اجل پرستوں کی کہانی
(مختصر افسانہ)
ایک انہونی ہوئی اور دور و نزدیک ہر جگہ، لوگ دانتوں میں انگلیاں دابے حیرت کی مورتیاں بن گئے۔ یہ ایک قتل کا واقعہ تھا۔ قاتل اسلحہ بردار تھا۔ مقتول نہتا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ دونوں میں کوئی گہرا تعلق ہے کیونکہ وہ پرامن تھے اور دو قدم کے فاصلے سے آگے پیچھے چل رہے تھے۔ مقتول اپنے سامنے دیکھتا ہوا اطمینان سے آگے بڑھ رہا تھا جبکہ قاتل کی نگاہیں مقتول پر تھیں۔ پھر اچانک ہی قاتل نے بندوق کی نالی کا رخ مقتول کی طرف کیا اور چند ثانیوں میں زندگی کو موت بنا دیا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ جب دیکھنے والے جائے واردات پر پہنچے تو وہاں ایک نہیں دو لاشیں تھیں۔ ایک کو تو دوسرے نے مار دیا تھا، لیکن دوسرے کو کس نے مارا تھا؟ اور کیسے مارا تھا؟؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ قاتل کی موت پراسرار تھی اور قاتل کے قاتل کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا۔ ۔۔۔۔ آخرِ کار ماہر سراغ رسانوں کو طلب کیا گیا۔ جائے وقوعہ پرکچھ قدموں کے نشان تھے۔ جن کا پیچھا کرتے ہوئے سراغ رسانوں کی کئی ٹیمیں مختلف سمتوں میں پھیل گئیں، اور تعاقب کرتی رہیں۔ لیکن قاتلوں کو نہ پکڑ سکیں۔
راوی لکھتا ہے کہ قدموں کے نشان وقت کی حد پار کرکے کتابوں اور پرانے اخباروں میں جا گم ہوئے۔ قدموں کے ان نشانات نے جن لوگوں کی نشاندہی کی وہ مشہور عالم، شاعر، ادیب، قانون دان، مذہبی رہنما اور ظالم حکمران تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے ایک انسان کی زندگی لینے کا اختیار دوسرے انسان کو دے دیا تھا۔ انھوں نے انسان کے ہاتھوں انسان کے مارے جانے کی مدح سرائی کی تھی اور ایسے اعمال کو جائز قرار دینے کے لیے نئے قوانین بنائے تھے اور انصاف کو یک چشم کر دیا تھا۔ سراغ رساں جن مجرموں تک پہنچے تھے انھیں کوئی بھی مجرم ماننے کو تیار نہیں تھا اور نہ ہی بعد از مرگ انصاف کرنے اور سزا سنانے کا کوئی قانون اس ملک میں موجود تھا۔ ۔۔۔۔
راوی یہ بھی لکھتا ہے کہ اس زمین کے لوگ کتابیں پڑھنا چھوڑ چکے تھے۔ یہ اس لیے ہوا کہ ان کے بزرگوں نے ایک ہی کتاب کو ان کے لیے رہنمائی کا مکمل سرچشمہ قرار دیا تھا۔ وہ لوگ اب اس کتاب کو پڑھنے کی بجائے زبانی یاد کر چکے تھے۔ وہ اپنے اپنے حق میں کتاب کے حوالوں کی گردان کرتے رہتے۔ رفتہ رفتہ انھیں بولنے کی اتنی عادت ہو گئی کہ وہ ایک دوسرے کو سننا اور سمجھنا بھی بھول گئے۔
تو پھر یوں ہوا کہ اس ملک میں جہاں لوگ سننا اور سن کر ایک دوسرے کو سمجھنا بھول چکے تھے، وہاں مرنے مارنے کے ایسے واقعات روز کا معمول بن گئے۔ لوگ استغفار کہتے ہوئے سجدوں میں گر جاتے اور ایسی اموات کو حکِم الہی سمجھ کر قبول کرلیتے۔ ان کے گھر رفتہ رفتہ ویران ہوتے گئے اور قبرستان آباد۔ دراصل وہ موت کی پرستش کرنے لگے تھے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“