آرزو۔۔۔۔۔۔
ناقابل عمل یعنی ناممکن کو قابل عمل یعنی ممکن کرنے کی ایک خواہش یا آرزو ہمیشہ ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی ۔صدیوں سے فرد اور معاشرے کے درمیان ہم آہنگی ،انسانیت،بھائی چارہ ،پیار و محبت کی شدید خواہش ہمیشہ لاکھوں انسانوں میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے ۔لیکن کبھی بھی انسانیت میں محبت ،امن اور خوشحالی مکمل شکل میں وجود میں نہیں آسکی ۔لاکھوں سالوں سے انسانی معاشرے میں ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں انتشار رہا ہے ۔یہ انسانی معاشرہ ہمیشہ تہذیب و کلچر ،مذاہب ،قوموں ،رنگ و نسل ،زات و پات میں تقسیم رہا ہے ۔انسان ہمیشہ انسانیت کی بات کرتا رہا ہے ،انسان ہمیشہ محبت کی بات کرتا رہا ہے ،انسان ہمیشہ اعلی اخلاقی قدروں کی بات کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا ،اس کے باوجود اس میں تقسیم کا عمل جاری ہے ،کبھی وہ مذہب کے نام پر انتشار پیدا کرتا ہے ،کبھی وہ نسل کی بنیاد پر ٹرمپ کو صدر بناکر نسلی تقسیم کردیتا ہے ،کبھی وہ قوم کی بنیاد پر جنگیں کرادیتا ہے ،کبھی وہ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک ہونے کی بنیاد پر تباہی پھیلا دیتا ہے ،کبھی وہ سنی ،شیعہ کی جنگ برپا کردیتا ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانیت ،محبت اور آزادی کی بات بھی کرتا رہتا ہے ۔میرے زہن میں ہمیشہ یہ سوال رہا ہے کہ انسان ایسا کیوں ہے؟قوم ،مذہب ،زات پات اور رنگ و نسل جیسی توہمات کا شکار ہو کر انسان انسانیت کو کیوں تباہ کرتا ہے؟مذاہب ،قوم ،نسل،فرقہ واریت کی تقسیم حقائق ،کی بنیاد پر ،انسانیت کی بنیاد پر درست نہیں ،لیکن یہ تقسیم ہمیشہ انسان میں رہی ہے؟یہ وہ سوال ہے جو ہمیشہ مجھے تنگ کرتا رہتا ہے ۔میں مزاق کرو ،ہنسو ،مسکراؤں،مسخرہ بازی کروں ،کسی سے محبت کرو یا نفرت ہمیشہ کسی نہ کسی طرح میرے زہن کے کسی نہ کسی کونے میں رہتا ہے۔جہاں تک مجھے اس مسئلے کی سمجھ آئی ہے وہ یہ کہ انسان کیونکہ اندر سے تقسیم در تقسیم ہے ،اس کے اندر کی دنیا ایک نہیں ،اسی وجہ سے باہر کی دنیا میں بھی تقسیم کا عمل جاری ہے ۔اندر کی دنیا کی جس طرح ہم انسان پروجیکشن کرتے ہیں ،اس کی وجہ سے ہماری باہر کی دنیا میں تباہی و بربادی ہے ۔انسان بزات خود اندر سے ایک نہیں ،اس لئے وہ باہر کی دنیا میں بھی ایک نہیں ہوسکتا ،اس لئے ایک انسانیت ہمیشہ ناممکن رہی ہے ،لیکن انسان ایسی انسانیت جو پوری دنیا میں ایک جیسی ہو اس کے خواب ضرور دیکھتا جارہا ہے۔انسان اگر اندر کی دنیا کی تقسیم ختم کرنے میں ناکام رہا تو کبھی بھی وہ ایک انسانیت کو پایہ تکمیل پاتا نہیں دیکھ سکے گا ۔وجہ باہر کی دنیا نہیں ،اندر کی دنیا حقیقی مسئلہ ہے ۔اندر کی دنیا کی تقسیم کا خاتمہ اصل ایشو ہے ۔