شعر :
شعر غزل کے ایک حصے کو کہتے ہیں۔ شعر کی سطر کو مصرع کہا جاتا ہے، اشعار پہ مشتمل مجموعہ کو غزل کہتے ہیں ایک شعر میں دو مصرعے ہوتے ہیں۔ پہلے مصرعے کو مصرع اولیٰ اور دوسرے کو مصرع ثانی کہتے ہیں غزل میں موجود اشعار کے مختلف نام ہیں پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے جس کے دونوں مصروں میں قافیہ اور ردیف استعمال ہوتا ہے غزل کے آخری شعر کو مقطع کہا جاتا ہے جس کے پہلے مصرعے میں اکثر شاعر اپنا تخلص استعمال کرتے ہیں اور دوسرے مصرعے میں قافیہ کے ساتھ ردیف کا استعمال کیا جاتا ہے مطلع اور مقطع کے درمیان موجود غزل کے تمام اشعار (ہرایک شعر کو) کو بیت کہتے ہیں۔
بیت الغزل:
غزل کے سب سے بہترین شعر کو بیت الغزل کہتے یہں۔ مثلاً: مجروح سلطان پوری کا ایک شعرملاحظہ کریں:
"میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا"
مندرجہ بالا شعر کو بیت الغزل کہا جائے گا۔
غزل :
غزل کا لفظ غزال سے نکلا ہے اور غزال "ہرن" کو کہتے ہیں۔ غزل "ہرن کے گلے سے نکلنے والی اُس دردناک آواز کو کہا جاتا ہے, جب وہ شیر کے خوف سے بھاگ رہی ہوتی ہے۔
غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عشق و محبت کا ذکر کرنا بھی بتایا گیا ہے۔
اشعار پہ مشتمل مجوعہ غزل کہلاتا ہے۔
اک غزل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
پہلے حصلے کو مطلع کہا جاتا ہے, جس میں دو مصرعے ہوتے ہیں اور پہلے مصرع کو مصرع اولیٰ اور دوسرے مصرع کو مصرع ثانی کہتے ہیں۔
مطلع کے دونوں مصروں میں قافیہ اور ردیف استمال ہوتا ہے لیکن کسی غزل میں ردیف لازمی جز نہیں ہے, قافیہ کے بعد اگر ردیف نہ بھی لکھا جائے تو کوئی قید نہیں۔
غزل کے دوسرے حصے کو مقطع کہا جاتا ہے, جس کے پہلے مصرعے یعنی مصرع اولیٰ میں اکثر شاعر اپنا تخلص استمال کرتا ہے اور دوسرے مصرعے یعنی مصرع ثانی میں قافیہ اور ردیف استعمال ہوتا ہے۔
غزل کے تیسرے حصے کو اشعار کہا جاتا ہے یعنی مطلع اور مقطع کے درمیاں والے مصروں کو اشعار کہتے ہیں۔
غزل کے کم از کم اشعار کی تعداد پانچ ہوتی ہے اس سے زیادہ اشعار لکھنے کی کوئی قید نہیں لیکن 11 اشعار موزوں جانے جاتے ہیں۔
فرد :
شاعری میں ایک اکیلے شعر کو فرد کہتے ہیں۔
حمد :
حمد ایک عربی لفظ ہے،جس کے معنی ’’تعریف‘‘ کے ہیں۔
اللہ عزوجل کی تعریف میں کہی جانے والی نظم کو حمد کہتے ہیں۔
ہجو:
ایسا کلام یا ایسی نظم، خواہ کسی بھی ہیئت (شکل) میں ہو، جس میں کسی کی مخالفت میں اس پر طنز کیا جائے یا اس کا مذاق اڑایا جائے اسے ہجو کہتے ہیں۔
مصرع:
شعر کی ایک سطر کو مصرع کہتے ہیں۔
مطلع :
کسی بھی غزل (شاعری) میں پہلے شعر کو مطلع یا حسن مطلع کہتے ہیں جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔
مقطع:
مقطع کے معنی قطع کرنے کے ہیں۔
چونکہ شاعر اپنی شاعری کا اختتامی شعر میں اپنا تخلص استعمال کرتا ہے، اسی لیے غزل کے آخری شعر کو مقطع کہا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر مرزا غالب کا مقطع دیکھیں
"ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا, کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا"
مدح:
