اجرک قدیم زمانوں سے سندھی ثقافت میں گندھی اس شیرینی کا نام ہے جسے سندھو دیش کے رہنے والے نسل در نسل اپنے مہمانوں پر نچھاور کر کے اپنی تہذینی مٹھاس کو آگے بڑھاتے آئے ہیں۔ یہ ضرورت، پہچان اور تکریم تینوں سانچوں میں بااحسن ڈھل جانے والا تین گز کا کپڑا ہے جو دھوپ سے بچاتے ہوئے دُور سے آپکی شناخت کراتا ہے۔ سندھی لوگ مہمان کو عزت و تکریم دینے کیلئے اسکے کے سر یا کندھے پر اجرک ڈال کر بھائی چارے کی نیو رکھنے کیلئے ہزاروں سال کی تمدنی روایت کے امین ہیں جسکے انمٹ نقوش انکی جڑواں تہذیبوں (راجستھان اور گجرات) میں آجدن تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
ملتان (قدیم سندھ) سے لیکر اجمیر شریف تک اور وہاں سے لیکر دوارکا بلکہ اجرک پور، ضلع کچ، انڈیا تک کوئی گلی محلہ یا سڑک ایسی نہیں جہاں اجرک اپنے مخصوص رنگوں اور چھاپوں کیساتھ براجمان نہ ہو۔
موہنجو داڑو کی تہذیب حضرت ابراھیمؑ سے بھی پانچ سو سال پہلے اپنے نقطہ عروج پر تھی اور ہندوستان سمیت دنیا بھر سے تجارت پیشہ لوگ اسکی منڈی سے اپنی علاقائی ضروریات پوری کرنے کیلئے آتے تھے۔ اسوقت جب آدھی سے زیادہ دنیا پتے باندھ کر گھوم رہی تھی، سندھی لوگ گپسیئم آربوریئم (کپاس) نامی پودے سے ناں صرف اپنا تن ڈھانپنے کیلئے سوتی کاٹن پیدا کر رہے تھے بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں سُوت بطور کپڑے کے پہنچ رہی تھی اسکا معدن یہی سندھ تھا۔
آرکیالوجسٹس کو یہاں کھدائی کے دوران ایک شاھی پروہت کی ہڈیوں کیساتھ اسکے کاندھے پر ایک کپڑے کا ٹکڑا بھی ملا ہے جسکے رنگ اور نقش و نگار اجرک کی موجودہ شکل سے میل کھاتے ہیں۔ اسکے لباس پر Trefoil یعنی تین گول پتوں یا دائروں سے بنا ہوا نقش موجود ہے جس میں لال رنگ بھرا ہوا ہے۔ علامتوں کے پاریکھ مانتے ہیں کہ یہ ایک ایسی عمارت کا عکاس ہے جس میں سورج زمین اور پانی کا ملاپ دکھایا گیا ہے۔ قدیم میسوپوٹیمیا کی کھدائی میں بہت سی نوادرات بالخصوص ‘توتن خمین’ کے شاھی تخت پر اسی سے ملتے جلتے نقوش بتاتے ہیں کہ قدیم زمانوں میں بھی سندھی تہذیب اپنی ہم اثر تہذیبوں کیلئے متاثر کن رہی ہے۔ مزے کی بات یہ ھیکہ تقریباً یہی نقوش آجدن تک سندھی اجرک کی زینت بنے ہوئے ہیں اسلیئے وہ لوگ جنکے بقول اجرک کا استعمال محمد بن قاسم کی سندھ آمد یعنی 711 عیسوی کے بعد شروع ہوا اُسی قدر جھوٹے ہیں جتنی پنڈی برانڈ مطالعہ پاکستان جھوٹی ہے۔
