ اس کے ساتھ لڈیاں ڈالتے تھے۔ ننھے کی ہر ہر ادا راگ لگاتی ابّا کے واری جاتی۔ “راج دلارا میری اکھیوں کا تارا جیوے بنڑا”۔ ایک جیسے لباس میں ملبوس وہ اپنے ابّا کا ہو بہو عکس تھا۔ ابّا کے مٹھا بابا کہنے پر اس کے لب مسکراتے۔ تپتی دوپہر میں روح افزا جیسی ٹھنڈی میٹھی مسکراہٹ۔ میں نے رگوں میں روح افزاء ٹھنڈک کو اترتے محسوس کیا۔ مزدور کی سوکھی روٹی کے ساتھ پیاز کی بجائے شہد رکھ دیا ہو جیسے۔ عجیب تھا یہ مٹھا بابا بھی ہر انداز جُدا ہر ادا محبوبانہ۔ میں شاید لوک داستانوں میں آ بسی تھی مٹھا بابا ہیر تھا یا سسی۔۔۔؟ ابّا ضرور رانجھا تھے اور سنہرے صوفوں والا گھر تخت ہزارہ۔ دوپہر میں ابّا اُسے سلانے لے گئے لوری کی آواز پر میں نے کمرے میں جھانکا، ابّا سو رہے تھے اور وہ ابّا کے گالوں پر ہاتھ پھیرتے توتلی آواز میں لوری سنا رہا تھا۔۔۔!
مسکرا لاڈلے مسکرا
کوئی بھی پھول اتنا نہیں خوبصورت
ہے جتنا یہ مکھڑا تیرا
مسکرا لاڈلے مسکرا
مبارک وہ آنکھ کہ جس نے باپ اور بیٹے کی محبت کا یہ لازوال منظر دیکھا۔ موسیقی روح کی غذا ہے اس دن مُجھے یقین ہو گیا۔ ننھے نے گیت امر کر دیا۔ لوری کے بولوں نے زندگی کو اُٹھا کر قبوُلیت کے نعمت خانے میں رکھ دیا ۔ “مُسکرا لاڈلے مُسکرا” ابّا کا تو مانو سارا جہاں دولہا بنا بیٹھا تھا۔
سُنہرے صوفے پر اپنے ابّا کے ساتھ اُن ہی کے انداز میں ٹانگ پر ٹانگ دھرے ان کے ہر شعر پر داد دیتا، اپنی توتلی آواز میں واہ واہ کہتا، میں نے ننھے سے بیٹے کی باپ سے ایسی والہانہ محبت پہلی بار دیکھی تھی، وہ ابّا کا لخت جِگر تھا اور ابّا اُس کے محبوب، انوکھے لاڈلے کے ابّا۔ وہ عاشق تھا اور ابّا معشوق، ابّا نے پہلو بدلا دائیں کی جگہ بائیں ٹانگ دَھری۔ ہر انداز ہر ادا پر جاں نثار نظر محبوب سے لمحہ بھر کو بھی غافل نہ تھی۔ آنکھ کی جنبش سے پہلے ننھے نے بھی پہلو بدلا دائیں کی جگہ بائیں ٹانگ دھری ابّا کا شعر مکمل ہوتے ہی واہ وااااااہ واہ۔۔۔! اُس کے ہونٹوں سے شبد گویا دُعا کی صورت ادا ہوئے، ابّا نے مٹھا بابا کہہ کر سر پر ہاتھ پھیرا، تپتی دُھوپ بادل کے پیچھے چُھپ گئی، ننھے نے ابّا کے ہاتھ پر بوسہ دیا، کیا ادا تھی، پھر میرا دِل میرے اختیار میں نہیں رہا۔ میں ننھے کی اس ادا پر مر مِٹی، حیاتی کا سُود ادا کرنے بعد جتنی محبت میرے پاس باقی بچی تھی میں نے ساری کی ساری دعاؤں کے تعویذ میں لپیٹ کر ننھے کے بازو پر امام ضامن باندھا۔ سُنہری صوفوں والے گھر سے میں اُس دن پوری واپس نہ آسکی۔ وہ خاص تھا بہت خاص، اس کی آنکھیں ہونٹوں سے ہنسی چُرا کر کھلکھلاتیں، ایسے میں وہ تاروں سے بھرا آسمان دِکھتی تھیں۔ وہ جب ابّا کو دیکھتا تاروں کے درمیاں آنکھوں میں چاند چمکنے لگتا۔ چودھویں کا چاند۔۔۔! ننھے کے ابّا نے کیا خوب کہا تھا۔
“اندرو اندری یار اولا کلم کَلّا مار پتھلا
تو دِلاں دِیاں یار لٹنا ایں ہٹیاں نی”
دِل میں بیٹھا یار اوّلاسُنتا ہے، ننھا چل نہیں سکتا تھا پندرہ ہزار کا ایک ٹیکہ لگا کرتا۔ پھر ایک دن اچانک وہ چلنے لگا، ابّا جی جان سے لُٹ گئے، اُسی یار کے ہو گئے اور ننھا اُن کا۔ اُسے ابّا جیسا دِکھنا تھا ابّا کی اُنگلی پکڑ کر چلنا تھا۔ اس کا رَبّ تو ابّا تھے۔ ننھا ایک دن بہت بڑا آدمی بنے گا میرے ہونٹوں سے بے ساختہ ادا ہونے والے الفاظ اُس کی ماں کی آنکھوں میں جُگنو بن کر چمکے، پرانے چرچ میں کسی نے شمع روشن کردی تھی، ماں اس رات خواب میں ننھے کے پروں پر اُڑی اُڑی پھری چاند سے ہوتی تاروں پر چلتی فجر کے بعد دعائیں پڑھتے جانے کب ننھے کے بستر سے ٹیک لگائے لگاۓ سو گئی۔ آنکھ میں یار کی یاد کا سرمہ لگا تھا نیند کے خمار سے پرے اِک حسین سپنا پڑا تھا۔
“کچے گھڑے تے آئی آں تر کے سِر موڈھے مہینوال دے دھر کے
کوئی جگاۓ نہ یار اکھیاں لگیاں وے لگیاں نی وے”
“And the award for the best performance goes to… Peelo Pakiaan!”
وہ بے شمار تالیوں کی گونج میں بیسٹ پرفارمنس کا ایوارڈ لے رہا تھا۔ ”پیلو پپیاں“ سے ”پیلو پَکّیاں“ کا سفر مہینوال کے موڈھے پر سر رکھے کب طے ہوا کب منزل آئی پتہ ہی نہ چلا۔ ابّا اُسے ایوارڈ لیتے دیکھ رہے تھے، سٹیج پر بیٹھ کر اس نے ٹانگ بائیں ٹانگ پردھری۔ میں نے دیکھا۔ نظر نے فورا سے پہلے حکم کی تعمیل کی ابّا نے بھی دائیں ٹانگ بائیں پر دھری، محبت دیوانہ وار دونوں کا طواف کرتی۔ جانے کون عاشق تھا کون معشوق، میں اُسے دعائیں دیتی آج پھر پوری واپس نہ آ سکی۔۔۔!