مدح کے معنی تعریف و توصیف کے ہیں اور یہ عموماً قصیدہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔
قصیدے کا سب سے ضروری جز مدح سرائی ہے اور اسی پر قصیدے کی بنیاد ہوتی ہے۔
عربی قصائد میں مدح حقیقت اور واقعیت سے بھرپور ہوتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ جب ایک عرب شاعر کو کسی نے اپنی مدح پر مجبور کیا تو اس نے جواب دیا کہ ” تم کچھ کرکے دکھاؤ تو میں تمہاری مدح کروں۔“
منقبت:
اشعار کے ذریعے کسی کی تعریف کرنے کو منقبت کہتے ہیں لیکن یہ لفظ صرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تعریف میں لکھے ہوئے اشعار کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
مثنوی:
مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ ”مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی "دو" کے ہیں۔
اصطلاح میں ہیت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔
مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کیے جاتے ہیں۔
نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔
مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے لیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں اور شعرا عموماً اس کی پاسداری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے، کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر بھی مشتمل ہیں۔
مناجات:
مناجات کا مطلب ہے دعا وغیرہ۔ زبانوں کے اختلاف کو الگ رکھ کر اگر ہم تمام مذاہب کی الہامی کتب کا غور و فکر کے ساتھ مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مذاہبِ عالم میں جو دعائیں اور حمدیں پڑھی جاتی ہیں ان کے معنی اور مفہوم میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، چاہے ہم اسے حمد کہیں، ہندو آرتی، بدھسٹ وندنا، یہودی سالم، پارسی یاسنا اور مسیحی ہالّےلُو یاہ۔
مثال کے طور پہ
یہودی و مسیحی افراد اپنی ہر دعا اور حمد کی ابتداءاور آخر میں ”ہالّے لُو یاہ“ Hallelujah پکارتے ہیں۔
”ہالّے لُو“ یعنی حمد کرو ”یاہ“ لفظ یہواہ یعنی خدا کا مخفف ہے۔ ہالّے لُو یاہ کے لغوی معنی ہیں خدا کی حمد کرو۔
عربی میں اس کا ترجمہ ”الحمدﷲ“ ہوگا۔
اسی طرح ہندی میں بولا جانے والا لفظ ”ہری اُوم“ یا ”ہرے اوم“ کے لغوی معنی بھی (خدا کی حمد) یعنی الحمدﷲ کے ہیں۔ سنسکرت زبان کے لفظ اوم ` کے لغوی معنی ایسی ہستی اور نور کے ہیں جو کائنات کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے یہاں کائنات پر محیط اس ہستی سے مراد اﷲ ہی ہے اور ہری یا ہرے حمد و ثنا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح اہلِ ہنود ہر روز صبح جو آرتی (حمد) پڑھتے ہیں ”اوم جے جگدیش ہرے“ اگر اس کا ترجمہ کیا جائے تو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت آپ کے ذہن میں گونجنے لگے گی۔ ”اوم`“ کے معنی اﷲ کے ہیں ”جے“ کہتے ہیں کسی شے کے مالک، رب اور پروردگار کو ”جگدیش“ کا مآخذ جگ ہے جس کے معنی عالم کے ہیں۔ جگدیش کے معنی عالمین اور کائنات کے ہیں اور ”ہرے“ حمد کے ِلیے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ ”اوم جے جگدیش ہرے“ کا ترجمہ ہوگا اﷲ رب العامین کی حمد کرو یعنی الحمد اﷲ رب العالمین!
