کوئی جا کر سوات کے مولانا صوفی محمد کی خدمت میں عرض کرے کہ حضرت ! آپ نے فرمایا ہے کہ جمہوریت کفر ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جمہوریت واقعی کفر ہے تو آپ پاکستان کے غم میں دُبلے نہ ہوں۔ اس کفر کا پاکستان میں دور دور تک وجود نہیں ہے اور نہ مستقبل قریب میں کوئی خطرہ ہے!
پاکستان میں جمہوریت…! کیسی جمہوریت…! اگر یہ سچ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ ہتھیلی پر بال اُگتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ بلی بچے نہیں انڈے دیتی ہے …!
کسی پڑھے لکھے سنجیدہ پاکستانی کو پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ سے کوئی امید ہے نہ قلبی تعلق۔ نون لیگ کو وہ لوگ بھی ووٹ دینے کیلئے پہلی بار نکلے جنہیں عدلیہ کے قتل کا دکھ تھا اور جو نوازشریف کے غیر مشروط اعلانِ جدوجہد سے متاثر تھے۔ نوازشریف نے عدلیہ کیلئے موقف اختیار کیا۔ اُس پر ثابت قدم رہے لیکن افسوس ! ان میں اتنی انقلابی فکر نہیں ہے کہ پارٹی کے اندر انتخابات کرانے والے پہلے پاکستانی سیاستدان بنیں!
کسی پڑھے لکھے سنجیدہ پاکستانی کو پیپلزپارٹی سے یا مسلم لیگ سے کیا اُمید ہو سکتی ہے اور کیا تعلق ہو سکتا ہے ! ایک ہوش مند باضمیر پاکستانی ہمیشہ یہ کہے گا کہ میں ایک خاندان کے اقتدار کیلئے اس پارٹی کو کیوں اپنا ووٹ … اپنا ا یمان … اپنا دل دوں؟ خاندانوں کا اقتدار ! چودھری ظہورالٰہی' شجاعت حسین' مونس الٰہی' سردار قیوم سردار عتیق اور سردار عتیق کا صاحبزادہ' ذوالفقار علی بھٹو' ان کی بیٹی ان کا داماد اُن کا نواسا' اُن کا پڑنواسا' نوازشریف' شہبازشریف' کپتان صفدر' شریف خاندان کے نئی نسل کے نوجوان … آخر کیوں … ایک ہوش مند باضمیر پاکستانی ہمیشہ یہ کہے گا کہ کیوں ؟ کیا میں خاندانوں کا غلام ہوں؟ کیا میں نے ہندو سے علیحدگی اس لئے حاصل کی تھی کہ ان سیاستدانوں کے بیٹوں' پوتوں' نواسوں' نواسیوں کو استحکام بخشوں؟
کوئی مولانا صوفی محمد صاحب سے کہے کہ حضرت ! خاطر جمع رکھئے۔ جمہوریت کے کفر سے یہ ملک مکمل طور پر محفوظ ہے۔ یہ کفر تو اُن کافروں کے نصیب میں ہے جو عوام کی اجازت کے بغیر ایک پائی نہیں خرچ کر سکتے' جو نوکر نہیں رکھ سکتے' جو ٹریفک نہیں رکوا سکتے' جو اپنے بیٹوں' پوتوں' بیٹیوں نواسیوں کو اسمبلیوں میں لانے کا سوچ بھی نہیں سکتے ! کہاں جمہوریت کا کفر اور کہاں پاکستان !
مسلم لیگ 62 سال میں اور پیپلزپارٹی 40 سال میں آزمائی جا چکی۔ یہ طے ہے کہ جس طرح سورج مغرب سے طلوع نہیں ہو سکتا بالکل اسی طرح یہ پارٹیاں اپنے اندر جمہوریت نہیں لا سکتیں۔ صدر زرداری اور بلاول زرداری بھٹو لاکھ انتخابات جیتیں' نوازشریف حریف کے مقابلے میں 95 فیصد ووٹ لے لیں' سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی کے انتخابات میں وہ جمہوری طریقے سے اوپر آئے یا نہیں۔ کیا مارگریٹ تھیچر' ٹونی بلیئر اور اوباما اپنی اپنی پارٹیوں کے خاندانی وارث ہیں؟ کیا فرانس کے صدر سرکوزی اور جرمنی کی خاتون چانسلر پارٹیوں کے انتخابات کے بغیر اوپر کی سطح پر آئے۔ جس طرح دودھ پر بالائی اوپر آتی ہے …؟
مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی آزمائی جا چکیں' امید کی پرورش کرنے والے بوڑھے اور خواب دیکھنے والے نوجوان عمران خان کی طرف دیکھتے ہیں۔ کیا حسرتوں کا قافلہ عمران خان کی قیادت میں اُس موڑ تک پہنچ سکے گا جہاں امید کا دریچہ کھلا ہے اور دریچے میں چراغ جل رہا ہے؟ کیا عمران خان ہی وہ پہلا سیاستدان ہوگا جو اپنی پارٹی کے اندر سو فیصد جمہوریت لائے گا اور ملک کی سیاست میں انقلاب برپا ہو جائے گا؟ کیا عمران خان اُن ''جمہوری'' رہنمائوں کو دیوار کے ساتھ لگا دے گا جو اپنی اپنی پارٹیوں میں حافظ الاسد' بشارالاسد اور حسنی مبارک بنے ہوئے ہیں؟ تازہ ترین خبر ملاحظہ کیجئے:
