میڈیا ہاوسز اینکرپرسز کے مسائل ،تجاویز اور حل
سوال یہ ہے کہ کیسے مین اسٹریم میڈیا نیوز چینلز کو بہتر کیا جائے ،یہ وہ سوال ہے جو آجکل ہر زبان پر ہے ۔پاکستان میں جب بھی نیا نیوزچینل یا اخبار آتا ہے تو ہر ادارہ سب ایڈیٹر ،کاپی ایڈیٹر ،فوٹو گرافر ،کیمرہ مین ،این ایل ای ،نیوزکاسٹرز اور پروڈیوسرز وغیرہ بھرتی کرتاہے ،اس کے لئے طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ان سب کا بوئیو ڈیٹا اکھٹا کیا جاتا ہے ،ان سب کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے ،انٹرویو ہو تا ہے ،شارٹ لسٹنگ ہوتی ہے ،پھر ان سب کو بتایا جاتا ہے کہ اس نیوز چینل یا اخبار کی یہ پالیسی ہے ۔منشور بتا کر یہ کہا جاتا ہے کہ پالیسی کے اندر رہ کر غیر زمہ دارنہ سرگرمی نہ کی جائے ۔لیکن ہر نیوز چینل میں اینکر جہاز کے پائلٹ کا درجہ رکھتا ہے ،جو ان سب کو لیکر آگے چلتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اینکر جس کی اہمیت ایک پائلٹ کی جیسی ہے ،اس کے ٹیسٹ کا معیار کڑا اور سخت ہوناچاہیئے ۔بلکل ایسے ہی جیسے والدین اپنے بیٹے یا بیٹی کے لئے رشتہ تلاش کرتے ہیں ۔کیا اینکر کی تلاش کے لئے اس کے صحافیانہ پس منظر کو دیکھا جاتا ہے ،کیا یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ جس کو نیوز چینل اینکر کے لئے بھرتی کررہا ہے ،اس کا صحافتی پس منظر بھی کچھ ہے یا نہیں؟کیا جسے اینکر بھرتی کیا جارہا ہے ،اسے مطالعہ کرنے کا شوق ہے ،کیا وہ مطالعہ کرتا ہے ؟کیا یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی حالات حاظرہ پر گرفت کیسی ہے ؟کیا یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی علاقائی اور عالمی معاملات پر شد بد کیا ہے ؟اس اینکر نے ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر لاکھوں انسانوں کی رائے پر اثر انداز ہونا ہے ؟وہ ایسے ملک میں کسی نیوز چینل کا اینکر بن رہا ہے جہاں بہت سارے ادارے ہیں ،بہت ساری قومیتیں ہیں ،ان علاقوں کے بہت سارے سماجی ،سیاسی اور اخلاقی وسائل اور نفسیات ہے،جہاں بہت ساری مذہبی اقلیتیں ہیں ،کیا اینکرز ان سب معاملات سے واقف ہے ؟ان چیزوں کو پاکستانی نیوز چینلز کے مالکان کیوں نہیں دیکھتے ؟یہ وہ سوال ہیں جو بڑے اہم ہیں اور آج کے تناظر میں ہیں ۔یہ بھی کسی اینکر میں دیکھنا ضروری ہے کہ زبان و بیان پر اس کا کیا کنٹرول ہے ؟اینکر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صرف جاہلانہ انداز میں بولتا چلا جائے ،اسے لکھنے پڑھنے سے بھی دلچسپی ہونی چاہیئے ۔،جب اس کا انٹرویو لیا جائے تو یہ بھی معلوم کیا جائے کہ اس کا اپنا زاتی نظریہ کیا ہے ؟اس کا مذہبی و سیاسی جھکاو کس طرف ہے؟وہ طبعتا انتہا پسند ہے یا اعتدال پسند ؟یہ سب کچھ اس وقت دیکھا جانا چاہیئے ۔اس کے لئے کڑا امتحان اور ٹیسٹ لیا جائے ۔لیکن پاکستان کے میڈیا ہاوسز میں ایسا نہیں ہوتا ،دیکھا یہ جاتا ہے کہ یہ جو اینکر ٹاک شو کے لئے لیا جارہا ہے ،اس کا ریفرنس کیا ہے ؟وہ کس کی پرچی کے زریعے آیا ہے ؟وہ اسکرین پر کیسا نظر آئے گا ؟یا نظر آئے گی ؟وہ جاہلانہ انداز میں مسلسل کتنے گھنٹے بول سکتا ہے ؟