مسدس:
مسدس چھ شعروں کے ایک قطعہ پر مشتمل شاعری کو کہتے ہیں۔ سب سے مشہور مسدس "مسدس حالی" ہے۔
نعت :
پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کے نظمی اندازِ بیاں کو نعت یا نعت خوانی یا نعت گوئی کہا جاتا ہے۔
عربی زبان میں نعت کے لیے لفظ "مدحِ رسول" استعمال ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ اکرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ الحمدللہ آج تک پورے عالم اسلام میں جاری و ساری ہے۔ نعتیں لکھنے والے کو نعت گو جبکہ نعت پڑھنے والے کو نعت خواں یا ثناءخواں بھی کہا جاتا ہے۔
نظم :
نظم سے مراد ایسا صنف سخن ہے جس میں کسی بھی ایک خیال کو مسلسل بیان کیا جاتا ہے۔ نظم میں موضوع اور ہیئت کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔
پابند نظم:
پابند نظم اس نظم کو کہتے ہیں جس میں ردیف، قافیہ اور بحر کے مقررہ اوزان کی پابندی کی جاتی ہے۔ پابند نظم میں نہ موضوعات کی قید ہوتی ہے اور نہ اشعار کی تعداد کی۔
شاعر کسی بھی موضوع پر اور کتنی ہی تعداد میں اشعار کہہ سکتا ہے۔ لیکن بعض شعرا نے صرف چار یا چھ اشعار پر مشتمل پابند نظمیں بھی کہی ہیں۔
اردو شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ پابند نظموں پر مشتمل ہے۔
ثلاثی:
ثلاثی کو مثلث اور تثلیث بھی کہاجاتا ہے۔ یہ تین مصرعوں پر مشتمل صنف سخن ہے, جس کے تینوں مصرعے برابر ہوتے ہیں۔
البتہ کبھی پہلا اور دوسرا، کبھی پہلا اور تیسرا اور کبھی تینوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور یہ تینوں مصرعے مل کر ایک اکائی بنتے اور مثلث کہلاتے ہیں۔
یہ اکائی ایک مکمل معنوی نظام کی حامل ہوتی ہے اور کئی تین مصرعوں کی اکائیاں مل کر بھی مثلث کہلاتی ہیں۔ اردومیں ثلاثی ایک باقاعدہ فنی ہیئت کی حیثیت سے مقبول رہی ہے۔
قافیہ:
قافیہ کا لفظ 'قفا' یا 'قفو' سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی 'پیچھے آنا والا' یا 'پیرو کار' کے ہیں، چونکہ عربی شاعری میں شعر کا اختتام قافیہ پر ہوتا ہے اس لیے اسے یہ نام دیا گیا، واضح رہے کہ فارسی اور اردو شاعری میں ضروری نہیں کہ شعر کا اختتام قافیے پر ہو، بلکہ زیادہ تر شعر کا اختتام ردیف پر ہوتا ہے جو فارسی شاعروں کی ایجاد ہے اور عربی شاعری میں مستعمل نہیں۔
اصطلاح میں قافیہ حروف اور حرکات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کی تکرار مختلف الفاظ کے ساتھ شعر کے آخر یا ردیف سے پہلے آئے جیسے دمَن، چمَن، زمَن یا دِل، محفِل، قاتِل وغیرہ الفاظ کو ہم قافیہ کہا جائے گا۔
ردیف:
ردیف کے لغوی معنی ہیں "گھڑ سوار کے پیچھے بیٹھنے والا"۔ شعری اصطلاح میں ردیف سے مراد وہ لفظ یا الفاظ کا مجموعہ ہے جو قافیے کے بعد مکرر آئیں اور بالکل یکساں ہوں۔
ردیف کا ہر مصرعے میں ہونا لازمی نہیں ہے۔ عام طور پر یہ غزل کے اشعار میں مصرعۂ ثانی میں دہرائے جاتے ہیں۔
قصیدہ :
لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے جس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے یا اپنے ارادے یا ہواہش کا اظہار کرتا ہے۔
قصیدہ کے دوسرے معنی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو "چامہ" بھی کہتے ہیں۔
قطعہ:
قطعہ شاعری کی ایک مقبول صنف ہے یہ عموماً چار مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن (قطعہ کے لیے اشعار کی تعداد کی قید نہیں ہے۔ قطعہ میں دو سے زیادہ اشعار بھی ہو سکتے ہیں)۔
قطعہ کے پہلے مصرع میں قافیہ یا ردیف کی کوئی قید نہیں ہے لیکن دوسرے مصرعے میں قافیہ لازمی موجود ہوتا ہے, اس کے بعد اگر ردیف بھی لگا دیا جائے تو مصنف کی مرضی ہے ورنہ ردیف کے بغیر بھی قطعہ کے اصول مکمل ہو جاتے ہیں۔لیکن قافیہ ضروری ہے۔
پہلے دو مصرعوں کے بعد تیسرا مصرع آتا ہے اُس میں بھی قافیہ اور ردیف کی کوئی قید نہیں لیکن چوتھے اور آخری مصرعے میں دوسرے مصرعے کا ہم آواز قافیہ ضروری ہوتا ہے۔اور دوسرے مصرعے کے مطابق اگر قافیہ کے ساتھ ردیف ہے تو وہی ریف چوتھے مصرعے میں قافیہ کے بعد اس طرح لکھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ قطعہ اس طرح بھی لکھا جاتا ہے کہ پہلے دونوں مصرعوں میں قافیہ یا قافیے کے ساتھ ردیف لگایا جائے مگر تیرے مصرعے کو قافیہ اور ردیف سے آزاد رکھا جائے مگر آخری مصرعے میں یعنی چوتھے مصرع میں پہلے دو مصرعوں کا ہم آواز قافیہ اور وہی دریف لگایا جاتا ہے۔
رباعی :
رباعی عربی کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے۔
رباعی کا وزن مخصوص ہے، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے۔ تیسرے مصرعے میں اگر قافیہ لایا جائے تو کوئی عیب نہیں۔
اس کے موضوعات مقرر نہیں۔ اردو اور فارسی کے شعرا نے ہر نوع کے خیال کو اس میں سمویا ہے۔ رباعی کے آخری دو مصرعوں, خاص کر چوتھے مصرع پر ساری رباعی کا حسن و اثر اور زور کا انحصار ہے۔ چنانچہ علمائے ادب اور فصحائے سخن نے ان امور کو ضروری قرار دیا ہے۔ بعض نے رباعی کے لیے چند معنوی و لفظی خصوصیات کو بھی لازم گردانا ہے۔ علم عروض کی مختلف کتابوں میں رباعی کے مختلف نام ہیں۔
رباعی، ترانہ,دو بیتی, چہار مصرعی اور بعض نے جفتی اور خصی بھی لکھا ہے۔
ماہیا:
ماہیا، پنجابی شاعری کی صنف اور پنجابی تہذیب کا حصہ ہے۔
’’ماہیے‘‘ بھی گائے جاتے ہیں۔ اس کا صحیح عمل دو اوزان پر مشتمل ہے جو یہ ہے
(1) فعلن فعلن فعلن /فعلن فعلن فع / فعلن فعلن فعلن
(2) مفعول مفاعیلن /فعل مفاعیلن / مفعول مفاعیلن دوسرے مصرعے میں ایک سبب کم ہوتا ہے۔ اگر تینوں مصرعے برابر ہوجائیں تو بھر ثلاثی ہو جائے گا۔
خواہ ماہیا گوئی کی کوئی مستند تاریخ موجود نہیں مگر اردو میں ماہیوں کی روایت 1939 سے ملتی ہے۔
سلام :
یہ نظم کی ایک قسم ہے جو گزرے دور کے واقعات اور ہستیوں سے متاثر ہو کر انکی عقیدت میں سلام پیش کرنے کیلئے لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔
نظم کی یہ قسم زیادہ تر شہداء کربلا کے مدح میں لکھی جاتی ہے۔اور اسے پڑھنا سلام پیش کرنا کہلاتا ہے۔
سہرا:
شادی کے موقع پر دلہا کے لیے گائے جانے والے گیت کو سہرا کا نام دیا جاتا ہے۔سہرا گانے میں خوشی,تشکر, سلامتی اور دعا گوئی کے جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔
تحت اللفظ:
بغیر ترنم کے شاعری کی ادائیگی کو تحت اللفظ کہا جاتا ہے۔
تخلص:
وہ قلمی اور فرضی نام جو شاعر یا ادیب اپنے اصل نام کی بجائے رکھ لیتے ہیں۔