انسان کی اندر کی دنیا کا اجتماعی لاشعور اب بھی حیوانوں جیسا ہے ،اب بھی اس میں حیوانیت اور درندگی کا پہلوؤ غالب ہے ۔وہ اندر کی دنیا میں جانوروں کی کمیونٹی جیسے رویوں سے بھرپور ہے ۔انسان کے لاشعور میں حیوانی یاداشتیں اپنا اثر باہر کی دنیا میں سامنے لاتی ہیں ۔انسان گہری نیند میں ہوتو اس کا لاشعور اس کے دماغ میں غالب ہوتا ہے ۔لاشعوری کیفیت میں انسان بھی جانوروں کی طرح زبان کا استعمال نہیں کرتا بلکہ وہ چیختا چلاتا ہے ۔بلکل ایسے ہی جیسے جانور لاشعوری کیفیت کا اظہار کررہے ہیں ۔اندر کی دنیا میں انسان جانور ہوگا ،درندہ ہوگا ،خوفناک ہوگا ،تو کیسے وہ باہر کی دنیا میں ایک انسانیت کے خواب کو پورا کرسکتا ہے ۔لاشعور کی دنیا میں انسان انسان کی طرح پاؤں پر کھڑا تک نہیں ہوسکتا ،بلکہ وہ جانوروں کی طرح حرکت کرتا ہے ۔جدید نفسیات دانوں کی تحقیق کے مطابق انسان کی اجتماعی لاشعوری کی کیفیت یہ بتاتی ہے کہ انسان جانوروں کی باقیات ہی ہے ۔اس لئے انسان میں کتے ،لومڑی اور شیر والا رویہ ہوتا ہے ۔جدید نفسیات دان کی تحقیق کے مطابق انسان میں غصہ ،نفرت ،حسد ،ملکیت والا رویہ ،چالاکی کی جبلتیں حیوانی جبلتیں ہیں ۔یہ تمام جبلتیں جانوروں کی وجہ سے انسان میں منتقل ہوئی ہیں ۔اور یہی جبلتیں انسان پیدائش سے موت تک اٹھائے پھرتا ہے ،لیکن امید کی بات یہ ہے کہ ہمیشہ وہ ایک انسانیت کی بات ہمیشہ موت تک کرتا رہتا ہے ،یہ خواب ہمیشہ انسانی شعور میں رہا ہے کہ انسانیت ایک ہو ،تمام انسانوں کو برابری کی سطح پر عزت و احترام اورمواقع میسر ہوں۔انسانیت میں محبت اور آزادی ہو ۔یہ خواب انسان کے شعور میں کہیں نہ کہیں موجود ہے ۔انسان کے اندر جانوروں والا ماضی ہے ،جس دن اس ماضی سے انسان نے پیچھا چھڑالیا ،اسی دن سے ایک انسانیت والا خواب تکمیل کی طرف بڑھنا شروع ہوجائے گا ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ انسان انسانیت کی بات تو کرتا ہے لیکن اس کے پیچھے منافقت ہے ۔رسمی طور پر وہ صرف یہی کہتا ہے کہ انسانیت سب سے ارفع ہے ۔انسان انسانی اصولوں اور رویوں کی بات کرتا ہے ،آزادی ،ہمدردی اور محبت کی بات کرتا ہے ،لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب بھی انسان کے اندر کی دنیا میں کہیں نہ کہیں کوئی خطرناک درندہ یا خطرناک جانور چھپا بیٹھا ہے ۔انسان کے لاشعور میں آوارہ گردی کرتا حیوان جب بھی کسی لمحے باہر کی دنیا میں آتا ہے ،کوئی نہ کوئی حادثہ ہوجاتا ہے ۔جنگ عظیم ہوجاتی ہے ،مذہب کے نام پر دہشت گردی ہوجاتی ہے ،رنگ و نسل کی بنیاد پر ٹرمپ امریکہ کا صدر بن جاتا ہے ۔یہی تقسیم کے زہر سے لبریز شعور یا لاشعور ہمیشہ یہ سوالات پیدا کرتا ہے کہ کیسے انسانیت میں ہم آہنگی اور امن برپا کیا جائے ؟کیسے ناممکن کو ممکن کیا جائے؟