زینب کا قاتل گرفتار۔۔
گزشتہ روز بابا بلھے شاہ کے شہر قصور میں آٹھ معصوم بچیوں کو جنسی درندگی کا شکار کرنے والا سیریل کلر درندہ ڈی این اے ے زریعے پنجاب پولیس نے گرفتار کر لیا۔درندے کو گرفتار کرنے کے لئے گزشتہ چودہ دن سے ہنگامہ برپا تھا ۔سیریل کلر نے جن آٹھ بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی کرکے انہیں قتل کیا ،ان تمام بچیوں کی عمریں چھ سے دس سال کے درمیان تھی ،ان میں سے ایک زینب معصوم بھی تھی ۔جنسی بھیریئے کانام عمران ہے اور اس کی عمر 23 سال ہے ۔خادم اعلی پنجاب شہباز شریف نے گزشتہ روز تفصیلی پریس کانفرس کرکے سیریل کلر کی گرفتاری کے حوالے سے سب کچھ بتادیا تھا ۔زینب کیس کے حوالے سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ بچوں یا بچیوں کو جنسی درندگی کا شکار کرنے والے پڑوسی یا رشتہ دار یا جاننے والے ہوتے ہیں ۔معاشرے کو اس حوالے سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے ۔سیریل کلر عمران زینب کے گھر سے سو گز کے فاصلے پر رہتا تھا ۔یہ گھٹیا صفت انسان زینب کو ٹافیاں اور کھلوے لیکر بھی دیتا تھا ۔اس درندے نے آٹھ معصوم بچیوں کو دو سے ڈھائی کلومیٹر کے علاقے میں قتل کیا ۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق زینب کے ماموں زاد مزمل کا کہنا ہے کہ عمران زینب کے خاندان سے واقف تھا ،وہ زینب کو جانتا تھا اور اسے ٹافیاں وغیرہ بھی لاکر دیتا تھا ۔اس بات کا گھر والوں کو بھی علم تھا ۔اس کے علاوہ عمران نعت خواں تھا ،اور اس سے اسے تھوڑے بہت پیسے بھی مل جاتے تھے ۔عمران کے پاس کوئی پراپر روزگار نہیں تھا ۔اس کے علاوہ اس بھیڑیئے نے وزٹنگ کارڈ بھی چھپوایا ہوا تھا جس پر اس کا فون اور نام درج تھا ۔وزٹنگ کارڈپر اس نے اپنا نام عمران نقشبندی کے نام سے چھپوایا ہوا تھا ۔بطور نعت خواں محلے میں مشہور تھا اور اس کے علاوہ یہ چھوٹی موٹی چوریاں بھی کرتا تھا ۔مزمل کے مطابق زینب کے قتل سے پہلے پولیس نے اسے کئی بار حراست میں لیا ،اور پھر چھوڑ دیا ۔کیونکہ اس نے نعت خواں کا روپ اختیار کیا ہوا تھا ،اس لئے پولیس بھی اسے رہا کردیتی تھی اور لوگ بھی کم شک کرتے تھے ۔اسی چیز کا فائدہ یہ درندہ اٹھاتا رہا ،اب معاشرے کو اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ شیطان صفت درندہ شرافت کا لبادہ اوڑھ کر بھی درندگی کا ارتکاب کرسکتا ہے ۔جب معصوم اور بے قصور زینب قصور میں قتل کردی گئی تو اس کے بعد پولیس نے عمران کے گھر پر چھاپا مارا تھا ،لیکن وہ غائب تھا ۔درندے نے زینب سمیت تمام آٹھ بچیوں کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے۔ویسے کیسے عجیب بات ہے یا کیسا بے حس معاشرہ ہے کہ خوفناک سیریل کلر قصور کے ایک گنجان آباد علاقے میں رہتا تھا ،بچیوں کو حوس کا نشانہ بناتا تھا ،پھر بھی وہ بچا رہا ،معاشرے کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیئے ۔یہ کیسی بے حسی اور ٹریجیڈی ہے ۔گنجان آباد علاقے میں لوگ ایک دوسرے سے واقف ہوتے ہیں ،ایک دوسرے کی نقل و حرکت سے واقف ہوتے ہیں ،لیکن یہ درندہ کیسے آنکھوں سے اوجھل رہا ؟ایک بات معاشرے کو سمجھنی چاہیئے کہ انفرادی سیریل کلر کیسے رہتے ہیں ،کیسے یہ جنسی درندے ہماری صفوں میں رہتے ہیں اور بے غیرتی کی انتہا کر دیتے ہیں ،اور ہم انہیں نام نہاد شرافت کے روپ میں دیکھ کر نظر انداز کردیتے ہیں ۔