تخلص اکثر اصل نام سے مختصر ہوتا ہے اور اس کے لفظی معنی کا مفہوم ہے "آزاد ہونا" ,جدا ہونا اور نجات پانا وغیرہ۔
واسوخت:
واسوخت محبوب کی بے وفائی یا لاپروائی کے بیان کے لیے لکھی جانے والی شاعری کو کہتے ہیں۔
گیت:
گیت ہندی الاصل صنف شاعری ہے۔ اردو پر ہندی کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں اس کا ایک نتیجہ گیت بھی ہے جس کو اردو میں بغایت مقبولیت حاصل ہوچکی ہے۔
اردو میں گیت ہندی بحروں ہی میں لکھے جاتے ہیں۔
اور نظم کی طرح گیت میں بھی کسی موضوع کی کوئی پابندی نہیں۔
اس میں ہر نوع کے موضوع پرطبع آزماءی کی جاسکتی ہے۔ گیت میں محبت اور نغمگی کے عناصر کی آمیزش ہوتی ہے اور اس کا مزاج ان عناصر سے تشکیل پاتا ہے جن میں نسائیت ہوتی ہے۔
غنائیت گیت کے لیے لازمی ہے اور ترنم، جھنکار اور تھاپ اس کی خصوصیات ہیں۔ اس کا اپنا ایک تہذیبی مزاج ہے۔ گیت سروں کی ایک ایسی لہر ہوتی ہے جس میں انسانی آواز بھی شامل ہو اور وہ گیت کے بول گائے۔ گیت کو گایا جاتا ہے اور انسانی آواز جو سر میں ادا کی جاتی ہے، اس کے ساتھ آلات موسیقی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
قوالی:
قوالی موسیقی کی ایک قسم ہے لیکن موسیقی کی اس قسم کو لوگوں تک پیغام پہنچانے اور اُس کے زیادہ اثر انداز ہونے کا اک منفرد اور انوکھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے قوالی کی زیادہ تر تاریخ برصغیر ہندوستان میں تصوف سے ہی ملتی ہے۔
کہا جاتا ہے قوالی کے سب پہلے خالق امیر خسرو تھے جن کا شمار صوفیوں میں ہوتا ہے ان کو آلاتِ موسیقی سے خاصی دلچسپی تھی اور انہوں نے ہی قوالی کی بنیاد رکھی شعرا کے مطابق عام کہی گئی بات کی نسبت شاعری میں کہی گئی بات زیادہ دل پہ اثرانداز ہوتی ہے اور اسی طرح شاعری اگر آلات موسیتی کے ساتھ ملا کر موسیقی کی شکل میں ہو تو اور بھی زیادہ دل پہ اثر کرتی ہے اور لوگ اُسے توجہ سے سنتے ہیں لہذا تصوف کے دور میں قوالی کی بنیاد پڑی جس کا مقصد اشاعتِ اسلام تھا تاکہ لوگ صوفیائے کرام کے کلام کو یعنی ان کی شاعری کو دلچسپی کے نفاذساتھ سنیں اور اس کا اثر لیں تاریخ سے ملتا ہے قوالی صوفیائے کرام کے آستانوں پہ ہوا کرتی تھی جسے لوگ شوق سے آ کر سنا کرتے تھے یہی وجہ ہے آج بھی قوالی درباروں کے ساتھ منسوب ہے قوالی پڑھنے والے کو قوال کہا جاتا ہے سب سے زیادہ مشہور قوال برصغیر پاک و ہند میں ہی ملتے ہیں جن میں سب سے مشہور قوالوں کا تعلق پاکستان سے ہے پاکستان کی سر زمین نے بہت سے مشہور قوالوں کو جنم دیا جن میں فتح علی خان، نصرت فتح علی خان، غلام فرید مقبول صابری، بدر میاں داد، عزیز میاں قوال کا نام سرفہرست ملتا ہے۔
دور حاضر کے قوالوں میں امجد صابری (مرحوم) اور راحت فتح علی خان کے نام نمایاں ہیں۔
تلمیح:
تلمیح کے لغوی معنی ہیں اِشارہ کرنا۔ شعری اصطلاح میں تلمیح سے مراد یہ ہے کہ ایک لفظ یا مجموعہ الفاظ کے ذریعے کسی تاریخی، سیاسی، اخلاقی یا مذہبی واقعہ کی طرف اشارہ کیا جائے۔
تلمیح کے استعمال سے شعر کے معنوں میں وُسعت اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ مطالعہ شعر کے بعد پورا واقعہ قاری کے ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے۔تلمیح میں عنوان کی کوئی پابندی نہیں ہے۔