تحریر: زيب سندھی
اردو ترجمہ : آکاش مغل
دیارغیر کے اس چھوٹے سے انتہائی خوبصورت شہر کے بیچوں بیچ گزرتی شاہ راہ پر میں نے ڈرائيور کو کوچ روکنے کے لیے کہا۔
ڈرائيور نے بریک لگانے کے بجائے جواب دیا ، "سورج غروب ہونے والا ہے ، آپ آگے کسی دوسرے شہر میں اتر جائیے گا۔ "
میں نے فورا" کہا ، " آگے کسی دوسرے شہر میں سورج غروب نہیں ہوگا کیا…! میں ایک سياح ہوں اور مجھے آج کی رات اسی شہر میں بسر کرنی ہے ."
ڈرائيور نے تيز رفتار کوچ کو عجلت میں بریک لگائی تو کوچ میں موجود تمام مسافر حواس باختہ ہوگئے ۔ میں اپنا سفری بيگ لے کر اٹھا تو سب مسافروں نےتعجب سے میری طرف دیکھا . میں نیچے اترا تو کوچ فی الفور تيز رفتاری سے آگے بڑھ گئی .
میں نے دیدہ زیب شہر کی سڑک پر ادھر ادھر دیکھا۔ ناگہاں اک سماعت شکن آواز سے سائرن بجنا شروع ہوگیا ۔ سائرن کا بجنا تھا کہ سڑک پر موجود شہریوں میں بھگدڑ مچ گئی ۔ اور تمام دکانیں آنا" فانا" بند ہونا شروع ہو گئیں ۔
میں نے متعجب ہوکر اپنے اغل بغل بھاگتے لوگوں سے پوچھا، "ہوا کیا ہے !؟"
میں نے کئی بار اپنا سوال دہرایا مگر نہ تو دوڑتا ہوا کوئی شخص ٹھہرا , اور نہ کسی نے میرے سوال کا جواب دیا ۔ میں نے ایک بھاگتے ہوئے نوجوان کو پکڑ لیا۔ متوحش لہجے میں چِلّا کر پوچھا ، "کیا معاملہ ہے … تم سب بھاگے کیوں جا رہے ہو !؟"
"تمہیں معلوم نہیں کہ سورج غروب ہونے والا ہے …!" اتنا کہہ کر نوجوان نے خود کو چھڑایا اور تیزی سے دوڑتا چلا گیا ۔
مجھےکچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس اجنبی شہر میں یہ کیا ہورہا ہے !
چند لمحوں بعد سورج غروب ہوگیا ۔ تب تک شہر کی یہ شاہ راه بالکل سُونی ہوگئی . میں واحد انسان تھا جو اس سنسان سڑک پر اکیلا کھڑا تھا ۔ میں مبہوت ہوکر وہیں کھڑا انتظار کرتا رہا کہ شاید کوئی شخص وہاں سے گزرے اور مجھے شب باشی کے لیے کسی ہوٹل کا اتا پتا بتائے۔ مگر کافی دیر گزرنے اور انتظار کرنے کے باوجود وہاں سے کسی آدمی کا گزر نہ ہوا ۔ کسی انسان کی آمد سے ناامید ہوکر میں نے سڑک چھوڑ کر شہر کے دوسرے راستوں اور گلیوں کارخ کیا, مگر مجھے ہر طرف ویرانی اور عجیب سی پراسراريت دکھائی دی .
