آج – ٦؍ اگست ١٩٩٣
ترقی پسند نظریات سے متاثر، مترجم، معلم اور بہترین شاعر” اجملؔ اجملی صاحب “ کا یومِ وفات…
اجملؔ اجملی، یکم؍ مارچ ١٩٣٢ء کو الٰہ آباد کے ایک معروف علمی، ادبی اور متصوفانہ روایات کے امین گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد دائرہ شاہ اجملؔ کے سجادہ نشین تھے۔ اجملی کی پروش خانقاہی ماحول میں ہوئی۔ ١٩٥٥ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے بی اے اور ١٩٥٧ء میں ایم اے کیا۔ ١٩٦٤ء میں ’اردو کے افسانوی ادب میں عوامی زندگی کی عکاسی‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈی فل کی ڈگری کی حاصل کی۔ اسلامیہ کالج سرینگر میں اردو کے استاد رہے۔ 1964 میں دہلی آگئے اور سویت انفارمیشن سروس میں رسالہ ’سویت دیس‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہوگئے۔ ١٩٩٠ء تک اسی رسالے سے وابستہ رہے۔
اجملؔ اجملی نے ١٩٩٠ء میں اپنی شاعری کا انتجاب ’سفرِ زاد‘ کے نام سے شائع کیا۔ شاعری کے علاوہ انہوں ’اردو سے ہندوؤں کا تعلق‘ اور ’شاعر آتشِ نوا : بنگالی شاعر قاضٔی نذر الاسلام کی شاعری اور سوانح‘ کے نام سے دوکتابیں بھی لکھیں اور متعدد تراجم بھی کئے۔ اجملؔ اجملی شاعری اور زندگی دونوں سطح پر ترقی پسند نظریات سے بہت متاثر تھے وہ ایک لمبے عرصے تک تحریک کے فعال رکن رہے۔ ٦؍ اگست ١٩٩٣ء کو دہلی میں انتقال کر گئے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر اجملؔ اجملی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
ہر شعر آبگینہ ہے موجِ خیال کا
لو کام احتیاط سے جب شاعری کرو
—–
دو پل کے ہیں یہ سب مہ و اختر نہ بھولنا
سورج غروب ہونے کا منظر نہ بھولنا
—–
تری نظر بھی نہیں حرفِ مدعا بھی نہیں
خدا گواہ مرے پاس کچھ رہا بھی نہیں
—–
تارِ نظر بھی غم کی تمازت سے خشک ہے
وہ پیاس ہے ملے تو سمندر سمیٹ لوں
—–
قاتل کی عنایت کا مزہ اور ہے ورنہ
جاں لینے کو یہ سانس کی تلوار بہت ہے
—–
جب بھی ملتا ہوں وہی چہرہ لیے
بد دعا دیتا ہے آئینا مجھے
—–
آرزو تھی کھینچتے ہم بھی کوئی عکسِ حیات
کیا کریں اب کے لہو آنکھوں سے ٹپکا ہی نہیں
—–
ہزار منزلِ غم سے گزر چکے لیکن
ابھی جنونِ محبت کی ابتدا بھی نہیں
—–
کتنی طویل کیوں نہ ہو باطل کی زندگی
ہر رات کا ہے صبحِ مقدر نہ بھولنا
—–
اجملؔ نہ آپ سا بھی کوئی سخت جاں ملا
دیکھیں ہیں ہم نے یوں تو ستمِ آشنا بہت
اجملؔ اجملی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