ایسا معاشرہ ،ایسی انسانیت جہاں جنگ نہ ہو ،قتل و غارت نہ ہو ،طبقاتی تقسیم نہ ہو ،رنگ و نسل کی بنیاد پر نفرت نہ ہو ،مذہب اور خدا یا قوم کے نام پر کڑوروں انسان قتل نہ ہوں ۔صرف اس وقت ممکن ہے جب اندر کے حیوان کو جو صدیوں سے انسان کے اندر بیٹھا ہے اس کو غائب نہ کردیا جائے یا اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹا نہ دیا جائے ۔یہ یو ٹوپین فلاسفی کہ دنیا محبت کا گھر بن جائے ،دنیا جنت یا بہشت کا نظارہ پیش کرنے لگے ،سب انسان ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں ،یہ ابھی تک ناممکن آئیڈیا لگتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی انسانوں کی اندر باہر کی دنیا میں بہت انتشار ،بہت تقسیم ہے ۔کوئی راستہ نہیں جس سے ایک انسانیت کا خواب مکمل ہو سکے ۔دنیا میں مثالی ہم آہنگی پیدا کرنا ابھی تک ناممکن عمل ہے ۔میں اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ عرصہ پہلے ایک کتاب لکھی گئی تھی جس کا نام تھا یوٹوپیا ۔تھامس مور نے یہ کتاب لکی تھی ۔اس کتاب کو ایک دفعہ ضرور پڑھ لیں ۔اس کتاب میں مثالی انسانیت کے خواب نظر آئیں گے ۔کتاب میں حقیقی مسائل بیان نہیں کئے گئے ،لیکن عظیم ترین انسانیت کا خواب اس کتاب میں واضح جھلکتا نظر آتا ہے ۔یہاں اس دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر قوم ،ہر نسل ،ہر مذہب دنیا کو فتح کرنا چاہتی ہے ۔ایسے میں ہم آہنگی ،پیار ،محبت ،آزادی کیسے ممکن ہے؟ہر کلچر کی یہی خواہش ہے کہ وہ دنیا میں چھا جائے ،اور تمام دوسرے کلچر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہو جائیں ،پھر کیسے ایک انسانیت برپا ہو سکتی ہے؟انسانیت ایک خیالی یا تصوراتی بات ہے ۔ایسا تصور جو کبھی ممکن ہی نہ ہو ۔لیکن کم از کم یہ تصور تو ہے کہ انسان سوچ رہا ہے کہ ایک انسانیت ہو ۔یہ انسان کی اندر کی دنیا کی ایک خواہش ضرور ہے ۔یہ تصوراتی خیال ممکن ہے کبھی برپا ہوجائے ۔ایک ایسی انسانیت ،ایک ایسے معاشرے کا وجود ممکن ہے جہاں ہر انسان کی نشوونما ہو ،اس کو برابر مواقع ملیں ۔جہاں رنگ و نسل ،زات پات اور مذہب و قوم جیسی توہمات ختم ہو جائیں ۔دنیا میں ایک انسانیت پیدا ہو سکتی ہے ۔یہ تب ممکن ہے جب تمام افراد یہ فیصلہ کرلیں کے وہ اپنے اندر کے دنیا کی تقسیم اور انتشار کو ختم کردیں گے۔جب دنیا کے تمام افراد یہ فیصلہ کرلیں گے کہ وہ اپنے اندر کے شعور میں ایک ہیں اور ان میں کسی قسم کی تقسیم نہیں ۔مذہب،رنگ ونسل ،قوم ان کے لئے غیر اہم ہو جائے اور انسانیت اہم ہو جائے ۔اس دنیا میں اہم معاشرہ نہیں ہوتا ،اس کا اسٹکچر بھی اہم نہیں ،اہم صرف افراد ہیں ،اور ان تما م افراد کے شعور کا ایک ہونا اہم ہے ۔انقلاب یا بغاوت بھی اہم نہیں ،کتنے انقلاب اور بغاوتیں ہوئیں ،انسانیت میں کوئی بہتری نہیں آئی ،کمیونزم آیا ،ایک آئیڈیل معاشرے کی بات کی گئی ،جو بہترین بات تھی ،کیا ہوا ،اندر کی تقسیم موجود تھی ،کمیونزم ناکام ہو گیا ۔