مجھے اجنبی شہر کے سنسان راستوں اور گلیوں سے وحشت ہونے لگی تو میں اسی سڑک پر واپس لوٹ آیا ۔
میں جس کوچ کو رکوا کر اس شہر میں وارد ہوا تھا . اس کوچ کے ڈرائيور کے لفظوں کی بازگشت میرے کانوں میں گونجنے لگی ، "سورج غروب ہونے والا ہے ۔ آپ آگلے کسی دوسرے شہر میں اتر جائیے گا ۔ "
میں سڑک کنارے کھڑے ہوکر دوسرے شہر جانے کے لیے سواری کا انتظار کرنے لگا ۔
. گھنٹوں گزرگئے مگر نه کوئی سواری وہاں سے گزری اور نہ کوئی متنفس نظر آيا. اجنبی ويران شہر میں رات مجھے خاصی پراسرار محسوس ہونے لگی۔ خوف کےمارے مجھ پر کپکپاہٹ طاری ہوگئی. میں نے سنسان اورپراسرار شہر سے پیدل ہی باہر نکلنے کا سوچا۔ لیکن آدھی رات کو پراسرار شہر کے نواح میں موجود جنگل کے روح فرسا تصور سے ہی میرے جسم کی تھرتھراہٹ مزید بڑھ گئی ۔
میرے لیےاپنے وجود کی کپکپاہٹ پر قابو پانا دوبھر ہوگیا ۔ میں نے وحشت زدگی کی اضطراری حالت میں سنسان سڑک کے اطراف دیکھا. اور کوئی وسیلہ نہ دیکھ کر مجبورا" ایک ليمپ پوسٹ کے قریب جاکر اپنا سفری بيگ زمين پر رکھااور کھمبے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔ شدید ذہنی و جسمانی تھکاوٹ کے باعث آنکھیں نیند سے بوجھل ہورہی تھیں ۔ اچانک مجھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی. میں نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں اور آواز کی سمت دیکھا ۔ ذرا فاصلے پر ایک جوان عورت آتی دکھائی دی . بےگانے ملک کے اجنبی شہر میں ، کئی گھنٹوں کی تنہائی کے بعد کسی انسان کو اپنے روبرو پاکر میں نے اپنے خوف پر قابوپالیا ۔ اور عورت کے قریب آنے سے پیشتر اٹھ کر کھڑا ہوگیا ۔
عورت میرے قریب آکر کھڑی ہوئی ۔ میں اس کے حسن جمال کو دیکھ کر مبہوت سا ہو گیا ۔ موہنی صورت والی خاتون
نے مسکراتے ہوئے کہا ،
"جس شہر کے باسی سورج غروب ہوتے ہی گھروں میں محصور ہوجاتے ہوں ,اس شہر میں تم تنہا , اس سڑک پر موجود کیوں ہو !؟"
میں نے جواب دیا، "اس لیے کہ میں یہاں پردیسی مسافر ہوں اور یہ شہر بھی میرے لیے اجنبی ہے . اگر آپ مجھے کسی ہوٹل تک پہنچادیں تو بڑی عنایت ہوگی ."
عورت نے اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا ، "اس شہر کے سب ہوٹل اور گيسٹ ہاؤسز غروب آفتاب کے ساتھ ہی بند ہوجاتے ہیں ۔ یہاں تمہارے لیے اس وقت کوئی دروازے نہیں کھولے گا ۔ "
مجھ پر مایوسی طاری ہوگئی۔ تھوک نگل کر پوچھا،
"تو کیا مجھے ساری رات اس ويران شہر کے سنسان راستے پر گزارنی پڑے گی !"
عورت مسکرائی , کہنے لگی ، "تمہیں خوف بھی محسوس ہورہا ہوگا."
میں نے اقرار میں سر ہلا کر اس کی تائید کی ۔
عورت نے غمگساری سے کہا ، "اگر تم چاہو تو آج کی رات میرے گھر مہمان بن کر رہ سکتے ہو ."
میں نے بلاتاخیر کہا ،
"میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہ بھلاسکوں گا !"
عورت مسکراکر بولی ، " آؤ , چلو میرے ساتھ."
میں نے اپنا سفری بيگ اٹھایا اور عورت کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا ، "آپ کا گهر کہاں ہے ؟"
"سامنے … سيونتھ اسٹريٹ میں آخری گهر." عورت بولی۔
میں نے پوچھا ، "سورج غروب ہوتے ہی یہ سارا شہر اچانک بند کیوں ہوجاتا ہے؟ اور سب لوگ راستوں اوربازاروں سے غائب کیوں ہو جاتے ہیں !؟"
عورت نےاپنی گلی میں داخل ہوتے ہوئے بتایا ، " اس شہر کے باسی خوف میں مبتلا ہیں !"
"کس کے خوف ۾ مبتلا ہیں !؟"
میں نے حيرت زدہ ہوکر پوچھا ۔
عورت کے جواب دینے سے پہلے ہی سيونتھ اسٹريٹ کا آخری گهر آگیا ۔ عورت بولی، " یہ ہے میرا گهر."
عورت دروازے کے انٹرلاک کو چابی سے کھولنے کے بجائے بند دروازے سے ہی گھر کے اندر چلی گئی ! یہ منظر دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور خوف کی ایک سرد لہر میرے رگ وپے میں سرایت کرگئی ۔ میرا سارا وجود پسینے میں شل ہوگیا ۔ میں نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔ میرے پاؤں گویا کسی انجانی طاقت نے گویا میرے پاؤں جکڑ لیے ہوں ۔
دفعتہ" گهرکا دروازو اندر کی طرف کھلا اور عورت نے میری جانب دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا ،
"اندر آؤ نا ، باہر کیوں کھڑے ہو …!"