ہزاروں سالوں سے اسکی تیاری میں سوکھے انار کا چھلکا، کتھہ، پھٹکڑی، سوکھے لیموں، نیل، مٹی، سکون (تمارسک پت: سمندر کنارے ایک جھاڑی جسکے پھول سفید اور گلابی ہیں, گُڑ، کیسٹر آئل، سوکھے لیموں اور پانی سے بنا آمیزہ)، دھوبی سوڈا, سرسوں کا تیل، الزرائین (سرخ ڈائی جو زمانہ قدیم سے لال رنگ کیلئے استعمال ہوتی آئی ہے) استعمال ہوتے ہیں۔ مینوفیکچرنگ کے عمل میں قابل تجدید ذرائع کا استعمال جیسے سورج کی روشنی ، پانی اور کیچڑ جبکہ اسکا ڈیزائن فطرت کی علامات کا مرکب ہے جس میں متوازن لکیروں کے درمیان ترتیب میں ستارے، پھول اوردوسری علامتیں استعاروں کیطرح استعمال ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ گودھولی کے لئے نیل اور زمین کے لئے سرخ رنگ کا استعمال زمانہ قدیم سے رائج ہے۔ مزید یہ کہ سفید اور کالا رنگ نقوش کے ابھارنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
لکڑی کی مہروں پر جیومیٹریکل اشکال کندہ ہوتی ہیں جنہیں چھاپے کی صورت میں پہلے سے تیاری میں کپڑے پر اتارا جاتا ہے جبکہ ایک اجرک کی تیاری میں پانچ سے سات دن کا وقت لگتا ہے۔ حالانکہ دورِ جدید میں اجرک کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیشِ نظر اسے سنتھیٹک رنگوں کی مدد سے بڑے پیمانے پر پرنٹ کیا جا رہا ہے لیکن آج بھی ہر کوئی اصلی رنگوں اور چھاپے والی اجرک ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ اسکی تیاری کے بڑے مراکز مٹیاری، ہالا، بھِٹ شاہ، مورو، سکھر، کنڈیارو، حیدر آباد اور زیریں سندھ کے علاقے ہیں جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی اسکی صنعت ترقی کیطرف گامزن ہے۔
اجرک اور سندھی ٹوپی سندھ کے لوگوں کیلئے انکا ثقافتی ورثہ ہے جو انہیں بے حد عزیز ہے۔ کچھ سال پہلے ڈاکٹر شاہد مسعود اور صالح ظافر نے آصف زرداری کے بطور صدرِ پاکستان سندھی لباس میں بین الاقوامی دوروں پر تحقیر آمیز کلمات ادا کیئے تو اسکا اتنا زبردست ردِ عمل آیا کہ آج دنیا بھر میں سندھی کلچرل ڈے عید سے بڑا تہوار بن گیا ہے۔ یہ عام بات ہے کہ دو لوگوں میں باہمی تصفیئے کی صورت میں لوگ ایک دوسرے کو اجرک اوڑھاتے ہیں یہاں تک کہ بقول امداد سومرو فوتگی پربھی لوگ خالی ہاتھ نہیں جاتے بلکہ اپنے پیاروں کے جنازوں کی تعظیم کیلئے اجرک اپنے گھر سے لیکر جاتے ہیں۔
آجکل کچھ پستہ قامت سرکاری سرپرستی اور پیپلز پارٹی دشمنی میں اجرک کا مذاق اڑاتے نظر آتے جس پر پوری دنیا کے سندھیوں میں نہائیت تشویش اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ یہ وہی بدنسلے ہیں جنہیں ہر الیکشن سے پہلے سندھ کا درد مروڑ بن کر اٹھتا ہے اور چند ابن الوقت انکی بین اپنے منہ میں لیکر اللہ کے حُکم سے منہ کی کھاتے ہیں۔ پچھلے 53 برس سے انکی دشمنی پیپلز پارٹی سے ہے لیکن اسکی آڑ میں یہ بہیتری دفعہ سندھیوں اور انکے ورثے کی توھین کرتے آ رہے ہیں۔ طاقت اور بندوق کے زعم میں یہ بھولے بیٹھے ہیں کہ کسی مذھب، تہذیب یا اخلاقی ضابطے میں ایسی توہین کی قطعی اجازت نہیں ہوتی۔ ان پر حضرت علیؑ کا قول صادر آتا ہے کہ
“اقتدار، طاقت اور دولت ملنے پر لوگ بدلتے نہیں بینقاب ہو جاتے ہیں۔”