اجلاس ِ حلقہ ارباب ذوق ٹی ہاوس
کل کے قصے کی خبر یہ ہے کہ حلقہ اربابِ ذوق والوں نے مجھے اشارہ دیا کہ آپ کی صدارت ہے ،اجلاس میں ضرور آنا۔ حلقے کے دو حصے ہیں ، ۔ یہ آٖفر تاثیر نقوی ، فیصل زمان چشتی اور علی نواز صاحبان کی طرف سے ہوئی ۔ ورنہ تو جو طفیلیا قسم کا حلقہ ہے وہ صدارت تو ایک طرف مجھے ریوڑی دینے کو بھی تیار نہیں ، خیرجس کی طرف سے بھی ہو، صدارت صدارت ہوتی ہے ۔ اِدھر پھر بھی نیت میں فتور بہت آیا کہ میاں ناطق اتنی دُور پاوں مارتے جاو گے اور کیا پاو گے؟ مگر عین اُسی لمحے آغآ سلمان باقر کا فون آیا ، فون کیا تھا ،حکم کا تازیانہ تھا ، ایک ہی جنبش میں ہم مہمیز ہو گئے ۔ کمر ِ صدارت باندھی اور اجلاس کی اُور نکل لیے ۔ آپ تو جانتے ہیں ، لاہور پچھلے تین دن سے بارشوں کے حوالے ہے اور سمجھیے راوی نے ن لیگ کے پیرس کو بہا کر لے گیا ہے ۔ درمیان میں ہزاروں لاکھوں گٹر جات اور کھڈے موت کے اڈے ہیں ، شاہ جمال سے جیسے ہی اندرونی سڑک لی ،گویا کنویں میں اُتر گئے۔ پانی کا سیلاب بیسیوں کو بہائے لیے جاتا تھا اور گٹروں کے حوالے کیے جاتا تھا ۔ اور صورت یہ تھی کہ اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے ۔ مَیں خود بھی کمر تک تو ڈوب ہی چکا تھا کہ عین اُسی لمحے ایک خیال کوندا ، سامنے والی لمبی کوٹھی کے دروازے میں گھُس گیا اور صحن میں چلتا ہوا کوئی سو قدم چل کر دوسرے دروازے سے نکل گیا ۔ کوٹھی والے حیران ہوتے رہ گئے ،یہ کون مہمان کود پڑا۔ بات اُن کی سمجھ میں آنے سے پہلے ہم دوسری طرف کا دروازہ عبور کر چکے تھے ۔ اُس کے بعد سانجھ پر آئے ، اپنی نئی کتابوں کے ٹائٹل دیکھے ، کپڑے اُتارے ، سکھائے ، اور امجد سلیم صاحب سے تِکے اور کباب کھائے ۔ سات بجے پاک ٹی ہاوس پہنچ گئے ۔ مہمان خصوصی آغا جی وہیں موجود تھے ۔ تاثیر نقوی صاحب بھی تھے ، علی نواز اور زمان بھی حاضر باش تھے ۔ کچھ ڈیٹ پر آئے ہوئے لونڈے لونڈیاں بھی تھے ، اصل میں وہی ٹی ہاوس کی رونق تھے ۔ اجلاس شروع ہوا ، ٹی ہاوس کی مصیبت یہ ہے کہ اے سی بند ہو تو کسی اور طرف سے ہوا نہیں آ سکتی ، اور یہ ظالم اے سی بند رکھتے ہیں ، خاص کر اجلاس کے وقت ، جب ڈیٹیے آئے ہوں تو چلا دیتے ہیں ۔ آپ سمجھیے اجلاس دوزخ میں ہوتا ہے ۔ دوزخ میں صدارت کی کُرسی ہم نے سنبھالی اور آغا جی نے مہمان کی کُرسی ، ایک صاحب کاشف سلیم نامی شاعر نے دو نظمیں پڑھیں ، ویسی ہی تھیں جیسی ہوتی ہیں ، کچھ نے واہ وا کی ، کچھ نے آہ آہ کی ، ایک صاحب جاوید قاسم خنجر لے کر شاعر کو مارنے کو دوڑے ، کہ یہ کیا لکھ لایا ، بڑی مشکل سے بچ بچاو کرایا ۔
اختتام پر ہم نے شاعر کو ایک دو مشورے دیے ، جن پر اول تو دھیان نہیں دے گا ، اگر دے گا تو اُس کے بس سے باہر ہیں ، چنانچہ ساری عمر ویسی ہی نظمیں لکھتا رہے گا جیسے پنڈی میں علی محمد فرشی ، رفیق سندھیلوی ، آفتاب اقبال شمیم اور لاہور میں ایک ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ۔ اُس کے بعد ایک علی اصغر چوہدری صاحب ہیں کوئی ، اُنھوں نے اپنا مضمون لاہور لاہور تھا ، پڑھا ، بہت طویل تھا ، بہت ہی طویل تھا اور بور طویل سے بھی زیادہ تھا ، اگر مَیں صدر نہ ہوتا ، باہر نکل کر موسم کا مزا لیتا ، مگر اُسے سننا مجبوری تھا ، سُنا ، اردو اُس صاحب کی خراب تھی ، البتہ ن لیگ کو کافی سے زیادہ گالیاں دیں ، ہم خوش بھی ہوئے ۔ سب نے مضمون پر گفتگو کی ، فرحت عباس شاہ صاحب اگرچہ دیر میں آئے تھے اور مضمون نہیں سُنا تھا ،مگر گفتگو اُنھوں نے بھی کی ۔ اِس مضمون پر ہم نے اُسے کوئی مشورہ نہیں دیا ، کہ یہ نا قابلِ درست تھا ۔ بعد ازاں آغا سلمان باقر صاحب نے اپنی انوکھی قسم کی نظمیں سنائیں ، یہ نظمیں جدید انسانی نفسیات میں عورت اور مرد کے مابین ذہنی بُعد کو پیش کرتی تھیں ، مجھے تو بہت لطف آیا ، اجلاس کی کاروائی ختم ہونے سے پہلے ایک نظم ہم نے بھی سُنائی ، سب نے کہا اچھی ہے ، ہم خود کہتے ہیں اچھی تھی ۔ اِس دو نمبر حلقہ میں کل کے اجلاس میں غافر شہزاد نہیں آئے کیونکہ صدارت میری تھی ، فرحت عباس شاہ کہتے ہیں ، کہ وہ اِس لیے آئے ہیں کہ صدارت میری تھی ، اور مَیں خود اس لیے آیا تھا کہ صدارت میری تھی ۔ فرحت عباس شاہ صاحب مجھے کہنے لگے مرشد مَیں آپ کا مرید ہوں ، مَیں نے کہا نہیں نہیں حضور مَیں آپ کا مرید ہوں ،مگر اندر سے ہم دونوں ایک دوسرے کے پیر بننے کے چکروں میں ہیں ۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے ۔ سیکرٹری حلقہ نے کہا ناطق صاحب ،اِس بار جتنا آپ کی صدارت میں اجلاس کا مزاآیا، پہلے کبھی نہیں آیا ، ہم نے کہا میاں ہمیں مستقل صدر رکھ لو ، بلکہ پاکستان ہی کا صدر رکھ لو تو برابر مزے میں رہو گے ، مگر یہ بات اُن کو کون سمجھائے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