پاکستان کے نیوز چینل کے اینکر کے لئے ضروری ہے کہ وہ جاہلانہ انداز میں بولتا جائے ،آسان مسئلے کو پیچیدہ بناتا جائے ،کنفیوثن پھیلاتا جائے ،اور اپنے آپ کوعقل کل کے طور پر پیش کرتا جائے ۔ایسا اینکر پاکستان کے نیوز چینلز کے لئے آئیڈیل ہوتا ہے ۔اسے تحقیق کا معلوم ہو یا نہ ہو ،وہ آدھا سچ بولے ہا پورا یا سارا ہی جھوٹ بولے ،بدتمیز ہو ،بس اسے ایک بات کا معلوم ہو کہ ریٹنگ لینی آتی ہو ۔چاہے ریٹنگ کے لئے پاکستان تباہ ہو جائے ،ادارے تباہ ہو جائیں ،سیاست و جمہوریت کا دھڑن تختہ ہو جائے ،اس کی کوئی پرواہ نہیں ،بس وہ ریٹنگ مشین ہو ۔کیونکہ ریٹنگ میں ہی شہرت ہے ،ریٹنگ میں ہی پیسہ ہے ،ریٹنگ میں ہی اشتہار ہے ،،کیونکہ جتنا پیسہ آئے گا ،اینکر کا پیکج موٹا ہوتا چلا جائے گا ۔پاکستان میں پہلے ہی دن سے جاہل اینکر کو صرف ریٹنگ کے لئے اسکرین پر بٹھایا جاتا ہے ۔جس طرح کرکٹرز کی نیلامی ہوتی ہے ،اسی طرح پاکستان میں اینکرز کی بھی نیلامی کا کاروبار چلتا ہے ۔جب ریٹنگ لینے والا اینکر کسی دوسرے نیوز چینل میں جاتا ہے تو وہ اپنی ہی ٹیم منتخب کرتا ہے ،ادارتی ،ٹیکنیکل ٹیم اس کی ہوتی ہے ،اپنی شرائط کے ساتھ آتا ہے ،صرف مالک کو یہ کہتا ہے ،اس نے ریٹنگ لیکر دینی ہے ۔جب تک پاکستان کے نیوز چینلز میں بااختیار ،پروفیشنل نیوز ایڈیٹرز اور ایڈیٹرز نہیں لائے جائیں گے ،ان کو میرٹ پر بھرتی کا اختیار نہیں دیا جائے گا ،اس وقت تک شاہد مسعود ،مبشر لقمان ،چوہدری غلام حسین ،بھٹی جیسے اینکرز کا راج رہے گا ۔ایڈیٹوریل فیصلے کا اختیار سیٹھ یا میدیا ہاوس کے مالک کے پاس نہیں پروفیشنل نیوز ایڈیٹرز ،ڈائریکٹر نیوز کے پاس ہونا چاہیئے ۔ایسا نہیں تو پھر مبشر لقمان ،عارف حمید بھٹی جیسے راو انواروں کا راج ہوگا ۔اور راو انوار صرف انکاونٹر اسپیشلسٹ ہوتا ہے اور ہمارے نوے فیصد اینکر انکاونٹرز اسپیشلسٹ ہیں ۔اور وہ اپنا کام کررہے ہیں ۔پاکستانی میں صحافتی آزادی کے لئے ہمارے صحافیوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں ،جیلیں بردشت کی ہیں ،کوڑے کھائے ہیں ،ملک بدر ہوئے ہیں ،مارے گئے ہیں ۔پوری میڈیا انڈسٹری کی زمہ داری ہے کہ کچھ کاروباری مفادات اور اینکرز کے زاتی ایجنڈے کے ہاتھوں یرغمال نہ بنیں ،یہ مبشر لقمان ،ڈاکٹر عامر لیاقت ،شاہد مسعود ،چوہدری غلام حسین ،ڈاکٹر دانش ،عمران خان ،عارف حمید بھٹی ،ارشد شریف وغیرہ ان سب کے زاتی ایجنڈے ہیں ،ان کو فیڈ کیا جاتا ہے ،ان کی وجہ سے صحافت غریب اور کرپٹ ہو گئی ہے اور کرپٹ صحافی امیر ہو گیا ہے ۔۔۔یہ شائقین کی زمہ داری ہے کہ وہ اینکرز کے حوالے سے محتاط رہیں ،پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ اینکرز کے ویورز بنیں ،جاہلوں سے بچیں ۔اسی طرح عوام ہی ہیں جو پھر ریٹنگ سسٹم کو تبدیل کرسکتے ہیں ۔مالکان کاروباری مفادات کی خاطر ان جاہل اینکرز کو فیڈ کرتے ہیں اور اینکرز وہی باتیں اسکرین پر کرتا ہے ،ڈاکٹر عامر لیاقت کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔۔۔۔امید ہے ناظرین یا ویورز ان باتوں کو سمجھیں گے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