عمران معصوم بچیوں کے لئے موت تھا اور ہمارے معاشرے کے لئے ایک نعت خواں ؟اب معاشرے کو بیدار ہونا چاہیئے کہ درندے کیسا روپ اختیار کرلیتے ہیں ،کیسے بچوں کو اعتماد میں لیتے ہیں ،کیسے انہیں ٹافیوں کا لالچ دیتے ہیں ؟کیسے ان سے پیار کا اظہار کرتے ہیں ؟کیسے بچے ان درندوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں اور پھر بے دردی سے قتل کردیئے جاتے ہیں ؟اس کیس سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ درندے زیادہ تر پڑوسی ،جاننے والے یا رشتہ دار ہوتے ہیں ۔خدارا اپنے اور دوسرے بچوں اور بچیوں کا خیال رکھیں اور ان درندوں پر نظر رکھیں ۔زینب جیسا گھناونا فعل اس ملک میں ہر دوسرے دن ہوتا ہے ،کسی کی خبر آجاتی ہے اور کسی کی خبر نہیں سامنے نہیں آتی ،ان گمنام معصوم بچیوں اور بچوں کے بارے میں بھی ریاست ،حکومت ،معاشرے اور عدالت کو سوچنے کی ضرورت ہے ۔ایک معصوم زینب قتل ہوئی ،اس کا قاتل پکڑا گیا ،جو کہ سیریل کلر ہے ،اس درندے کو گرفت میں لانے کے لئے ریاست کو کیا کیا کرنا پڑا؟پہلے زینب کے قتل کے حوالے سے سوشل میڈیا ہیش ٹیگنگ ہوئی ،پھر مظاہرے ہوئے ،ہڑتال ہوئی ،تھانے کا گھراو کیا گیا ،جلاو گھراو کے بعد معاملہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں گیا ،وزیر اعلینے نوٹس لیا ،میڈیا کے کیمروں نے اپنا کام کیا ،سپریم کورٹ نے الٹی میٹم دیئے ،چیف آف آرمی اسٹاف نے تعاون کا یقین دلایا ،جے آئی ٹی بنی ،انٹیلی جنس بیورو ،اسپیشل برانچ ،آئی ایس آئی سب سرگرم ہوئے ڈھائی کلومیٹر علاقے کی مسلسل نگرانی ہوتی رہی ،پھر نادرہ نے اس ڈھائی کلومیٹر میں رہنے والے لوگوں کا ڈیٹا حاصل کیا ،جیو فینسنگ ہوئی ،کرایم سین کی تصاویر اور ویڈیوز سامنے لائی گئی اس علاقے میں 25 سے 40 سال کے تمام افراد کا ڈیٹا جمع کیا گیا ،گھر گھر DNA سیمپلنگ کی گئی ،گرد و نواح کی پولیس الرٹ رہی ۔اس تمام عمل کے بعد تب کہیں جاکر 1150 DNA سیمپلنگ میں سے 814 ڈی این ایے سیمپل پازیٹو آیا ۔اور پھر جاکر وہ درندہ گرفتار ہوا جس کا نام تھا عمران ۔اب خود ہی اندازہ لگائیں کتنی افرادی قوت ،وسائل کا استعمال ہوا ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ہر کیس میں ایسا ممکن ہے ؟ایک بات یہ بھی اہم ہے کہ عوام کھڑی ہو جائے ،اس کیس کو ایشو بناد ے ،اجتماعی ضمیر بیدار ہوا،یہ کتنا اہم ہے؟اور ٹوئیٹر کی ہیش ٹیگنگ کتنی اہم ہے ۔زینب کیس ہیش ٹیگنگ سے شروع ہوا تھا ؟یہ بھی معاشرے کو معلوم ہونا چاہیئے کہ درندہ کیسے پکڑا گیا ،درندہ عمران پاکپتن میں ایک اور لڑکی کو ورغلا کر جارہا تھا ،اسی دوران وہ پکڑا گیا ،زینب کے قتل کے بعد بھی اس کا مطلب ہے وہ خوف زدہ نہیں تھا ،یہ ہوتی ہے سیریل کلر زہنی مریضوں کی نشانیاں؟سسٹم اب بھی ناکام ہے ،سسٹم کو اگر پش نہ کیا جاتا ،دباو میں نہ لایا جاتا تو سوچیں پاکپتن کی معصوم بچی بھی اس بھڑیئے کی حوس کا نشانہ بن جاتی ؟مسئلہ یہ ہے کہ کیا قصور ماڈل کو قومی ماڈل بنایا جاسکتا ہے ؟ایسا مشکل ہے کیونکہ اس کے لئے پولیس کی تفتیش کے طریقہ کار میں سائنٹیفک اصلاحات کی ضرورت ہے۔پورے پاکستان میں صرف ایک DNAلیب ہے جو صرف پنجاب میں ہے ۔