کبھی جمہوریت آجاتی ہے ،کبھی فاشسسٹ آجاتے ہیں ،کبھی آمر آجاتے ہیں ۔لیکن کچھ نہیں ہوتا ۔یہ مشکل نہیں ہے اگر دنیا کے تمام افراد مذہب ،قوم ،نسل ،زات و پات کو منہ لگانا چھوڑ دیں ۔اہم یہ ہے کہ اندر کی صورتحال کو بدلا جائے اور تقسیم کا خاتمہ کیا جائے ۔اس کے لئے صرف انڈراسٹینڈنگ اور شعور و بصیرت کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔اندر کی دنیا کی تقسیم کا خاتمہ ہوتے ہی اندر باہر خوبصورتی نمودار ہو جائے گی ۔ہمدری ،محبت اور پیار کی برسات ہونا شروع ہو جائے گی ۔اس دنیا کے تمام افراد کو زندگی میں کم ازکم ایک بار یہ کوشش کرنی چاہیئے وہ ہندو بنکر نہ سوچے ،وہ عیسائی بنکر نہ سوچے ،وہ مسلمان بنکر نہ سوچے ،وہ یہودی بنکر نہ سوچے ،وہ سفید یا سیاہ فام بکر نہ سوچے ،وہ کسی قوم یا نسل کا فرد بنکر نہ سوچے ،بلکہ وہ انسان بنکر سوچے ۔جس دن مذاہب ،اقوام ،نسل ،رنگ ،زات پات وغیرہ انسان کی زندگی میں غیر متعلقہ ہوجائے گے وہ دن ہوگا جب انسانیت کا ظہور ہوجائے گا ۔امن ہی امن ہوگا ،محبت ہی محبت ہو گی ،آزادی ہی آزادی ہوگی ،تخلیق ہی تخلیق ہوگی ۔مذہبی ،ملحد ،سیکولر ،لبرل ،رائیٹ یا لفٹ کا ہو کر مت سوچیں ،انسان بنکر سوچیں ،پھر امید ہے یوٹوپیا والی کتاب کی باتیں سچ ہو جائیں ۔انسان کے اندر اور باہر کی بدصورتیاں ختم ہو سکتیں ہیں ،جمالیاتی حسن بیدار ہو سکتا ہے ،اندر باہر خوبصورتیاں ،دلفریبیاں اور رقص کا ظہور ہوسکتا ہے ،صرف ایک مرتبہ شعور اور بصیرت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں ۔جب انسان کے اندر کی تقسیم کا خاتمہ ہوگا تو وہ شفاف انداز میں حقائق کو دیکھ سکتا ہے ۔صرف شفافیت کی ضرورت ہے ۔اپنے اندر کی دنیا کے ہر کونے کھدرے میں جھانکیں ،حساسیت کے ساتھ ،محبت کے ساتھ اندر کی دنیا کو دیکھیں ،صرف علم کے ساتھ نہیں ،حساسیت کے ساتھ ۔مثالی انسانیت کی لاکھوں سال قدیمی انسانی خواہش اور آرزو ممکن ہے ۔دنیا کے تمام افراد اپنے اندر اور باہر کی دنیا پر توجہ دیں ۔جس دنیا افراد محلات ،بادشاہت اور نظریات سے بڑے ہو جائیں گے اور معاشرہ ان کے مقابلے میں بونا لگے گا ،پھر دنیا بہشت بن جائیں گی ۔ہر طرف انسان کو خوبصورتی ناچتی گاتی نظر آئے گی ۔میری زندگی میں ہمیشہ یہ آرزو رہے گی کہ انسانیت ایک ہو جائے ،انسان مذاہب،رنگ ونسل ،قوم اور زات پات کو اپنی اندر کی دنیا سے غائب کردیں۔ایک ایسی انسانیت وجود میں آئے جہاں سب انسان برابر ہوں ،جہاں ہر طرف محبت ہو ،جہاں کوئی امیر و غریب نہ ہو ،بلکہ ہر طرف خوشحال اور تخلیقی انسانیت ہو ۔جہاں رقص ،موسیقی شاعری کا راج ہو ۔جہاں جشن ہوں،خوشیاں ہوں ۔ایسی انسانیت میرا خواب ہے ۔ایسی انسانیت میری آرزو ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