زینب قتل کیس اور پاکستان میں می ٹو تحریک
گزشتہ ہفتے ریپ کے بعد قتل ہونے والی بچی زینب کے قاتل کا سراغ ابھی تک نہیں مل سکا ۔پولیس بار بار ڈیڈلائنز دیتی چلی جا رہی ہے۔معاملہ اب لاہور ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے ۔آج زینب قتل کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں سماعت ہوگی ۔گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ میں زینب قتل کیس ک حوالے سے جو سماعت ہوئی تھی ،اس میں لاہورہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسعود شاہ صاحب نے تحقیقاتی افسروں کو خوب جھاڑا تھا ۔چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ قصور میں دو ہزار پندرہ سے کیا چل رہا ہے ،تحقیقاتی کیوں کسی خاص مقام تک پہنچ نہیں پارہی ہے ؟لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اٹھتالیس گھنٹوں کی ڈیڈ لائن کے بعد چھتیس گھنٹوں کی ایک اور ڈیڈ لائن دے دی گئی ہے ۔میری چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے گزارش ہے کہ مائی لارڈ یہ وہ قصور ہے جس کے جنسی بدسلوکی کے سات کیسز عدالت کی فائلوں میں دبے ہوئے ہیں ،جن کا عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔اسی طرح بچوں سے جنسی بدسلوکی کے 108 کیسز قصور کی سیشن عدالت کی فائلوں میں لاپتہ ہیں ۔تو عدالتیں کیوں اس طرح کے کیسز کے بارے میں فیصلہ نہیں کررہی ہیں ؟اٹھتالیس یا چھتیس گھنٹوں کی ڈیڈلائن سے کیا ہوگا ؟پولیس زینب کیس کے حوالے سے پکڑ دھکڑ کررہی ہے ۔زینب کیس کے حوالے سے ایک اور سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آچکی ہے ۔اس حوالے سے 11 سو افراد سے پوچھ گچھ بھی ہو چکی ۔دیکھتے ہیں زینب سے ریپ کرکے اسے قتل کرنے والا درندہ کب تک پکڑا جاتا ہے ؟زینب قتل کیس کے بعد اب لوگ کھل کر بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی بدسلوکی کا زکر کررہے ہیں ۔گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں نیوز چینلز کے زریعے بھی آگہی دی جارہی ہے ۔اب پاکستان میں شوبز انڈسٹریز کی خواتین بھی سوشل میڈیا پر کھل کر بتا رہی ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟نادیہ جمیل نے زینب قتل کیس کے بعد ٹوئیٹر پر لکھا کہ وہ خود چائلڈ وکٹم ہیں ،جب وہ چار سال کی تھی تو جنسی بدسلوکی کا شکار ہوئی ۔پاکستان کی معروف ایونٹ منیجر فریحہ الطاف نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ انہیں چھ سال کی عمر میں خانصامے نے بدسلوکی کا نشانہ بنایا ۔معروف ماڈل ماہین خان نے بتایا کہ جب وہ بچی تھی تو مولوی انہیں پڑھانے آتا تھا ،جس نے اس کے ساتھ جنسی بدسلوکی کی ۔جس طرح زینب قتل کیس کے بعد سوشل میڈیا پر نئی حقیقی کہانیاں آرہی ہیں اور معاشرے کا گھناونا چہرہ بے نقاب ہورہا ہے ،اسی طرح کچھ افراد یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ مغرب زدہ این جی اوز کی وجہ سے ہے ،ان سے کوئی پوچھے زینب کے ساتھ جو ہوا ،جو قصور میں تیرہ بچیاں جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنکر قتل کی گئی اور جو تین سو بچے اور بچیوں کی جنسی تشدد کی ویڈیوز بنائی گئی ،یہ کیا حقائق ہیں ؟ثنا بچہ کہتی ہیں بہادر اور عظیم ہیں وہ خواتین جو اپنے ساتھ ہونےوالی بدسلوکی کے حقائق کھل کر بتا رہی ہیں ،کہتی ہیں میرے پاس تو اتنی بھی ہمت نہیں کہ بتا سکوں کہ میرے ساتھ کیا ہوا ؟کچھ افراد اس بات پر تنقید کررہے ہیں کہ پاکستان میں کچھ مغرب زدہ خواتین نے می ٹو تحریک شروع کردی ہے جو سراسر بے حیائی ہے ،اگر یہ بے حیائی ہے تو پھر پاکستان میں زینب کا قتل کیا ہے ،ہر روز پاکستان میں لاکھوں بچے بدسلوکی کا شکار ہورہے ہیں ،یہ کیا ہے ؟پاکستان میں چھوٹی سے بچیوں کو اغواٗ کرکے ان کا ریپ کیا جاتا ہے اور درندے پھر ان کا قتل کردیتے ہیں ،یہ کیا ہے ؟میڈیا ہاوسز میں خواتین ملازمین اور اینکرز جنسی زیادتی کا شکار ہورہی ہیں ،یہ بے غیرتی نہیں ؟بچوں کو اگر جنسی تعلیم دینا غلط فعل ہے تو کیا بچوں ،بچیوں اور خواتین کے ساتھ جنسی بدسلوکی کرنا اور انہیں قتل کرنا اچھا فعل ہے ؟پاکستان کے بچوں اور خواتین کو جنسی تشدد کرنے والے درندوں سے محفوظ رکھنا ہے تو انہیں جنسی تعلیم دینی ہوگی ،اس جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا ہوگا ۔ورنہ اسی طرح لاکھوں بچے جنسی تشدد کا شکار ہوکر زندہ لاشیں بنتے رہیں گے ۔میڈیا میں ہر روز جنسی تشدد اور بدسلوکی کے کیسز سامنے آرہے ہیں ،ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے وہ بچے جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور مختلف کام کرتے ہیں ،وہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں ،اور ان میں سے بہت سے معصوم بچوں کے ساتھ ہر روز جنسی بدسلوکی ہوتی ہے ،اور یہ کیسز رپورٹ اس لئے نہیں ہوتے کہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں ،اب یہ بتائیں یہ کہاں کی غیرت ہے اور کیسا معاشرہ ہے ۔ان تمام بچوں کو محفوظ کرنا ہے تو ان کے لئے پالیسی مرتب کرنی ہوگی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