ایک مثال قائم ہوگئی ہے ،سیریل کلر پکڑا گیا ہے ،اس دنیا میں ہر ملک میں سیریل کلر ہوتے ہیں ،وہ سائنسی بنیادوں پر ایسے ایشوز سے نمٹتے ہیں ۔ہم بھی کر سکتے ہیں ،لیکن ہر مرتبہ تو سسٹم کو پش نہیں کرنا ممکن نہیں ،اس کے لئے اصلاحات کی ضرورت ہے ۔اس درندے کو سرعام پھانسی دو ،لیکن ہزاروں سیریل کلر ہیں ،ہزاروں لاکھوں ایسے زہنی مریض اس ملک میں ہیں ،ہر روز ہزاروں بچے ایسے درندوں کا شکار بنتے ہیں ۔،اس لئے اس قسم کی زہنیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔یہ بھی سمجھ آجانی چاہیئے کہ DNA ٹیسٹنگ کتنی اہم ہے ؟یہ بھی اہم ہے کہ تفتیشی طریقہ کار کو سائینٹیفک کیسے کیا جاسکتا ہے ؟DNA بنیادی طور پر انسان کا بلیو پرنٹ ہے ،جو جینیٹک کوڈ میں پہلے سے موجود ہوتا ہے ۔انسانوں کے DNA میں نوے فیصد مشابہت ہوتی ہے ،صرف ایک چیز ہوتی ہے جسے جنیٹیکل مارکل کہا جاتا ہے ،وہ مختلف ہوتی ہے ۔اسی سے زینب کا قاتل پکڑا گیا ۔دنیا میں ہر جگہ اس طرح کے گھناونے جرائم میں ڈی این اے ٹیسٹنگ کو PRIMARY EVIDENCE کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔،امریکہ میں ڈی این ائے ٹیسٹنگ کی وجہ سے ہزاروں مجرم پکڑے گئے ،اس سے بے گناہ افراد رہا بھی ہوتے ہیں ۔ڈی این اے ٹیسٹنگ انیس سو ستاسی میں امریکہ میں شروع کی گئی ،بال سے ،تھوک سے اور خون سے ڈی این اے ٹیسٹنگ کی جاتی ہے ۔ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہو گیا ،لیکن مجرم کو پکڑنے کے لئے ضروری ہے کہ مجرموں کا ڈیٹا بیس ہو ،تاکہ جس سے ڈی این ائے میچ ہو ،اسے تلاش کیا جائے ،جیسے کہ زینب کیس میں ہوا ؟اب تو دنیا بھر کے ترقی یافتہ ملکوں میں پوری آبادی کا ڈیٹا بیس ہے ،اس کے لئے ماہرین ،ڈی این ائے سیمپل ،پراپر سٹوریج جیسے وسائل کی ضرورت ہے ،لیکن کیا اس ملک میں ایسا ہے ؟یہاں تو سارا نظام ہی چھترول پر چلایا جارہا ہے ؟یہ وہ سوالا ت ہیں جس پر سنجیدہ سوچنے کی ضرورت ہے ،میٹرو بنایئے،اورنج ٹرین بھی بنایئے ،لیکن ایسے نظام بھی بنایئے تاکہ زینب کے قاتل پکڑے جائیں ؟پاکستان دنیا کا وہ واحد بدقسمت ملک ہے جہاں ڈی این اے ٹیسٹ کو پرائمری EVIDENCE مانا ہی نہیں جاتا ،ہر جنسی تشدد میں ڈی این ائے ٹیسٹنگ ضروری ہوتی ہے ۔لیکن یہاں تو پاکستان میں صرف ایک ڈی این ائے لیب ہے ؟پاکستان کے ہر صوبے میں تین سے چار ڈی این ائے لیب ہونا ضروری ہیں ۔اس کے لئے ماہرین کی بھی ضرورت ہے ۔لیکن یہاں تو اسلامی نظریاتی کونسل نے ہی ڈی این اے ٹیسٹنگ کو حرام فعل قرار دیا تھا ،مولانا شیرانی کا فتوی تو سب کویاد ہوگا ؟اب زینب کیس کی روشنی میں ریاست ،حکومت ،پارلیمنٹ ،عدلیہ اور سیاستدان اور عوام جائزہ لین کہ انصاف کے حصول کے لئے ڈی این ائے وسیلے کو پرائمری EVIDENCE کے طور پر استعمال کیا جائے ؟اس سے کڑوروں انسانوں کا بھلا ہو گا ،لاکھوں درندے پکڑے جائیں گے ۔ان بچوں اور بچیوں کے لئے سوچیں جو بے قصور قتل ہو جاتے ،جنسی وحشیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں ،یہ معصوم اس کائنات کی رونق ہیں ۔انہیں اکیلا نہ چھوڑیں ،ان پر توجہ دیں ،ان کو تربیت دیں ،انہیں بتائیں کہ گڈ ٹچ بیڈ ٹچ کیا ہے ،انہیں جنسی تعلیم دیں ،تاکہ یہ اپنے تحفظ کے عمل کو سمجھ سکیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