''عمران خان کو تیرہ سال کے عرصہ میں دو بار چیئرمین چننے کے بعد تحریک انصاف نے فیصلہ کیا ہے کہ پارٹی کے عہدہ داروں کے ہر تین سال بعد انتخابات کئے جائیں۔ تحریک انصاف کا دستور چیئرمین کی مدت کا تعین نہیں کرتا۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح تحریک انصاف بھی ایک ایسی جماعت ہے جو ایک شخصیت کے اِردگرد گھومتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ عمران خان کے اردگرد گھومتی ہے۔''
نہیں ! ابھی نہیں ! ابھی صبح بہت دور ہے' ابھی وہ ستارہ طلوع ہی نہیں ہوا جو پَو پھٹنے سے پہلے ہر حال میں دکھائی دیتا ہے۔ امید کی پرورش کرنے والے بوڑھوں اور خواب دیکھنے والے نوجوانوں کو بتا دو کہ حسرتوں کے قافلے اُس دریچے سے بہت دور ہیں جس کے طاق میں چراغ جل رہا ہے۔
عمران خان اسی طرح تحریک انصاف کا مالک ہے جس طرح بھٹو خاندان پیپلزپارٹی کا' شریف خاندان نون لیگ کا اور چودھری خاندان قاف لیگ کا مالک ہے۔ جس طرح اسفندیارولی اے این پی کی جاگیر کا وارث ہے اور جس طرح الطاف حسین پارٹی انتخابات سے بلند اور مبرا ہیں ! بوڑھے اور نوجوان انتظار کریں۔ ابھی کسی تھیچر ' کسی سرکوزی' کسی اوباما کی کوئی امید نہیں۔ ہاں ! انتظار کیلئے دروازہ تھوڑا سا کھول دیں اور بستر پر نہ لیٹیں اور آدھے کھلے ہوئے دروازے اور بستر کے درمیان والی جگہ پر کھڑے ہو کر انتظار کریں۔ شدت کا انتظار…؎
شام ہی سے دیکھتا ہوں اَدھ کھلے در کی طرف
آنکھ بھر کر دیکھ بھی لیتا ہوں بستر کی طرف
ایک ایسی قوم جو جمہوریت سے اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں میل دور ہے اور جسے یہ فکر ہے نہ علم کہ مدرسوں سے فارغ التحصیل ہونے والے ہزاروں نوجوان مسجدوں کی امامت کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتے اور جسے یہ معلوم ہی نہیں کہ مدارس میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں ''جدید ترین'' نصابی کتب تین سو سال پرانی ہیں اور جسے اس المیے کا ادراک نہیں کہ گراں ترین انگریزی سکولوں سے فارغ ہونے والے طلبا دینی احساس اور پاکستانیت دونوں سے عاری ہیں اور جسے یہ نہیں معلوم کہ عام سرکاری سکولوں' کالجوں میں ''تعلیم'' پانے والے ہزاروں لاکھوں طلبہ کا اس ملک کی تعمیر میں کوئی حقیقی حصہ نہ ہوگا اور جس قوم کو یہ نہیں پتہ کہ ریٹائرڈ جرنیلوں اور افسر شاہی کے ارکان سے دولت کا حساب کس طرح لیا جائے اور جس قوم کی گردن پر کوئی شخص بھی پیر تسمہ پا بن کر سوار ہو سکتا ہے اُس قوم کو یہ احساس ہی کیوں کر ہو سکتا ہے کہ وہ جمہوریت سے کوسوں دور ہے! کاش! یہ قوم ایک سروے ہی کرا لیتی کہ وہ کون سے سیاسی اور مذہبی رہنما ہیں جن سے خلقِ خدا شدید ''محبت'' کرتی ہے؟ ان سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کیلئے … جن سے خلقِ خدا ٹوٹ کر ''محبت'' کرتی ہے ۔ ن۔م راشد نے کیا خوبصورت فیصلہ کیا تھا…؎
اجل ان سے مل
کہ یہ سادہ دل
×××××××××××××
نہ اہلِ صلوٰۃ اور نہ اہلِ شراب
نہ اہلِ ادب اور نہ اہلِ حساب
نہ اہلِ کتاب
نہ اہلِ خلا اور نہ اہلِ زمین
فقط بے یقین
اجل ان سے مت کر حجاب
اجل ان سے مل
بڑھو تم بھی آگے بڑھو ۔ اجل سے ملو
بڑھو … نو تونگر گدائو
نہ کشکولِ دریوزہ گردی چھپائو
تمہیں زندگی سے کوئی ربط باقی نہیں
اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنسائو
بڑھو بندگانِ زمانہ! بڑھو بندگانِ درم
اجل یہ سب انسان منفی ہیں' منفی زیادہ ہیں انسان کم
!ہو ۔ ان پر نگاہِ کرم
http://columns.izharulhaq.net/2009_04_01_archive.html
“